چینی کمپنی کا داسو ڈیم پر دوبارہ کام شروع کرنے کا فیصلہ

چینی کمپنی نے داسو ڈیم پر دوبارہ کام شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

چینی کمپنی کے مطابق واپڈا نے داسو ڈیم پروجیکٹ پر سکیورٹی کو کافی حد تک بہتر بنایا ہے اور 25 اکتوبر سے مرحلہ وار دوبارہ کام شروع ہوگا۔

تمام چینی انجینیئرز اور غیرملکی داسو ڈیم سائٹ پر پہنچ گئے ہیں اور کمپنی نے داسو ڈیم پر کام کرنے والے تمام پاکستانی ورکرز کو تیار رہنے کی ہدایت کی ہے۔

چینی کمپنی کے مطابق تمام اسٹاف کو ٹیلی فون کے ذریعے مطلع کیا جائے گا۔

چینی کمپنی نے ملازمین کو کورونا ٹیسٹ رپورٹ اور ویکسینیشن کا ریکارڈ ساتھ لانے کی ہدایت کی ہے۔

خیال رہے کہ ورکرز کی بس پر خود کش حملے کے بعد سائٹ پر کام روک دیا گیا تھا۔

فائنل سے پہلے بڑا ٹاکرا: پاکستان کیخلاف بھارت کی بیٹنگ جاری

آئی سی سی مینز ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے سپر 12 مرحلے میں پاکستان نے بھارت کے خلاف ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ کیا ہے۔

دبئی میں کھیلے جارہے پاک بھارت ٹاکرے میں پاکستان کے کپتان بابر اعظم نے ٹاس جیت کر بھارت کو بیٹنگ کی دعوت دے دی۔

بھارت کی 36 رنز پر 3 وکٹیں کرچکی ہیں۔ محمد رضوان نے سوریا کمار کا کیچ پکڑ کر ٹی ٹوئنٹی میں کیچز کی سنچری مکمل کرلی ہے۔

ٹاس کے موقع پر پاکستان کے کپتان بابر اعظم نے کہا کہ میچ میں ڈیو فیکٹر اثر انداز ہوگا اس لیے پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا ہے۔

 پلیئنگ الیون میں بابر اعظم، محمد رضوان، فخر زمان، شعیب ملک، محمد حفیظ، عماد وسیم، حسن علی، شاداب خان، شاہین شاہ آفریدی، آصف علی اور حارث رؤف شامل ہیں۔

’پاکستانی ٹیم کبھی بھی کہیں بھی سرپرائز دے سکتی ہے‘، شعیب اختر

پاکستان کے سابق فاسٹ بولر شعیب اختر نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں آج ہونے والے پاک بھارت مقابلے کے لیے قومی ٹیم کی سپورٹ میں اہم ویڈیو  پیغام جاری کیا ہے۔

ٹوئٹر پر جاری ویڈیو میں شعیب اختر کا کہنا تھا کہ پاکستان کو آپ کبھی کم نہیں سمجھ سکتے کیوں کہ ویرات کوہلی نے بھی اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان کے لیے آپ کو ایک منصوبہ بندی کے ساتھ کھیلنا ہو گا اور  ان کو ہرانے کے لیے آپ کو بیسٹ گیم کھیلنی پڑے گی کیونکہ پاکستان کا کوئی پتہ نہیں چلتا کہ وہ کس وقت اپ سیٹ کر دے۔

شعیب اختر نے اپنی ویڈیو میں ٹیم میں شرجیل خان کو شامل نہ کرنے سے متعلق بھی بات کی اور کہا کہ شرجیل ٹیم میں آجاتے تو اور بھی بہترین ہوتا تاہم ٹیم میں چار تبدیلیاں ہوئیں جس کے بعد پاکستانی ٹیم مقابلے کے لیے ایک بہترین ٹیم بن گئی ہے۔

راولپنڈی ایکسپریس نے اپنے پیغام  میں پاکستانیوں کو بھی پیغام دیا کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے، آپ نے ان شاءاللّٰہ پاکستانی ٹیم کا ساتھ نہیں چھوڑنا۔

ویڈیو میں شعیب اختر نے پاکستانی ٹیم کوبھی پیغام دیا اور کہا کہ  پاکستان جیتے یا ہارے ہم پاکستانی ٹیم کے ساتھ ہیں۔

ترک صدر رجب طیب اردوان کا امریکا سمیت 10 ممالک کے سفیروں کو ناپسندیدہ قرار دینےکا حکم

ترک صدر  رجب طیب اردوان نے امریکا اور کینیڈا سمیت 10 ممالک کے سفیروں کو ناپسندیدہ قرار  دینےکا حکم دے دیا۔

غیر ملکی خبر  رساں ادارے کے مطابق ناپسندیدہ  قرار دیے جانے والے ملکوں کے سفیروں میں  امریکا،کینیڈا، فرانس، ڈنمارک، فن لینڈ، ہالینڈ، نیوزی لینڈ، ناروے اور سویڈن شامل ہیں ۔

 ان سفیروں نے غداری اور بغاوت کے مقدمات کاسامنا کرنے والے عثمان کوالا کی حمایت میں بیان دیا تھا جس کے  پیش  نظر  ترک صدر کا مذکورہ بیان سامنے آیا ہے۔

ترک صدر طیب اردوان کا کہنا تھا کہ جن سفیروں کو ترکی کی سمجھ نہیں آ رہی تو  انھیں ملک چھوڑ  دینا چاہیے۔

حکومت اور کالعدم تنظیم کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے: شیخ رشید

وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ حکومت اور کالعدم تنظیم کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں۔

شیخ رشید کا کہنا ہے کہ تمام بند راستے کھول دیے جائیں گے اور کالعدم تنظیم کے شرکاء منگل تک مریدکے میں بیٹھیں گے۔

وزیر داخلہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ مظاہرین کے مطالبات کا جائزہ لے کر منگل تک پرامن طریقے سےمعاملہ حل کر لیا جائے گا۔

وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری کا کہنا ہے کہ پولیس اورمظاہرین کےدرمیان کسی قسم کا کوئی ٹکراؤ نہیں ہو گا، معاملات کو باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ حل کیا جائے گا۔

دوسری جانب حکومت کے ساتھ مذاکرات کے بعد لاہور سے اسلام آباد کی طرف بڑھنے والے کالعدم تنظیم کے شرکاء نے مریدکے میں پڑاؤ ڈال دیے۔

گوجرانوالہ کے داخلی اور خارجی راستے تاحال بند ہیں اور جی ٹی روڈ پر کھڑی کی گئی رکاوٹیں بھی موجود ہیں۔

گوجرانوالہ اور گجرات کے درمیان دریائے چناب پل کے قریب کھودی گئی خندق بھی تاحال بھری نہ جا سکی۔

راولپنڈی اور اسلام آباد میں سکیورٹی کے سخت انتظامات برقرار اور گزشتہ روز بند کی گئی سڑکیں ابھی تک بند ہیں۔

ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ: پاک بھارت ٹاکرا آج ہو گا میچ پاکستانی وقت کے مطابق شام 7 بجے دیکھا جا سکے گا

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ  میں پاکستانی شاہین بھارتی سورماؤں کو زیر کرنے کا عزم لیے آج میدان میں اتریں گے۔

دنیائے کرکٹ کی دو بڑی ٹیمیں پاکستان اور بھارت دبئی میں آمنے سامنے ہوں گی جہاں کھلاڑیوں کے جوش کے ساتھ تماشائیوں کا جنون بھی ہے۔

دبئی کرکٹ اسٹیڈیم دنیا بھر کے شائقین کرکٹ کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ ایک سیر تو دوسرا سوا سیر ہے، کون کس پر بازی لے جائے، رائے دینے والے اور  پیش گوئی کرنے والے سب ہی ہیں محتاط ہیں۔

پاکستانی وقت کے مطابق شام 7 بجے میچ شروع ہوگا۔

پنڈورا نے انیل امبانی، نراؤ مودی کا پول کھول دیا، دونوں نریندر مودی سے جڑے ہیں آئی سی آئی جے 700سے زائد پاکستانیوں سمیت دنیا کے ہزاروں افراد کی حتمی معلومات مرتب کرنے میں مصروف

ویسے تو پینڈورا پیپرز میں 700 کی تعداد میں پاکستانیوں کا ذکر ہے لیکن
ICIJ ابھی تک ان 700 پاکستانیوں کے بارے میں تفصیلات مرتب کرنے میں مصروف ہے کیونکہ ایک کروڑ 20 لاکھ دستاویزات کو ایسی شکل میں لانا جس نے دنیا کو آسانی سے یہ بات سمجھ آ سکے کہ کس ملک کی کتنی آف شور کمپنیاں ہیں، کتنے لوگ ہیں، کس کس Service Provider کی کون کون سی کمپنی Clent ہے۔ کس کس Junsiction میں کون کون سی کمپنی رجسٹرڈ ہے۔ کون کون سے لوگ کس کس وقت میں ان آف شور کمپنیوں سے منسلک رہے۔ کون کون Inlermedaines رول میں رہا۔ کس سال کون سی آف شور کمپنی کس Insdiction میں رجسٹرڈ ہوئی۔ ان ایک کروڑ 20لاکھ دستاویزات میں PDF فائلیں ہیں، کچھ PDF فائلیں دس دس ہزار صفحات پر مشتمل ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں CVS فائلیں ہیں۔

قرض ……ایک میٹھا زہر

عبدالباسط خان
قرضوں میں جکڑی قوم پر پٹرولیم مصنوعات میں تاریخی اضافہ اور بے قابو مہنگائی کا رونا عوام تو کر رہے ہیں مگر جنہوں نے اس ملک کو قرضوں کی دلدل میں دھکیلا اور قوم کو اس حال میں پہنچایا وہ میڈیا میں آ کر عوام کے وکیل بن رہے ہیں یہ درست ہے کہ عمران خان کی نیت ٹھیک ہے مگر ان کے طرز حکمرانی پر ہر کوئی اپنے تجزیے کے مطابق سوال اٹھا سکتا ہے۔ ہماری ماضی کے حکمران جن میں نواز شریف سرفہرست ہیں نے ایک ایسے ملک میں بے بہا قرضے لئے جن کے زر مبادلہ کے ذخائر انتہائی سطح پر گرے ہوئے تھے۔ کیا ان قرضوں نے پاکستان کی معیشت کو مضبوط کیا یا برباد کیا اس کا ادراک پاکستان کا عام شہری نہیں کر سکتا وہ کیسے اس کی سمجھ بوجھ رکھ سکتا ہے کیونکہ اس کے پاس نہ تو تعلیمی اور نہ ہی معاشی عقل و دانش ہے وہ تو صرف اس بات پر خوش ہے کہ لاہور، اسلام آباد موٹرویز بن گئی یہ تو شائد صنعتی تجارتی معاشی انقلاب ہے۔ اگر لوگوں کے سفر میں ایک دو گھنٹے کا فاصلہ کم ہو گیا تو کون سا تیر مار لیا گیا۔ اس موٹر ویز نے مالی طور پر اس ملک کو استحکام بخشا کیا ہم نے یہ قرضے ادا کئے۔ اس موٹر ویز نے سفر تو کم کر دیا مگر ملکی، ترقی اور قوم کی خوشحالی کے سفر کو بہت لمبا کر دیا۔ ہمارے عوام کو ایکسپریس وے، موٹر ویز بناکر وہ بھی قرضے لے کر آج جس حال میں انہوں نے پہنچایا وہ شائد کوئی دشمن بھی ہمارے خلاف نہ کرتا۔ سیدھی سی بات ہے اگر میں قرضہ لے کر ایک بہت مہنگی گاڑی خرید لیتا ہوں اور بعد ازاں اس قرضے کو ادا نہ کروں تو پھر ایک دن وہ گاڑی بھی ضبط ہو گی اور قرضہ ادا نہ کرنے کی پاداش میں مجھے جیل بھی جانا پڑے گا۔ اگر میں اپنے رہنے کیلئے ایک عالیشان گھر بنا لوں اور بعد ازاں وہ قرضہ اتارنے کیلئے میرے پاس پیسے نہ ہوں تو میرا گھر بھی ضبط ہو گا اور مجھے جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑے گا۔
یہ سب تمہید میں اس لئے باندھ رہا ہوں کہ ہمارے حکمرانوں نے سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے ایسے منصوبے بنائے جس نے ہماری معیشت کو آئی سی یو میں پہنچا دیا۔ یہ منصوبے یقیناً سود مند ہوتے اگر اس موٹر ویز پر تجارتی سرگرمیاں زوروں پر ہوتیں یا پھر اس موٹر ویز سے منسلک علاقوں میں انڈسٹریل اور کمرشل زونز تعمیر ہوتے لوگوں کو روزگار ملتا اور معیشت کا پہیہ بھی چلتا لیکن یہ موٹر ویز اس قوم کیلئے عیاشی ثابت ہوئی۔ مگر اس قوم نے اپنے دشمنوں کو نہیں پہچانا جنہوں نے یہ قرضے تواتر سے لئے۔
90ء کی دہائی میں اس ملک میں ان حکمرانوں نے معاشی تباہی کی ایسی سرنگیں بچھائیں جس کا نتیجہ آج ہم مہنگائی کی شکل میں بھگت رہے ہیں آج ہر ایک ہی بات کہتا ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنے تین سال کے عرصے میں سب سے زیادہ قرض لیا حالانکہ یہ بات معاشی تجزیہ کار بخوبی سمجھ سکتے ہیں مگر عام شہری کو میٹھے زہر کی گولی قرضوں کی شکل میں نوازشریف اور زرداری کے ادوار میں دی گئی۔ اس دہائی میں 17.4 بلین ڈالر کا قرضہ ہمارے ان حکمرانوں نے عوام کو تحفہ دیا جبکہ مشرف کی حکومت نے اس مدت میں بھی اکتوبر 1999ء سے 2007ء تک صرف ساڑھے تین بلین ڈالر کا قرضہ لیا گیا اس دھائی کو قرضوں کی دہائی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے لیکن یاد رہے اس دہائی میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومت تھی پھر 2008ء سے 2018ء تک دونوں جماعتوں نے اپنے ادوار میں 55 ارب ڈالرز کا تاریخی قرضہ لیا لہذا اگر 90 ء کی دہائی کا قرضہ جو دونوں جماعتوں نے مل کر لیا اس کو 55 ارب ڈالر میں شامل کر لیا جائے تو آج اگر ملک پر 120 ارب ڈالرز کا قرضہ ہے تو نصف سے بھی بہت زیادہ ان دنوں جماعتوں نے لیا اور اس قرضے سے نہ تو ملکی آمدنی میں اضافہ ہوا اور نہ ہی عوام کی بنیادی صحت و تعلیم اور حالت میں کوئی قابل ذکر اضافہ دیکھنے کو ملا اب اگر اورنج ٹرین اور میٹرو بس جو ہم نے قرضے سے بنائی ہے تو سوچئے کتنا بڑا ظلم کیا گیا اس غریب عوام پر۔ اپنے اسی موقف کی تائید میں یہ بات بتاتا چلوں کہ ہندوستان جو معاشی طور پر ہمارے سے بہت بہتر حالت میں ہے آج دہلی اور بمبئی کے درمیان موٹر ویز بنا رہا ہے جو 2023ء میں مکمل ہو گی مگر یاد رہے کہ ان کے ہندوستان کے زرمبادلہ کے ذخائر600 ارب ڈالرز سے زائد ہیں لیکن ہم نے قرضے لے کر یہ تمام موٹر ویز بنائیں۔ اورنج ٹرین کا ملبہ بھی اس غریب قوم نے اٹھایا۔ یہ کون سی معاشی ترقی تھی جس کا کریڈٹ لیتے مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی تھکتی نہیں ہیں۔ سی پیک کا ذکر بھی دونوں جماعتیں بڑے فخر سے کرتی ہیں کہ سی پیک ان کے دور میں شروع ہوا۔
میں پوچھنا چاہوں گا کہ قرضے لینا اور ان قرضوں کی ادائیگی کے لئے مزید قرضے لینا کہاں کی دانشمندی ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ بڑے خضوع و خشوح کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ سیاسی مصلحتوں کے تحت بہت مہنگی بجلی خریدنا اور ایسی بجلی جس کے فعال ہونے کا دارومدار تیل پر ہو اور تیل جب آسمان سے باتیں کرے گا تو پھر یقیناً بجلی کے ریٹ بڑھانے پڑیں گے۔ IPP کا استعمال ہو یا نہ ہو اس کا کرایہ آپ کو ادا کرنا پڑے گا۔ اب اگر یہ ماضی کی حکومتیں قرضے لینے اور ان کو غیر ترقیاتی مد میں خرچ کرنے کی بجائے ڈیمز بنانے پر توجہ دیتیں تو یقینا آج ہم بجلی کی قیمت یہ ادا نہ کررہے ہوتے۔ حکومتی کارکردگی کا انحصار ٹیکس کی آمدنی میں اضافہ سے نہیں بلکہ سرمایہ کاری خاص طورپر بیرونی ممالک کے سرمایہ کاروں کو پاکستان لانا برآمدات کو بڑھانا، ٹورازم سیکٹر کو فروغ دے کر ڈالر کو پاکستان لانا، سروسز سیکٹر کو فروغ دیتا ہے۔ یہ سب حکومت کی کارکردگی کو ظاہر کرتی ہے مگر ہمارے ہاں قرضے لیکر عوام کو ریلیف دینے کا رواج پڑ چکاہے اور یہ افیون کی گولی یا میٹھا زہر ہمارے ماضی کے حکمرانوں کا دیا ہوا تحفہ ہے جس کاخمیازہ موجودہ حکومت کے ساتھ ساتھ غریب عوام کو بھگتنا پڑ رہاہے۔ اگر ماضی میں یہ سیاسی جماعتیں عوام کے ساتھ یہ کھلواڑ کر چکی ہیں تو خدارا سچائی اور جذبہ حب الوطنی کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت کا ساتھ دیں کیونکہ اگر وہ اسی حکومت کو گرائیں گے تو پھر کون سی جادو کی چھڑی ہے جس سے گرانی ختم ہو گی۔
(کالم نگارمختلف موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

خبریں بہاولپور کااجرا۔ جرأتمندانہ فیصلہ

سیدہ عائشہ غفار
امتنان شاہد صاحب نے اپنے والد محترم جناب ضیا شاہد صاحب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پرنٹ میڈیا کے ڈگمگاتے ہوئے قدموں کو سہارا دے کر بہاولپور سے خبریں اخبار کی اشاعت کا ایک خوبصورت کارنامہ سرانجام دیا۔ہمارے بڑے ہمیں اپنے جانے سے پہلے ہمیں بڑا کر جاتے ہیں اور کامیاب لوگ وہی ہوتے ہیں جو اپنے اوپر پڑی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھائیں جس کے لیے امتنان شاہد صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں ہم سب کی دعا ہے خبریں اخبار پاکستان کے ہر کونے سے شائع ہو اور خوب ترقی اور منزلت پائے‘ آمین۔
جب میں نے خبریں اخبار جوائن کیا تو اس وقت عدنان شاہد صاحب اپنے والد محترم ضیا شاہد صاحب کے ساتھ صحافتی امور میں ان کے شانہ بشانہ تھے اور جناب امتنان شاہد صاحب اس وقت جی سی یونیورسٹی لاہور میں زیر تعلیم تھے اور ضیا شاہد صاحب امتنان شاہد صاحب سے بہت پیار کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ میرا بیٹا بہت ذہین ہے اور اس کے اندر میں قائدانہ صلاحیتیں دیکھتا ہوں یہ اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھاتا ہے
ضیا شاہد صاحب کے اندر ایک بہت اچھی خوبی یہ تھی کہ وہ مستقبل کے معماروں کی بہت قدر کرتے تھے انہوں نے پرانے سے زیادہ نئے لوگوں کو بہت پرموٹ کیا مجھے کہا کرتے تھے لکھتی رہا کرو اپنا قلم سے رشتہ کبھی بھی نہ توڑنا جب میں چینل فائیو کے لیے پروگرام پرانے گیت پرانی غزلیں کی میزبانی کر رہی تھی تو عموماً میرا بیٹا عبد الرافع بھی میرے ساتھ جاتا اور کہتا کہ آپ نے مجھے ضیا شاہد صاحب سے ضرور ملوانا ہے اور ضیا شاہد صاحب اس سے ہاتھ ملاتے اور کہتے نوجوان محنت اور لگن کو اپنا شعار بنا لو کبھی بھی زندگی میں مات نہیں کھا گے اپنا لوہا منواؤ۔جس شعبے میں بھی جاؤ اس کی بلندیوں تک پہنچو۔دیکھو بیٹا میری صحت اجازت نہیں دیتی لیکن پھر بھی میں دس یا بارہ گھنٹے کام کرتا ہوں کتنی کتابیں لکھ دیں مگر گنتی نہیں کرتا لکھتے جاؤ زندگی کے کام کبھی نہیں رکتے پھر مسکرا کر بولے آپ تو شاعر ہیں آپ نے تو سنا ہوگا ”ہم نہیں ہوں گے تو کوئی ہم سا ہوگا“۔
ہم نے وہ وقت بھی دیکھا کہ جب ہم صبح آفس آتے اور پتہ چلتا کہ ضیا شاہد صاحب رات کے آفس میں ہی بیٹھے کام کر رہے ہیں انہوں نے خبریں اخبار کے مستقبل کے لیے ایک مشفق اور محنتی باپ کا رول ادا کیا۔
ضیا شاہد صاحب کے اندر محنت تھی لگن تھی جذبہ تھا اور مایوسی ان کے قریب سے بھی نہیں گزری تھی بہت حوصلہ مند اور دلیر انسان تھے
اس پر مجھے ایک واقعہ یاد آیا کہ میں ایم اے ملک صاحب کا انٹرویو کرنے گئی جو بہت مشہور پامسٹ اور زائچہ نویس تھے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے ضیا شاہد صاحب کے ہاتھ کا پرنٹ بھی چاہیے میں نے آفس آکر ضیا شاہد صاحب سے کہا کہ ایم اے ملک صاحب آپ کی ہاتھ کا پرنٹ مانگ رہے ہیں کہنے لگے رہنے دو میں نے کہا سر اس میں حرج ہی کیا ہے انہوں نے ایک بہت خوبصورت بات کی بی بی انسان ہاتھوں کی لکیریں تو خود بناتا ہے اپنی سوچ اپنے فیصلوں اور اپنے ارادوں کی پختگی سے اور باقی اللہ کا کرم چاہیے۔
لیکن ملک صاحب کے اصرار پر انہوں نے اپنے ہاتھ کا پرنٹ بھیجا ملک صاحب نے اس کا بغور مطالعہ کیا انہوں نے بتایا کہ میں نے اب تک ہزار کے قریب سیاسی سماجی لوگوں کے ہاتھ دیکھے ہیں جن میں محترمہ فاطمہ جناح بھی شامل ہیں لیکن جتنی جرات و بہادری اور نڈر پن ضیا شاہد صاحب کے ہاتھ میں ہے میں نے اب تک کسی ہاتھ میں نہیں دیکھا یہ بہت بہادرہیں محنتی اور قدم قدم پر سیکھنے والے انسان ہیں ادب اور قلم کا عشق ان کے اندر کوٹ کوٹ کے بھرا ہے ان کی محنت ان کی کامیابی کی دلیل ہے یہ مصائب مسائل سے گھبرانے والے نہیں یہ ایک مرد جری کا ہاتھ ہے بس ان کو غصہ بہت جلد آ جاتا ہے جو ان کی صحت کے لیے ٹھیک نہیں اس بات پر عدنان شاہد صاحب نے بھی ان کے کمرے میں No کا بورڈ آویزاں کر رکھا تھا کہ چیف صاحب جب آپ کو غصہ آئے تو سامنے No دیکھ لیا کریں۔
ضیا شاہد صاحب ایک بات کہا کرتے تھے میری ترقی اور کامیابی میں میری ماں کی دعاؤں کا بہت ہاتھ ہے۔ مجھے صبح کی نماز کے بعد میری والدہ پانی دم کر کے دیتی ہیں جو میری روح کو سکون دیتا ہے اور ان کی دعاؤں سے میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
اور دوسرا میری بیگم یاسمین شاہد صاحبہ نے بھی صحافتی امور میں میری بہت مدد کی وہ خود بہت اچھا لکھتی ہیں میں آج جو کچھ بھی ہوں اس میں میری ماں اور بیگم کا بہت ہاتھ ہے
آخر میں جناب امتنان شاہد صاحب میں یہ کہوں گی کہ آپ نے ایک ادبی اور صحافتی گھرانے میں آنکھ کھولی ادب اور صحافت آپ کے خون میں رچابساہے اللہ پاک آپ کو صحت عزت دولت اور کامیابی سے ہم کنار کرے اور آپ کی والدہ باجی یاسمین شاہد جو بہت نیک شریف اور اچھی خاتون ہیں ان کا سایہ آپ سب پر سلامت رکھے ان کو صحت تندرستی عطا فرمائے خبریں اخبار دن دگنی رات چگنی ترقی کرے اور خبریں اخبار اپنا سلوگن ”جہاں ظلم وہاں خبریں“ کی پالیسی کو مد نظر رکھتے ہوئے طاقتور حکمرانوں ظالم وڈیروں کے سامنے حق کی آواز بن کر مظلوموں کا ساتھ دیتا رہے آمین ثم آمین
(کالم نگارقومی وسیاسی امورپر لکھتی ہیں)
٭……٭……٭

بلوچستان پرتوجہ دی جائے

وزیر احمد جوگیزئی
بلوچستان پاکستان کا وہ صوبہ ہے جسے پہلی مرتبہ 1970ء میں الیکشن میں حصہ لینے کا موقع ملا لیکن اس سے چند سال قبل ہی بلوچستان کو صوبے کا درجہ ملا تھا اس سے پہلے بلو چستان صوبہ بھی نہیں ہو ا کرتا تھا۔اور اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو بلوچستان کو بطور صوبہ اتنا تجربہ نہیں ہے،پنجاب،سندھ،انگریز کے دور میں بھی صوبے ہوا کرتے تھے اور ان کے پاس ایک حکومتی نظام موجود تھا انتظامیہ موجود تھی،قانون ساز ادارے پہلے سے ہی وجود رکھتے تھے جبکہ بلوچستان کے پاس ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔برطانوی دور میں قلات،خاران،مکران،لسبیلہ پانچ اضلاع تھے،ان میں ایک قبائلی پٹی بھی تھی اور سیٹلڈایریاز بھی موجو د تھے۔ایڈمنسٹریٹر ان علاقوں کو دیکھتے تھے اور پاکستان بننے کے بعد بھی یہی صورتحا ل رہی لیکن مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے بلوچستان کو صوبہ بنانے کے لیے آواز اٹھا کرتی تھی،اور کافی بھرپور آواز تھی لیکن اس کے بعد کیا ہوا کہ صوبہ بننا تو ایک طرف تھا بلوچستان سمیت پورا پاکستان ون یونٹ بن گیا۔پھر اس کے بعد وہ دور آیا کہ جب ون یونٹ تو ختم ہو گیا اور بلوچستان کو صوبہ کی حیثیت مل گئی بلوچستان کی اپنی قانون سازی اسمبلی وجود میں آئی۔
سردار عطا اللہ مینگل بلوچستان کے پہلے وزیر اعلیٰ بنے لیکن باقی ملک کی طرح بلوچستان کے حالات بھی اتار چڑھاؤ کا شکار رہے۔مارشل لاء لگتے رہے،اسمبلی بنتی اور ٹوٹتی رہیں اور بلوچستان میں بھی جمہوری نظام باقی ملک کی طرح مستحکم نہیں ہو سکا۔لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بات کی کہ باقی صوبے پہلے سے صوبے تھے ان میں ایک حکومتی مشینری اور اسمبلیاں پہلے سے موجود تھیں بلوچستان کو وہ تجربہ حاصل نہیں تھا جو کہ باقی صوبوں کو حاصل تھا۔لیکن میں پھر بھی سمجھتا ہوں کہ بلوچستان کے قانون ساز کسی بھی صورت میں باقی صوبوں سے کم نہیں ہیں اگر زیادہ نہیں ہیں تو برابر تو بالکل ہیں۔لیکن بلوچستان کی سیاست مقامی سطح پر کی جاتی ہے اور اس لحاظ سے بلوچستان کا صوبہ باقی پورے پاکستان سے مختلف ہے۔یہاں پر مرکزیت بہت کم ہے، کم از کم 100یا اس سے بھی زیادہ چھوٹی چھوٹی جماعتیں موجود ہو ں گی اتنی زیادہ تعداد میں مقامی جماعتیں ہیں کہ ان کے نام بھی یا د رکھنا مشکل ہے اور انتخابات میں انھی جماعتوں کے ایک ایک دو دو ارکان منتخب ہو کر اسمبلی میں آتے ہیں اور پھر اس کے بعد کیا ہو تا ہے؟ بد قسمتی سے کہنا پڑتا ہے کہ بلوچستان کے وسائل اور نوکریوں کا بھی بٹوارہ کر لیا جاتا ہے اور سب کچھ تقسیم ہو جاتا ہے۔یہ میرا پختہ یقین ہے کہ بلوچستان کی قسمت اس وقت تک نہیں کھل سکتی ہے اور اس وقت تک بلوچستان حقیقی معنوں میں قومی دھارے میں شامل ہو کر ترقی نہیں کر سکتا ہے جب تک پاکستان کی مرکزی سیاسی جماعتیں بلوچستان میں آکر سیاست نہ کریں اور بلوچستان میں اپنی حکومت قائم نہ کریں۔پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کو بلوچستان میں سیاسی طور پر محنت کرنی چاہیے اور مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پا رٹی بلوچستان میں کام کریں تو اپنی حکومت بنا سکتی ہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف بھی بنا سکتی ہے۔لیکن اس کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اس حوالے سے بہت کام کیا تھا اور 77ء کے انتخابات سے قبل انھوں نے اس حوالے سے کافی اقدامات اٹھائے تھے لیکن پھر 77ء میں مارشل لا ء لگنے کے بعد سب کچھ ضا ئع چلا گیا۔لیکن بہر حال اگر بلوچستان کو باقی ملک کے برابرلانا ہے تو پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کو کام کرنا ہوگا۔بد قسمتی سے ذوالفقار علی بھٹو کے بعد سے کوئی ایسا لیڈر نہیں آیا، جس نے کہ ژوب،قلعہ سیف اللہ اور دیگر علاقوں میں جاکر لوگوں کے ساتھ براہ راست رابطے قائم کیے ہوں،لوگوں کا اعتماد جیتا ہو،اور یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں کے لوگ آج تک شہید ذولفقار علی بھٹو کو یاد کرتے ہیں۔بلوچستان رقبے کے لحاظ سے تو پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے لیکن آبادی اتنی بڑی نہیں ہے اس لیے بلوچستان میں اچھا کام کرنا اتنا مشکل کام نہیں ہے اگر کوئی واقعی نیک نیتی کے ساتھ ایسا کرنا چاہے تو۔بلوچستان میں ترقی کے تمام وسائل موجود ہے جو کہ کسی بھی علاقے یا خطے کی ترقی کے لیے ضروری ہو تے ہیں۔بلوچستان میں اچھی زراعت ہے،معدنیات ہیں سیاحت کی بہت صلاحیت موجود ہے۔ شکار گاہیں بنائی جاسکتی ہیں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ایسا ہے جس سے کہ بلوچستان کو ترقی دی جاسکتی ہے، لیکن اس کے لیے سرمایہ کاری چاہیے۔حکومت کو چاہیے کہ سرمایہ کاری لائے اور بلوچستان پر پیسہ خرچ کیا جائے تو بلوچستان بھی باقی صوبوں کے برابر آسکتا ہے۔
ایسا نہیں کہ بلوچستان ہمیشہ سے ہی ایک محروم صوبہ تھا، برطانوی دور میں بلوچستان میں تعلیم کا نظام بہت اعلیٰ تھا بہت ہی اعلیٰ معیار کی تعلیم دی جاتی تھی لیکن جب بلوچستان صوبہ بنا تو اس کے بعد اپنائی گئی پالیسوں نے صوبے کو بہت پیچھے دھکیل دیا۔ٹیچرز اور پولیس والوں کو نکالنے سے نظام تباہ ہوا اور یہی وجہ ہے کہ آج بلوچستان میں تعلیم کی شرح کم ہے۔بلوچستان پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور مرکز کی جانب سے سخت گیر نظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔اگر اس قسم کے حالات ہوں جیسا کہ بلوچستان کے حالات ہیں تو اس قسم کے حالات کے ملک دشمن اور منفی عناصر بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور پھر آزادی سمیت ہر قسم کی آوازیں اٹھتیں ہیں۔بیو کریسی سے یہ توقع کرنا کہ وہ معاملات کو سنبھال سکتی ہے بالکل غلط ہے،بلوچستان کو سیاسی اونر شپ کی ضرورت ہے۔کراچی اور لاہور سے سرمایہ کاروں کو بلوچستان کا رخ کرنا چاہیے اور اور سرمایہ کاری کرنی چاہیے اس سے بلوچستان کے مسائل کم کرنے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭