باجوڑ: سرچ آپریشن کے دوران بارودی سرنگ کا دھماکا، چار جوان شہید

ضلع باجوڑ کے علاقہ ڈبری میں سرچ آپریشن کے دوران بارودی سرنگ پھٹنے سے پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے چار جوان شہید ہو گئے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق سیکیورٹی فورسز اور پولیس مشترکہ طور رات کے وقت آپریشن کر رہی تھیں، شہدا میں ایف سی کے دو جوان لانس نائیک مدثر، سپاہی جمشید جبکہ پولیس کے کانسٹیبل عبد الصمد اور سپاہی نور رحمان شامل ہیں۔
دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے اپنے ٹویٹ میں دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ علاقے میں موجود دہشت گردوں کے خلاف آپریشن جاری رکھیں گے، وطن کی سلامتی کی خاطر جان قربان کرنے والوں پر پوری قوم کو ناز ہے۔

بھارت میں شدید بارشوں اور سیلاب سے تباہی، 91 افراد ہلا ک اور متعدد لاپتہ ہوگئے

بھارت میں شدید بارشوں کےبعد سیلاب اور لینڈسلائیڈنگ نےتباہی مچادی، مختلف واقعات میں 91 افراد ہلا ک اور متعدد لاپتہ ہوگئے۔
غیر ملکی خبرایجنسی کےمطابق بھارتی ریاست اتراکھنڈ میں سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سےاموات کی تعداد 46 ہوگئی ہے۔رپورٹ کے مطابق گذشتہ روز صبح سیلاب اور لینڈسلائیڈنگ کے مختلف واقعات میں 30افراد ہلاک ہوئے جب کہ اتراکھنڈ میں سیلاب کی وجہ سے 11افراد لاپتہ بھی ہیں۔
اس کے علاوہ ریاست کیرالہ میں سیلاب اور لینڈسلائیڈنگ سےاموات کی تعداد 39 ہوگئی ہے ۔
دوسری جانب نیپال میں بھی 3 روز سےجاری بارشوں کےسبب سیلابی صورت حال پیدا ہوگئی ،لینڈسلائیڈنگ اور مختلف واقعات میں 77 افراد ہلاک جب کہ 26 افراد لاپتہ ہوگئے ہیں۔

افغانستان میں خودکش دھماکے‘ داعش کو بھارتی سرپرستی کا انکشاف

افغانستان میں خودکش دھماکے‘ داعش کو بھارتی سرپرستی کا انکشاف
بھارت نے افغانستان میں امن کی کوششیں ناکام بنانے کیلئے سازشیں شروع کردیں۔ مودی افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری ڈوبتے دیکھ کر بوکھلاگیا۔ ’را‘ کے ذریعے دہشتگردوں کیلئے داعش کو فنڈنگ میں ملوث۔ شاہ محمود قریشی بھی کہ چکے بھارت امن تباہ کرنے میں مصروف ۔ اقوام متحدہ میں بھی بھارتی دہشتگردی کے ثبوت پیش کئے جاچکے ۔ امن پسند تنظیموں کا اقوام متحدہ سے نوٹس کا مطالبہ۔

 

حکومت کا عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کم آمدنی والے افراد کو پٹرولیم مصنوعات اور اشیاءخوردونوش پر سبسڈی دی جائیگی، مہنگائی کم کرنے کیلئے ضلعی سطح پر کمیٹیاں بنائیں جائیں گی: وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس کا اعلامیہ

وزیراعظم عمران خان نے کم آمدنی والوں کیلئے پیٹرول پر سبسڈی دینے کا پلان بنانے کی ہدایت کردی۔

وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت پارٹی رہنماؤں کا اجلاس ہوا جس میں ملک میں معاشی و سیاسی صورتحال پر غور کیا گیا۔

اس موقع پر وزیراعظم نے کم آمدنی والوں کیلئے پیٹرول پر سبسڈی دینےکا پلان بنانے کی ہدایت کی۔

موٹرسائیکل، رکشا اور عوامی سواری کو کم قیمت پرپیٹرول دینےکا پلان اگلے ہفتے پیش ہوگا۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں مہنگائی کم کرنےکیلئے ضلعی سطح پرکمیٹیاں بنانے  اور یوٹیلٹی اسٹورز کے ذریعے کم آمدن والے افراد کو ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔

مہنگائی کے اثرات کا احساس ہے، وزیراعظم

دوسری جانب تحریک انصاف کی کور کمیٹی اجلاس کا اعلامیہ جاری کیا گیا جس کے مطابق وزیر اعظم نے ٹارگٹڈ سبسڈی پروگرام کو جلد حتمی شکل دینے کی ہدایت کی ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سبسڈی پروگرام وفاق اور صوبائی حکومتوں کی مشترکہ مالی معاونت سے شروع ہوگا اور اس سبسڈی پر پنجاب اور خیبر پختونخوا نے پہلے سے دلچسپی کا اظہار کیا ہے جبکہ سندھ اور بلوچستان سے بات چیت کی جارہی ہے۔

وزیراعظم  نے ہدایت کی کہ غریب طبقے کیلئے ٹارگٹڈ سبسڈی کا بڑا پروگرام جلد شروع کیا جائے۔

ان کا کہنا تھاکہ مہنگائی کے اثرات کا احساس ہے، صحت کارڈ، کسان کارڈ اور احساس پروگرام کے دائرہ کار بڑھارہے ہیں۔

بوڑھوں کو خوب پانی پلائیں

روہیل اکبر
موسم تبدیل ہونا شروع ہوگیا اس موسم میں ہمیں جہاں گرم کپڑوں کی ضرورت پیش آتی ہے وہیں پر ہمیں اپنے کھانے اور پینے کا بھی خاص خیال رکھنا چاہیے خاص کر جوانی سے بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھنے والوں کو بہت زیادہ احتیاط کے ساتھ ساتھ اپنی خوارک بہتر کرنی چاہیے۔ بچپن سے جوانی اور جوانی سے ڈھلتی عمر کا سفر انتہائی تیزی سے گذر جاتا ہے بڑھاپے میں اچھی اور خوبصورت زندگی وہی لوگ گذارتے ہیں جو اپنے لیے کچھ نہ کچھ اصول بنا لیتے ہیں اور وہ لوگ خوش وخرم زندگی بسر کرتے ہیں جو پانی کا استعمال زیادہ کرتے ہیں۔ گرمیوں میں پیاس زیادہ محسوس ہوتی ہے اور سردیوں میں کم کچھ لوگ گرمیوں میں بھی کم پانی استعمال کرتے ہیں کہ پسینہ آتا ہے اور سردیوں میں تو پانی کا استعمال بالکل ہی کم کردیتے ہیں انسانی جسم کو ایک دن میں کم از کم 10سے 15گلاس پانی کی ضرورت ہوتی ہے جو نہیں استعمال کرتے وہ مختلف پریشانیوں کا شکار ہو جاتے ہیں خاص کربوڑھوں میں ذہنی الجھن کی وجوہات پانی کی کمی ہی بنتی ہے۔
میڈیسن کے ایک پروفیسر کا کہنا ہے کہ عام طور پر 60 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو پیاس لگنا بند ہوجاتی ہے اور اس کے نتیجے میں وہ مائعات پینا بند کردیتے ہیں اور اگر کوئی ارد گرد موجود فرد انہیں کچھ پانی وغیرہ پینے کی یاد نہ دلائے تو وہ تیزی سے ڈی ہائیڈریٹ ہو نے لگتے ہیں۔ ان کے جسم میں پانی کی کمی شدید ہو جاتی ہے اور اس سے پورے جسم پر اثر پڑتا ہے جو اچانک ذہنی الجھن، بلڈ پریشر میں کمی، دل کی دھڑکن میں اضافہ، انجائنا (سینے میں درد)، کوما اور یہاں تک کہ موت کا سبب بن سکتا ہے پانی بھی پیناہے بھولنے کی یہ عادت 60 سال کی عمر میں شروع ہوتی ہے ہمارے جسم میں پانی کی مقدار 50فی صد سے زیادہ ہونا چاہئے جب کہ60 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کے بدن میں پانی کا ذخیرہ کم ہو جاتا ہے یہ قدرتی طور پر عمر بڑھنے کے عمل کا ایک حصہ ہے لیکن اس میں مزید پیچیدگیاں بھی ہیں یعنی اگرچہ وہ پانی کی کمی سے دوچار ہوتے ہیں پر انہیں پانی پینے کی طلب نہیں ہوتی، کیوں کہ ان کے جسم اندرونی توازن کے طریقہ کار زیادہ بہتر طور پر کام نہیں کررہے ہوتے ہیں جس کانتیجہ یہ نکلتا ہے کہ 60سال سے زیادہ عمر کے لوگ آسانی سے پانی کی کمی کاشکار ہو جاتے ہیں کیونکہ نہ صرف اس وجہ سے کہ ان کے پاس پانی کی فراہمی بہت کم ہے بلکہ وہ جسم میں پانی کی کمی کو محسوس نہیں کرتے ہیں۔ اس کے باوجود اگرچہ 60 سال سے زیادہ عمر کے افراد صحت مند نظر آسکتے ہیں، لیکن رد عمل اور کیمیائی افعال کی کارکردگی ان کے پورے جسم کو نقصان پہنچا سکتی ہے اس لئے اگر آپ کی عمر سال 60سے زیادہ ہے تو آپ مائعات پینے کی عادت ڈالیں۔ مائع میں پانی، جوس، چائے، ناریل کا پانی، دودھ، سوپ، اور پانی سے بھرپور پھل، جیسے تربوز ، آڑو اور انناس شامل ہیں یہ اہم بات یاد رکھیں کہ، ہر دو گھنٹے کے بعد، آپ کو کچھ مائع لازمی پینا چاہئے اپنے بزرگوں کی صحت بحال رکھنے کے لیے ہمیں چاہیے کہ 60 سال سے زائد عمر کے لوگوں کو مستقل طور پر پانی وغیرہ پیش کرتے رہیں اور ساتھ ساتھ ان کی صحت کا مشاہدہ بھی کریں اگر آپ کو یہ محسوس ہو کہ وہ ایک دن سے دوسرے دن تک پانی اور جوس وغیرہ پینے سے انکار کر رہے ہیں اور وہ چڑچڑے ہو رہے ہیں یا ان میں سانس کا مسئلہ بنتا جارہا ہے یا توجہ کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں تو یہ ان کے جسم میں پانی کی کمی کے قریب قریب آنے والے علامات ہیں۔ پانی انسانی جسم کا اہم ترین جزو ہے جو قدرتی طور پر جسم سے زہریلے مادوں کا اخراج بھی کرتا ہے بزرگوں کے ساتھ ساتھ بچوں اور نوجوانوں میں بھی اکثر پانی کی کمی کی شکایت ہوتی ہے ہم اس بات سے بھی ناواقف ہیں کہ ہمیں کتنا پانی استعمال کرنا چاہیے۔
ایک معروف قول ہے کہ ایک دن میں 8گلاس پانی پینا چاہیے لیکن طبی ماہرین کا خیال ہے کہ 8گلاس کا فارمولہ ہر شخص کے لیے موافق نہیں ہے اسی لیے عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ ایک دن میں ایک عام شخص کو 10گلاس پانی پینا چاہیے دن میں اگر 15گلاس بھی پی لیے جائیں تو کوئی نقصان والی بات نہیں ہے اس میں جوس، چائے،لسی،سوپ اور لیکوڈاشیاء بھی پانی کے زمرے میں ہی آتی ہیں۔گرمیوں کے موسم میں اگر آپ ائر کنڈیشنڈ میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں تب بھی کم از کم ڈھائی لیٹر پانی پینا ضروری ہے اگر کوئی فرد مارکیٹنگ کے شعبہ سے وابستہ ہے یا جسمانی مشقت والا کام کرنا پڑتا ہے تو پھر آپ کو تقریباً تین لیٹر پانی ضرور پینا چاہیے۔ موسم کے لحاظ سے پانی پینے میں ردو بدل ہوسکتا ہے مگر اسے چھوڑا نہیں جاسکتاموسم سرما کی آمد آمد ہے شوگر اور بلڈ پریشر کا مسئلہ اگر آپ کے ساتھ نہیں ہے تو پھر صبح اٹھنے کے بعد تھوڑے وقفہ سے 1یا 2گلاس پانی میں لیموں اور شہدملا کراستعمال کر یں کوشش کریں کہ سادہ پانی پیا کریں ٹھنڈا پانی کم سے کم استعمال کریں انسانی جسم میں قوت مدافعت بھی اسی وقت کم ہوتی ہے جب ہم پانی کا استعمال کم کردیتے ہیں اپنے آپ کو صحت مند رکھنے کے لیے پانی کا استعما ل ہر صورت کرتے رہا کریں اور خاص کر بڑی عمر کے افراد کو خود پانی پیش کرنا چاہیے۔ پانی اللہ تعالی کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اسے ضائع ہونے سے بچانا ہے پانی کو آلودہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارے ندی نالے،آبشاریں،نہریں،کھال،دریا اور سمندر بھی بہت خوبصورت ہیں مگر ہم اپنا کچرا ان میں ڈال ڈال کر خراب کررہے ہیں ہمیں قدرت کی طرف سے مفت میں ملنے والے اس خوبصورت اور انمول پانی کی قدر کرنی چاہیے تاکہ ہمارے بعد آنے والے بھی صاف اور شفاف پانی استعمال کرسکیں۔ اسی سلسلہ میں حکومت نے عوام تک صاف اور شفاف پانی پہنچانے کے لیے بہت سی جگہوں پر واٹر فلٹریشن پلانٹ بھی لگائے ہیں اور اکثر انکی ٹونٹیاں غائب ہوتی ہیں یا پانی کھلا چل رہا ہوتا ہے یہ سب ہمارے لیے ہے اور ان چیزوں کی حفاظت بھی ہمارے ذمہ ہے۔
(کالم نگارسیاسی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

خبریں بہاولپور سے

سجادوریا
پاکستان کے پرنٹ میڈیا کی معتبر اور شاندار شناخت’روزنامہ خبریں‘مسلسل عزت و وقار کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے،روزنامہ خبریں نئی منزلوں کا متلاشی ہے اور انکی طرف گامزن بھی ہے،روزنامہ خبریں بہاولپور بھی کامیابی سے اشاعت کے سفر میں قدم رکھ چکا ہے،یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ”خبریں“ قیادت میں پہل کرنا جانتا ہے۔جناب ضیا شاہدصاحب کی روح بھی یہ جان کر بھر پور مسرت سے سر شار ہو گئی ہو گی کہ ان کے بنائے ہوئے ادارے نے ترقی کے سفر کو نئے چیف ایڈیٹر کی قیادت میں کا میابی سے نہ صرف رواں دواں رکھا ہوا ہے بلکہ نئے اسٹیشنز بھی بن رہے ہیں۔چیف ایڈیٹر جناب امتنان شاہد بہت متحرک،محنتی اور ذمہ دار نگہبان کے جیسے ”خبریں“ کی نگہبانی کر رہے ہیں۔میرے چیف جناب امتنان شاہد نے بھی کمال ذہانت،ذمہ داری اور لیڈرشپ کا مظاہرہ کیا،ایک ماہر اور تجربہ کار کپتان کی طرح اپنی ٹیم کو پورے جذبے کے ساتھ متحرک کیا ہے،نئی راہوں اور نئی منزلوں کو ڈھونڈنے نکل پڑے ہیں۔پرنٹ میڈیا جیسے کہا جا رہا ہے کہ زوال کا شکار ہو رہا ہے،کئی بڑے اخبارات کئی اسٹیشنز سے اپنی اشاعت بند کر رہے ہیں،کئی ادارے اپنے کارکنان کو ملازمتوں سے فارغ کر رہے ہیں،اس دور میں ”خبریں“ کی بہاولپور سے اشاعت کامیابی اور اعتماد کا جھنڈا گاڑنے کے مترادف ہے۔میں اس کامیابی پر جناب امتنان شاہد صاحب اور’خبریں‘ فیملی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔اپنے کالم نگار دوستوں،کارکنان صحافیوں اور خبریں ٹیم کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ ان کی کاوش اور محنت بھی”خبریں“ کے ہمقدم ہے۔
روزنامہ خبریں اپنی کامیابی کے سفر کی تین دہائیاں مکمل کرنے کو ہے،مجھے یاد پڑتا ہے کہ1992ء میں جب روزنامہ خبریں کی اشاعت کا آغاز ہوا تھا،تب اخباری صنعت میں ایک طرح کا انقلابی نعرہ بھی متعارف ہوا تھا،جناب ضیا شاہد نے معاشرے کی نبض پر گویا ہاتھ رکھ دیا تھا، دیکھتے دیکھتے خبریں نے معاشر ے کے نباض کی حیثیت اختیار کر لی تھی۔”جہاں ظلم وہاں خبریں“ کا نعرہ اس قدر گونجا کہ عوام کے کان پوری طرح متوجہ ہو گئے،خبریں کو ایک نجات دہندہ کے طور پر دیکھا جانے لگا۔عملی طور پر یہ دیکھا بھی گیا کہ عوام اپنے مسائل لے کر ”خبریں“ کے علاقائی دفاتر پہنچ جایا کرتے تھے۔جناب ضیا شاہد کی ساری زندگی عملی صحافت میں گزری،عوام کے مسائل جانتے تھے،سب سے بڑھ کر انہیں خبروں کو پرکھنے اور شہ سُرخی لگانے میں ”کمال“ حاصل تھا۔میں نے کئی بار لکھا ہے کہ ”خبریں“ عام طرز کی بھیڑ چال،ریٹنگ اور جھوٹی خبروں کی دوڑ سے باہر،بے نیاز اپنی دُھن میں مگن اپنے سفر کو جاری رکھے ہوئے ہے۔روزنامہ خبریں کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے صرف سیاست کو موضوع نہیں بنایا بلکہ سماجی،معاشرتی اور معاشی موضوعات کو بھی بھر پور کوریج دی۔پاکستانیت کی بات ہو،خبریں ہراول دستے کا کردار ادا کرتا ہے۔پاکستان کے دفاعی،عسکری اور فوجی طاقت کے عروج و استحکام کی بات ہو تو بھی خبریں پیچھے نہیں رہتا۔یہ وہ نظریاتی موضوعات ہیں جن پر”خبریں“گہری نظر رکھتا ہے۔زمینی اور نظریاتی سرحدوں کے تحفظ میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔
اب آتے ہیں اس سوال پر کہ عوام میں ”خبریں“ اس قدر مقبول کیوں ہے؟میں سمجھتا ہوں کہ ”خبریں“ نے سوچ سمجھ کر عوامی مزاج اپنایا ہے۔علاقائی،لسانی اور قومی مسائل کا بھر پور ادراک کرتے ہوئے ان کے حل کے لئے آواز اُٹھائی ہے۔پاکستان کی سا لمیت کے حوالے سے اندرونی مسائل پر بھی آواز اُٹھائی ہے۔
کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا معاملہ ہو،ستلج،بیاس کے پانی کا مسئلہ ہو،اندرونی دہشت گردی کا معاملہ ہو،پاکستان کے غداروں کی بات ہو،خبریں نے کسی مصلحت اور خوف کا سہارا نہیں لیا، ببانگِ دُہل اپنا کردار نبھانا شروع کر دیا ہے۔پاکستان کے اند ر علاقائی مسائل کو بھی اُجاگر کیا،نئے صوبوں کی ضرورت کو محسوس کرتے ہو ئے خبریں نے بھر پور آواز اٹھائی۔جنوبی پنجاب میں نئے صوبے کے مطالبے اور ضرورت کو سب سے پہلے خبریں نے آواز دی،سرائیکی خطے میں نئے صوبے کے لئے آواز خبریں نے اس وقت اٹھائی جب کسی بھی نئے صوبے کے لئے بات کرنے کو غداری سے منسوب کر دیا جاتا تھا۔سرائیکستان صوبے کے قیام میں اگر کسی نے سُستی دکھائی ہے تو وہ جنوبی پنجاب کی سیاسی قیادت نے دکھائی ہے۔مجھے لگتا ہے اگر نئے صوبے کے قیام کا اعلان ہو بھی گیا تو سرائیکی علاقے کی سیاسی قیادت،صوبے کے نام اور صدر مقام کے حوالے سے اختلافات کا شکار ہو جائے گی،کوئی صوبہ بہاولپور بنانا چاہتا ہے،کوئی ملتان کو جنوبی پنجاب کا صدر مقام دیکھنا چاہتا ہے۔انشاء اللہ اس مسئلے کے حل میں خبریں رہنمائی کرے گا۔کیونکہ خبریں آپ کے ساتھ ساتھ ہے۔
کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے خبریں نے بھر پور مہم چلائی،کالاباغ ڈیم کی ضرورت کے حوالے سیمینارز،آبی ماہرین کے انٹرویوز،واپڈا انجینئرز کے مطالعاتی سروے،غرضیکہ جس قدر بھی ضرورت اور کوشش ممکن ہوئی ’خبریں‘ نے سستی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ واپڈا کے سابق چیئرمین جناب شمس الملک ایک محترم پختون بزرگ ہیں، چند سال قبل اسلام آباد کے ایک نجی ہوٹل میں منعقدہ سیمینار میں ان سے ملاقات ہوئی،انتہائی محترم،شفیق اور سادہ طبیعت شخصیت کے سحر نے گویا گرویدہ کر لیا۔میں نے ان سے سوالات کیے کہ کالاباغ ڈیم کیوں ضروری ہے؟ اسکی تعمیر کے حوالے سے نوشہرہ اور گردونواح کے علاقوں کو کیا نقصانات ہو سکتے ہیں؟کیا ہم کالاباغ ڈیم کا کوئی متبادل بنا سکتے ہیں؟انتہائی شفیق بزرگ،ایک دم ٹھہرے،مجھے دیکھا اور فرمایا،بس سیاست ہو رہی ہے،کالاباغ ڈیم جیسا اہم قومی منصوبہ سیاست کی نظر ہو گیا ہے۔پھر انہوں نے کچھ اعدادوشمار بیان کیے،جس کے مطابق کالا باغ ڈیم ایک قدرتی ڈھلوان پر واقع ہے،جس کو بہت کم لاگت میں تعمیر کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے یہ بھی بیان فرمایا کہ صوبہ کے پی کے بہت زیادہ مستفید ہو سکتا ہے،کتنا علاقہ ڈیرہ اسماعیل خان تک سیراب ہو سکے گا۔سستی بجلی بھی دستیاب ہو گی۔
روزنامہ خبریں نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے ایسی جاندار مہم چلائی،کہ اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔اسی طرح سماجی موضوعات کو بھی اہمیت دی،طاقت ور کے خلاف کمزور کا ساتھ دیا،جبری شادیوں اور بے جوڑ شادیوں کے حوالے اصلاحی اور آگاہی مہم شروع کی۔خاندانی نظام کی اہمیت و حرمت کو اُجاگر کیا۔میڈیا میں آواز اُٹھانے کے ساتھ ساتھ قانونی امدادبھی فراہم کی،شکایات سیل بھی قائم کیا۔
ان تمام کارناموں کو اپنے سر لئے روزنامہ خبریں اب بہاولپور بھی پہنچ چکا ہے۔جنوبی پنجاب کا مقبول ترین اخبار ہونے کا اعزاز پہلے ہی نام کر چکا ہے، بہاولپور سے اشاعت اس بات کا ثبوت ہے۔جنوبی پنجاب کے دوسرے اسٹیشن اور پاکستان بھر میں ۹واں اسٹیشن بہاولپور سے اشاعت پر ایک بار پھر جناب امتنان شاہد صاحب کو مبارکبادپیش کرتا ہوں، دعا گو ہوں کہ اللہ پر ادارے کو دن دُگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔روزنامہ خبریں سے منسلک ہو نا ایک اعزاز کی بات ہے،کہ یہ ایک عوامی اخبار ہے اور عوام پر انحصار کرتا ہے۔عوام کا اعتماد ہی ہمارا سرمایہ ہے،ہم روزنامہ خبریں کی ترقی و خوشحالی کے سفر کے تسلسل کے لئے دعا گو ہیں۔اہل ِ بہاولپور کو مبارک ہو کہ خبریں انکی آواز بن کے آن کھڑا ہوا ہے۔بہاولپور کو مبارکباد اور ہمارا سلام،انشاء اللہ رابطہ رہے گا۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

ہم شر مندہ ہیں

سیدتابش الوری
قوم کی شان، محسن پاکستان، دو نشان امتیاز اور ایک ہلال امتیاز کے اعزاز یافتہ منفرد انسان، نہ جانے کس شاہ باز کے حکم پر سرکاری اعزاز کے ساتھ مدفون ہو گئے ہیں۔ساری دنیا اپنے محسنوں، مو جدوں اور سائنسدانوں کو اپنے سر کا تاج اور تعظیم و توقیر کا نشان امتیاز بناتی ہے لیکن ہم نے اپنے سب سے عظیم موجد وسائنسدان کو بے خطا اسیر و پا بہ زنجیر رکھاجس پر قوم ہی نہیں پوری قومی تاریخ ہمیشہ شرمندہ رہے گی۔
کون نہیں جانتا کہ سقوط ڈھاکہ کے المناک سانحے کے بعد جب قوم خود کو نحیف و نزار محسوس کر رہی تھی اور بھارتی ایٹمی تیاریوں سے ہمارے دفاعی حصار کو خطرات لاحق ہو نے لگے تھے تو سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ایما پر ایٹمی راز دان عبدالقدیر خان نے وقت کی آواز کو لبیک کہتے ہوئے ہالینڈ کی پر مسرت اور آسودہ زندگی کو خیر باد کہہ کر پاکستان کا رخ کر لیا تھا انھیں پاکستان کے دفاع کی خاطر ایٹم بم بنانے کا ٹاسک ملا تھا جوپاکستان جیسے بے وسیلہ غریب ملک کے لئے بظاہر ناممکن تھا لیکن غیر معمولی حوصلہ مند قدیر خان نے یہ چیلنج قبول کر لیا کیونکہ ان کے بقول وہ کسی دوسرے سقوط ڈھاکہ کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے جوہری مقصد کیلئے ایک موثر و منظم ادارہ معرض وجود میں لایا گیا قابل ترین محب وطن اور تجربہ کار سائنسدان اور انجینئر چنے گئے۔ ریزہ ریزہ جمع کر کے ادارے کا سانچہ ڈھانچہ تیار کیا گیا اور نہ جانے کن کن حیلے بہانوں سے کن کن کے ذریعے کن کن قیامتوں سے گزر کر دنیا جہان سے مشینیں آلات پرزے اور خام مواد جمع کیا گیا ہر قدم پرچیلنج تھا اور ہر مرحلہ ایک کڑا امتحان۔
جڑیں پہاڑوں کی ٹوٹ جاتیں زمیں تو کیا عرش کانپ اٹھتا
اگر میں دل پر نہ روک لیتا تمام زور شباب تیرا
قدیر خان کی مستعد ذہین ا ور انتھک ٹیم نے حالات کی نامساعدت کے باوجود کام شروع کیا تو راستوں سے راستے نکلتے چلے گئے اور منزلیں نئی منزلوں کا پتہ دیتی چلی گئیں ایٹم بم سازی ایسا خطرناک اور وسیع البنیاد منصوبہ ہے کہ اس کے متعلق سوچتے ہوئے بھی بڑے بڑے سرمایہ دار اور وسائل بر دار ملکوں کی پھپری کانپنے لگتی ہے مغربی مما لک خصوصاً امریکہ‘ اسرائیل اور بھارت کو پاکستانی ایٹم بم کی گن سن لگی تو وہ تمام حواس بیدار کر کے ایڑیوں پر کھڑے ہو گئے اور سازشوں دھمکیوں اور جارحانہ ہتھکنڈوں سے ہمارے جوہری منصوبے کو ناکام بنانے پر جت گئے۔
قدیر خان کی زندگی داؤ پر تھی انھیں براہ راست دھمکیاں مل رہی تھیں اور ایجنسیاں انھیں مسلسل خبردار بھی کر رہی تھیں لیکن مجاہد قدیر خان کہہ رہے تھے کہ میں نے اتنے عبدالقدیر خان تیار کردئیے ہیں کہ میری موت بھی میرے ایٹم بم کا راستہ نہیں روک سکتی۔بلا شبہ عبدالقدیر خان کی سربراہی میں سائنسدانوں کی ٹیم کا جوہری قوت میں تاریخ ساز بنیادی اور کلیدی کردار رہا لیکن یہ بھی ناقابل تردیدحقیقت ہے کہ اس معرکتہ الآ را کام میں فوج، انتظامیہ، صدور، وزرائے اعظم اور کابینہ نے بلا استثنیٰ، اپنی اپنی جگہ کم و بیش مسلسل بھر پور کردار ادا کیا اور پیٹ پر پتھر باندھ کر بھی قومی ضرورتوں کی تکمیل کرتے رہے۔
آخر ہماری تاریخ کا وہ انمول اور ناقا بل فراموش لمحہ آگیا جب ہم ایٹم بم جسے یورپ اسلامی بم کہتا رہا بنانے میں کامیاب ہو گئے اور بھارت کے ایٹمی دھماکوں سے زیادہ دھماکے کر کے ہم نے پوری دنیا کو ششدر کر دیا۔بلا شک و شبہ پاکستان کے قیام کی طرح ایٹم بم کی ایجاد ایک فقیدالمثال سائنسی معجزہ تھا جس نے نہ صرف ملکی دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنادیا بلکہ قوم کوفخرو اعتماد کے لازوال جذبوں سے سر شار کر دیاہے۔افتخار و اعزاز کی اس شاندار کہانی کے ہیرو اپنے قابل فخر رفیق سائنسدانوں کے ساتھ جوہری بم کے موجد عبدالقدیر خان ہیں جنھیں بجا طور پر حکومت پاکستان نے دو مرتبہ نشان اعزاز اور ایک مرتبہ ہلال امتیاز کے عظیم اعزاز سے نوازا پاکستان اور دنیا بھر سے انھیں ان کے علاوہ سترّ کے قریب طلائی تمغے اور اعزازات ملے ملکی افواج کے سربراہوں صدر مملکت وزیر اعظم گورنروں وزرائے اعلیٰ اور سیاسی و سماجی اکابر نے ان پر تحسین و آفرین کے پھول نچھاور کئے اور سب سے بڑھ کر قوم کی محبتوں اور عقیدتوں کے زمزم نے انھیں نہلا دیا۔
ہم دنیا کی ساتویں ایٹمی ریاست ہیں۔ چھ ریاستوں نے اپنے اپنے ایٹمی سائنسدانوں کو سب سے بڑے اعزازات و مناصب عطا کئے یہاں تک کہ بھارت نے اپنے ایٹمی موجد کو مسلمان ہو نے کے باوجود صدارت کے منصب ِجلیلہ پر فائز کر دیا۔لیکن اس کے بر عکس ہمارے ہاں اپنے قابل تکریم ایٹمی سائنسدانوں کے ساتھ ہماری حکومت کے بعض حکمرانوں کاسلوک شرمناک حد تک نا قابل رشک رہا ہے۔جنرل پرویز مشرف سابق آمر جرنیلوں میں ذہانت وفطانت کے اعتبار سے نسبتاً بہتر سمجھے جا تے ہیں لیکن انھوں نے ایٹمی دھماکوں سے مشتعل سامراج کے سامنے جس طرح ہتھیار ڈالے اور بے حمیتی و بے ہمتی کا افسوسناک مظاہرہ کرتے ہوئے محسن پاکستان عبدالقدیر خان اور ان کے باکمال ساتھیوں کو جس طرح سنگین اذیتوں اور شدید سختیوں کا نشانہ بنایا اور انھیں ان کے مناصب سے الگ کیا وہ ایک دکھ بھری بپتا ہے۔انتہا یہ ہے کہ محسن پاکستان کو پی ٹی وی پر جبراً اعتراف جرم کرا یا گیااور معافی مانگنے پر مجبور کیا گیا یہی نہیں بلکہ نشان امتیاز اور ہلال امتیاز کو ملک بدر کر کے امریکہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔
تفو بر تو اے چرخ گر داں تفو
وہ تو میر ظفر اللہ خان جمالی کی غیرت قومی کو سلام جنھوں نے اپنی وزارت عظمیٰ کو داؤ پر لگا تے ہوئے ملک بدری کی دستاویز پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ عبدالقدیرخان مرحوم ملک بدری سے تو بچ گئے لیکن در بدری سے نہ بچ سکے انھیں تمام آزادیوں، سہولتوں اور وسیلوں سے محروم کر کے بے یارومددگار اپنے ہی گھر میں قید کر دیا گیا پا بہ زنجیرمحسن پاکستان نے مختلف انٹرویوز میں بتایا کہ انھیں ملک سے باہر جانے کی اجازت تو کیا اپنی بیٹیوں اور دوستوں کے گھر جانے کی اجازت بھی نہیں تھی اور کسی جنازے پر بھی”کسی“ کی چشم و ابرو کے اشارے کنا ئے کے بغیر جانا ممکن نہیں تھا گھر کے اندر بھی نگرانی تھی اور باہر بھی پہریداری ! حکم حاکم کے بغیر پرندہ پر نہیں مار سکتا تھا۔
صابر و شاکر عبدالقدیر خان نے اس صورت حال پر ایک انٹرویو میں ایک بڑا بلیغ فقرہ کہا کہ وہ وقت کے کو فیوں میں گھر گئے ہیں ان پر کیا کیا الزام و اتہام نہیں لگائے گئے کہا گیا کہ ان کے اربوں ڈالر ز کے بنک اکانٹ مختلف مملک میں موجود ہیں جائیدادیں ہیں ہوٹل ہیں مگر قہاری اقتدار و اختیار کے باوجود کہیں سے بھی کچھ نہ نکلا اورقوم کی تقدیر عبدالقدیر اپنی پنشن پر بمشکل گذارہ کر تے ہوئے درویشانہ زندگی اپنائے رہے کوئی اس سے بھی بڑا ظلم ہو سکتا ہے کہ ان سے ایٹم بم بنا نے کا اعزاز تک چھیننے کی کوشش کی گئی اور جھوٹے دعویداروں کی بھر پور پبلسٹی کرائی گئی لیکن سورج پر کتنا ہی کیچڑ اچھالا جائے اس کی تب و تاب کہاں کم کی جا سکتی ہے آج حقیقت کا آفتاب عالم تاب نصف الّنہار پر ہے اور جھوٹ فریب حسد عناد اور الزامات و اتہامات کا طومار تاریخ کے گردو غبار میں گم ہو چکا ہے۔محسن پاکستان کی ایٹم سازی کی ولولہ انگیز کامیابی اوران کے مصائب کی دل دوز اور رقت انگیز کہانی کا سارا احوال محترم جبار مرزا نے بڑی ہمت و جرات سے اپنے کتاب نشان امتیاز میں بھی خون دل میں ڈوبی ہوئی انگلیوں سے لکھ دیا ہے۔
دیکھو اسے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو
تعجب یہ ہے کہ یہ اسیری پرویز مشرف کے بعدبھی تمام حکومتوں میں جاری رہی اور وہ عظیم سپوت جو سانحہ مشرقی پاکستان سے تڑپ کر اور بھارتی ایٹمی تیاریوں کا جواب بن کر ساری آسائشیں ٹھکراتا ہوا پاکستان پہنچا وہ ملکی دفاع کو ناقابل تسخیربنانے کے باوجود اپنی سرزمین پر جرم ناکردہ گناہی میں اسیر و پا بہ زنجیر رہا اور بالآخر اسی اسیری میں زندگی کی قیدو بند سے آزاد ہو گیا، زندگی میں جو کبھی پوچھنے نہ آئے وہ اسکی موت پر یا اسکے جنازے پر کیسے آتے۔تاریخ اور وقت اس کے جنازے پر بھی آنسں کی برکھا برساتے رہے اور اب بھی اسکی ویران قبر پر نوحہ کناں ہیں۔کاش محسن اعظم کا مزار قائد اعظم کے مزار کے احاطے میں ہوتا یا کراچی کے کسی مرکزی مقام پر تعمیر ہوتا جہاں زندگی میں نہ سہی مرنے کے بعد ہی سہی تلافی مافات کے طور پر قوم حقیقی خراج عقیدت پیش کرسکتی اور آئندہ نسلوں کے سامنے شرمندہ ہو نے سے بچ سکتی۔
پاکستان ہی کیا پوری امہ کے ہیرو
مہر عالم تاب کی صورت رخشندہ ہیں
غربت میں، ایٹم کی قوت، معجزہ ٹھہری
آپ تواریخ عالم میں، پا ئند ہ ہیں
(کالم نگارمعروف شاعراورادیب ہیں)
٭……٭……٭

دھرتی کا بیٹا دھرتی کے سپرد

مدثر اقبال بٹ
ہمیں بہت سے تعلق دھوپ چھاؤں میں بھی اپنی پناہ میں رکھتے ہیں ورنہ زندگی اتنی بھی سادہ نہیں جتنی آسودگی میں دکھائی دیتی ہے۔ اس کی تمام تر تلخیاں اور اذیتیں تب عیاں ہوتی ہیں جب آسودہ حالی گزر جاتی ہے۔ آسودگی مال و زر کی بھی ہوسکتی ہے اور اچھے دوستوں کی سنگت کی بھی۔میری زندگی کا نچوڑ یہی ہے کہ اچھے دوست اور غمگسار کسی بھی دولت سے بڑھ کر قیمتی ہوتے ہیں۔ان کا ہونا دکھ کی کیفیت کو کم کردیتا ہے خوشیوں کے لمحات طویل کر دیتا ہے۔یہ زخم زخم ماحول میں مرہم سے لوگ ہیں تو زندگی حسین ہے ورنہ یہ ایسی بے وفا اور سفاک ہے کہ اس کے ساتھ چند لمحے گزارنا بھی مشکل ہوں۔ ڈاکٹر اجمل نیاز ی بھی ایسی ہی دولت تھے جس کی موجودگی میں افسردگی اور شکستگی کی عسرت نے کبھی پریشان نہیں کیا۔ دوستوں کی خوشی میں خوش اور اداسی میں پریشان ہونے کا حوصلہ رکھنے والے ایسے لوگ نہ جانے کیوں اتنی تیزی کے ساتھ اٹھتے جارہے ہیں کہ اکثر ایسی تنہائی کا احساس ہونے لگتا ہے کہ جیسے شاخ محبت کے جھڑتے پتے،سبھی کے سبھی خزاں کی نذر ہوئے جارہے ہیں۔یہ شاخ اتنی خالی خُولی سی ہے کہ کیا خبر کب وہ ایک آدھ بھی جھڑ جائیں،جن کے ہونے سے ابھی کچھ تسلی ہے۔ڈاکٹر اجمل نیازی بھی دل کی تسلی تھے،حوصلہ تھے اور ہمت بھی۔وہ ہر حال میں دوستوں کا خیال رکھنے اور پریشانی کے عالم میں الجھنیں سلجھانے کا خاص مزاج لے کر دنیا میں آئے تھے اور مرتے دم تک اسی مزاج کو اپنی پہچان رکھا۔
ڈاکٹر اجمل نیازی کے ساتھ پہلی ملاقات کب ہوئی، یہ تو یاد نہیں لیکن ایسا ضرورمحسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ تعلق صدیوں پرانا تو ہوگا۔آپ نے اس فلسفے کی بابت تو سنا ہی ہوگا کہ کردار اہمیت نہیں رکھتے،بات نظریے کی ہوتی ہے۔نظریہ مستقل کہانی ہے اورکردار زمانے کے ساتھ اپنے نام بدل کر بس داستان مکمل کرتے ہیں۔ڈاکٹر اجمل نیازی اور میں بھی نظریے کی طویل داستان کے دو کردار ہیں جو شاید اپنے نام بدل کر قربان گاہوں کو اپنے لہو سے سیراب کرتے رہے ہیں۔ ہماری یادیں سکندرکے مقابل لڑتے پورس کے ساتھ بھی سانجھی تھیں اور دُلّے بھٹی یا احمد کھرل کے سپاہیوں میں بھی ہم ایک ساتھ موجود رہے۔ ہم چنگیز اور ہلاکو کے سامنے آئے،پھر بھگت سنگھ کے ساتھ انگریز سرکار کو للکارا۔وہ بھی ہم ہی تھے جو زمانے بدل بدل کے اپنی مٹی پر نثار بھی کئے گئے اور آج بھی یہ قافلہ اپنے رتن اس دھرتی کی نذر کررہا ہے جس نے انہیں جنم دیا،پہچان دی۔
میں ڈاکٹر اجمل نیازی کو اگرچہ صوفی بھی سمجھتا ہوں لیکن ان کے اندر کا حریت پسندہمیشہ اس صوفی پر غالب رہا۔ یہی حریت پسند پچھلے پچاس پچپن سال سے اپنی مادری زبان کے حقوق کے لئے لڑ رہا تھا۔ اسی ادبی اور صحافتی مورچے پر ان سے میری اک بار پھر شنا سائی ہوئی اور ہم نے وہ تمام پرانی یادیں، جو صدیوں کی دھند کے پار چھپی تھیں پھر سے تازہ کرلیں۔ڈاکٹر اجمل نیازی نے پنجابی کا وہ مورچہ سنبھالا تھاجو سب سے کمزور رہاہے۔جب وہ جوانی کی راہ پر قدم جما رہے تھے،تب پنجابی تحریک کسی حد تک چل تو رہی تھی لیکن تحقیق اور فکر کا حصہ بہت کمزور تھا۔ ادب بھی تخلیق ہورہا تھا اور مشتاق بٹ مرحوم جیسے لوگ عملی طور پر بھی میدان کو گرم رکھے ہوئے تھے لیکن یہاں ایسے کردار کی ضرورت تھی جو بیک وقت صاحب علم بھی ہو اور میدان عمل کا سپاہی بھی۔جو پنجابی تحریک کی آواز بنے اور صحافت کا خالی مورچہ بھی پوری طرح سے سنبھالے۔ایسا کردار پنجاب کی ثقافت، زبان کی جنگ لڑنے والی سپاہ کے علم بردار بھی۔ڈاکٹر اجمل نیازی نے اس مورچے پر اپنا کردار خوب نبھایا،اپنی ماں بولی کا حق ادا کیا اور سرخرو ٹھہرے۔
ڈاکٹر اجمل نیازی کے کالم ہوں،شاعری یا پھر نثر،وہ ایک خاص رنگ میں رچی ہوئی ہے۔یہ رنگ قاری کو اپنے ہونے کی وجہ تلاش کرنے کی تحریک دیتاہے۔ دنیا کے وجود میں وہ تلاش کرنے پر اکساتا ہے جو کہیں دکھائی ہی نہیں دیتا۔ ان کا نظریہ بنیادی حقوق کے عملی مظاہر کی تلاش کی جانب لے جاتا ہے۔ صدیوں سے اندھے غاروں میں رہنے والوں کو روشنی سے شناسا کرنے کے لیے کھینچ کھینچ کراُس جگہ پر لاتا ہے جہاں سے سورج دکھائی دے۔ انہوں نے روشنی دکھائی بھی اور پھر اپنے حصے کی شمع جلا کر اسے دوسروں سے منفرد بھی رکھا۔ڈاکٹر اجمل نیازی کی شاعری میں نثری شگفتگی بھی ہے اور نثر میں شعری چاشنی بھی۔ ان کے کردار میں وقار ہے اورگفتارمیں معیار۔ میں نے ایسے لوگ کم ہی دیکھے ہیں جن کی شخصیت میں ایسی کشش ہوکہ آپ ان کی موجودگی میں انہی کودیکھتے رہیں،سنتے رہیں اور آخر پر ان کے دیوانے ہو جائیں۔ڈاکٹر اجمل نیازی ایسے ہی تھے،جس نے ان کے ساتھ ملاقات کی، انہیں دیکھا، انہیں سُنا،پھرانہی کا ہو گیا۔ان کی محبت کسی کو جانے ہی نہیں دیتی تھی، سو جوایک بار ان کی محفل میں آن بیٹھا،اٹھ کر نہیں گیا،لیکن اب کیا ہوگا، اب اس محفل میں آکر بیٹھنے والوں پر کیا بیتے گی کہ خود میزبان ہی اٹھ کر جا رہا ہے۔ جب فہم وشعور کے پیمانے بھر بھر کے دینے والا ساقی ہی نہیں رہا تومے کش کہا ں جائیں،میکدے پہ کیا بیتے گی۔جنہیں ڈاکٹر صاحب کو سننے، پڑھنے اور دیکھنے کی عادت تھی،اب وہ فرزانے کہا ں جائیں۔ یہ جدائی تو عمر بھر کی جدائی ہے،وہ جو دل فگار آتے اور رِستے زخموں پہ مرہم لے کے پلٹتے اب کس سے دوا پائیں گے اور کس کے دستِ شفا سے سکونِ قلب پائیں گے۔کہاں، کب اور کیسے کے سوالات اچھالنے والا شخص اُسی مٹی کی آغوش میں گہری نیند سو رہا ہے جس کے حقوق کے لیے تمام عمر لڑتا رہا۔آج میں آخری بارڈاکٹر صاحب سے مل کر آیا ہوں۔انہیں آخری بار دیکھا،رخصت کیا اور بوجھل دل کو تھامے پلٹ آیا۔اب تنہائی کے پہلو میں بیٹھا انہیں یاد کررہا ہوں۔ قلم اٹھایا، لکھنا چاہا تو جیسے منتشر خیالات یکجا نہیں ہورہے، جیسے دستِ اجل نے خیالات کے اجتماع کاوہ شیشہ ہی توڑ دیا ہوجسے شیشہ گر نے بڑی مہارت سے سنبھال رکھا تھا۔ سوچ رہا ہوں کہ وہ کیسا دوست تھا جس کے جانے پر مجھ جیسے مضبوط انسان کے خیالات بھی یوں بکھرے ہیں کہ انہیں سمیٹنا ہی ممکن نہیں ہورہا۔بات بن نہیں پارہی۔مضمون باندھا نہیں جارہا،منتشر موضوعات کو یکجا نہیں کرپارہا۔۔۔۔ بس اتنی سی بات ہے کہ دھرتی کے بیٹے کو دھرتی کے سپرد کر آیا ہوں۔
(کالم نگارمعروف صحافی ہیں)
٭……٭……٭

ورلڈکپ وارم اپ میچ : جنوبی افریقا نے پاکستان کو 6 وکٹوں سے شکست دیدی

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے وارم اپ میچ میں جنوبی افریقا نے  پاکستان کو 6 وکٹوں سے شکست دے دی۔

ابوظہبی میں کھیلے گئے وارم اپ میچ میں جنوبی افریقی کپتان نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا۔

پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ 20 اوورز میں 6 وکٹوں کے نقصان پر 186 رنز بنائے، جواب میں جنوبی افریقا نے 187 رنز کا ہدف  4 وکٹوں کے نقصان پر اننگز کی آخری گیند پر حاصل کرلیا۔

پاکستان کی جانب سے فخر زمان نے 28 گیندوں پر 52 رنز کی اننگز کھیلی، ان کی اننگز میں 5 چھکے بھی شامل تھے۔

 ان کے علاوہ آصف علی 32 اور شعیب ملک 28 رنز بنا کر نمایاں رہے، قومی ٹیم مقررہ 20 اوورز میں 6 وکٹوں کے نقصان پر 186 رنز بناسکی۔ جنوبی افریقا کی جانب سے ربادا نے 3 وکٹیں حاصل کیں۔

187 رنز کا ہدف جنوبی افریقا نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد آخری گیند پر حاصل کرلیا۔

جنوبی افریقا کی جانب سے وین ڈر ڈوسن نے 101 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی، ان کے علاوہ کپتان ٹمبا باووما نے بھی 46 رنز بنائے۔ پاکستان کی جانب سے عماد وسیم اور شاہین شاہ آفریدی نے 2، 2 وکٹیں حاصل کیں۔

خیال رہے کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے پہلے وارم اپ میچ میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کو 7 وکٹوں سے شکست دی تھی۔

علی ظفر کو دبئی کا ’گولڈن ویزا‘ مل گیا

پاکستانی گلوکار و اداکار علی ظفر کو دبئی حکومت کی جانب سے ’گولڈن ویزا‘ مل گیا۔

علی ظفر نے انسٹاگرام پوسٹ میں بتایا کہ اُنہوں نے متحدہ عرب امارات کی حکومت کی طرف سے گولڈن ویزا حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی اداکار ہونے کا اعزاز کرلیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ بہت فخر محسوس کررہے ہیں کیونکہ وہ دبئی ایکسپو 2020 میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔

علی ظفر نے کہا کہ ’پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کے بارے میں کئی ممالک غلط فہمیوں کے شکار ہیں اور قومی اور عالمی سطح پر اس کی قدر کم ہے۔‘

گلوکار نے کہا کہ ’ہمارے ملک پاکستان کے پاس پیش کرنے کے لیے بہت کچھ ہے، اب وقت آگیا ہے کہ ہم دُنیا کے سامنے اپنی پوری صلاحیتوں کا ادراک کریں اور پاکستان کو وہ سب دیں جس کا ہمارا ملک حقدار ہے۔‘