وژن کافقدان اورہمارے قومی ہیروز

وزیر احمد جوگیزئی
پاکستان کا ایک عجیب المیہ ہے اور یہ المیہ شروع سے ہی چلا آرہا ہے کہ ہم اپنے قومی ہیروز کو زندگی میں زیرو کر دیتے ہیں،ہمارے قومی ہیروز دوران زندگی زیرو ہو تے تو نہیں ہیں لیکن اس کو ہم خود ان کو زبر دستی زیرو کر دیتے ہیں بلکہ زیرو کرنے کے لیے پورا زور لگاتے ہیں۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب مرحوم ہر طرح سے ایک بہت ہی بڑے انسان تھے۔جیسا کہ شاعر نے کہا ہے کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدہ
بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ نہ ہم ڈاکٹر عبدالقدیرخان صاحب کو زندگی میں جائز مقام دلا سکے اور نہ ہی ان کی رحلت پر ان کو وہ عزت دے سکے جس کے ڈاکٹر صاحب یقینی طور پر حقدار تھے۔ڈاکٹر صاحب کی زندگی پر میں کہاں سے بات شروع کروں ایک نہایت ہی نفیس انسان تھے اپنے شعبے کے ماہر تھے اور ذہانت اور فتانت ان میں کو ٹ کوٹ کر بھری ہو ئی تھی۔ڈاکٹر صاحب ایک لا جواب سائنٹیفک لیڈر تھے جنہوں نے پاکستان انجینئرنگ کے شعبے کی رہنمائی کی خاص طو رپر اپنے شعبے میں چن چن کر ہزاروں قابل لوگوں کو اپنی ٹیم میں شامل کیا۔اور اسی ٹیم نے ڈاکٹر صاحب کی قیادت میں پاکستان کو ایک جوہری قوت بھی بنا یا۔پاکستان نے ایٹمی بم تو بنا لیا تھا لیکن اس کے بعد کی مشکلا ت کے بارے میں کم ہی لو گ جانتے ہیں کہ ایٹم بم کی ڈیلوری کے لیے سسٹم چاہیے تھا ڈاکٹر صاحب ہی ایک بار پھر سامنے آئے اور انھوں نے اس حوالے سے الگ محکمہ بنایا۔اس سے متعلقہ اور بہت سارے اداروں کی بنیاد بھی رکھی۔ڈاکٹر صاحب کے کریڈیٹ پر جی آئی کے جیسے اداروں کی بنیاد رکھنا شامل ہے۔جی آئی کے جیسا ادارہ قائم کرکے ایک مثال قائم کر دی تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ باقی ملک میں بھی اسی ما ڈل کو اپناتے ہوئے ادارے قائم کیے جا ئیں لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔ہم نے بطور قوم ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں ملک کے لیے ان کی بیش بہا اور نا قابل فراموش خدمات کے باوجود ان کو پابند سلاسل کیا، لیکن ان کی آزادی کے لیے نہ ہی عوام ان کی کو ئی مدد کر سکے اور نہ ہی عدالت۔ہمارے قومی ہیرو اپنے آخری وقت بھی اپنی آزادی کے لیے جد و جہد کرتے رہے۔ اس کے بر عکس اگر ہم ہندوستان پر نظر ڈالیں تو انھوں نے مسلمانوں سے نفرت کے باوجود اپنے ایٹمی سائنس دان کو ہر قسم کی عزت دی،اور یہ ہمارے لیے ایک مثال ہو نی چاہیے۔ ہماری ناکامی یہ بھی رہی کہ ہم دیگر شعبوں میں ڈاکٹر صاحب کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے۔ڈاکٹر صاحب کو خدا نے جو صلاحیتیں دیں تھیں ان سے فائدہ اٹھایا جاتا تو پاکستان کے کئی شعبوں میں انقلاب آسکتا تھا،لیکن ہم اس میں ناکام رہے۔
بہر حال اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین درجات سے نوازے۔اب میں کچھ بات ملک کے معاشی حالات پر بھی کرنا چاہوں گا۔محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت کسی صورت بھی ملک کے معاشی حالات کو سنبھال نہیں پا رہی ہے۔ہمارے حکمرانوں کو عوام کے حالات کا ادراک ہی نہیں ہے اور ہمارے حکمرانوں کو ہوش کے نا خن لینے کی ضرورت ہے۔آج کل کے دور میں ملک کا دفاع بھی براہ راست معیشت کے ساتھ جڑا ہو ا ہے اگر کسی ملک کی معیشت مضبوط نہیں ہے تو اس کا دفاع بھی مضبوط تصور نہیں کیا جاتا ہے چاہے اس ملک کے پاس کتنی ہی بڑی فوج ہو اور ہتھیار کتنی ہی بڑی تعداد میں موجود کیوں نہ ہو ں۔
ہندوستان نے حال ہی میں اپنی ایک کرونا ویکسین بنا لی ہے اور انگلستان سے بھی اس ویکسین کو منوا لیا ہے۔آخر ایسا کیونکر ممکن ہوا؟ یہ صرف اسی لیے ممکن ہو ا کہ ہندوستان نے اپنی ویکسین تسلیم نہ کرنے کی پاداش میں انگلینڈ کے ساتھ ان کے تجارتی با ئیکاٹ کی دھمکی دی اور کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت بہت زیادہ ہے اور بائیکاٹ کی صورت میں انگریز کا نقصان زیادہ تھا اسی لیے انھوں نے ہندوستان کی اس مقامی ویکسین کو نہ چاہتے ہوئے بھی تسلیم کر لیا ہے۔ اور نہ صرف یہ بلکہ ہندوستان میں کرونا کی شرح پاکستان سمیت کئی ممالک سے زیادہ ہونے کے باوجود ان پر سے آمد و رفت کی بھی پابندیاں ختم کر دی گئیں ہیں۔ اس سے ہمیں موجودہ دور میں معیشت کی طاقت اور اس کی اہمیت کا اندازہ ہو تا ہے۔ہمیں اب یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہم معاشی طو ر پر کمزور ہیں بلکہ بہت کمزور ہیں اور اس کمزوری کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے لیڈر دور رس وژن نہیں رکھتے ہیں۔اور صرف ڈنگ ٹا پا ؤ پالیساں لے کر چلتے ہیں جس کا ملک کو نقصان ہو تا ہے۔اس طرح ملک کو لے کر چلنے سے ترقی نہیں ہو سکتی ہے۔
ایک زرعی ملک کے ہوتے ہوئے ہمیں گندم سمیت دیگر بنیادی اجناس میں خود کفیل ہونا چاہیے تھا لیکن ہم گندم بھی باہر سے منگوا رہے ہیں،اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت آ ج تک زراعت کو درست انداز میں سمجھ ہی نہیں سکی ہے۔اگر صرف پنجاب کی گندم درست انداز میں پروکیور کر لی جائے تو پورے ملک کے غلے کا بندوبست ہو جائے گا۔لیکن ہماری حکومت اس حوالے سے بھی غفلت کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ہمارے ملک کی برآمدات بڑھانے کے لیے کئی ایسے شعبے ہیں جن پر توجہ دے کر کارآمد کیا جاسکتا ہے اور فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے لیکن ہمارے ہاں نہیں کیا گیا ہے،ہمارے ملک کا ایک بڑا مسئلہ ہے کہ ہماری امپورٹ ہماری ایکسپورٹ سے کہیں زیادہ ہے جس کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اسی کی وجہ سے معیشت اور روپیہ کمزور ہے اور جب تک ہم تجارت اور انڈسٹری کو پاکستان سپیسفک نہیں بناتے تب تک ہماری معیشت کسی صورت میں بھی اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکے گی۔اگر تعلیم کے شعبے کی بات کی جائے تو تعلیم کے حالات ہمارے سامنے ہیں۔نجی شعبہ ہر طرح سے حاوی ہو چکا ہے۔
ہماری آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے لیکن سرکاری شعبے میں تعلیم میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔اس وقت کو ئی بھی سیاسی جماعت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ اکیلے ملک کو ان حالات سے نکال سکے۔لہذا ہمیں ایک قومی حکومت کی ضرورت ہے۔الیکشن کروانے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا میرے خیال میں ملک میں 15سال کے لیے ایک ٹیکنو کریٹس کی حکومت آنی چاہیے اور ان ٹیکنو کریٹس میں اکثریت ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کی بنائی ہو ئی ٹیم میں سے ہونی چاہیے۔یہی ایک طریقہ ہے کہ ملک میں تعلیم اور صحت کے ساتھ ساتھ صنعت اور زراعت میں بھی ترقی کی جاسکتی ہے، بصورت دیگر جس قسم کے انتخابات کروانے کا پلان بن رہا ہے اس میں تو سوائے دھاندلی کے اور کچھ نہیں حاصل کیا جاسکتا ہے۔ملک میں جہاں پر ہر قسم کے قدرتی وسائل موجود ہیں لیکن ان قدرتی وسائل کو استعمال میں لانے کے لیے ایک وژن کی ضرورت ہے۔
مثال کے طور پر بلوچستان کا رقبہ پاکستان کے کل رقبے کا 43فیصد ہے اور اس 43فیصد میں 60فیصد پہاڑ ہیں 10فیصد ریگستان ہے اور 15فیصد زمین ایسی ہے جو کہ قابل کاشت ہے۔لیکن کبھی ہمارے پالیسی سازوں نے نہیں سوچا کہ جو 60فیصد پہاڑی زمین ہے جہاں پر کچھ نہ کچھ بارش بھی ہوتی ہے اس کو قابل استعمال بنایا جائے تو ملک کا بڑا فائدہ ہو سکتا ہے۔اگر ملک میں موجود معدنی وسائل کو درست طریقے سے استعمال میں لایا جائے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ملک ایک اقتصادی طاقت نہ بن سکے،لیکن پاکستان کے ایک اقتصادی طاقت بننے کے راستے میں رکاوٹ ایک دور س جامع وژن کی بجائے کل کی فکر ہے اور جب تک کل کی فکر زیادہ حاوی رہے گی ملک ترقی نہیں کر سکتا ہے۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭

معجزات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

علامہ محمد الیاس عطار قادری
صحرائے عرب میں ایک قافلہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا‘ اثنائے راہ (یعنی راستے میں) پانی ختم ہو گیا، قافلے والے شدت پیاس سے بے تاب ہو گئے اور موت ان کے سروں پر منڈلانے لگی کہ کرم ہو گیا یعنی اچانک دونوں جہاں کے فریاد رس میٹھے میٹھے مصطفیؐ ان کی امداد کیلئے تشریف لے آئے۔ اہل قافلہ کی جان میں جان آ گئی! سرکارؐ نے فرمایا ”وہ سامنے جو ٹیلہ ہے اسکے پیچھے ایک سانڈنی سوار سیاہ فام حبشی غلام گزر رہا ہے۔ اسکے پاس ایک مشکیزہ ہے‘ اسے سانڈنی سمیت میرے پاس لے آؤ“۔ چنانچہ کچھ لوگ ٹیلے کے اس پار پہنچے تو دیکھا کہ واقعی ایک سانڈنی سوار حبشی غلام جا رہاہے۔ لوگ اس کو تاجدار رسالتؐ کی خدمت سراپا عظمت میں لے آئے۔ شہنشاہِ خیر الانامؐ نے اس سیاہ فام غلام سے مشکیزہ لیکر اپنا دست بابرکت مشکیزے پر پھیر اور مشکیزے کا منہ کھول دیا اور فرمایا:
”آؤ پیاسو! اپنی پیاس بجھاؤ“۔ چنانچہ اہل قافلہ نے خوب سیر ہو کر پانی پیا اور اپنے برتن بھی بھر لئے۔ وہ حبشی غلام یہ معجزہ دیکھ کر نبیوں کے سرورؐ کے دست انور چومنے لگا۔ سرکار نامدارؐ نے اپنا دست پرانوار اس کے چہرے پر پھیر دیا یعنی اس حبشی کا سیاہ چہرہ ایسا سفید ہو گیا جیسا کہ چودہویں کا چاند اندھیری رات کو روز روشن کی طرح منور کر دیتا ہے۔ اس حبشی کی زبان سے کلمہئ شہادت جاری ہو گیا اور وہ مسلمان ہو گیااور یوں اس کا دل بھی روشن ہو گیا۔ جب مسلمان ہو کر وہ اپنے مالک کے پاس پہنچا تو مالک نے اسے پہچاننے سے ہی انکار کردیا۔ وہ بولا: میں وہی آپ کا غلام ہوں۔ مالک نے کہا: وہ تو سیاہ فام غلام تھا۔ کہا: ٹھیک ہے مگر میں مدنی حضور سراپا نورؐ پر ایمان لا چکا ہوں۔ میں نے ایسے نور مجسم کی غلامی اختیار کر لی ہے کہ اس نے مجھے (یعنی چودھویں کے روشن چاندکی طرح) بنا دیا جس کی صحبت میں پہنچ کر سب رنگ اڑ جاتے ہیں‘ وہ تو کفر و معصیت کی سیاہ رنگت کو بھی دُور فرما دیتے ہیں‘ اگر میرے چہرے کا سیاہ رنگ اڑ گیا تو اس میں کون سی تعجب کی بات ہے۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دو جہان کے سلطانؐ کی شان عظمت نشان پر میری جان قربان! اللہ اللہ! پہاڑ کے پیچھے گزرنے والے آدمی کی بھی کس شان سے خبر دیں کہ اسکا رنگ کالا ہے اور وہ سانڈنی پر سوار ہے اور اسکے پاس مشکیزہ بھی ہے‘ پھر عطائے الٰہی عزوجل سے ایسا کرم فرمایا کہ مشکیزہ کے پانی نے سارے قافلے کو کفایت کیا اور مشکیزہ اسی طرح بھرا رہا‘ مزید سیاہ فام غلام کے منہ پر نورانی ہاتھ پھیر کر کالے چہرے کو نور نور کر دیا حتیٰ کہ اس کا دل بھی روشن ہو گیا اور مشرف بہ اسلام ہوگیا۔
جب سرکارنامدارؐ کسی کے چہرے اور سینے پر دست پرانوار پھیر دیں تو وہ روشنی دینے لگ جائے تو خودحضور سراپا نورؐکی اپنی نورانیت کاکیاعالم ہوگا۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں: ”جب سرکار نامدارؐ گفتگو فرماتے تو دیکھا جاتا گویا حضور پر نورؐ کے اگلے مبارک دانتوں کی مقدس کھڑکیوں سے نورنکل رہا ہے“۔ جب رحمت عالمؐ مسکراتے تھے تو درودیوار روشن ہو جاتے۔
اُم المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت فرماتی ہیں: میں سحری کے وقت گھر میں کپڑے سی رہی تھی کہ اچانک سوئی ہاتھ سے گر گئی اورساتھ ہی چراغ بھی بجھ گیا، اتنے میں مدینے کے تاجدارؐ گھر میں داخل ہوئے اور سارا گھر مدینے کے تاجورؐ کے چہرہئ انور کے نور سے روشن و منور ہو گیا اور گمشدہ سوئی مل گئی۔
سبحان اللہ! حضور پرنورؐ کی شان نور علی نور کی بھی کیا بات ہے! مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: رحمت عالمﷺ بشر بھی ہیں اور نور بھی یعنی نوری بشر ہیں‘ ظاہری جسم شریف بشر ہے اور حقیقت نور ہے۔
حضرت سیدتنا انیسہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں: مجھے میرے والد محترم نے بتایا: میں بیمار ہوا تو سرکار عالی وقارؐ میری عیادت کیلئے تشریف لائے دیکھ کر فرمایا: تمہیں اس بیماری سے کوئی حرج نہیں ہو گا لیکن تمہاری اس وقت کیا حالت ہوگی جب تم میرے وصال کے بعد طویل عمر گزار کر نابینا ہو جاؤ گے؟ یہ سن کر میں نے عرض کی: یارسول اللہؐ! میں اس وقت حصول ثواب کی خاطر صبر کروں گا۔ فرمایا: اگر تم ایسا کرو گے تو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔چنانچہ صاحب شیریں مقالؐ کے ظاہری وصال کے بعدان کی بینائی جاتی رہی‘ پھر ایک عرصہ کے بعد اللہ عزوجل نے ان کی بینائی لوٹا دی اور ان کا انتقال ہو گیا۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے اللہ کے محبوبؐ اپنے پروردگار عزوجل کی عطا سے اپنے غلاموں کی عمروں سے بھی باخبر ہیں اوران کیساتھ جو کچھ پیش ہونیوالا ہے اسے بھی جانتے ہیں۔ قرآن پاک کی بیشمار آیات مبارکہ سے سرکار مدینہؐ کے علم غیب کا ثبوت ملتا ہے۔ یہاں صرف ایک آیت کریمہ پیش کی جاتی ہے۔ چنانچہ پارہ 30 سورۃ التکویر کی آیت نمبر24 میں ارشاد خداوندی ہے: ترجمہ کنزالایمان: اور یہ نبی ؐ غیب بتانے میں بخیل نہیں۔ (پ 30 التکویر24)
بیان کردہ روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب کوئی مصیبت آئے یا مسلمان معذور ہو جائے تو اسے صبر کر کے اجر کا حقدار بننا چاہئے‘ چنانچہ حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرامؐ فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے: ”جب میں اپنے بندہ کی آنکھیں لے لوں پھر وہ صبر کرے‘ تو آنکھوں کے بدلے اسے جنت دوں گا“۔
ایک دفعہ مکہ مکرمہ میں ایک تاجر آیا۔ اس سے ابوجہل نے مال خرید لیا مگر رقم دینے میں پس و پیش کی، وہ شخص پریشان ہو کراہل قریش کے پاس آ کر بولا: آپ میں سے کوئی ایسا ہے جو مجھ غریب اور مسافرپر رحم کھائے اور ابوجہل سے میرا حق دلوائے؟ لوگوں نے مسجد کے کونے میں بیٹھے ہوئے ایک صاحب کی طرف اشارہ کرکے کہا: ان سے بات کرو‘ یہ ضرور تمہاری مدد کریں گے۔ اہل قریش کے”ان صاحب“ کے پاس بھیجنے کا منشا یہ تھا کہ اگر یہ صاحب ابو جہل کے پاس گئے تو وہ ا ن کی(نعوذباللہ) توہین کریگا اوریہ لوگ(یعنی بھیجنے والے) اس سے حظ (یعنی لطف) اٹھائیں گے۔ مسافر نے ان صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر سارا احوال سنایا، وہ اٹھے اور ابو جہل کے دروازے پر تشریف لائے اور دستک دی۔ ابو جہل نے اندر سے پوچھا: کون ہے؟ جواب ملا محمدؐ۔ ابو جہل دروازے سے باہر نکلا‘ اس کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ پوچھا: کیسے آنا ہوا؟ بے کسوں کے فریاد درس، آپؐ نے ارشاد فرمایا: اس کا حق کیوں نہیں دیتا؟ عرض کی: ابھی دیتا ہوں۔ یہ کہہ کر اندر گیا اور رقم لا کر مسافر کے حوالے کر دی اوراندر چلا گیا۔ دیکھنے والوں نے بعد میں پوچھا: ابو جہل! تم نے بہت عجیب کام کیا۔ بولا: بس کیا کہوں‘ جب محمدعربی(ﷺ) نے اپنا نام لیا تو ایک دَم مجھ پر خوف طاری ہو گیا، جونہی میں باہر آیا تو ایک لرزہ خیز منظر میری آنکھوں کے سامنے تھا‘ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک دیو پیکر اونٹ کھڑا ہے‘ اتنا خوف ناک اونٹ میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا‘ چپ چاپ بات مان لینے ہی میں مجھے عافیت نظر آئی ورنہ وہ اونٹ مجھے ہڑپ کر جاتا۔
(امیراہلسنت ہیں)
٭……٭……٭

فضل محمود اور عبدالقادر پی سی بی کے ہال آف فیم میں شامل

لاہور:  لیجنڈری فاسٹ باؤلر فضل محمود اور گگلی ماسٹر عبدالقادر پی سی بی کے ہال آف فیم میں شامل ہوگئے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کا ماضی کے عظیم کھلاڑیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے، اسی سلسلے میں سابق کپتان فضل محمود اور عبدالقادر کو پی سی بی کے ہال آف فیم میں شامل کرلیا گیاہے۔ان دونوں کھلاڑیوں کو ووٹنگ کے ایک شفاف عمل کے بعد یہ اعزاز دیا گیا۔

اس سے قبل لیجنڈری حنیف محمد، عمران خان، جاوید میانداد، وسیم اکرم، وقار یونس اور ظہیر عباس آئی سی سی ہال آف فیمرزکی حیثیت سے پی سی بی کے ہال آف فیم میں شامل ہیں۔

ایک ہفتے میں امریکی ڈالر65 پیسے مہنگا

کراچی : امریکی ڈالر ایک ہفتے کے دوران ڈالر65 پیسے مہنگا ہوکر 171.18 روپے اور یورو 50 پیسے مہنگا ہو کر 199روپے بند ہوا۔

تفصیلات کے مطابق امریکی ڈالر اور دیگر کرنسیوں کی قیمتوں میں اتار چڑھاﺅ سے متعلق ہفتہ وار رپورٹ جاری کر دی گئی، جس میں بتایا گیا ہے کہ ایک ہفتے میں انٹر بینک میں ڈالر65 پیسے مہنگا ہوا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک ہفتے کے دوران انٹر بینک میں ڈالر170.53 روپے سے بڑھ ہو کر 171.18 روپے اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر 80 پیسے مہنگا ہو کر 171.80روپے کا ہوگیا۔

دیگر کرنسیوں کے حوالے سے رپورٹ کے مطابق ہفتے میں اوپن مارکیٹ میں یورو 50 پیسے مہنگا ہو کر 199روپے ، برطانوی پاونڈ 2 روپے مہنگا ہوکر 236روپے کا ہوگیا۔

ایک ہفتے میں امارتی درہم 40 پیسے مہنگا ہوکر48.30 روپے اور سعودی ریال 30پیسے مہنگا ہوکر 45.70 روپے کا ہوگیا۔

ملکی ماحول ٹھیک اور ساری چیزیں سیٹلڈ ہیں: وزیر داخلہ

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ ملک کا ماحول ٹھیک اور ساری چیزیں ہیں۔

شیخ رشید کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ بعض لوگ پاکستان کے حساس ترین ادارے کو متنازع بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، اگلے جمعے تک سارے مسئلے ٹھیک ہو جائیں گے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ملکی ماحول ٹھیک ہے اور ساری چیزیں سیٹلڈ ہیں، ہمارے عظیم ادارے کے بدخواہ اور جمہوریت جنہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی وہ ناکام ہوں گے۔

اسمگلنگ کا خطرناک طریقہ : کسٹم اہلکاروں نے مسافر سے منشیات برآمد کرلی

محکمہ کسٹم اور ٹیکس اہلکاروں نے بڑی مقدار میں نشہ آور پاؤڈر”کوکین” کی اسمگلنگ ناکام بنا دی، بیرون ملک سے آنے والے ایک مسافر کے پیٹ میں چھپائے گئے کوکین کے کیپسول برآمد کرلیے گئے۔

ٹیکس اور کسٹم اتھارٹی نے ریاض اور جدہ میں کوکین اسمگلنگ کی 2 کارروائیوں کو ناکام بناتے ہوئے اسمگلرز کو گرفتار کرلیا ہے، ملزمان سے مجموعی طورپر ڈْیڑھ کلو گرام کوکین برآمد کرلی گئی۔

سعودی ذرائع ابلاغ نے زکوٰۃ، ٹیکس اور کسٹم اتھارٹی کے حوالے سے کہا ہے کہ منشیات اسمگلنگ کی دو الگ الگ کارروائیوں میں کسٹم اہلکاروں نے کوکین اسمگلنگ کی کوشش ناکام بنا دی۔

اتھارٹی کی جانب سے جاری تفصیلات میں کہا گیا ہے کہ ریاض کے شاہ خالد بین الاقوامی ہوائی اڈے پرمتعین کسٹم اہلکاروں نے ایک مسافرکو روکا جس پر شک تھا کہ وہ منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث ہو سکتا ہے۔

مسافرکے سامان کی تلاشی لینے پر اس سے کچھ برآمد نہ ہوا جس پر اہلکاروں نے مسافر کی تفصیلی تلاشی لی ایکسرے لینے پر معلوم ہوا کہ اس کے پیٹ میں غیرمعمولی سائز کے کیپسول ہیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ مذکورہ مسافر کے پیٹ سے کوکین کے91 کیپسول برآمد ہوئے جن میں 588 گرام کوکین بھری ہوئی تھی۔ اسمگلنگ کی دوسری کارروائی کو جدہ کی بندرگاہ پرناکام بنایا گیا جس میں بحری جہاز سے آنے والے ایک شخص کے پیٹ سے برآمد ہونے والے کیپسولوں سے 658 گرام کوکین برآمد کرلی گئی۔

کسٹم اہلکاروں نے ملزمان کو محکمہ انسداد منشیات کے سپرد کردیا جہاں ان کے خلاف مقدمہ دائر کرکے انہیں فوجداری عدالت کے حوالے کیا جائے گا۔

پنجاب میں موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی کا نوٹیفکیشن جاری

محکمہ داخلہ پنجاب نے 19 اکتوبر کو صوبے میں موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی لگادی۔

محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق 12 ربیع الاوّل کے دن ون ویلنگ، سائلینسر کےبغیر موٹر سائیکل چلانے پر پابندی ہوگی۔

اعلامیے کے مطابق محکمہ داخلہ پنجاب نے دفعہ 144 کے نفاذ کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے۔

پیٹرول کی قیمت بڑھنے پر سوشل میڈیا پر دلچسپ میمز کا طوفان آگیا

حکومت کی جانب سے پیٹرول کی قیمت میں بڑے اضافے کے بعد جہاں عوام سیخ پا ہیں وہیں سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے میمز کے ذریعے تنقید کی جارہی ہے۔

سوشل میڈیا صارفین ڈیزل کی قیمت میں 12 روپے 44 پیسے اور پیٹرول کی قیمت میں 10 روپے 49 پیسے کے بعد غم و غصے کا اظہار سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر کررہے ہیں۔

ٹوئٹر پر گزشتہ چند گھنٹوں میں ہزاروں ٹوئٹس کی جاچکی ہیں جب کہ میمرز بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ صارفین کے دلچسپ تبصرے حکومت پر تیر کی طرح برس رہے ہیں۔

رضوان احمد نامی صارف نے بھارت کی ایک سڑک کی تصویر شیئر کی جس میں گاڑی گڑھے میں دھنسی ہوئی دکھائی دی۔

صارف نے دلچسپ تبصرہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں پیٹرول کی قیمت دیکھتے ہوئے گاڑی نے بھی خودکشی کرلی۔

ایک اور صارف نے دلچسپ ویڈیو شیئر کی جس میں بھارتی گلوکار اریجیت سنگھ گانا گارہے ہیں۔

حکومت نے عوام پر پیٹرول بم گرا دیا، 12روپے سے زائد کا بڑا اضافہ

حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 12 روپے 44 پیسے فی لیٹر تک اضافہ کر دیا ہے۔

وزارت خزانہ کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے جو  فوری طور پر نافذالعمل ہوں گی۔

جاری اعلامیے کے مطابق ڈیزل کی قیمت میں 12 روپے 44 پیسے کا  اضافہ کیا گیا ہے جب کہ پیٹرول کی قیمت میں 10 روپے 49 پیسے اور مٹی کا تیل 10 روپے 95 پیسے منہگا کیا گیا ہے۔ لائٹ ڈیزل آئل 8 روپے 84 پیسے منہگا کیا گیا ہے۔

 

حکومت نے عوام پر پیٹرول بم گرا دیا، 12روپے سے زائد کا بڑا اضافہ

 

قیمت میں اضافے کے بعد ایک لیٹر پیٹرول 137روپے 79 پیسے کا ہو گیا ہے جب کہ ایک لیٹر مٹی کا تیل 110روپے26 پیسے کا ہو گیا ہے۔

ہائی اسپیڈ ڈیزل کی فی لیٹر قیمت 134 روپے 48 پیسے ہو گئی ہے جبکہ ایک لیٹر لائٹ ڈیزل آئل 108 روپے 35پیسے کا ہو گیا ہے۔

قانون کی آسمانی نصابی کتاب اور ہم غبی طالبعلم

نگہت لغاری
کائنات بھر میں پھیلی بے سکونی اور انتشار نے مجھے اتنا بے سکون کر دیا ہے کہ مَیں اپنی سوچ بچار کے میز پر چاروں آسمانی کتابوں کو سامنے رکھے کوئی حل تلاش کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہوں۔ مجھے اپنی کم علمی، کم مائیگی اور کمزوری کا پورا پورا احساس ہے اور مجھے یہ بھی علم ہے کہ مَیں اس نصاب کو پوری لگن، ایمانداری اور محنت سے پڑھنے کے باوجود بھی کامیاب نہیں ہو سکتی اور نہ ہی کوئی حل نکال لینے کا دعویٰ کر سکتی ہوں لیکن مَیں ضرور کوشش کروں گی کہ اِن آسمانی کتابوں سے وہ اقتباسات اپنے قارئین تک پہنچاؤں جنہیں ہم نے اپنی دنیاوی مصروفیات کی وجہ سے درجہ دوم پر رکھا ہوا ہے۔
ہم خوش قسمت تھے کہ ہمارے پاس وہ کتاب آئی جو تمام آسمانی کتابوں کا خلاصہ ہے اور اس میں موجود وہ سارے علوم ہیں جو اس کرہ ارض میں موجود ہیں۔ یہ کتاب مقدس علم اور ٹیکنالوجی کا وہ سمندر ہے جس میں انسان کو علم و فہم اور راہ راست پر رہنے کے وہ تمام گُر، ہیرے موتیوں کی طرح اس کی تہہ میں اُبل رہے ہیں لیکن ہم ان کو پکڑنے کا حوصلہ ہی نہیں رکھتے۔ ہمارے صوفیا اور اولیا چونکہ حوصلہ اور طاقت رکھتے تھے، وہ بلاخطر اس سمندر میں کود پڑے اور انسان کے لئے ان ہیرے موتیوں سے ایسے کشتے تیار کئے کہ انسانوں کو روحانی طور پر شفایاب کر دیا تھا۔ وہ اور صحت مند ہو کر اچھے اچھے کام سرانجام دیتے گئے مگر افسوس ہم نے ان معالجوں کی دوائیوں کو OUT-DATED سمجھ کر الماریوں میں بند کر دیا۔ ان کی اس بے قدری پر قادر مطلق کو اتنا غصہ آیا کہ اس نے یہ معالج بھیجنا ہی بند کر دیئے اور جسم کو سہولت اور شفا دینے کے اتنے معالج بھیج دیئے کہ انسان اب صرف اپنی جسمانی بیماریوں کا علاج ڈھونڈنے میں لگ گیا ہے، روحانی بیماری کو انہوں نے بیماری کے درجے سے ہی ہٹا دیا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ہم انسانوں نے صرف جسم کی بیماری کو ہی بیماری سمجھا ہے اور اس کی شفا کیلئے اتنا آگے بڑھ کر محنت کی ہے کہ معجزوں کے قریب جا پہنچے ہیں۔ یہ بھی یقینا لازمی تھا اور انسان کو جسمانی شفا کی بھی ضرورت تھی مگر یہ کیوں نہ سوچا کہ انسان کی ساخت دو حصوں پر مشتمل ہے، جسم اور روح۔ ہم نے انسان کے صرف ایک حصہ (جسم) پر ساری محنت، ساری لگن اور ساری جستجو صرف کر دی اور دوسرے حصے کو بے یارومددگار چھوڑ دیا۔ اس حصہ (روح) کو بھی تو علاج معالجے کی ضرورت تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انسان بے توازن ہو گیا اور لنگڑا کر چلنے لگا اور یہ منطقی نتیجہ تھا۔
ہم تو خوش بخت تھے کہ ہمیں ایک ایسی کتاب عطا کی گئی تھی جس کا مصنّف خود خدا ہے، جس کا ہر نقطہ اگر کسی اور انسان کی آنکھ میں اتر آئے تو اسے زندگی بھر کسی عینک یا مصنوعی لینز کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ ایسی مکمل اور مفصل تدریسی کتاب ہے جو زمان و مکان کا تمام علم اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ اس میں ہے کہ خدا نے انسان کو عقل اور تمیز دی اور اپنی قدرت کے ایسے آثار دکھلائے کہ انسان کی نافرمانی کی کوئی حجت باقی نہیں رہتی۔ اس میں طرز حیات اور طرز حکومت کی اتنی خوبصورت اور سہل تجاویز ہیں کہ اس کو سمجھ کر پڑھنے کے بعد انسان مسرور و شاداں ہو جاتا ہے۔ یہ ایک خوبصورت جہان میں لے جاتی ہے جہاں پہنچ کر انسان حیران ہو جاتا ہے۔ اس میں اپنی امنگوں کو بیدار رکھنے کی باتیں ہیں۔ اس میں خوشبوؤں اور خوبصورتی کی باتیں ہیں۔ اس میں اپنے ارتقا اور ترقی کیلئے خوشی خوشی کام کرنے کی تلقین ہے۔یہ کتاب کہتی ہے انسان کو ہم نے اشرف المخلوقات بنا کر ایسی طاقت اور توانائی بخش دی ہے اور اس میں ایسے معجزات سے نواز دیا ہے جو اس کی طاقت اور اختیار کا واضح ثبوت ہے۔ وہ کتاب حکیم کہتی ہے انسان کو ہم نے کیسی طاقت عطا کر دی۔ جب میرے پیغمبرؐ نے اپنی ایک نازک انگلی سے ایک طاقتور سیارے چاند کو دو نیم کر دیا یا میرے ایک بندے (موسیٰؑ) نے اپنے دشمن سے بچنے کیلئے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے بے قابو اور خودسر سمندر کو اپنی لکڑی کی ایک معمولی سوٹی سے اپنا راستہ بنانے کیلئے دو پاٹ کرکے اپنے نکلنے کا راستہ بنا لیا، یا جب میرے ایک اور بندے (حضرت عیسیٰ) نے ایک ماں کو اپنے بچے کی موت پر غم سے نڈھال چیختے دیکھا تو ایک ہاتھ پھیر کر اسے زندہ کر دیا۔ کیا آپ سب انسانوں کے لئے اپنی طاقت و توانائی کے یہ اظہار کافی نہیں؟ یا اب تمہاری جسمانی سہولت اور شفا کیلئے عام انسانوں (سائنس دانوں) کو یہ طاقت عطا نہیں کر دی کہ وہ معجزے کے قریب جا پہنچے ہیں۔ میرا ایک شعر ہے۔
پاؤں رکھ کر حسین چاند تم
خود اندھیرے میں ڈوب جاتے ہو
ایک فرانسیسی مصنف کہتا ہے ”ایک انسان (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اتنا علم کیسے اکٹھا رکھ دیا گیا کہ وہ بیک وقت سائنس دان، ماہر نفسیات، باخبر استاد اور اعلیٰ ترین فوجی کمانڈر ہو۔ فوج سے متعلق اس کی حکمت عملی اور معاملات اب بھی مروج اور تازہ ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ ہم نے اس تدریسی کتاب (قرآن حکیم) کو اتنا مشکل اور ناقابل فہم بنا دیا ہے کہ ہماری نئی نسل اسے مشکل سمجھ کر اس سے جان چھڑاتی ہے اور بیزار ہے۔ اس کو چند احکامات تک محدود کر دیا گیا ہے جس سے انسان اسے پابندیاں سمجھ کر الگ ہو گیا ہے۔ حضور اکرمؐ نے فرمایا تھا میری شریعت کو میرے بعد اتنا مشکل نہ بنا دینا کہ لوگ اسے شوق اور خوشگواری سے نہ اپنائیں بلکہ مجبوری سمجھ کر بیزار ہو جائیں۔ حضور اکرمؐ بار بار کہتے ہیں، کسی معاملے میں انتہاپسندی نہ اپناؤں، اپنے اندر پاک اور پاکیزہ خواہشات بیدار رکھو یہ تمہیں آگے بڑھاتی ہیں اور سکون مہیا کرتی ہے۔ احساس لذت تمہارا بشری حق ہے، اخلاق کے دائرے میں رہ کر تم ضرور لطف اٹھاؤ۔ اچھے کو اچھا اور برے کو برا سمجھنا کیونکہ اس سے حُسن و قبیح کا منطقی ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ہم قرآن حکیم کی ہر تاویل کو الٹا کرکے پڑھتے ہیں جیسے اس کتاب میں کہا گیا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا کہا جائے گا۔ فتنہ پروری جو کشت و خون سے بڑھ کر ہے، عام ہو جائے گی، لوگ دنیا کی خاطر دین کو بیچ دیں گے اور مالداروں کی تعظیم کی جائے گی۔ خواتین کی پردہ داری ختم ہو جائے گی اور زنا محصنہ جس میں مرد عورت دونوں کی رضا شامل ہوتی ہے، رواج بن جائے گا اور یہ وقت وارد ہو چکا ہے۔
حاکم کے لئے بہت ہی معنی خیز دُوررس اور موقر ترین ہدایات ہیں۔ حکومت میں ایسے لوگ لائے جائیں جو اختیار اور انصاف کو امانت سمجھیں۔ حاکم طاقتور ہونے کے باوجود اپنے آپ کو کمزور سمجھے۔ اسے چاہئے کہ وہ حکومت سے وابستہ ہونے کے بعد خدا سے وابستہ ہو جائے اور یہ یقین رکھے کہ اچھی منصفانہ حکومت میں غیب کی امداد شامل ہوتی ہے اور اس کی حکومت سے وابستہ تمام مشکلات دور ہو جاتی ہیں۔ حاکم کا منصف ہونا، اس کی حکومت کا سب سے پہلا جزو ہے۔ وہ جب کوئی مقدمہ سنے تو ظالم اور مظلوم دونوں کے ساتھ اپنا رویہ متوازن رکھے۔ ظالم کے ساتھ لہجہ درشت رکھے، نہ مظلوم کے ساتھ نرم رویہ ظاہر کرے۔ کسی بھی مقدمے میں مطلوب حاکم اپنے آپ کو انصاف کے کٹہرے میں عام آدمی کی طرح کھڑا کرے۔ نور الّدین زنگی اپنے دور حکومت میں ہر وقت ایک قاضی اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ اگر اس سے کوئی زیادتی ہوتی تو وہ کسی ساتھ کی مسجد میں قاضی کو منبر پر کھڑا کرتا اور اس کے سامنے سر جھکا کر کھڑا ہو جاتا اور اسے کہتا کہ اسے اسی وقت سزا سنائی جائے۔ اس طرح جنگ کے بارے میں کتاب مقدس کہتی ہے اگر جنگ کرو تو جھوٹ اور بے انصافی کی خاطر لڑو، اپنے مفادات کیلئے کسی ملک یا قبیلے کے ساتھ جنگ نہ کرو۔ مدمقابل کیلئے اپنے دل میں نفرت یا کینہ نہ رکھو کیونکہ یہ احساسات قادر مطلق کو پسند نہیں۔ اس لئے تم شکست سے دوچار ہو سکتے ہو۔ اپنے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر وقت تیار اور چوکنا رہو۔ اگر طاقت اور اسباب میں زیادہ بھی ہو تو اپنے آپ اور اپنے ساتھیوں کو کمزور سمجھو۔ یہی احساس تمہیں طاقت دے گا۔
مَیں کوئی کریڈٹ نہیں لینا چاہتی لیکن کچھ ماہ قبل مَیں نے اپنے ایک اردو کالم میں کچھ ایسے ہی نسخے حاضر کئے تھے۔ (خبریں (22-5-2021) اور آخر میں عرض کیا تھا کہ قرآن کا تدریسی علم لوگوں کو Deliver کرنے کے لئے اساتذہ لے آئیں۔ کندھے پر روایتی رومال رکھے ہوئے تندرست مگر حکومت اور اختیار کے بھوکے علما کے پاس صرف شریعت کی کتاب ہے جو صرف پہلی کلاس میں پڑھائی جا سکتی ہے۔ علم کے لئے تو بہت سی اگلی کلاسوں کیلئے بھاری نصاب موجود ہے۔
(کالم نگارانگریزی اوراردواخبارات میں لکھتی ہیں)
٭……٭……٭