امریکہ کا پھر ڈومور پاکستان تمام اتنہاپسندوں کیخلاف کارروائی کرے:امریکی وزارت خارجہ

واشنگٹن(سپیشل رپورٹر سے) امریکی محکمہ خارجہ میں ڈپٹی سیکرٹری وینڈی شرمن نے کہاہے کہ پاکستان کو تمام انتہا پسند گروپوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔میڈیارپورٹس کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ میں ڈپٹی سیکرٹری وینڈی شرمن نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ ہم دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے ساتھ ایک مضبوط شراکت داری کے خواہاں ہیں اور ہم تمام عسکریت پسندوں اور دہشت گرد گروہوں کے خلاف بلا امتیاز تسلسل کے ساتھ کارروائی کی توقع کرتے ہیں۔اس موقع پر امریکی ڈپٹی سیکرٹری نے پاکستان کے اس موقف کا بھی اعتراف کیا کہ دہشت گردی سے پاکستان کا بھی کافی نقصان ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ ہمارے دونوں ممالک دہشت گردی کی لعنت سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور ہم تمام علاقائی اور بین الاقوامی دہشت گردی کے خطرات کے خاتمے کے لیے تعاون کی کوششوں کے منتظر ہیں۔ انہوں نے افغانستان میں ایک شمولیتی حکومت کے قیام کے لیے پاکستانی حکومت کی جانب سے ہونے والی کوششوں کی تعریف بھی کی۔ ان کا کہنا تھاکہ ہم پاکستان کی طرف پر امید نظروں سے دیکھتے ہیں کہ وہ اسے با معنی بنانے کے لیے اہم اور فعال کردار ادا کرے۔امریکی نائب وزیر خارجہ نے ایک بار پھر پاکستان پر تمام عسکریت پسند اور دہشت گرد گروپس کے خلاف بلا تفریق کارروائی پر زور دیا ہے،امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شیرمن نے ایک بیان میں کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف مضبوط شراکت قائم کرنا چاہتے ہیں تاہم امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان تمام عسکریت پسند اور دہشت گرد گروپوں کے خلاف بلا تفریق دیرپا کارروائی کرے، امریکا اور پاکستان دونوں دہشت گردی سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں لہذا ہم تمام قسم کی عالمی اور علاقائی دہشت گردی کے خطرات کو ختم کرنے کے لیے تعاون کرنا چاہتے ہیں۔

 

پنڈورا پیپرز سے وزیراعظم عمران خان کلیئر

نیو یارک(مانیٹرنگ ڈیسک)نامور شخصیات کے مالی امور کی بڑی بین الاقوامی تحقیق پنڈورا پیپرز کے نام سے مکمل ہوگئی۔ نامور شخصیات کے مالی امور کی تحقیق میں دنیا بھر کے 600 سے زائد رپورٹرز نے حصہ لیا، اس میں دنیا بھر کے 117 ملکوں کے 150 میڈیا ادارے شریک تھے۔ بین الاقوامی تحقیق پنڈورا پیپرز ایک کروڑ 19 لاکھ فائلوں پر مشتمل ہیں۔ اعداد و شمار کو جمع کرنے اور تعاون کرنے کے حساب سے پنڈورا پیپرز پاناما پیپرز سے زیادہ بڑے ہیں جبکہ دنیا کی صحافتی تاریخ میں کسی تحقیق پر کام کرنے والی یہ سب سے بڑی صحافتی ٹیم ہے۔ پنڈورا پیپرز کی تحقیق پر دنیا بھر کے 600 سے زائد رپورٹرز نے دو سال تک کام کیا۔ تفصیلات کے مطابق عالمی دنیا میں ہلچل مچانے والے پانامہ پیپرز کی طرز پر ایک اور عالمی سکینڈل سامنے آنے والا ہے۔ آئی سی آئی جے اتوار کی رات گیارہ اعشاریہ 9 ملین دستاویزات کرے گی۔ ایک عالمی تحقیقات جو 2016 کے پاناما پیپرزکو بھی پیچھے چھوڑدے گی۔ آئی سی آئی جے کے مطابق پنڈورا پیپرز کے نام سے پروجیکٹ میں 117 ممالک کی اہم شخصیات کی مالی تفصیلات شامل ہیں۔ پنڈورا پیپرز میں کئی پاکستانی شخصیات کی مالی تفصیلات بھی شامل ہیں۔ وزیراعظم کے لاہورکے گھر سے ملتے جلتے ایڈریس پر 2 آف شورکمپنیوں کا انکشاف سامنے آیا ہے۔آف شورکمپنیز کے ڈیٹابیس میں مزید2 آف شورکمپنیوں کا انکشاف سامنے آیا، جن کے ایڈریس لاہور کے زمان پارک کے پتے پر درج ہیں۔ ہاک فیلڈ لمیٹڈ اور لاک گیٹ انویسٹمنٹ نامی کمپنیاں سی شیلز میں رجسٹرڈ ہیں، جن کا ایڈریس وزیراعظم عمران خان کی لاہور میں موجود رہائش گاہ زمان پارک کا ہے۔اطلاعات کے مطابق یہ دونوں آف شورکمپنیاں فریدالدین اور اس کے دوست کے نام پر درج ہیں، جب اس حوالے سے مزید معلومات حاصل کی گئیں تو معلوم ہوا کہ کمپنیوں کا ایڈریس وزیراعظم کے گھر کے پتے سے ملتا جلتا ہے۔ لاک گیٹ انویسٹمنٹ نامی آف شور کمپنی فریدالدین جبکہ ہاک فیلڈ لمیٹڈ نامی کمپنی فریدالدین کے دوست کے نام پر درج ہے۔ آف شور کمپنی کا مالک فریدالدین زمان پارک کا رہائشی ہے اور وزیراعظم عمران خان کے گھر سے ملتے جلتے ایڈریس پر رہائش پذیر ہے۔کمپنی اور عمران خان کے گھر کے پتے میں یکسانیت ضرور ہے لیکن وزیراعظم عمران خان کا کمپنیوں سے تعلق نہیں ہے۔ زمان ٹاؤن میں ایک جیسے نمبر کے دو مکانات موجود ہیں، جن میں سے ایک میں آف شور کمپنی کا مالک فرید الدین رہائش پذیر ہے۔ آف شورکمپنیوں کے مالک فریدالدین نے بتایا کہ لاک گیٹ نامی آف شورکمپنی 2008 ء میں بنائی تھی جبکہ ہاک فیلڈ لمیٹڈ نامی کمپنی دوست کے نام پر بنائی۔ انہوں نے بتایا کہ میرا اور عمران خان کا برکی برادری سے تعلق ہے اور ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں، عمران خان سے وزیراعظم بننے کے بعد ملاقات نہیں ہوئی، آف شورکمپنی میری ہے اور اس کا وزیراعظم عمران خان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ زمان پارک میں 3 گھر ایسے ہیں جن کا ایڈریس ایک ہی ہے، لاک گیٹ انویسٹمنٹ نامی آف شورکمپنی میری تھی۔ یاد رہے کہ پاکستان کے پاس آف شورکمپنیاں رکھنے والے کئی پاکستانیوں کا ریکارڈ موجود ہے، جن پر قومی احتساب بیورو نیب تحقیقات کررہا ہے۔ واضح رہے کہ پانامہ لیکس کی طرز پر عالمی صحافتی ادارہ آئی سی آئی جے کی جانب سے ایک نئی رپورٹ جلد شائع ہونے جارہی ہے، جس میں دنیا بھر کی مختلف شخصیات کے نام ہیں، پاکستان میں عالمی ادارے کے ساتھ کام کرنے والے صحافیوں نے دعویٰ کیا کہ کئی پاکستانی شخصیات کے نام بھی ہیں۔

 

قومی اسمبلی: پٹرول کی قیمت میں اضافہ پر ہنگامہ‘ چور چور‘ گو گو کے نعرے

اسلام آباد (سپیشل رپورٹر)قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو مسترد کرتے ہوئے شدید احتجاج کیا اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ اپوزیشن ارکان نے اسپیکر ڈائس کا گھیراﺅ کیا اورپلے کارڈز اٹھا کر شدید نعرے بازی کی، پلے کارڈز پر پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ واپس لینے کا مطالبہ اور پیٹرول مہنگا وزیراعظم چور کے الفاظ بھی درج تھے، اپوزیشن ارکان کی جانب سے” گو عمران گو” اور” گلی گلی میں شور ہے عمران خان چور ہے “کے نعرے بھی لگائے گئے۔اپوزیشن رہنما خواجہ آصف اور شازیہ مری نے کہا کہ آج پھر پیٹرول کا بم چلا دیا گیا ،غریب عوام کا کیا بنے گا،پاکستان کی عوام پر رحم کریں،وزراءغیر حاضر ہیں اگر اس ایوان میں عوام کے مثال پر بحث نہیں ہو گی تو کیا بحث ہو گی؟حکومت بتا دے کہ وہ گینگ کب پکڑیں گے جو روز پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر رہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنماﺅں شازیہ مری اور ڈاکٹر مہرین رزاق بھٹو نے ضمنی سوال کا موقع نہ ملنے پر حکومت کو کھری کھری سنا دیں جبکہ حکومت کی جانب سے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق اپوزیشن کے نعروں کے جواب میں اکیلی نعرے لگاتی رہیں،اپوزیشن ارکان نے ایوان سے واک آﺅٹ کر دیا اور کورم کم ہونے کی نشاندہی پر ڈپٹی اسپیکر نے گنتی کی بجائے اجلاس کی کارروائی غیر معینہ مدت کےلئے ملتوی کردی۔جمعہ کو قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری کی صدارت میں ہوا،وقفہ سوالات کے دوران اپوزیشن کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر شدید احتجاج ریکارڈ کرایا گیا، اپوزیشن ارکان نے پلے کاررڈز اٹھا رہے تھے جن پر پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ واپس لینے کا مطالبہ درج کیاگیا تھا، جبکہ پلے کارڈ پر پیٹرول مہنگا وزیراعظم چور کے الفاظ بھی درج تھے، اپوزیشن ارکان نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف نعرے بازی بھی کی،اپوزیشن ارکان نے پیٹرول کی قیمت میں اضافہ نامنظور،گو عمران گو،گلی گلی میں شور ہے عمران خان چور ہے کے نعرے لگائے گئے، مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف نے کہا کہ آج پھر پیٹرول کا بم چلا دیا گیا ہے اس عوام کا کیا بنے گا،پاکستان کی عوام پر رحم کریں، پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے ضمنی سوال کرنے کا موقع ملنے پر کہا کہ وزیر یا پارلیمانی سیکرٹری بتادیں کہ وہ آپ گینگ کب پکڑیں گے جو روز پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر رہا ہے، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما ڈاکٹر مہرین رزاق بھٹو نے ضمنی سوال کا موقع ملنے پر کہا کہ وزیراعظم نے پیٹرول کی قیمتیں بڑھائی ہیں،بعد ازاں خواجہ آصف نے دوبارہ بات کرتے ہوئے کہا کہ وقفہ سوالات جاری ہے کوئی یہاں پر وزیرنہیں ہے،یہاں وزرا کو موجود ہونا چاہیے، مہنگائی اور پیٹرول کی قیمتیں جو آج بڑھی ہیں اگر اس ایوان نے اس پر بحث نہیں کرنی تو کیا بحث کرنی ہے؟ ہم اس سیشن کا بائیکاٹ کرتے ہیں،ڈپٹی اسپیکر نے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان کو بات کرنے کا موقع دیا، اس موقع پر اپوزیشن نے ایوان سے واک آﺅٹ کردیا اور بعض اپوزیشن ارکان کورم کی نشاندہی کرتے رہے، جبکہ ڈپٹی اسپیکر نے ایوان کی کارروائی غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دی۔رکن اسمبلی نفیسہ خٹک کے سوال کے تحریری جواب میں وزارت داخلہ نے ایوان کو بتایاکہ سائبر کرائم ونگ ایف آئی اے کے لئے مختلف کیڈرزکی کل 1107آسامیوں کی منظوری کے لئے کیس اٹھایا ہے جو اس وقت فنانس ڈویژن کے پاس زیر التوا ہے۔رکن اسمبلی ڈاکٹر مہرین رزاق بھٹو کے سوال کے تحریری جواب میں وزارت داخلہ نے ایوان کو بتایا کہ سی ڈی اے کی جانب سے 2022کی پہلی سہ ماہی میں نیواسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ تک میٹرو بس سروس کو فعال کر دیا جائے گا۔رکن اسمبلی برجیس طاہر کے سوال کے تحریری جواب میں وزارت برائے سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل نے ایوان کو بتایا کہ قطر میں فیفا ورلڈ کپ 2022کے لئے درکار کارکنان پر غور کرتے ہوئے امیر قطر نے 2015میں پاکستانی کارکنان کے لئے ایک لاکھ روزگار کا اعلان کیا،2015سے جولائی 2021تک روزگار کےلئے قطر جانے والے 95286پاکستانی کارکنان رجسٹرڈ ہوئے ہیں، قطر میں روزگار کے جاری رحجان کے پیش نظر، توقع ہے کہ روزگار کے لیئے قطر بھیجے جانے والے ایک لاکھ پاکستانی کارکنان کا ہدف آئندہ دو تین ماہ میں حاصل کر لیا جائے گا۔رکن اسمبلی نصیبہ چنا کے سوال کے تحریری جواب میں وزارت بین الصوبائی رابطہ نے ایوان کو بتایا کہ پی ایس ایل 2021کے انعقاد پر عائد غیر آڈٹ شدہ اخراجات کا کل تخمینہ 1.7ارب روپے ہے۔رکن اسمبلی مولاناعبدالاکبر چترالی کے سوال کے تحریری جواب میں وزارت داخلہ نے ایوان کو بتایا کہ کسی بھی ریٹائرڈ شخص کو نادرا میں بغیر اشتہار کے بھرتی نہیں کیا گیا۔

پاکستان کے سعودیہ کے ساتھ ماہانہ 15 کروڑ ڈالر ادھار تیل کے معاملات طے

اسلام آباد (نامہ نگار خصوصی) وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ موخر ادائیگی پر تیل کے حصول کے معاملات طے پا گئے،سعودی عرب پاکستان کو ماہانہ 15 کروڑ ڈالر کی سہولت دے گا، سعودی عرب دو سال میں پاکستان کو 3 ارب 60 کروڑ ڈالر فراہم کرے گا،ٹریک اینڈ ٹریس نظام کے ذریعے انفرادی مداخلت کو ختم کرنا ہے،تھرڈ پارٹی آڈٹ کے ذریعے ٹیکس مسائل کو حل کیا جائے گا، ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے ذریعے ٹیکس چوری کرنے والوں کو پکڑنے میں آسانی ہوگی، اگر ہمارے محصولات کم ہوں گے تو عوام کی فلاح کے منصوبوں پر خرچ کچھ نہیں ہوگا۔میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے شوکت ترین نے کہاکہ سعودی عرب کے ساتھ موخر ادائیگی پر تیل کے حصول کے معاملات طے پا گئے، سعودی عرب پاکستان کو ماہانہ 15 کروڑ ڈالر کی سہولت دے گا، سعودی عرب دو سال میں پاکستان کو 3 ارب 60 کروڑ ڈالر فراہم کرے گا، یہ رقم تیل کی خریداری کیلئے استعمال کی جائے گی۔ قبل ازیں وزیر خزانہ شوکت ترین نے پی ٹی سی میں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے افتتاح کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان ٹوبیکو کمپنی پاکستان کی مایہ ناز کمپنیوں میں شامل ہے، ہمارا ٹیکس بلحاظ 2008 سے 2021 تک جی ڈی پی 8 سے 10 فیصد رہا، ٹیکس بلحاظ جی ڈی پی کو 20 فیصد تک لیجانا ہوگا۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کو ٹیکس محصولات میں اضافہ کرکے شرح نمو کو 8 فیصد پر لیجانا ہے، ٹیکس محصولات جمع کرنے کیلئے اب جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیا جارہا ہے، ٹیکس بیس کو بڑھانے کیلئے اور ریٹیلرز اور سپلائی چین سے ٹیکنالوجی کے ذریعے ٹیکس وصول کرنا ہے۔ انہوںنے کہاکہ ٹریک اینڈ ٹریس نظام کے ذریعے انفرادی مداخلت کو ختم کرنا ہے،تھرڈ پارٹی آڈٹ کے ذریعے ٹیکس مسائل کو حل کیا جائے گا، ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے ذریعے ٹیکس چوری کرنے والوں کو پکڑنے میں آسانی ہوگی ۔انہوںنے کہاکہ وزیر اعظم نےٹریک اینڈ ٹریس نظام کی تنصیب پر ایف بی آر پی ٹی سی کی تحسین کی ہے،وہ اپنے ٹویٹ کے ذریعے اس کا اظہار بھی کریں گے،پاکستان میں تمباکو میں 70 ارب روپے کا ٹیکس چوری ہوتا ہے، اگر ہمارے محصولات کم ہوں گے تو عوام کی فلاح کے منصوبوں پر خرچ کچھ نہیں ہوگا۔وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ حکومت غذائی اشیاءکی قیمتوں میں کمی کیلئے ذخائر قائم کر رہی ہے ،غریب طبقے کو اس ماہ سے کھانے پینے کی اشیاءپر براہِ راست سبسڈی دیں گے،پاکستان میں پٹرول خطے کے تمام ممالک میں سستا ہے،پٹرولیم لیوی 2018 میں 30 روپے لیٹر تھی جو اب دو ڈھائی روپے ہے ،بجٹ میں لیوی کا ہدف رکھنے کے باوجود لیوی اکھٹی نہیں کی جا رہی ہے ،کورونا کی وجہ سے پوری دنیا میں مہنگائی ہوئی ہے، برطانیہ میں فوڈ انفلیشن 31 فیصد پر پہنچ گئی ہے پاکستان خوراک کا امپورٹر ملک ہے ،اس لیئے مہنگائی کا اثر زیادہ ہےہم زراعت کی پیداوار بڑھا رہے ہیں،کوشش ہو گی ملک بھر میں چینی 90 روپے میں فروخت کی جائے ،چند روز میں گھی کی قیمت 3 سو روپے فی کلو سے نیچے آ جائےگی۔ وزیر مملکت برائے فرخ حبیب کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے ایک مرتبہ پھر دہرایا کہ پاکستان کی معیشت ترقی کرنا شروع ہوگئی ہے جس کے اثرات ریونیو پر آرہے ہیں، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے اس وقت 3 ماہ کے عرصے میں اپنے ہدف سے 185-190 ارب روپے زیادہ اکٹھا کیے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ پہلے کبھی بھی نہیں ہوا تھا کہ ایف بی آر اپنے ہدف سے آگے ہو لیکن اس وقت گزشتہ سال کے مقابلے ہم 38 سے 40 فیصد آگے ہیں، اگر ریونیو آرہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ معیشت ترقی کررہی ہے۔انہوںنے کہاکہ معیشت کی نمو کا فائدہ نچلے طبقے تک پہنچے گا تاہم اس میں وقت لگے گا اس لیے وزیراعظم کی ہدایت پر ہم کامیاب پاکستان کا پروگرام شروع کرنے والے ہیں جس میں تھوڑی تاخیر ہوگئی۔انہوں نے بتایا کہ اس پروگرام کے تحت 40 سے 60 لاکھ زرعی خاندانوں کو ہر فصل کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے دیے جائیں گے اور ہر سال 2 لاکھ روپے انہیں آلات مثلاً ٹریکٹر، تھریشر وغیرہ کے لیے دیے جائیں گے اور شہری گھرانوں کو 5 لاکھ روپے کاروبار کے لیے دیے جائیں جو بلا سود ہے۔انہوں نے کہا کہ عام طور پر کہا جارہا ہے کہ قیمتیں بڑھ گئی ہیں، مہنگائی ہوگئی ہے، حالانکہ کورونا وائرس بحران کی وجہ سے دنیا بھر میں قیمتوں پر اثر پڑا ہے، امریکا میں جہاں ایک سے ڈیڑھ فیصد مہنگائی ہوتی تھی اب ساڑھے 8 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس بحران نے ہمیں بھی متاثر کیا ہے بین الاقوامی سطح پر قیمتیں گزشتہ 10 سے 12 سال کی بلند ترین سطح پر موجود ہیں جس کا ہم پر اس لیے اثر پڑا ہے کہ ہم اشیائے خورو نوش درآمد کرنے کا والا ملک بن گئے۔انہوں نے کہا کہ ہم خوراک درآمد کرنے والا ملک 3 سال میں نہیں بنے بلکہ شعبہ زراعت میں 30 برس کی کوتاہیاں ہیں جس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں لیکن موجودہ حکومت اس کا سدِ باب چاہتی ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اس مقصد کے لیے حکومت پیداوار بڑھانے کے لیے زراعت میں پیسہ لگا رہی ہے تا کہ مقامی سطح پر پیدا ہونے والی اشیا استعمال کرسکیں اور دیگر ممالک کو پیسے دینے کے بجائے اپنے کاشت کاروں کو دیں۔ انہوںنے کہاکہ پورے ملک کے عوام کو ریلیف دینے کے لیے روز مرہ استعمال کی اشیا مثلاً گندم اور چینی کی قیمتوں کو قابو کرنے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ گھی کے لیے پام آئل کی درآمد پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ دے دی ہے۔ انہوںنے کہاکہ ایک کروڑ 20 لاکھ غریب ترین گھرانوں کو اکتوبر سے اشیائے خورونوش پر براہ راست سبسڈی دی جائے گی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمارا مڈل مین یا آڑھتی بہت منافع کماتا ہے، ضلعی انتظامیہ میں خامیاں ہیں، پہلے پرائس مجیسٹریٹ ہوتے تھے جو اب نہیں ہیں تو لوگ من مانی قیمت لیتے ہیں اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ دوبارہ پرائس مجسٹریٹ مقرر کیے جائیں۔انہوں نے کہا کہ کاشت کار سے لے کر ہول سیلر تک کی قیمتوں میں 4 سے 500 فیصد کا منافع ہے جو نہیں ہونا چاہیے۔فرخ حبیب نے کہاکہ ہم نے اپنی انتظامیہ کو مہنگائی لے خلاف ایکشن لینے کی ہدایات کی ہیں،سندھ کے گداموں میں گندم موجود ہے لیکن ریلیز نہیں کی جا رہی۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان زراعت سے خوراک تک کا سفر کر رہا ہے،پاکستان کی لاکھوں ایکڑ زمین پر کاشت نہیں کی جا رہی،پاکستان میں زیتون کی کاشت کو مزید بڑھایا جا رہا ہے،آئندہ 6 سالوں میں نئے ڈیمز بنائے جائیں گے،حکومت نے کشش کی ہے کہ عوام پر قیمتوں کا کم سے کم بوجھ ڈالا جائے۔ انہوںنے کہاکہ اسحاق ڈالر پیٹرول پر 17 فیصد سیلز ٹیکس لیتے تھے، ہم پیٹرول پر سیلز ٹیکس کم کر کے 6.8 فیصد پر لے آئے،ہم کوشش کر رہے ہیں لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لائیں،عوام کو ریلیف دینے کیلئے حکومت کوشاں ہے۔

امریکہ کو پاکستانی فضائی حدود کی اجازت کا فیصلہ کابینہ کریگی: شاہ محمود قریشی

اسلام آباد (سپیشل رپورٹر) وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے افغانستان میں القاعدہ کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کےلیے امریکا کو پاکستانی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دینے پر بات چیت کی تصدیق کردی۔پاکستان اور ڈنمارک کے مابین وفود کی سطح پر مذاکرات کا انعقاد کیا گیا، اس حوالے سے ڈینش وزیر خارجہ یپے کوفو اپنے وفد کے ہمراہ وزارت خارجہ پہنچے، جب کہ پاکستانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کی، مذاکرات میں دو طرفہ تعلقات، افغانستان کی بدلتی صورتحال سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان ڈنمارک کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے، جی ایس پی پلس اسٹیس کے حوالے سے ہم پاکستان کی معاونت پر ہم ڈنمارک کے شکر گزار ہیں، کاروبار میں آسائشیں کے حوالے سے پاکستان کی عالمی درجہ بندی میں بہتری آئی ہے، ڈینش کمپنیاں، پاکستان میں سرمایہ کاری کے زریعے ان مراعات سے استفادہ کرسکتی ہیں۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ عالمی برادری افغانستان میں، پاکستان کی طرح اجتماعیت کی حامل حکومت کی متمنی ہے، افغانستان میں جنم لیتے انسانی و معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے عالمی برادری افغانوں کی معاونت کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے،اقتصادی بحران سے دہشت گرد گروہوں کو افغانستان میں قدم جمانے کا موقع ملے گا، ہمیں افغانستان کے حوالے سے اسپاییلرز کی موجودگی اور عزائم سے باخبر رہنا ہو گا، ہم بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے بہت سی پر کشش مراعات دے رہے ہیں، کاروبار میں آسائشیں کے حوالے سے پاکستان کی عالمی درجہ بندی میں بہتری آئی ہے، ڈینش کمپنیاں، پاکستان میں سرمایہ کاری کے زریعے ان مراعات سے استفادہ کر سکتی ہیں۔ جمعہ کو یہاں ڈنمارک کے وزیر خارجہ یپے کوفووفد کے ہمراہ وزارت خارجہ پہنچے تو وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے خیر مقدم کیا،ڈینش وزیر خارجہ نے وزارتِ خارجہ کے سبزہ زار میں یادگاری پودا لگایا۔ بعد ازاں وزارتِ خارجہ میں پاکستان اور ڈنمارک کے درمیان وفود کی سطح پر مذاکرات ہوئے ۔پاکستانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی جبکہ ڈینش وفد کی قیادت ڈنمارک کے وزیرخارجہ یپے کوفو نے کی،مذاکرات میں دو طرفہ تعلقات، افغانستان کی ابھرتی ہوئی صورتحال سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔وزیر خارجہ نے معزز مہمان کو وزارت خارجہ آمد پر خوش آمدید کہا ۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ پاکستان، ڈنمارک کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے، گذشتہ کچھ عرصے میں پاکستان اور ڈنمارک کے درمیان دو طرفہ تعلقات وسعت پذیر ہوئے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد ڈنمارک میں مقیم ہے جو دونوں ممالک کے مابین دوطرفہ تعلقات کے استحکام کا باعث ہے، جی ایس پی پلس اسٹیس کے حوالے سے ہم پاکستان کی معاونت پر ہم ڈنمارک کے شکر گزار ہیں۔ وزیر خارجہ نے کہاکہ ہم بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے بہت سی پر کشش مراعات دے رہے ہیں، کاروبار میں آسائشیں کے حوالے سے پاکستان کی عالمی درجہ بندی میں بہتری آئی ہے، ڈینش کمپنیاں، پاکستان میں سرمایہ کاری کے زریعے ان مراعات سے استفادہ کر سکتی ہیں۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان اور ڈنمارک کے درمیان قابل تجدید توانائی اور موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے دو طرفہ تعاون کا فروغ قابل ستائش ہے، دونوں ممالک کی پارلیمان میں پاکستان اور ڈنمارک پارلیمانی فرینڈشپ گروپس کی موجودگی، پارلیمانی روابط کے فروغ کا باعث ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہمارا قبل ازیں ٹیلیفونک رابطہ رہا، جرمنی، نیدرلینڈز، برطانیہ ،اٹلی، اور اسپین کے وزرائے خارجہ پاکستان تشریف لائے اور ان کے ساتھ افغانستان کی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ انہوںنے کہاکہ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے مابین افغانستان کی موجودہ صورتحال اور آئندہ کے لائحہ عمل پر گفتگو ہوئی، ہم نے ایک ہزار سے زائد ڈینش شہریوں کو کابل سے محفوظ انخلاءمیں معاونت فراہم کی، نیویارک میں میری یورپی یونین کے خارجہ تعلقات اور سلامتی کے سربراہ جوزف بوریل سے بھی افغانستان کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال ہوا،نیویارک میں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے چھہترویں اجلاس کے موقع پر میری سویڈن سلوانیہ، آسٹریا، فن لینڈ، ناروے سمیت بہت سے یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ملاقات ہوئی اور مجھے ان سے گفتگو کا موقع ملا۔ انہوںنے کہاکہ مجھے خوشی ہے کہ افغانستان کے حوالے سے ہمارے نقطہ نظر میں ہم آہنگی دکھائی دی، افغانستان میں حالیہ تبدیلی کے دوران خون خرابے اور خانہ جنگی کا نہ ہونا مثبت پہلو ہیں۔ انہوںنے کہاکہ عالمی برادری افغانستان میں، پاکستان کی طرح اجتماعیت کی حامل حکومت کی متمنی ہے، انہوںنے کہاکہ مجھے افغانستان کے قریبی ہمسایہ ممالک کا دورہ کرنے اور ان سے اظہار خیال کا موقع ملا، ضرورت اس بات کی ہے کہ افغانستان میں جنم لیتے انسانی و معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے عالمی برادری افغانوں کی معاونت کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے،اقتصادی بحران سے دہشت گرد گروہوں کو افغانستان میں قدم جمانے کا موقع ملے گا، ہمیں افغانستان کے حوالے سے اسپاییلرز کی موجودگی اور عزائم سے باخبر رہنا ہو گا۔وزیر خارجہ نے پاکستان میں سیکورٹی کی صورتحال میں بہتری کے تناظر میں، ڈینش ہم منصب کے ساتھ ٹریول ایڈوائزی پر نظر ثانی کا مطالبہ کیاڈینش وزیر خارجہ نے ڈینش شہریوں کے کابل سے محفوظ انخلاءمیں معاونت پر وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی اور پاکستانی قیادت کا شکریہ ادا کیا۔بعد ازاں وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے وزارتِ خارجہ میں ڈینش وزیر خارجہ یپے کوفو کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ سب سے پہلے میں ڈینش وزیر خارجہ کو پاکستان آمد پر خوش آمدید کہتا ہوں، میرا ڈینش ہم منصب کے ساتھ تین مرتبہ افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے ٹیلیفونک رابطہ ہوا۔ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہاکہ میں نے انہیں یورپی یونین کے خارجہ تعلقات اور سلامتی کے سربراہ جوزف بوریل کے ساتھ ہونیوالی ملاقات سے بھی آگاہ کیا ،ہماری دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے بھی گفتگو کی ۔ انہوںنے کہاکہ میں نے انہیں بتایا کہ ہم قابل تجدیدِ توانائی سمیت متعدد شعبہ جات میں سرمایہ کاری کے حجم کو بڑھا سکتے ہیں، مجھے خوشی ہے کہ ڈنمارک نے توانائی تبدیلی اقدام میں پاکستان کو شامل کیا ہے۔ انہوںنے کہاکہ پارلیمانی روابط کے فروغ کے حوالے سے بھی ہمارا تبادلہ خیال ہوا ،میں نے جی ایس پی پلس اسٹیٹس کے حوالے سے پاکستان کی حمایت پر ڈنمارک کا شکریہ ادا کیا۔ انہوںنے کہاکہ میں نے فیٹف کے معاملے پر پاکستان کی طرف سے اٹھائے گئے ٹھوس اقدامات سے ڈینش وزیر خارجہ کو آگاہ کیا ۔ ڈینش وزیر خارجہ کوفو نے کہاکہ میں آپ کی میزبانی اور پر تپاک خیر مقدم پر آپ کا شکر گزار ہوں، ہم کابل سے ڈینش شہریوں کے محفوظ انخلاء میں پاکستان کی معاونت کے شکرگزار ہیں۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھاری قیمت ادا کی، ہم پاکستان کے ساتھ تجارتی، توانائی و اقتصادی تعلقات کو مزید فروغ دینے کے متمنی ہیں، ڈینش وزیر خارجہ نے کہاکہ ہمیں علم ہے پاکستان خطے کی سلامتی اور استحکام کیلئے کتنی اہمیت کا حامل ہے، مجھے پاکستان آ کر بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ڈنمارک کے وزیر خارجہ نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان طویل اور مضبوط دو طرفہ تعلقات ہیں اور وہ تجارت اور توانائی کے شعبوں میں اسے مزید مضبوط بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔کشمیر کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ڈینش وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کو بات چیت کے ذریعے مسئلے کا پر امن حل تلاش کرنا چاہیے

افغان طالبان کی مدد سے ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات ہورہے ہیں: عمران خان

اسلام آباد( نیوزایجنسیاں)وزیراعظم عمران خان نے کہاہے کہ ہماری حکومت کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی)میں شامل کچھ گروپوں سے بات چیت کر رہے ہیں، اگر وہ ہتھیارڈال دیں تو انہیں معاف کیا جا سکتا ہے۔ترک میڈیا ٹی آر ٹی کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے گروپوں سے افغانستان میں بات چیت چل رہی ہے، یہ بات چیت افغان طالبان کے تعاون سے ہو رہی ہے تاہم بات چیت کی کامیابی کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتے۔ میرے خیال میں کچھ طالبان گروپ حکومت سے مفاہمت اور امن کی خاطر بات کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ایسے کچھ گروپوں سے رابطے میں ہیں۔ٹی ٹی پی مختلف گروپس پر مشتمل ہے اور ہم ان میں سے چند کے ساتھ ہتھیار ڈالنے اور مصالحت کے حوالے سے بات چیت کر رہے ہیں ۔انٹرویو کے دوران سوال کیا کہ بات چیت ہتھیار ڈالنے پر ہو رہی ہے جس پر جواب دیتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ مفاہمتی عمل کے بارے میں ہے۔ ہتھیار ڈالنے کی صورت میں انہیں معافی دی جا سکتی ہے اور وہ عام شہری بن جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ میں معاملات کے عسکری حل کے حق میں نہیں ہوں، سیاست دان ہونے کے طور پر سیاسی مذاکرات کو ہی آگے کا راستہ سمجھتا ہوں جیسا میں نے افغانستان کے بارے میں بھی کہا تھا۔عمران خان نے کہا کہ کسی قسم کے معاہدے کے لیے پرامید ہوں تاہم ممکن ہے کہ طالبان سے بات چیت نتیجہ خیز ثابت نہ ہو لیکن ہم بات کر رہے ہیں۔انٹرویو کے دوران پوچھا گیا کیا افغان طالبان پاکستان کی مدد کر رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ اس لحاظ سے مدد ہو رہی ہے کہ یہ بات چیت افغان سرزمین پر ہو رہی ہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر ایک جانب ان کی حکومت کالعدم تحریک طالبان پاکستان( ٹی ٹی پی)سے بات چیت کر رہی ہے تو تنظیم حملے کیوں کر رہی ہے تو عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ حملوں کی ایک لہر تھی۔

اسلام آباد (نامہ نگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان نے یوتھ کونسل کے اراکین کیلئے نیک تمناوں کا اظہار کرتے کہا ہے کہ ملکی ترقی نوجوانوں کی ترقی پر منحصر ہے،پاکستان میں نوجوانوں کا تناسب ذیادہ ہونا ملک کی خوش قسمتی ہے ،کامیابی کا راستہ صرف جدوجہد کا راستہ ہے،لیڈر ہمیشہ سچا اور ایماندار ہوتا ہے، آپ بھی سچ کا راستہ اپنائیں،حکومت سنبھالی تو سخت معاشی اور اقتصادی چیلنج کا سامنا کرنا پڑا، حکومت کی پالیسیوں کی بدولت برآمدات میں 35 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ جمعہ کو وزیراعظم عمران خان سے نیشنل یوتھ کونسل میں شامل نوجوانوں کے33 رکنی وفد نے سربراہ کامیاب جوان پروگرام عثمان ڈار کی قیادت میں ملاقات کی،تمام صوبوں کے یوتھ منسٹرز بھی ملاقات میں شریک ہوئے،وزیراعظم نیشنل یوتھ کونسل کے پیٹرن ان چیف اور عثمان ڈار چیئرمین ہیں،ملاقات میں ملکی ترقی کیلئے نوجوانوان کے کردار اور حکومتی سرپرستی پر بات چیت ہوئی۔ اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے یوتھ کونسل کے اراکین کیلئے نیک تمناوں کا اظہار کرتے کہا ملک کی ترقی نوجوانوں کی ترقی پر منحصر ہے،پاکستان میں نوجوانوں کا تناسب ذیادہ ہونا ملک کی خوش قسمتی ہے،اپنے نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے یکساں مواقع دینا ترجیحات میں شامل ہے، حکومت ملک میں میرٹ کی بالادستی کو یقینی بنا رہی ہے ۔ وزیراعظم نے کہا کامیابی کا راستہ صرف جدوجہد کا راستہ ہے،لیڈر ہمیشہ سچا اور ایماندار ہوتا ہے، آپ بھی سچ کا راستہ اپنائیں،حکومت سنبھالی تو سخت معاشی اور اقتصادی چیلنج کا سامنا کرنا پڑا، اقتدار سنبھالا تو ملکی برآمدات صرف 20 ارب ڈالر تھیں۔ انہوںنے کہا حکومت کی پالیسیوں کی بدولت برآمدات میں 35 فی صد اضافہ ہوا ہے،پاکستان وسائل کی دولت سے مالامال ہے، ہمارا سب سے بڑا سرمایہ باصلاحیت افرادی قوت یعنی نوجوان ہیں۔ عثمان ڈار نے کامیاب جوان پروگرام کے تحت نوجوانوں کیلئے اٹھائے گئے اقدامات پر تفصیلی بریفنگ دی اور کہا کہ وزیراعظم کی ہدایات اور ویژن کے مطابق نوجوانوں کیلئے جامع منصوبہ بندی کی گئی، نیشنل یوتھ ڈویلپمنٹ فریم ورک 6 شعبوں پر خصوصی توجہ دینے کیلئے بنائی گئی ہے،روزگار کے مواقع اور معاشی خودمختاری فریم ورک کا سب سے اہم حصہ ہے، سماجی تحفظ اور معاشرتی اعتبار سے نظر انداز نوجوانوں کو قومی دھارے میں واپس لانا ہے،نوجوانوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ادارہ جاتی اصلاحات بھی فریم ورک کا حصہ ہیں ،کامیاب جوان پروگرام کے تحت 2023 تک نوجوانوں میں 100 ارب روپے تقسیم کئے جائیں گے، عثمان ڈار نے کہا 10 ارب روپے کی مالیتی پروگرام کے ذریعے 2 لاکھ نوجوانوں کو وظائف دئے جائیں گے،4 ارب روپے کی لاگت سے کامیاب جوان مرکز، ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام اور کھیلوں کی اکیڈمیاں بنائی جائیں گی، گرین یوتھ موومنٹ اور انوویشن لیگ پر بھی کام جاری ہے، پاکستانی نوجوان مختلف ممالک میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں، نوجوانوں کے انتخاب میں، جنسی، مذہبی، علاقائی نمائندگی کا مکمل خیال رکھا گیا ہے، 1 گھنٹے تک جاری رہنے والی طویل ملاقات میں اپنی زندگی کی کامیابیوں سے متعلق بھی بات چیت کی۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت ماڈل پناہ گاہوں کی تعمیر سے مثال قائم کررہی ہے۔جمعہ کو یہاں وزیراعظم عمران خان سے معاون خصوصی ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے ملاقات کی، اس موقع پر ایم ڈی بیت المال ملک ظہیر عباس کھوکھر بھی موجود تھے۔ملاقات میں ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے وزیراعظم کو نئی ماڈل پناہ گاہوں سے متعلق پیشرفت پر تفصیلی بریفنگ دی۔بریفنگ میں بتایا گیا کہ ہر پناہ گاہ کے لئے 4 رکنی انتظامی بورڈ بھی جلد تشکیل دیا جائے گا، آئندہ ایک ہفتے میں ہر پناہ گاہ کیلئے ڈیجیٹل مانیٹرنگ سسٹم کا اجرا کیا جائے گا۔عمران خان نے ہدایت کی کہ پناہ گاہوں میں مقیم لوگوں کی سہولیات کا خاص خیال رکھا جائے، حکومت ماڈل پناہ گاہوں کی تعمیر سے مثال قائم کررہی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پناہ گاہوں کی تعمیر میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانی حکومت کے شانہ بشانہ ہوں گے۔وزیراعظم نے کہا کہ حکومت پناہ گاہوں کے اسٹاف کو بین الاقوامی معیار کی تربیت فراہم کررہی ہے۔

تحریک طالبان پاکستان کا جنگ بندی کا اعلان

راولپنڈی (بیورو رپورٹ)کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے فائربندی کا اعلان کردیا۔کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق خیبرپختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان کے جنگجوؤ ں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان فائر بندی کردی گئی۔کالعدم تنظیم کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ مشران نے تمام جنگجوؤں کو 20 اکتوبر تک فائربند ی کا حکم دیا ہے۔اعلامیے کے مطابق ہمارے مشران کی کچھ خفیہ بات چیت چل رہی ہے۔قبل ازیں وزیراعظم پاکستان عمران خان کا ترک ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے کچھ گروپس حکومت سے بات کرنا چاہتے ہیں، ہم بھی ٹی ٹی پی کے کچھ گروپس کے ساتھ رابطے میں ہیں۔وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کالعدم ٹی ٹی پی کو غیر مسلح کرنے اور انہیں عام پاکستانی شہری بنانے کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی ن لیگ اور پی ڈی ایم کی کچی دیگ

تحسین بخاری
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو تین سال ہو چکے ہیں مگر عوام سے کیے گئے وعدوں میں سے تاحال کوئی وعدہ پورا نہیں ہو سکا۔مہنگائی پر قابو،کرپشن کا خاتمہ،ملاوٹ سے پاک اشیا اور سو دنوں کے اندر اندر سرائیکی صوبے کے قیام سمیت کوئی بھی ایسا وعدہ نہیں جس پر گورنمنٹ پورا اتری ہو۔یہ تین سال پچھلی حکومتوں کی برائیاں گنوانے میں گزاردئیے گئے جبکہ عوام اس وقت مہنگائی کے بد ترین عذاب سے گزر رہی ہے۔ اب توعوام کا سیاستدانوں پرسے اعتماد ہی اٹھ چکا ہے عوام جان چکے ہیں کہ ن کی باتوں پر یقین کرنا بے وقوفی ہے دودھ کی نہریں بہانے اور سونے کی سڑکیں بنانے کے دعوے محض اقتدار حاصل کرنے کا ایک ڈرامہ ہوتا ہے۔
اپوزیشن کی صورتحال یہ ہے کہ بالکل نظر ہی نہیں آتی۔اسٹیبلشمنٹ سے جنم لینے والی ن لیگ کو اب اسٹیبلشمنٹ ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ اسٹیبلشمنٹ جب ن لیگ کو سپورٹ کرے تو اچھی اور جب ہاتھ کھینچ لے تو بری بن جاتی ہے۔اپوزیشن سیاسی دورازے سے باہر نکلنا تو چاہتی بھی ہے مگرگرین سگنل نہ ملنے کی وجہ نکلنے کی جرا ت نہیں کر پارہی،مولانا فضل الرحمان کی دیگ میں پی ڈی ایم کا پکا یا جانیوالا پکوان ابھی آدھا بھی نہیں پک پایا تھا کہ پیپلزپارٹی دیگ کے نیچے جلنے والا ایندھن کھیچ کر بلاول ہاوئس لے گئی اب اس دن سے مولانا صاحب مسلسل دیگ میں چمچہ بھی ہلا رہے ہیں اورایندھن کی واپسی کیلئے بلاول ہاؤس کی طرف نظریں بھی جمائے بیٹھے ہیں مگر پیپلز پارٹی یہ ایندھن واپس کر کے خود کون لیگ نہیں بنانا چاہتی۔ مولانا صاحب اپنے بزرگ منہ سے ہو ا پھونک پھونک کر بجھی ہوئی آگ کو دوبارہ جلانے کی کوشش میں بے حال ہو چکے ہیں۔بلاول بھٹو زرداری نے مہنگائی اور بے روزگاری کے عذاب سے گزرنے والے پاکستانی عوام کے اضطراب کو محسوس کرتے ہوئے اگرچہ اپنے کیمپ سے باہر نکل کر سیاسی درجہ حرارت چیک کرنے کی کوشش کی ہے تاہم ان کی سرگرمیاں اپوزیشن کے تقاضوں پر پورا اترنے کے لیے بالکل ناکافی ہیں۔
بلاول کے سرائیکی بیلٹ کے دورے نے سیاسی تالاب میں جو پتھر پھینکا ہے اس سے تالاب میں پچھلے تین سالوں سے بیٹھے سیاسی مینڈکوں نے توقع کے مطابق اگرچہ اچھل کود تو نہیں کی تاہم کروٹ ضروربدلی ہے۔بلاول کا سرائیکی وسیب کا دورہ بھی خاصا دلچسپ رہا،انکے رحیم یار خان کے دورے کے دوران متحرک اورا نر جیٹک نوجوان ایم پی اے مخدوم عثمان محمود خاصے متحرک دکھائی دئیے،مخدوم عثمان محمود پنجاب اسمبلی میں اپنے خطے کی بھرپور نمائندگی کرنے کی وجہ سے نوجوانوں میں خاصے مقبول ہیں جبکہ حلقے کی غریب عوام انھیں اپنا لیڈر نہیں بلکہ دوست سمجھتے ہیں۔جمالدین والی میں ہونیوالے ورکر کنونشن میں ماحول کا جائزہ لینے کے لئے بلاول سے قبل مخدوم عثمان محمود جیسے ہی پنڈال میں پہنچے تو جیالے انہیں دیکھتے ہی دیوانہ وار انکی طرف ٹوٹ پڑے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر سردار حبیب الرحمان خان گوپانگ اپنی کرسی کسی مہمان کے حوالے کرکے پورے جلسے میں کھڑے رہے۔انتظامیہ ان کے لئے دوسری کرسی لاتی تووہ فورا ًپیچھے بیٹھے کسی مہمان کو آگے بلاتے اور کرسی ان کے حوالے کر دیتے ان کی اس اخلاقی قدر کو سیاسی مبصرین نے بے حد پسند کیا۔مخدوم ارتضیٰ سے بھی بلاول خاصی گپ شپ کرتے نظر آئے کیونکہ بلاول کو پتہ ہے کہ مخدوم ارتضیٰ اس کے والد آصف علی زرداری کا بھی لاڈلا ہے اور بلاول ہاؤس میں آصف زرداری کے ساتھ ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر اگر کوئی پورے جاہ و جلال سے سگریٹ کے بھر پور کش لگا سکتا ہے تو وہ مخدوم ارتضیٰ ہے،میاں عامر شہباز بھی بلاول کے دورے میں پیش پیش رہے ان کے ورکر کنونشن کو بلاول نے بہت پسند کیا،عامر شہباز کے ورکر کنونشن کے دوران سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور مخدوم عثمان محمود کی آپس میں مسلسل سرگوشیاں بھی عوامی توجہ کا مرکز بنی رہیں،راجہ سولنگی نے سینکڑوں جیالوں کے ساتھ بلاول کا شاندار استقبال کیا جس سے بلاول متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور گاڑی سے نیچے اتر کر اسے گلے سے لگا لیا۔صحافی برادری کی صحافتی تسکین پیپلز پارٹی کے راہنما جاوید اکبر ڈھلوں کے پروگرام میں پوری ہوئی۔جاوید اکبر ڈھلوں نے اپنے پروگرام میں تمام صحافیوں کو مدعو کر کے بلاول سے تفصیلی ملاقات کروائی بلاول بھی صحافیوں سے گھل مل گئے اور خوب گپ شپ کرتے رہے۔ صحافی برادری نے بھی جاوید اکبر ڈھلوں کی صحافیوں سے اس محبت کا قرض ان کے پروگرام کو بھر پور کوریج دے کر اتارا۔بعد ازاں بلاول پیپلز پارٹی کے ضلعی جنرل سیکریٹری چوہدری جہانذیب رشیدکے گھر بھی گئے اور پھر اپر پنجاب کے دورے کے لیے روانہ ہو گئے۔
بلاول کے دورے کے بعد سنا ہے اب ن لیگ کا سیاسی طیارہ بھی لاہور سے سرائیکی وسیب کیلیے پرواز بھرنے کیلیے تیار کھڑا ہے حمزہ شہباز کا اس دورے کا شیڈیول بھی جاری ہو چکا ہے تاہم عوام کا جو فی الحال مزاج ہے وہ سڑکوں پر نکلنے والا بالکل نہیں ہے عوام ابھی خاموش ہیں۔مولانا صاحب بھی مسلسل پی ڈی ایم کی کچی دیگ کو پکانے کیلیے دم درود کر رہے ہیں مگر اب شاید بلاول ہاؤس میں پڑا اس دیگ کا ایندھن انہیں واپس نہ مل پائے کیونکہ اس ایندھن کی واپسی اب کسی اور قوت سے مشروط ہو چکی ہے اوریہ قوت فی الحال پی ڈی ایم کی اس دیگ کو کچا ہی دیکھنا چاہتی ہے۔
(کالم نگارسیاسی و سماجی ایشوز پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

غربت‘مہنگائی کاخاتمہ۔حکومت کاعزم

طارق ملک
قارئین کرام!میں اپنے کالموں میں مسلسل غربت مہنگائی اور بے روز گاری کا ذکر کر رہا ہوں۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ہونے والی مہنگائی تو ڈالر کی قیمت میں کمی سے ہی ختم ہو سکتی ہے۔لیکن حکومت وقت ایسے اقدامات کرکے جن سے غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کو فوری فائدہ ہو سکے ریلیف فراہم کر سکتی ہے۔ پاکستان کی آبادی تقریباً 22 کروڑ ہے جب کہ لاہور کی آبادی 12600000 ہے لاہو ر میں کئے گئے اقدامات کو پورے صوبے میں بلکہ پاکستان میں نقل کیا جاتا ہے۔ کیونکہ لاہور پاکستان کا دل ہے اور پنجاب کا صوبائی دارلحکومت ہے۔ وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی نظریں لاہور پر لگی ہوتی ہیں پنجاب کی کل آبادی 11کڑور ہے جو کہ باقی تین صوبوں کی آبادی سے زیادہ ہے۔ لاہورمیں ہو شربا مہنگائی اور بے روز گاری کی وجہ سے حکومت وقت واقعی بہت پریشان ہے اور حالیہ کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشنوں میں بھی لاہور سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ لاہور میں غربت اور مہنگائی، مصنوعی مہنگائی بے روزگاری، متعدی بیمارویوں اور قدرتی آفات سے احسن طریقہ سے نبرد آزما ہونے کے لیے حکومت نے نوجوان محنتی، تجربہ کاراور قابل افسر محمد عمر شیر چٹھہ کو ڈپٹی کمشنر لاہور تعینات کیا ہے۔جوبطورڈپٹی کمشنر میانوالی اور سیالکوٹ کام کرچکے ہیں۔ ان کے اہم ٹارگٹس میں پبلک سروس ڈلیوری، غربت اور بے روز گاری میں کمی،مہنگائی اور مصنوعی مہنگائی کو کنٹرول کرنا، متعدی امراض کو بروقت کنٹرول کرنا، کرونا ویکسین سو فیصد مکمل کروانا اور ناگہانی آفات سے لاہور کے باسیوں کو محفوظ رکھنا ہے۔
اسی طرح لوگوں کی درخواستوں پر مناسب احکامات جاری کرتے ہیں۔ مہنگائی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ اورہونے والی مہنگائی ڈالر کی قیمت میں کمی سے ہی ختم ہو سکتی ہے مگر مصنوعی مہنگائی یعنی اور چارجنگ کو ختم کرنے کے لیے ضلعی حکومت نے کمر کس لی ہے۔
پرائس مجسٹریٹوں کی تعد اد 40 سے بڑھا کر 80 کر دی گئی ہے اور گراں فروشی کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جا رہا ہے۔
کریا نہ کی اشیا ء فروخت کرنے والے کافی حد تک راہ راست پر آگئے ہیں۔ لیکن فروٹ اور سبزی فروخت کرنے والے ریڑھی بان اپنی غربت کی چھتری تلے چھپ جاتے ہیں۔ ان کو بھی راہ راست پر لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
میں نے عمرشیرچٹھہ سے کہا کہ تمام دکانوں جن میں کریانہ کی دوکانیں، سبزی اور پھلوں کی دوکانیں اور دیگر اشیا خورد نوش کی دکانیں شامل ہیں پر ڈیڑھ فٹ ضرب اڑھائی فٹ کا بورڈ ہر دوکان پر نمایاں جگہ پر لگایا جائے جن پر اشیا خور د نوش کی قیمتیں درج ہوں تاکہ گاہک اس بورڈ کو پڑھ سکیں اور انہیں اشیا خورد نوش کی قیمتوں کا علم ہو سکے اس بورڈ کے پیچھے اس علاقے کے پرائس کنٹرول مجسٹریٹ کا نا م اور موبائل نمبر درج ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی دوکان دار کے پاس محکمہ کی طرف سے ریٹ لسٹ بھی ہونی چاہیے۔ تاکہ گاہک کسی قسم کا شک و شبہ دور کرنے کے لیے بورڈ کے ساتھ ریٹ لسٹ کا موازنہ کرسکیں۔
اس ضمن میں پرائس مجسٹریٹس خوامخواہ تبدیل نہ کیے جائیں اس سے ایک تو ان کے علاقہ کے عوام کی ان سے شناسائی ہو جائے گی۔ دوسرے وہ اپنے علاقہ میں مصنوعی مہنگائی / اورچارجنگ کے ذمہ دار ہوں گے۔ علاوہ ازیں اکبری منڈی میں مقررہ تھوک ریٹ پر فروخت کو یقینی بنایا جائے اگر کوئی دوکاندار کسی پرائس مجسٹریٹ کو اکبری منڈی سے مقررہ نرخوں سے زائد پر خرید کی رسید دے تو اکبری منڈی کے اس تاجر کے خلاف ڈپٹی کمشنرآفس سے سخت کارروائی کی جائے۔ اسی طرح سبزی منڈیوں اور سلاٹر ہاؤ س میں بھی سرکاری تھوک نرخ کی پابندی کروائی جائے کیونکہ اگر دوکانداروں کو اکبر ی منڈی، سبزی منڈیوں اور سلاٹر ہاؤس سے اجناس، سبزیاں، پھل اور گوشت سرکاری رتھوک ریٹ پر نہیں ملے گا تو وہ یہ چیزیں اپنی دوکان پر لاکر پرچون سرکاری ریٹ پر فروخت نہیں کرسکیں گے۔
ڈپٹی کمشنر لاہور نے میری ان گزارشات کو بڑے غور سے سنا اور ان پر عمل کرنے کا وعدہ کیا۔ لاہور میں اس وقت دس پناہ گاہیں بنائی گئی ہیں جہاں ناشتہ‘ دوپہر اوررات کاکھانا حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق دیا جاتاہے جوکہ داتا دربار، بھاٹی گیٹ، فروٹ سبزی منڈی، ریلوے ا سٹیشن، بس سٹینڈ لاری اڈا، ٹھوکر نیاز بیگ، نگہبان سنٹر، گجومتہ، کوٹ خواجہ سعید، جوہرٹاؤن اور بند روڈ پر ہیں۔ ان پناہ گاہوں میں روزانہ 718 لوگوں کے ٹھہرنے کی گنجائش موجود ہے ۔ ان پناہ گاہوں میں اب تک 355540 لوگ ٹھہر چکے ہیں۔ڈپٹی کمشنرنے مزید بتایا کہ اس کے علاوہ وزیراعظم کے پروگرام کوئی بھوکا نہ سوئے کے تحت غریب علاقوں میں ٹرکوں کے ذریعے کھانا پہنچا یا جاتا ہے اور غریب علاقوں میں فری لنگر خانے بھی قائم کیے گئے ہیں۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ملنے والی فہرستوں کے مطابق اساس پروگرام کے تحت غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کی ماہانہ مدد کی جارہی ہے یہ فہرستیں 2009 میں بنی تھیں اب انکو دوبارہ ترتیب دیا جارہا ہے تاکہ اگر کوئی مستحق رہ گیا ہے تو اس کا نام بھی شامل کیا جائے۔
حکومت کے خدمت کے جذبے اورعمرشیرچٹھہ کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ بہت جلد لاہور مصنوعی منہگائی سے پاک ہو جائے گاا ور غریبوں اور بے سہارا لوگوں کی مدد اور خدمت میں اضافہ ہو گا اور انشااللہ لاہورماضی کی طرح پنجاب بلکہ پورے پاکستان کے لیے رول ماڈل بن جائے گا۔ آمین
(کالم نگار ریٹائرایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل ہیں)
٭……٭……٭

مزاحمت ومفاہمت کے بعد گناہ وثواب کا قصہ

عارف بہار
مسلم لیگ ن کے راہنما اور پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں حمزہ شہباز نے اخبار نویسوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع درست فیصلہ تھا۔جو ملک کے وسیع تر مفاد میں کیا گیا۔اب جبکہ مدت ملازمت میں توسیع کو دوسال سے زیادہ عرصہ ہوچکا یہ بات کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟شاید اس لئے کہ چند دن قبل اسلام آباد میں ایک پریس ٹاک کے دوران ایک سوال کے جواب میں مریم نواز نے کہا تھا کہ وہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے گناہ میں شریک نہیں تھیں۔صاف اشارہ میاں شہباز شریف کی طرف تھا جو ایک مرحلے پرمیدان میں کود پڑے تھے اور اپنی پارٹی کو جنرل قمرجاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع پر آمادہ کیا تھا۔یہ کوئی خسارے کا سودا بھی نہیں تھا اس ایک فیصلے سے کئی ایک دروازے کھلتے چلے گئے تھے۔اس عرصے میں مریم نواز اس معاملے پر خاموش رہیں مگر اب انہوں نے اپنے موقف کو مزید وزن دار بنانے کے لئے گناہ وثواب کا قصہ چھیڑ کر حقیقت میں شہباز شریف پر تنقید کا راستہ اپنایا اور اسی بات کے دفاع میں حمزہ شہباز نے تبصرہ کرنا ضروری سمجھا۔مسلم لیگ ن کئی ضمنی انتخابات کے بعد کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابی نتائج میں اچھی کارکردگی کے باوجود”ہزاروں لغزشیں حائل ہیں لب تک جام آنے میں“ کے انداز میں اپنی حتمی منزل سے کوسوں دور ہے۔ہر سیاسی جماعت کی طرح وہ حتمی منزل ملک کا اقتدار ہے۔جارحانہ سیاسی انداز مزاحمت کا بیانیہ پاک ٹی ہاؤس کی محفلوں میں بہت خوش کن اور بحث کو گرم سے گرم تر کرنے کا سامان ہو سکتا ہے اور جدید دور میں سوشل میڈیا پر داد سمیٹنے کے لئے بھی اچھا خیال اور تحسین کا اچھا سامان ہے مگر اس کا کیجئے کہ پاکستان میں اقتدار کی راہیں بہت پرپیچ ہیں۔یہ ماضی میں کبھی موچی دروازے اور پا ک ٹی ہاؤس سے ہو کر گزری ہیں نہ جدید دور میں فیس بک اور ٹویٹر یا جی ٹی روڈ سے گزر تی ہیں۔یہ بھول بھلیوں کی دنیا نظروں سے اوجھل ہوتی ہے کہنے کو ان راستوں کوپنڈی کے پرانے شہر میں جانا اورسمجھا جاتا ہے۔یہ تاثر حقیقت سے قریب تر ہے۔اقتدار میں واپسی کے دو طریقے ہیں ایک ہے ایران کے امام آیت اللہ خمینی اور فلپائن کی مسز کوری اکینو کا راستہ جو ملک میں ایک طوفانی عوامی سیلابی ریلے پر سوار ہو کر اختیار واقتدار کے مالک بن بیٹھے۔اس کے لئے انقلابیوں کا بلند اخلاقی مقام پر فائز ہونا ضروری ہوتا ہے۔انقلابی قیادت میں جیل کے مچھروں اور مکھیوں سے مزاحمت اور مقابلے کا مادہ ہونا ضروری ہوتا ہے۔اس کا ماضی فقر وقناعت کی بنیاد پر عام سوسائٹی سے جداگانہ ہوکیونکہ انقلابی نے لوگوں کو جان دینے پر آمادہ کرنا ہوتا ہے۔انقلاب تو جمی جمائی طاقتوں کو الٹ ڈالنے کا نام ہے اور اس کھیل میں جمی ہوئی طاقت حالات پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لئے ہر حربہ اپناتی ہے۔انقلاب کے اصول اور سبق جی ٹی روڈ کے راہیوں پر لاگو کریں تو آگے دھند ہی دھند ہے۔جو کچھ نظر آتا ہے فقط ہے کہ پاؤں مار کر سپیس حاصل کی جائے۔اسی سپیس کا جائزہ لینے ایک با ر زبیر عمر بھی اتفاقی ملاقات کر بیٹھے تھے۔
زبیر عمر بے چارے ایک وڈیو سیاست کی زد میں آگئے ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ وڈیو ز کی دیگ کا ایک صرف دانہ ہے اصلی دیگ ابھی کسی ذخیرے میں باقی ہے۔یہ ذخیرہ کس کے پاس ہے کچھ پتا نہیں۔ یہ مزاحمت کا ماڈل ہے اور دوسرا راستہ مفاہمت کا ہے یعنی طاقت کے اصل مراکز کے ساتھ رسم وراہ پیدا کرکے خیمے میں داخل ہونے کا راستہ۔مسلم لیگ ن نے وسطی پنجاب میں اپنی طاقت کو آزماتے ہوئے جی ٹی روڈ پر ”مجھے کیوں نکالا“کی صداؤں سے حالات کا انداز ہ لگایا لیا تھا۔یہ ”مس فائر“ہوایوں جی ٹی روڈ کا سفربھی مکمل ہوا اور گردوپیش کا منظر بھی وہی رہا۔نہ کوئی سیاسی آندھی چلی نہ اس میں کوئی اُڑا بس ایک موج اُٹھی مگر ساحل سے نہ ٹکرا نہ سکی۔لے دے کر مفاہمت کا راستہ باقی رہا۔مزاحمت برائے مفاہمت کا فلسفہ بھی اپنا جلوہ دکھا نہ سکا۔مزاحمت جنہیں کرنی تھی وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ایسے میں باقی رہ گیا مفاہمت کا فلسفہ۔مسلم لیگ ن میں شہباز شریف اور ان کا گھرانہ مستقل مفاہمت کی علامت رہے ہیں۔یہ حقیقت پسندی کی خوبیوں سے مالا مال ہیں۔انہیں اندازہ ہے کہ آنکھیں دکھانے کے لئے اپنا دامن صاف ہوبنا چاہئے صرف خود اپنی زبان سے پارسائی کے دعوے حقیقت کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔یوں وہ کبھی مزاحمت کبھی مفاہمت یا”مزاحمت برائے مفاہمت“ کے قائل نہیں رہے۔ان کے خیال میں مفاہمت ہی پرامن بقائے باہمی کا اصول اور راستہ ہے۔جو کشمکش مسلم لیگ ن نے باہر کی قوتوں سے کرنی تھی وہ مفاہمت اور مزاحمت کے اس کھیل میں اندر ہی چل پڑی۔اب مزاحمت اور مفاہمت سے بات آگے بڑھ کر گناہ وثواب تک جا پہنچی۔ آمدہ انتخابات سے پہلے ہی مسلم لیگ ن گناہ وثواب کے اس بیانیے کی بھول بھلّیوں میں کھو سکتی ہے۔ان حالات میں ن لیگ کو ایک بڑی جماعت کے طور پر اندرونی تضادات پر قابو پانا ہوگا۔یہ پاکستان ہے اور یہاں انقلاب کی باتیں محض تخّیلاتی اور تصوراتی محل ہی ثابت ہوتی ہیں۔یہاں قومی مفاہمت پر مبنی شہباز شریف کا ”جیو اور جینے دو“ کا اصول ہی سب سے بڑی زمینی حقیقت ہے۔
(کالم نگارقومی وسیاسی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭