سٹرکچرز اور سسٹمز

لیفٹیننٹ جنرل(ر)اشرف سلیم
سیاسی پارٹیاں بیرون ملک سے کسی قسم کی امداد یا فنڈ نہ جمع کر سکیں۔ پاکستان سے باہر سیاسی پارٹیوں کی تنظیم سازی پر مکمل پابندی ہو تاکہ بیرون ملک پاکستانی وہاں پاکستان کی نمائندگی کریں نہ کہ گروپوں میں تقسیم ہو کر سیاسی پارٹیوں کے نمائندہ بن کر آپس میں لڑائی مار کٹائی کے مرتکب ہوں۔ ہمیں بیرون ملک پاکستان کا ایک مشترکہ اور متحدہ عکس پیش کرنے کی ضرورت ہے۔اس طرح بیرون ملک سے سیاسی فنڈنگ بھی ختم ہوگی۔ بیرون ملک سے پاکستانیوں کو سرمایہ بھیجنے کی بینکنگ نظام میں بہترین اور سستی ترین سہولیات دی جائیں۔زندگی بھر میرا تھیسز اورتاثر یہی رہا ہے کہ ووٹنگ کے سسٹم میں بہترین اصلاحات کی جائیں جس میں الیکشن کمشن کے اندر انتظامی استعداد کار بڑھانے کی اصلاحات شامل ہوں الیکشن کمیشن کے ارکان انتظامیہ اور فوج سے ریٹائرڈ تجربہ کار افراد کو لگایا جائے جو صاف اور شفاف الیکشن کو یقینی بنا سکیں۔ زیادہ سے زیادہ اچھی شہرت اور کارکردگی کے اہل سرکاری عملہ الیکشن کمیشن کی مدد کے لئے تعینات کیا جائے اور اگر اس میں کوئی کمی ہو تو مسلح افواج کے افسران اور عملہ ڈیوٹی پر لگایا جا سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن کو الیکشن کا عمل مکمل کرنے اورامیدواروں کی جانچ پڑتال کے عمل میں زیادہ وقت دیا جائے اور اس عمل میں اس کو بینکنگ کونسل اور تمام انٹیلیجنس اداروں کا مکمل تعاون حاصل ہو۔ Interum یا عارضی حکومت کا قیام ختم کیا جائے اور جو بھی گورنمنٹ حکومت میں ہو وہ حکومت کا انتظام سنبھالے رکھے مگر اس کو الیکشن کے عمل میں کسی قسم مداخلت کی اجازت نہ ہو۔ الیکشن کمیشن اس بارے میں مزید قانون یا رولز بنا سکتا ہے۔ جیسے سرکاری عملہ کی تبدیلی بند کر دی جائے یہ تبدیلی الیکشن کمیشن کی اجازت سے مشروط کی جا سکتی ہے۔
حکومتی نظام میں اصلاحات میں سب سے ضروری کام عدلیہ میں اصلاحات ہیں جن کا مقصد انصاف کی فوری اور سستے سے سستے طریقے سے فراہمی ممکن بنانا ہو۔ عدلیہ کو ایک سروس قرار دیا جائے جس میں اینٹری entry سول جج لیول سے ہو اور ہر جج مختلف مراحل سے گزر کر ہائر لیول عدلیہ کا تجربہ کار اور ٹیسٹڈ ممبر بنے۔ ہر لیول پر ہر جج کی اہلیت عدلیہ ہی کے اوپر والے جج پرکھیں اور اس پر سالانہ کارکردگی رپورٹ لکھیں۔ بے ضابطگیوں اور مالی معاملات سے متعلق ان پر باقی سرکاری اہلکاروں والے قانون لاگو ہوں۔ ہاں تنخواہوں وغیرہ کے معاملات میں عدلیہ کو ترجیح ہونی چاہئے۔ اور عدلیہ کے تحفظ اور سیکیورٹی بارے خاص انتظامات کئے جائیں تا کہ عدلیہ اپنے فیصلے بلا خوف و خطر کر سکے۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کے لئے سپیشل سکروٹنی کا سسٹم بنایا جائے جس میں جج صاحبان کی گزشتہ سروس میں کارکردگی اور ان کی اخلاقی برتری پر زیادہ توجہ دی جائے۔
ملک میں تمام چھوٹی بڑی پارٹیوں کو برابر کے مواقع دینے کے لئے اور تمام ووٹرز کے حقوق کا مکمل تحفظ اور نمائندگی یقینی بنانے کے لئے ملک میں متناسب نمائندگی کا اصول نافذ کیا جائے۔ متناسب نمائندگی پورے ملک کی بنیاد پر نافذہو اور جو پارٹی ڈالے گئے ووٹوں کا جتنا پرسنٹیج یا تناسب حاصل کرے اس کو اس تناسب سے سینٹ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں سیٹیں الاٹ کی جائیں۔ تمام سیاسی جماعتیں الیکشن سے اپنے نمائندگان کی بالّترتیب اور ترجیحی لسٹ الیکشن کمیشن اور ملکی میڈیا میں اعلان کر دیں اور اسی تناسب سے ہر صوبے کو نمائندگی یقینی بناتے ہوئے ایوان بالا ایوان زیریں اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں صوبائی بنیاد پر دی جائیں۔ اس پر مزید قوانین اور ضابطے متعلقہ ہاؤس اور ادارے بنا سکتے ہیں۔ مجوزہ سسٹم میں تمام سٹیک ہولڈرز مختلف ایوانوں میں اپنے حاصل کردہ ووٹوں کی بنیاد پر موجود ہوں گے اور قومی سیاست میں بھر پور حصہ لیں گے اور ان ایوانوں کو موثر بنائیں گے اور ان ایوان نمائیندگان کی مدت پوری کرنے میں سب برابر کے حصہ دار ہوں گے۔
کسی بھی حکومت کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں ملک میں جاری لا اینڈ آرڈر کا رول بہت ہی ضروری اور کار آمد ہے۔ لا اینڈ آرڈر کو بہتر سے بہتر بنانے میں عدلیہ کے کردار کا اوپر ذکر ہو چکا ہے۔ اس سلسلے کی دوسری اہم ذمہ داری پولیس سسٹم کی ہے پولیس سسٹم کا مناسب اور نہایت ہی موثر ہونا انتہائی اہم ہے۔ پولیس کی خرابی یا کمزور ہونا باقی تمام سسٹمز خاص طور پر عدلیہ کے کردار کو بھی کافی حد تک غیر موثر کر دیتا ہے۔پاکستان میں ملکی سطح پر یکساں اور بہترین پولیس کا نظام لانا نہ صرف عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لئے ضروری ہے بلکہ موجودہ دور کے ففتھ جنریشن اور ہاء برڈ وار فیر کے ماحول میں ملکی سلامتی کے لئے انتہائی لازم ہے۔ پرانی طرز کی ڈھیلی ڈھالی اور معمولی تربیت یافتہ پولیس خود اندرونی دشمنوں کا آسان شکار بن جائے گی۔
پولیس کی تنظیم نو اور اس کے ٹریننگ سسٹم کو بہتر بنانے کے لئے اس کو ایف سی اور رینجرو اور باقی سول آرمڈ فورسز میں اس کی انٹگریشن ہونی ضروری ہوگی پولیس کی لیڈرشپ کی ٹریننگ کے لئے تمام پولیس آفیسرز کم از کم چھ ماہ پاکستان ملٹری اکیڈمی میں بنیادی فوجی ٹریننگ لیں۔ اس کے بعد انفینٹری سکول کوئٹہ کے بنیادی ٹیکٹکسز اور ویپن ٹریننگ کے کورسز فوجی افسروں اور سول آرمڈ فورسسز کے عملے کے ساتھ کریں۔ پولیس عملہ کی جسمانی فٹنس پہ بہت زور دینا ہوگا۔ پولیس کی تنظیم ایسی ہو کہ پولیس میں مناسب ریسٹ اور چھٹی کا سسٹم رائیج ہو سکے۔ اسی طرح پولیس کا لاجسٹک یا انصرام و انتظام کا نظام بہت سی بہتری چاہتا ہے۔ living off the land ایک بہت کمزور بندوبست ہے۔ خاص طور پر چھوٹی ٹولیوں یا سنگل پولیس مین کی ڈیوٹی کو اچھے انتظام اور کھانے یا لنگر کے سسٹم یا سیلف کوکنگ کے سسٹم سے منسلک کیا جائے۔ اس سلسلے میں پولیس کی self esteem کو بحال اور بلند کرنا ضروری ہے۔ پروٹوکول اور وی آئی پی سیکیورٹی کے لئے ٹریفک پولیس کی طرح علیحدہ سسٹم بنایا جائے۔
ہمارا سب سے بڑا نفسیاتی قومی رویہ ہے کہ ہم جیسے ہیں ویسے ہی چلتے رہیں اور ہم اپنی موجودہ حالت میں مست رہنا چاہتے ہیں ہم ملک سے زیادہ صوبوں کو اہمیت دینے لگ گئے ہیں اسی لئے ہم نے کوئی اور صوبہ بننے ہی نہیں دیا حالانکہ ہمارے موجودہ صوبے غیر موثر اور تقریباً dysfunctional ہو چکے ہیں۔عوام مسائل کے انبار میں پس رہے ہیں حکمران اور سرکاری مشینری اپنے آپ کو عوام کے مسائل سے بالا تر رکھے ہوئے ہے اور کسی ریفارم کو اپنے مفادات کے مخالف گردانتی ہے۔ آئین میں ایسی ترامیم جو مرکز کو انتہائی کمزور اور صوبوں میں کیپیسٹی (capacity)نہ ہونے کے باوجود بھی ان کو اختیارات دئے گئے اور زیادہ وسائل دئے گئے جس سے ترقئی معکوس اور وسائل کے ناجائز استعمال کو فروغ ملا۔ ملکی سطح پر پالیسی کوآرڈینیشن (coordination)کمزور اور غیر موثر ہوئی۔ مرکز گریز رجحانات کو بھی فروغ ملا۔
ڈ۔ پاکستان کا ایک بہت بڑا مسلہ ہے ٹیکس نادہندگی اور ایف بی آر کی کم استعداد۔ در اصل ملک میں ہر شخص ٹیکس دہندہ ہو خواہ اس کی روزانہ آمدنی سو یا پانچ سو روپئے ہو مگر اس کے لئے ٹیکس کی شرح صرف ایک فیصد ہو یعنی سو روپئے آمدنی والا ایک روپیہ ٹیکس دے اور جیسے جیسے آمدنی بڑھے ٹیکس شرح بتدریج بڑھے لیکن کسی بھی صورت ٹیکس دہندہ کی معقول ٹیکس ادا کرنے کی حد سے اوپر نہ ہو۔ اس کے لئے ایک نہایت سادہ اور قابل فہم ایک صفحے کا فارم ہر شخص بھرے اور کسی بھی بنک میں جمع کر اسکے۔ایف بی آر صرف صنعتی اداروں اور کارپوریٹ ٹیکس جمع کرے یا امپورٹ ڈیوٹیز کا حساب رکھے۔ ضلع اور اس سے نچلی سطح پر ٹیکس جمع کرنے کا سسٹم ضلعی حکومتوں کا حصہ اور ذمہ داری ہو۔پاکستان میں پہلے ہی ودہولڈنگ ٹیکس سسٹم بہت وسیع ہے جس کی موجودگی میں ایف بی آر کا کردار بہت کم رہ جاتا ہے اور اسی طرح ان کے اختیارات کو درست کرنا ضروری ہے تاکہ اس پورے نظام سے کرپشن کا خاتمہ کیا جا سکے۔
احساس اور بینظیر اِنکم سپورٹ سسٹم کو 65 سال کی عمر سے منسلک کیا جائے اور اس سے کم عمر کی ہر قسم کی امداد کو ٹیکنیکل ٹریننگ سے منسلک کیا جائے اور یہ ٹائم بانڈ ہو۔ اگر ٹریننگ چھ ماہ یا ایک سال کی ہو تو کفالتی رقم اور ٹریننگ کے اخراجات دئے جائیں اور ٹریننگ مکمل ہونے پر اپنا کام کرنے کے لئے مقررہ رقم دی جا سکتی ہے یا کہیں ملازمت کا موقعہ فراہم کیا جائے۔ اس کے علاوہ حکومتی پیسہ صرف ترقیاتی مد میں خرچ کیا جائے۔
اوپر صرف چند تجاویز دی گئی ہیں جن پر عمل کرکے پاکستان اپنے موجودہ گورنینس اور اقتصادی بحران جو کہ دراصل مجموعہ ہے اور بہت سارے ذیلی بحرانوں پر کسی حد تک قابو پا سکتا ہے۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ:
تن ہمہ داغ داغ است پنبہ کجا کجا نہم
لیکن سوائے بڑی تبدیلی بلکہ تبدیلیاں لانے کے اور کوئی چار کار نہیں اور یہ تبدیلیاں ایک مربوط اور منظم طریقے سے لانے کے لئے تمام اداروں کا آپس میں تعاون بہت ضروری ہے جس میں سیاسی پارٹیاں بھی شامل ہیں وہ بھی اپنے آپ کو موجودہ دور کے نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کریں: صرف توازن نہیں بلکہ متحرک توازن چاہئے جسے (dynamic homeostasis) بھی کہا جاتا ہے۔ ان تجاویز پر عمل مشکل ہو گا جس کی بڑی وجہ مروجہ نظام سے برتر قوتوں کا مفاد ہے۔ جتنا شدید جس طبقے کا مفاد ہے اتنی ہی شدت سے وہ طبقات تبدیلی کی مخالفت کرتے نظر آئیں گے۔ فیصلہ عوام نے کرنا ہے کہ ان ظالم اور مفاد پرست طبقوں سے نجات حاصل کرنی ہے یا ہم زنجیروں میں جکڑے رہنے کے عادی ہو گئے ہیں۔
بدلنا ہے تو مئے بدلو طریق مئے کشی بدلو
وگرنہ ساغر و مینا بدل دینے سے کیا ہو گا
تبدیل نہیں ہونگے تو ہم جیسے ہیں اس سے بھی بڑی پستی کا شکار ہو جائیں گے۔ خدانخواستہ
(کالم نگار ہلال ملٹری امتیازاورسابق ہائی کمشنر ہیں)
٭……٭……٭

”خبریں“ اور خبر

قسور سعید مرزا
کاغذ کا ہر ٹکڑا ایک نظر کا مستحق ضرور ہوتا ہے۔ ذوقِ مطالعہ کی یہ قطعاً دلیل نہیں کہ آراستہ پیراستہ کمرہ ہو، چمکدار جلد کی کتابیں ہوں، چار رنگی طباعت ہو، آرام دہ کرسی اور صاف و شفاف میز ہو۔ جنہیں قدرت نے ذوقِ مطالعہ سے نوازا ہے وہ گلی میں لگے بلب کی روشنی میں بھی اِس کی تسکین کر لیتے ہیں جنہیں مُطالعہ سے وحشت ہو وہ ڈرائنگ روم کے قیمتی فانوس سے بھی کوئی استفادہ نہیں کر پاتے۔ اخباری مضامین سے لے کر ٹھوس تحقیقی مواد تک سبھی کا مُطالعہ ناگزیر ہے۔ مولانا ابوالکلام آزادؔ کس دارالعلوم اور یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے؟ مگر اِن کا اسلوب نگارش بیسیوں اہل قلم کا آستانہ بنا جہاں وہ جُھکتے رہے۔ مولانا مودودیؒ نہ دیو بند میں پڑھے اور نہ بَریلی میں، مگر اِن کی نثر کیا ہے ایک شکر پارہ ہے جو مُنہ میں گُھلتی ہے، خواجہ حسن نظامیؒ بَھلا کہاں کے ڈگری ہولڈر تھے کہ علامہ اقبال کو کہنا پرا کہ ”مُجھے اگر خواجہ حسن نظامیؒ جیسی نثر لکھنے پر قدرت حاصل ہوتی تو میں بھی شاعری کو ذریعہ اظہار نہ بناتا۔“ یہی حال شورش کشمیری کا تھا نہ سکول گئے نہ مدرسہ دیکھا۔ احسان دانش بھی عمر بھر مزدور ہی رہے۔ جناب ضیا شاہد صاحب تو تعلیم یافتہ تھے۔ اِن کے ہاں مقصدِ مطالعہ برائے مطالعہ نہیں بلکہ کسب فیض رہا اور سچی بات یہ ہے کہ جب بھی ان کو پڑھا تو خیالات کو رفعت ملی۔ کبھی سوچ کو وسعت نصیب ہوئی۔ کبھی ذہن کو پختگی اور کبھی دماغ کو بلندی حاصل ہوئی۔ کبھی زاویہئ نظر دُرست اور کبھی قبلہ فکر راست ہوا۔ الفاظ و حروف سے دِل میں ہلچل بھی ہوئی اور آنکھوں میں جَل تھل، غنچہئ تخیّل چٹک اُٹھا اور کبھی شُعلہئ عمل بھڑک اُٹھا۔ کبھی احساسات کے آنگن میں چاند اُتر آیا اور کبھی جذبات کے افق پر سورج اُبھر آیا۔ کبھی اردگرد رنگ و نور کے ہالے بھی دیکھے اور کبھی کیف و سرور کے چشمے بھی۔
ضیا شاہد کہنہ مشق لکھاری ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب کتاب بھی تھے۔ صحافت آج کے دَور میں محض لکھت پڑھت کا نام نہیں رہا بلکہ یہ قصّر والدین سے لے کر خاکِ اُفتادگان تک کی سیاسی و سماجی ضرورت بن چُکی ہے۔ اِس لئے اِس کے اثرات ہمہ گیر بھی ہیں اور دُور رس بھی۔ جب سے اربوں انسانوں پر مشتمل یہ دُنیا ”گلوبل ویلیج“ میں تبدیل ہوئی ہے تو اُسی لمحے سے ابلاغ اور اِس کے ذرائع کو بے حد اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ اب ممکن نہیں رہا کہ کوئی مغلِ اعظم کسی انارکلی کو دیوار میں چُنوا دے اور کسی کو خبر تک نہ ہو۔ یہ اور بات ہے کہ صحافت پہلے تین ستونوں کی کمزوریوں سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کا تنہا کیسے مقابلہ کر رہی ہے۔ تاہم گناہ گاروں کے سمندر میں نیکیوں کے جزیرے ہر دَور میں پائے گئے اور ہر شعبہ میں موجود رہے۔ ایک وقت تھا کہ اخبارات کی بھیڑ نہ تھی تو ایک سے بڑھ کر ایک لکھاری موجود تھا۔ آج اخبارات ہیں تو لکھنے والوں کا حال ہمارے سامنے ہے۔ روزنامہ ”کوہستان“ کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔ پھر ”مشرق“ کا دور آیا ”امروز“ کی اپنی اونچی پرواز تھی۔ اخبار پڑھنے والے ”نوائے وقت“ کا بھی بے چینی سے انتظار کرتے تھے۔ ”انجام“ کا انجام بھی ہمارے سامنے ہے۔ مولانا ابوالکلام آزادؔ کے ”الہلال“ اور ”البلاغ“ مولانا ظفر علی خان کا ”زمیندار“ اپنے وقت کی للکاراور پُکار تھے۔ یہ سبھی لوگ فاقے لے کر کال کوٹھڑی تک پہنچے۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان اور پاکستانی عوام کا واسطہ زمینی خداؤں سے پڑ گیا۔ صحافت کو پابندیوں اور صحافیوں کو سزاؤں سے نوازا گیا۔ لیکن ایک عوامی اور آزاد اخبار کی ضرورت ہمیشہ محسوس کی گئی۔ جناب ضیا شاہد مرحوم نے یہ محسوس کر لیا تھا۔ وہ پیدائشی طور پر ایک محنتی انسان تھے۔ صبح سے شام تک لکھنے پڑھنے میں مصروف رہتے تھے۔ نت نئے آئیڈیاز پرکام کرنا اِن کا شوق تھا۔ انہوں نے محنت کے ساتھ روزنامہ ”پاکستان“ کو متعارف کرایا لیکن اکبر بھٹی کے ساتھ زیادہ دیر نہ چل سکے۔ انہیں خدا حافظ کہا اور روزنامہ ”خبریں“ کی بنیاد ڈالی۔ دفتری امور و معاملات کو دیکھنے اور ہر پہلو پر نظر رکھنے میں ضیا شاہد صاحب کو مہارت حاصل تھی۔
محترم ضیا شاہد پاکستان کے پہلے اور اب تک آخری صحافی ہیں جنہوں نے قومی سطح کے دو اخبارات نکالے اور اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا۔ راقم کے مرحوم ضیا شاہد صاحب کے ساتھ ذاتی تعلقات اور نیاز مندی تھی۔ میں نے انہیں کام کرتے دیکھا ہے اور بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور ادارہ تھے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان کی سیاست میں جناب ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کو سیاسی شعور دیا اور ضیا شاہد صاحب نے ”خبریں“ کے پلیٹ فارم سے غریبوں، کمزوروں اور مظلوموں کو آواز بلند کرنے کا حوصلہ دیا۔ بے شمار نوجوانوں کو قلم پکڑنا اور لکھنا سکھایا۔ ایک زمانہ تھا جب کوئی اخبار کا مالک یا مدیر کسی عورت کے اغوا کی خبر چھاپنا جُرم سمجھتا تھا لیکن ”خبریں“ نے خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو شائع کیا۔ سَب کی خبر دی اور سَب کی خبرلی۔ جہاں غریب وہاں خبریں، ”جہاں ظلم وہاں خبریں“ کی پالیسی کو دھڑلے سے اپنایا۔ ظالم کے مقابلے میں مظلوم اورطاقت کے مقابلے میں محروم کی آواز بنا۔
لاہور، اسلام آباد، کراچی، ملتان، پشاور، حیدرآباد، سکھر، مظفر آباد میں واقع ”خبریں“ کے دفاتر مظلوموں، بے کسوں، بے نواؤں کی پناہ گاہ بنے ہوئے ہیں۔ بے شک مرحوم کی محنت، کام سے لگن، بے باک جرأت، بے دھڑک اندازِ تحریر اور شعلہ بیانی ان کو آگے سے آگے بڑھاتے چلی گئی۔ انہوں نے کبھی بھی دفتر چھوڑ جانے والے اپنے ساتھیوں اور کارکنوں کا بُرا نہیں منایا۔ نہ اِن کے جانے پر اظہار ناراضگی کیا اور نہ ہی اِن کی دوبارہ واپسی پر دفتر کے دروازے بند کئے۔ یہ ایک بہت بڑی خوبی تھی جو ان کو اپنے صحافتی حلقے اور برادری میں ممتاز کرتی ہے۔ ضیا شاہد صاحب نے اپنے نوجوان ہونہار بیٹے کی وفات کا صدمہ بڑے جگرے کے ساتھ برداشت کیا۔ بیٹی کو بیوہ ہوتے ہوئے دیکھا۔ جو ایک باپ کے لئے بہت ہولناک ہوتا ہے۔ خود بھی بہت ساری بیماریوں کا شکار ہوئے لیکن مجال ہے کہ ان کی استقامت، بہادری اور بے خوفی متاثر ہوئی ہے۔ یہ مظلوموں اور محروموں کے لئے مسیحا تھے اور”خبریں“ ان کا ہسپتال بنا رہا جہاں سے انہیں شفا اور دوا ملتی ہے۔ مظلوموں کا ترجمان بننے کے ساتھ ساتھ خبریں نے دو قومی نظریئے کو مضبوط و مستحکم کیا۔ بدعنوان افسر شاہی کو بے نقاب کیا۔ عدلیہ کی آزادی کے لئے کام کیا۔ زبان و نسل کی بنیاد پر ٹکڑے ٹکڑے کرنے والی ہر سازش کو بے نقاب کیا۔ پاکستان کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے سیاسی، معاشی اور جمہوری حقوق کے لئے جدوجہد کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ سرائیکی وسیب کو صوبہ بنانے کی آواز کو تقویت دی۔
کرونا وَبا کے دِنوں میں خبریں کے کردار کو کون فراموش کر سکتا ہے۔ اِس مصیبت کے دوران امتنان شاہد صاحب باہر نکلے۔ رَضا کار تیار کئے۔ مُفت کھانے تقسیم کئے۔ عوام کے ساتھ ٹھہرے اور کہا کہ ہمیں سادہ راشن بھیجیں۔ آپ بھجوائیں گے۔ ہم پہنچائیں گے۔ اخبارات بہت ہیں مگر ملک میں عوام دوست پالیسی کا ایک ہی اخبار ہے۔ جناب ضیا شاہد مرحوم کی روح سکون محسوس کر رہی ہو گی اور مسرور ہو گی کہ اُن کے ہونہار سپوت جناب امتنان شاہد صاحب نے نہ صرف اخبار کو ذمہ داری کے ساتھ سنبھالا ہے۔ بلکہ آج وہ قدم بڑھا کر سرائیکی وسیب کے دوسرے بڑے شہر بہاول پور سے ”خبریں“ کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے ادارے کی 29 ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کو اودھم بازی کے دَور میں کسی نئے سنٹر سے اخبار کا اجرا کرنا بڑے حوصلے کی بات ہے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے جس کے لئے امتنان شاہد صاحب اور ادارے کے کارکن مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ اپنے ہاں محترم ضیا شاہد صاحب، عزیزم عدنان شاہد اور چیف صاحب کے داماد کے درجات بلند کرے اور امتنان شاہد صاحب کو عزت و صحت کے ساتھ لمبی عمر عطا کرے اور مزید کامیابیاں سمیٹنے کی توفیق و ہمت بخشے (آمین)
(کالم نگارایوان صدر پاکستان کے
سابق ڈائریکٹرجنرل تعلقات عامہ ہیں)
٭……٭……٭

کروناسے سی پیک منصوبے متاثرہوئے عمران خان کا اعتراف

اسلام آباد (نامہ نگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان نے اعتراف کیا ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبوں کو مشکلات کا سامنا رہا تاہم اب اسی رفتار سے منصوبے تکمیل کی جانب ہیں،اب صنعتی ترقی کی جانب ساری توجہ مرکوز ہے کیونکہ صنعتی ترقی کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا اور ملکی قرضہ نہیں اتر سکتا۔ یہاں 600 کے وی مٹیاری تا لاہور ٹرانسمیشن لائن کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ وہ تمام افراد مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے 2018 سے شروع ہونے والے منصوبے کو تیزی سے مکمل کیا۔انہوں نے کہا کہ یہ ٹرانسمیشن لائن جدید خطوط پر استوار کی گئی ہے اور اس میں لائن لاسز محض 4 فیصد ہیں، اب تک لائن لاسز 17 فیصد تھے۔وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ایک فیصد لائن لاسز کی صورت میں کئی ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔انہوں نے سی پیک سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ کورونا کی وجہ سے سی پیک کے منصوبے متاثر ہوئے تھے لیکن اب وہ تیزی سے تکمیل کی جانب بڑھ رہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ سی پیک کی مشترکہ رابطہ کمیٹی (جے سی سی) کے اجلاس میں تین مراحل کا تذکرہ کیا گیا جس میں جنریشن، سڑک اور ٹرانسمیشن شامل ہے، ٹرانسمیشن ہماری بنیادی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری ٹرانسمیشن لائن بہت پرانی ہوچکی ہیں اور اسی وجہ سے لائن لاسز زیادہ ہیں، بجلی ہونے کے باوجود صارفین کو بلاتعطل بجلی نہیں پہنچا سکتے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ سابقہ ادوار میں ٹرانسمیشن لائن پر سرمایہ کاری نہیں کی گئی اور یوں لائن سز میں غیرمعمولی اضافہ ہوا۔انہوں نے آئندہ اہداف کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اب صنعتی ترقی کی جانب ساری توجہ مرکوز ہے کیونکہ صنعتی ترقی کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا اور ملکی قرضہ نہیں اتر سکتا۔عمران خان نے کہا کہ نئی ٹیکنالوجی کے استعمال کو بڑھ کر صنعتی ترقی میں حائل رکاوٹ دور کریں گے اور یقینی طور پر اس طرح ملکی خزانے میں اضافہ ہوگا۔انہوں نے اشیا کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق کہا کہ کورونا کی وجہ سے سپلائی چین متاثر ہوئی اور یوں پوری دنیا میں اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تاہم یہ عارضی طور پر ہے اور جیسے ہی ویکسینیشن کا عمل مکمل ہوگا تو معمولات زندگی بحال ہوجائے گی۔وزیر اعظم عمران خان نے امید ظاہر کی کہ کورونا کی اگلی لہر کے اثرات کم ہوں گے اگر ملک میں ویکسینیشن کا عمل مکمل ہوجائے۔ حکو مت نے کسانوں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کا فیصلہ کرلیا اس حوالے سے پاکستان سیٹیزن پورٹل پرکسانوں کے لئے خصوصی کیٹیگری آلاٹ،وزیر اعظم کی ہدایت پر کسانوں کے مسائل کے حل کے لیے صوبائی حکومتوں کو خصوصی ہدایت کی گئی۔ وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ افسران کسانوں کی شکایات کے فوری حل کے لیے اقدامات کریں۔ وزیر اعظم نے کہاکہ سرکاری افسران کسانوں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔وزیر اعظم ڈیلیوری یونٹ نے تمام صوبائی حکومتوں کو مراسلہ جاری کردیا جس میں کہاگیاکہ کسان اپنے مسائل براہ راست سیٹیزن پورٹل پر درج کروا سکیں گے،وزیراعظم آفس کے مطابق کسانوں کو سرکاری دفاتر کے چکر نہیں لگانا پڑیں گے۔ مراسلہ میں کہاگیاکہ چیف سیکریٹریز کسانوں کے مسائل کے حل پر افسران کی سہ ماہی کارکردگی رپورٹ مرتب کریں،تمام صوبوں میں کسانوں کے مسائل کے لئے 123 سرکاری افسران کو زمہ داریاں تفویض کر دی گئی،خیبر پختونخواہ کے 43 پنجاب کے 57 افسران کو زمہ داری دی گئی ہے، بلوچستان12سندھ4،وفاق4،آزادکشمیر2اور گلگت میں 1 سرکاری افسر کو زمہ داری سونپ دی گئی،کسان کارڈ،کھاد، بیج، پانی کی چوری، فصل، اجناس کی قیمتوں پر شکایات درج کروا سکیں گے۔ وزیر اعظم آفس کے مطابق کیڑے مار دوائیاں اور دیگر 52مسائل کا ادراک بروقت ممکن ہو سکے گا۔مراسلہ میں کہاگیاکہ کسانوں کی آگاہی کے لیے ضلعی سطح پر مہم بھی چلائی جائے۔

اسلام آباد(آئی این پی) وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ حکومت ماحولیاتی تحفظ کیلئے جنگلات کی زمینوں کی حفاظت کو یقینی بنا رہی ہے،فوڈ سیکیورٹی اور موسمیاتی تبدیلی اس وقت بشمول پاکستان دنیا بھر کا سب سے اہم مسئلہ ہے،حکومت قبضہ شدہ زمین کو واگزار کرانے کیلئے اقدامات کررہی ہے،کیڈسٹرل میپمنگ سے ڈیڈ کیپٹل کی نشاندہی اور اس کا بہتر استعمال ممکن ہو سکے گا، انہوں نے ان خیالات کا اظہار جمعرات کو قومی رابطہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ و تعمیرات کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا، اجلاس میں وزیرِ مملکت فرخ حبیب، معاونِ خصوصی ڈاکٹر شہباز گِل اور متعلقہ اعلی افسران نے شرکت کی،اجلاس کو چیئرمین سی ڈی اے نے اسلام آباد میں جاری ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سیبریفنگ میں کہا کہ سیکٹر I-15کی تکمیل ایک سال کی قلیل مدت میں یقینی بنائی گئی،پاکستان ہاؤسنگ کے تحت فراش ٹاؤن اور دیگر انفراسٹرکچر کے منصوبے بھی جلد مکمل کر لئے جائیں گے،اسلام آباد میں جنگلات کی زمین کے ریکارڈ کی ڈیجیٹلائزیشن بھی تقریبا مکمل کی جا چکی ہے، اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ اسلام آباد اور لاہور سمیت پورے ملک میں ڈیجیٹل میپنگ اور سرکاری زمینوں کی نشاندہی پر کام تیزی سے جاری ہے، اجلاس کو بتایا گیا کہ ڈویلپمنٹ زونز پیری اربن سیٹلمنٹس کو بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی،منصوبے سے زمین کا بہتر استعمال اور غیر قانونی سوسائٹیوں کی روک تھام میں مدد بھی ملے گی، اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ کیڈسٹرل میپمنگ سے ڈیڈ کیپٹل کی نشاندہی اور اس کا بہتر استعمال ممکن ہو سکے گا، حکومت ماحولیاتی تحفظ کیلئے جنگلات کی زمینوں کی حفاظت کو یقینی بنا رہی ہے،فوڈ سیکیورٹی اور موسمیاتی تبدیلی اس وقت بشمول پاکستان دنیا بھر کا سب سے اہم مسئلہ ہے،حکومت قبضہ شدہ زمین کو واگزار کرانے کیلئے اقدامات کررہی ہے، وزیر اعظم نے ہدایت کہ کہ قبضہ شدہ زمین کو واگزار کرانے کیلئے قانون کا سختی سے نفاذ یقینی بنایا جائے۔

 

کامیڈین عمر شریف جرمنی کے شہر نیورم برگ کے اسپتال میں زیر علاج

برلبن(مانیٹرنگ ڈیسک)کامیڈین عمر شریف جرمنی کے شہر نیورم برگ کے اسپتال میں زیر علاج ہیں۔جبکہ پاکستانی قونصل جنرل زاہد حسین نے عمر شریف کی عیادت بھی کی۔اہلیہ عمر شریف زریں غزل کے مطابق عمر شریف کو نمونیا کی شکایت ہوئی اور کل تک وہ واشنگٹن روانہ ہوجائیں گے۔

شہباز شریف کمر درد میں مبتلا، ڈاکٹرز کا 2ہفتے مکمل آرام کامشورہ

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)شہباز شریف کمر درد میں مبتلا، ڈاکٹرز نے 2ہفتے مکمل آرام کامشورہ دیا۔شہباز شریف کی تمام سیاسی سرگرمیاں ملتوی ہو گئیں۔نوازشریف اور مریم نواز نے شہبازشریف کو فون کرکے خیریت دریافت کی۔نواز شریف کو شہباز شریف کی میڈیکل رپورٹ اور ایکسرے رپورٹ کی تفصیلا ت سے آگاہ کیا گیا۔

جناح ہسپتال میں ادویات ناپید، مریض، لواحقین خوار، سیکرٹری ہیلتھ خاموش

لاہور (مہران اجمل خان) پنجاب حکومت کا سرکاری ہسپتالوں میں مفت سہولیات فراہم کرنے کا دعوی چکنا چور،جناح ہسپتال انتظامیہ کی نااہلی ایمرجنسی میں مریض مفت ادویات کو ترس گئے، گزشتہ دنوں سیکرٹری سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر کے دورہ نے جناح ہسپتال میں مفت ادویات کی سہولت کا پول کھول دیا۔سیکرٹری ہیلتھ ڈاکٹر جاوید احمد قاضی کے سوال پر مریضوں کے لواحقین نے شکایات کے انبار لگا ئے ،ناقص سہولیات سے پردہ اٹھنے کے باوجود سیکرٹری ہیلتھ کے سر پرجوں تک نہ رینگی، مریضوں کے مسائل سننے کے باوجود کسی قسم کی انکوائری نہ ہوسکی ۔ تفصیلات کے مطابق چار روز قبل سیکرٹری سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر پنجاب ڈاکٹر احمد جاوید قاضی نے ایڈیشنل سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ عثمان خالد کے ہمراہ رات کے وقت جناح ہسپتال لاہور کا دورہ کیا تھا اور وہاں انسداد ڈینگی، کرونا، ایمرجنسی اور دیگر شعبہ جات میں مریضوں کو فراہم کردہ طبی سہولیات کا جائزہ بھی لیا تھا جہاں انہوں نے مریضوں کے لواحقین سے بھی فراہم کی جانیوالی طبی سہولیات سے متعلق دریافت کیا۔ ہسپتال ذرائع کے مطابق سیکرٹری صحت نے جب لیبر روم ایمرجنسی کا دورہ کرتے ہوئے مریضوں کے لواحقین سے ادویات بارے دریافت کیا تو وہاں موجود شہریوں نے مفت ادویات نہ ملنے کے شکوہ بھی کیے ایک شہری کی جانب سے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر یحیٰی سلطان کی موجودگی میں شکایت کی گئی کہ اس نے اپنی بیوی کے آپریشن کے لئے تین سے چار ہزار روپے کی ادویات باہر سے خریدی ہے جس پر سیکرٹری صحت نے ایم سے انکوائری کرنے کا حکم دیا مگر چار روز گزر جانے کے باوجود بااثر میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کی جانب سے مفت ادویا ت کی نہ تو انکوائری کی گئی اور نہ ہی سیکرٹری صحت کو اس بارے آگاہ کیا گیا ۔ہسپتال ذرائع نے بتایا کہ جناح ہسپتال ایمرجنسی میں تا حال مریض مفت ادویات کے حصول کے لئے خوار ہورہے ہیںپنجاب حکومت کی جانب سے سرکاری ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں مفت ادویات کے دعویٰ صرف باتوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں ۔ اس حوالے سے ترجمان سپیشلائزڈ ہیلتھ کئیر کا کہنا ہے کہ اس بات کی تصدیق کی جا رہی کہ لیبر روم میں ادویات فراہم کرنے کی کیا پالیسی ہے ۔

دوسری شادی کی افواہیں،مولانا طارق جمیل کی تردید

لاہور(نیٹ نیوز) معروف عالم دین مولانا طارق جمیل کی دوسری شادی سے متعلق جعلی خبریں سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے لگیں۔ٹویٹر پر اپنے ایک پیغام میں مولانا طارق جمیل نے لکھا کہ سوشل میڈیا پر میری دوسری شادی سے متعلق کچھ یوٹیوب چینلز ویوز اور سبسکرائبرز کی خاطر جھوٹ بول رہے ہیں،اس بات کا حقیقت سے بالکل بھی تعلق نہیں ہے۔اللہ ان کو ہدایت عطا فرمائے۔

داتا دربارانتظامیہ کی مجرمانہ غفلت‘مرد زائرین خواتین کے احاطے میں پہنچ گئے

لاہور (رپورٹ :اسد مرزا)حضرت علی بن عثمان ہجویری کے 978ویںعرس کے موقع پر داتا دربار کی انتظامیہ اور پولیس کی مجرمانہ غفلت کے باعث مردزائرین خواتین کے احاطے پہنچ گئے جس سے ناصرف مزار کا تقدس پامال ہوا بلکہ خواتین کی بے حرمتی ہو ئی جس سے خواتین زائرین نے احتجاج کیا لیکن خادمائیں اور لیڈی پولیس نے بھی کوئی کارروائی نہیں کی ۔اسی طرح نیاز کی تقسیم سے وہاں دھکم پیل کے دوران کئی خواتین زخمی وبے ہوش ہو گئیں ۔ خواتین نے الزام عائد کیا کہ پولیس اور داتا دربار انتظامیہ ،مبینہ طور پر رشوت لیکر مردوں کوخواتین کے احاطے میں بھجوایا جس کی وجہ سے ایسی صورتحال پیدا ہوئی ۔تفصیلات کے مطابق داتا دربار میں زائرین کے لئے الگ الگ احاطے بنائے ہوئے ہیں لیکن داتا دربار سیکورٹی اور پولیس وہاںمستقل آنے والے مخیر خواتین و حضرات کو نذرانہ لیکر انہیں پروٹوکول دیتے ہیں ۔حضرت علی بن عثمان ہجویری کے 978ویںعرس کے موقع پرزائرین کے رش کی وجہ سے پولیس اور داتاد ربار انتظامیہ کے سیکورٹی بارے فول پروف انتظامات کا پول کھل گیا ۔ بتایا گیاہے گزشتہ رات خواتین زائرین جو داتا دربار کے مزار میں احاطہ غلام گردش میں بیٹھ کر عبادت اور چوکھٹ پر حاضری دے رہی تھیں کہ اچانک وہاں مرد زائرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہو اتوخواتین نے شور مچایا تو پولیس اہلکار،دربار سیکورٹی اورخادماﺅں نے کہا کہ یہ افسر ہیں ۔ ایک عینی شاہد خاتون کا کہنا ہے کہ مرد حضرات مینیجر کی پرچی لیکر آتے تھے جن کو خواتین کے احاطے میں داخلے کی اجازت مل رہی تھی ۔خاتون عائشہ کے مطابق اس بارے مینیجر داتا دربار سے شکایت کی تو اس نے ایکشن لینے کی بجائے بات ٹال دی ۔اس بارے داتا دربار انتظامیہ سے رابطہ کرنے کے لئے انکے دفاتر پہنچے تو تمام افسر غائب تھے ،عملے نے بتایا کہ عرس کے موقع پر تھکاوٹ کے باعث تمام افسر جلد دفاتر سے چلے گئے ہیں۔

MG موٹرز والوں کےہاتھوں شہری کی ہلاکت،ملزمان تھانے میں وی آئی پی مہمان

لا ہور (خصوصی ر پورٹر ) ایم جی موٹر ز پیکجز مال پر شہری کی ہلا کت کا معا ملہ، پولیس کی جا نب سے متو فی کے پوسٹ مارٹم کی حتمی ر پورٹ کا نتظا ر کیا جا رہا ہے ، ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور کا کہنا ہے کہ واقعہ ابتدائی رپورٹ پر جسم پر نشانا ت واضح نہیں مکمل رپورٹ آنے کے بعد حقائق واضح ہوجا ئےں گئے جبکہ نامزد ملزمان پولیس حراست میں ہیں جن سے مزید تفتیش کی جارہی ہے ۔ واضح ر ہے کہ خبریں چینل 5کی نشاند ہی پر پولیس نے مقدمہ درج کرکے ملزمان کو حرا ست میں لیا تھا۔ تفصیلات کے مطا بق 24 ستمبر کو لاہور کے علاقہ فیکٹری ایریا پر پیکجز مال پر واقعہ ایم جی مو ٹرز پر شہری ثوہل گو ندل کو انتظامیہ کی جا نب سے جھگڑے ہوا جس کے بعد خبریں، چینل 5 نے نشاندہی کی تو پولیس نے انتظامیہ کےخلا ف ایف آئی آر درج کرکے تینوں نامزد ملزمان جس میں منیجر زبیر ، گارڈ یاسر اور غفار شامل ہیں، پو لیس کی جانب سے مقدمہ نمبر 3508 در ج کر کے انکوائر ی شروع کی گئی تاہم منظر عا م پر آّنے والی ویڈیو میں دیکھا گیا کہ ملزمان کو پروٹوکو ل دیا جا نے لگا ، جس کی خبر یں ، چینل ۵ نے نشاندہی کی گئی، اس حوالے سے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور شارق جمال خان نے بتایا کہ ملزمان سے تفتیش کی جا ر ہی ہے ۔ جبکہ واقعہ میں نامزد تمام ملزمان پولیس حراست میں ہیں اور حتمی پوسٹ مارٹم رپورٹ کا انتظار ہے جس کے بعد مزید حقائق واضح ہو جائے گئے جبکہ ابتدا ئی ر پورٹ کے مطا بق متوفی کے جسم پر نشانات واضح نہیں ہیں ۔ یا د ر ہے کہ ایم جی موٹرز کی انتظامیہ کے مبینہ تشدد سے ہلاک ہونے والے شہری کی نشاند ہی کر نے پر پولیس نے ملازم کی مدعیت میں مقدمہ درج ہے ۔ تھا نہ فیکٹر ی ایریا میں در ج ایف آئی ار نمبر 3508 کے مطا بق مقد مہ مدعی غلام حسین کے مطا بق عرصہ 30/35 سال سے ثوہل احمد گوندل کے پاس ملازمت کر رہا ہے ، مقد مہ مدعی کےمطا بق میرے مالک نے پیجز مال سے MG گاڑی بک کروا رکھی تھی 24تا ریخ کو ایم جی مو ٹرز کی والوں کی طرف سے فون کال موصول ہوئی کہ اپنی گاڑی آکر لے جائیں میں اورجس پر مالک ثوبل گوندل تقریبا 4 بچے شام پیکجز مال پہنچے ثوہل تو مزکو ر ہ موٹرز کے GM سے بات کی جو باتوں باتوں میں ان کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی مزکور ہ کی کے GM اور اس کے سٹاف نے ثوہل گوندل کے ساتھ بد تمیزی اور گالی گلوچ شروع کر دی جو نے ان کو سمجھایا لیکن وہ لوگ باز نہ آئے تو ثوہل گوندل نے بھی ان کو سخت الفاظ کہے شو روم MG سے اور پیجز مال سے باہر آکر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر جانے لگے تو اتنے میں مزکو ر ہ شورم کے GM زبیر احمد ، سکیورٹی گارڈ محمد یاسر ، سکیورٹی گارڈ ن غفار سمیت 13/20 کسی نامعلوم افراد جن کو سامنے آنے پر شناخت کر سکتے ہیں کے ہمراہ آگئے اور زبردستی گاڑی کو روک لیاجس پر ہم نے گاڑی سے نکل کر بات کرنے کی کوشش کی توملزم GM اور اس کے ساتھیوں نے زبردستی گاڑی کے دروازے نہ کھولنے دیئے اس دھکم پیل کے دوران ثوہل گوندل کی طبیعت خراب ہو گئی اور بے ہوش ہو گئے میں نے فورا ان کے پینے غوث گوند ل کو اطلاع دی اور GM اور دیگر افراد کو منت سماجت کی کہاان کی طبیعت خراب ہوگئی ہے ہمیں طبی امداد کیلئے ہسپتال جانے دیں لیکن ان تمام لوگوں نے میری ایک نہ سنی اور ہماری گاڑی کو زبردستی روکے رکھا اسی دوران کابیٹا غوث بھی موقع پر بھی کیا اور جب ہم نے ثوبل گوندل کو چیک کیا تو وہ ہلا ک ہو چکے تھے جس کے بعد کیلئے ان کو اتفاق ہسپتال لے کر آئے جہاں پر ہسپتال والوں نے ان کی موت کی تصدیق کر دی۔ Continue reading MG موٹرز والوں کےہاتھوں شہری کی ہلاکت،ملزمان تھانے میں وی آئی پی مہمان