127غیر ملکی این جی اوز کا جاسوسی،غیر قانونی کام کا انکشاف

اسلام آباد (نئیر وحید راوت سے) وزارت داخلہ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ پاکستان میں 127غیرملکی این جی اوز غیرقانونی طور پر کام کر رہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق سابق حکومت نے جب غیر قانونی این جی اوز کے خلاف کریک ڈاؤن کیا تو اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے سیو دی چلڈرن نامی این جی او پر پابندی لگاتے ہوئے اسے اپنے دفاتر بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ جس کے بعد امریکا اور دیگر ممالک نے سیو دی چلڈرن پر پابندی کے فیصلے مذمت کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا تھا۔ جس پر وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کا کہنا تھا ایک تنظیم پر پابندی لگنے سے کئی ممالک میں طوفان برپا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ بہت سی این جی اوز ملک کے مفاد کے خلاف کام کر رہی ہیں، لیکن اب انہیں مادر پدر آزادی نہیں ہو گی۔ ذرائع کے مطابق غیرملکی این جی اوز کو پاکستانی قوانین اور مفاد کی پاسداری کے بغیر آئندہ کسی بھی غیر ملکی این جی او کو کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ذرایع کے مطابق پاکستان میں 56 ہزار 219 رجسٹر ڈ این جی اوز کام کر رہی ہیں، جن کے ارکان کی تعداد 60 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ اسی طرح ان تنظیموں کے باقاعدہ ملازمین کی تعداد 3 لاکھ اور رضاکار دو لاکھ ہیں۔ یہ دنیا بھر میں سب سے بڑی تعداد ہے۔ این جی اوز کے ظاہری فنڈز 12 ارب 40 کروڑ روپے ہیں، باطنی فنڈز کو حکومتی اداروں کے نوٹس میں نہیں آنے دیا جاتا۔ پاکستان میں سب سے زیادہ این جی اوز بلوچستان میں کام کرتی ہیں،جہاں ان کی تعداد 35 ہزار 367 ہے۔ 33 ہزار 168 این جی اوز پنجاب میں مصروف عمل ہیں۔ صرف لاہور شہر میں 6 ہزار پانچ سو این جی اوز ہیں۔ سند ھ میں 16 ہزار 891 اور خیبرپختونخوا میں تین ہزار 33 این جی اوز رجسٹر ڈہیں۔ ان تنظیمو ں کے تحت ملک میں 20 لاکھ 78 ہزار لوگ شہری حقوق کے لیے کام کرتے ہیں، جبکہ 16 لاکھ 3 ہزار ماہرین کاروباری و پیشہ ورانہ ایسوسی ایشن کے لے کام کرتے ہیں۔ سماجی خدمات میں 3 لاکھ ماہرین اپنی مہارت پیش کرتے ہیں۔ ان سب تنظیموں میں 78 فیصد تنظیمیں شہروں تک محدود ہیں۔ ذرائع کے مطابق بعض غیر سرکاری تنظیموں کو جاسوسی کے مقاصد کے لیے استعمال کیے جانے کی رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں۔ تاہم موجودہ حکومت این جی اوز کے معاملے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ ملکی قوانین پر پورا نہ اترنے والی این جی اوز کی سخت نگرانی شروع کر دی گئی ہے اور صوبائی حکومتوں سے این جی اوز کا تازہ ترین ڈیٹا مانگ لیا گیا ہے۔ نئے مجوزہ قانون کے تحت غیر ملکی ایجنڈے کے لیے کام کرنے والی این جی اوز پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے لائحہ عمل طے کر لیا گیا ہے۔ وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان اپنے بیان میں اس بات کا انکشاف کر چکے ہیں کہ بعض این جی اوز نے تو بااثر افراد کو اپنے بورڈ آف گورنرز میں بھرتی کر رکھا ہے جنھیں بھاری تنخواہیں اور مراعات بھی مہیا کی جا رہی ہیں ذرائع کے مطابق حکومت نے قومی سلامتی کے معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے این جی اوز بالخصوص غیرملکی امداد حاصل کرنے والی غیرسرکاری تنظیموں کی رجسٹریشن کے موجودہ قانون کو تبدیل کرنے کے لیے کام شروع کردیاگیا ہے ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیرداخلہ خود اس سارے کام کی نگرانی کر رہے ہیں۔ قانون پر صوبوں سے بھی مشاورت کی جا رہی ہے این جی اوز کو اپنے مینڈیٹ اور ٹاسک سے حکومت پاکستان کو آگاہ کرنے کا پابند بنایا جا رہا ہے۔ حسابات کی مصدقہ جانچ پڑتال بھی ہوگی۔ ذرائع کے مطابق این جی اوز اور خیراتی اداروں کے لیے نیا قانون بنانے، آمدنی اور اخراجات کا آڈٹ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ این جی اوز اور خیراتی اداروں کی رجسٹریشن کے لیے مرکزی سطح پر نیا میکنزم بنے گا اور تمام این جی اوز کا اسلام آباد میں ڈیٹا بیس تیار کیا جائے گا، جس سے متعلقہ این جی اوز کے کام کرنے کے مقاصد اور حدود کا تعین ہو سکے گا۔ سرکاری ذرائع کے مطابق این جی اوز حکومت سے کیے گئے معاہدوں کی پاسداری نا کرنے کی وجہہ سے چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم رائج کیا گیاہے ذرائع کے مطابق این جی اوز سے متعلق صورتحال کاجائزہ لینیکے لئے واچ لسٹ پر موجود این جی اوز کے مستقبل کے حوالے سے فیصلے بھی جلد متوقع ہیں ذرائع کے مطابق نئے قانون کے تحت تمام این جی اوز کو اپنی آمدنی اور اپنے سالانہ اخراجات کی مکمل تفصیلات ظاہر کرنا ہوں گی اور ان کا باقاعدہ آڈٹ کیا جائے گا۔ جبکہ این جی اوز مقررہ کردہ علاقوں کے علاوہ کسی دوسرے علاقے میں نہیں جاسکیں گی اور انہیں ملک کے سیکورٹی تقاضوں اور سماجی روایات کا مکمل احترام کرنا ہوگا۔

غذائی اشیاء کی برآمد سے 66کروڑ17لاکھ ڈالر کا زرمبادلہ حاصل

ملتان (ناصر زیدی سے)جولائی،اگست کے دوران غذائی اشیاء کی برآمد میں 81 فیصد اضافہ ریکارڈکیا گیا،معیشت کیلئے اچھا شگون
چاول کی برآمد 13فیصد اضافے سے 28کروڑ 2لاکھ 47ہزار ڈالرپھلوں کی ایکسپورٹ 23فیصد سے بڑھ گئی سبزیوں کی برآمد سے3کروڑ82لاکھ 76 ہزار ڈالر ملے گندم چینی،دالوں کی برآمد صفر،گوشت کی مصنوعات میں 3فیصد کمی

امریکی نائب وزیر خارجہ 7اکتوبر کو 2روزہ دورے پر پاکستان پہنچیں گی

اسلام آباد (این این آئی)امریکی نائب وزیرخارجہ شرمن 7اکتوبر کو 2روزہ دورے پرپاکستان پہنچیں گی اپنے دورے کے دوران وہ پاکستانی سول وفوجی قیادت سے ملاقاتیں کریں گی۔تفصیلات کے مطابق پاکستان اور امریکا کے درمیان دوطرفہ تعلقات اور سفارتی روابط میں مزید بہتری آنے لگی ، امریکی نائب وزیرخارجہ شرمن 7اکتوبر کو 2 روزہ دورے پرپاکستان پہنچ رہی ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ نائب وزیرخارجہ 4ملکی دورے کے آخری مرحلے میں پاکستان آئیں گی، اپنے دورے کے دوران نائب وزیرخارجہ سول وفوجی قیادت سے ملاقاتیں کریں گی۔ترجمان کے مطابق نائب وزیرخارجہ سوئٹزرلینڈ، ازبکستان اور بھارت بھی جائیں گی۔گذشتہ ماہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے رابطے میں امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے پاک امریکا بہتر تعلقات اور مشترکہ مفاد کیلئے تعاون میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ترجمان پینٹاگون کے مطابق امریکی وزیر دفاع نے پاک امریکا تعلقات کی اہمیت پر زور دیا اور مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

MG موٹرز مافیا کیخلاف کارڈیلرز بھی میدان میں آگئے‘ شدید احتجاج

لاہور (خصوصی ر پورٹر)ایم جی موٹرز مافیا کے خلاف کار ڈیلرز بھی میدان میں آ گئے۔اون مافیا کی جانب سے گاڑی مانگنے پر شہری کی ہلاکت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ صرف منافع کی خاطر لوگوں کی جان لینا کہاں کا بزنس ہے؟ ڈیلرز خبریں/چینل۵سروے میں پھٹ پڑے۔تفصیلات کے مطابق چند روز قبل پیکجز مال پر ایم جی موٹرز کے عملے کی جانب سے شہری کے ساتھ مارپیٹ کے نتیجے میںشہر ی اس کی ہلاکت پر اب کارڈیلرز بھی سامنے آچکے ہیں جن کا کہنا ہے تھا کہ خبر یں ، چینل ۵ ایک بار بھی مظلوم کی آواز بنا اور جیسا کہ ایم جی موٹر ز پر پیکیجز مال میں واقع غوث نامی شخص کی ویڈیو منظر عام آئی جس میں اس نے اپنے والد کو مبینہ طور پر قتل کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔جیل روڈ پر واقع کار شوروم کے مالک عمر سلیم نے کہا کہ کچھ روز قبل ایک ویڈیو میں غوث گوندل نامی ایک نوجوان نے اپنے والد کے لیے انصاف کے حصول میں مدد کے لیے فریاد کرتے ہوئے دکھائی دیا جس پر ان کا الزام ہے کہ ایم جی موٹرز کے عملے نے پیکیجز مال میں قتل کیا تھااور اس کے والد مبینہ طور پر ایک نئی گاڑی خریدنے کے لیے ایم جی شوروم گئے تھے۔میرے خیال میں کسی گاہک کےساتھ صرف وقت پر ڈیلیوری مانگنے پر ایسا سلوک سمجھ سے بالاتر ہے۔ایک کارڈیلر عمیر نے کہا کہ متوفی کے بیٹے کے بیانات کے مطابق ، اس کے والد نے فروری 2021 میں ان کے لیے پیشگی ادائیگی کے ساتھ ایک گاڑی بک کرائی تھی ، اور یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ یہ کار جولائی 2021 میں وصول کر لیں گے۔لیکن شوروم مالکان اور عملہ کی طرف سے مرحوم کے ساتھ بدتمیزی اور مارپیٹ کی کسی طور اجازت نہیں دی جاسکتی ہے بطور کار ڈیلر یہ ہمارا فرض ہے کہ نہ صرف سے گاہک سے صاف ستھری ڈیل کریں بلکہ جو وعدہ کیا جائے اسے وقت پر پورا بھی کریں۔سمن آباد میں کار شوروم کے مالک نویدنے کہا کہ متو فی کے بیٹے کے مطابق اس دن اس کے والد کو شوروم سے کال آئی کہ وہ آ کر اپنی گاڑی وصول کرے ، اور باقی ادائیگی کرے۔ تاہم جب اس کے والد شو روم میں گئے تو یہ رقم جسے اون کہا جاتا ہے مبینہ طور پر ان سے لی گئی تھی لیکن کار ابھی تک نہیں دی گئی۔یہ ایک سنگین الزام ہے جو ایم جی موٹرز کو وضاحت دینا ہوگی کیونکہ بطور مسلمان بھی ہم پر تاجر کے طور پر فرض ہے کہ گاہک سے سچی اور کھری بات کریں۔

IMF کا آٹے‘ گھی‘ چینی سمیت 5 اشیاءپر سبسڈی ختم کرنے کےلئےپاکستان پر دباؤ

بین الاقوامی مالیاتی ادارے(آئی ایم ایف ) نے پاکستان سے آٹے ، گھی ، چینی ،دالوں ، چاول ، گیس اور بجلی پر بھی سبسڈی ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کا آغاز اکتوبر میں ہوگاجبکہ آئی ایم ایف نے سبسڈی ختم کرنے کیساتھ مالی نظم و ضبط قائم کرنے کا مطالبہ بھی کیاہے ۔آئی ایم ایف کی جانب سے کہا گیا کہ آٹے ، گھی ، چینی ، دالوں اور چاول پر سبسڈی ختم کرکے صرف احساس پروگرام میں شامل افراد کو ہی ٹارگٹڈ سبسڈی دی جائے۔مذاکرات میں پاکستانی معیشت ، اہداف کے حصول ، سبسڈیز، محصولات اور گردشی قرضہ کی صورتحال کا جائزہ لیاجائے گا۔ مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں حکومت کو 1 ارب ڈالر قرض کی قسط جاری کی جائے گی ۔

جیو پولیٹیکل چینجز اور پاکستان کیلئے امکانات

رانا زاہد اقبال
گزشتہ ایک دو دہائیوں کے دوران تیزی سے رونما ہونے والی جیو پالیٹیکل چینجز تقاضا کرتی ہیں کہ پاکستان پر ان کے اثرات پر گہری نظر رکھی جائے۔ یورپ اور ایشیا ایک ہی خطہ تھے انہیں صرف کاکیشیا کے دشوار گزار رعلاقوں نے ایک دوسرے سے جدا جدا کر رکھا ہے۔ ٹیکنالوجی کی بدولت جنم لینے والی گلوبلائزیشن نے اس تقسیم کو مٹا دیا ہے۔ چین چھ بڑے راستوں پر مشتمل بیلٹ اینڈ روڈ پر کام کر رہا ہے جس میں پانچ زمینی اور ایک سمندری راستہ شامل ہے۔ ان میں سے بعض کی تکمیل ہو چکی ہے اور بعض پر کام جاری ہے۔ یہ منصوبہ یورپ اور ایشیا کی سر زمین پر سفر کے نئے راستے کھول دے گا۔ نئے تجارتی راستے نئے سیاسی اتحاد بنا رہے ہیں۔ تیزی سے بدلتی دنیا کا نقشہ ہمیں اپنے ذہن میں رکھنا ہو گا۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے نے سمندری راستوں کی صورتحال تبدیل کر دی ہے۔ ہمارے ملک کی اقتصادی ترقی کے امکانات اس سے منسلک ہیں۔ انفرا سٹرکچر اور صنعتوں کی ترقی، زراعت کی بہتری اور دنیا کے لئے پاکستان میں نئے مواقع اس منصوبے کے ثمرات ہیں۔
ہمارا ملک ایک دلچسپ دورسے گزر رہا ہے۔ ہمیں حالیہ سیاسی و معاشی تغیرات کا فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری اصلاحات کر لینی چاہئیں۔ چونکہ اب سی پیک کے تحت ہمارا ساری دنیا سے رابطہ ہونے جا رہا ہے۔ دنیا بھر کے امپورٹرز کو راغب کرنے کے لئے سی پیک کے تحت بننے والی بیلٹ اینڈ روڈزپر ہینڈی کرافٹ پارک بنائے جا سکتے ہیں۔ اس طرح کے ہینڈی کرافٹ پارک میں زیادہ تر پیکنگ اور ایکسپورٹ کا کام ہونا چاہئے جہاں غیر ملکی خریدار اپنے سامنے پروڈکٹ تیار کرا سکتے ہوں اور اپنے سامنے ہی سی سی ٹی وی کیمرے کی نظر میں پیکنگ بھی کرا سکیں، یہاں تک کہ انہی علاقوں میں جننگ، سپننگ، ویونگ، ڈائینگ، پیکنگ وغیرہ کے تمام مراحل طے کئے جا سکتے ہیں۔ پارک سے سیدھے کنٹینر لوڈ کرنے کی سہولت بھی ہونی چاہئے۔ اس سے جہاں ایکسپورٹ بڑھے گی وہیں متعلقہ علاقوں میں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ اس کے ساتھ ٹیکسٹائل کلسٹر بھی بننے چاہئیں۔ اس طرح غیر ملکی خریدار اپنے سامنے پراڈکٹ بنتے دیکھ سکیں گے۔ ہینڈی کرافٹ پارک میں ہر سال نمائش لگائی جا سکے گی۔ آج کل زیادہ تر غیر ملکی خریدار اپنے سامنے پراڈکٹ بنتی اور پیکنگ ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں یہاں ایسی سہولت دینے سے ہماری برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔ ہینڈی کرافٹ پارک میں پیکنگ سے لوڈنگ تک سب سی سی ٹی وی کیمرے میں ریکارڈنگ ہونی چاہئے تا کہ کسی طرح بھی غیر ملکی خریدار کے ساتھ دھوکہ دہی نہ ہو سکے۔
اس کے علاوہ برآمدی یونٹوں کے لئے ترغیبات اور اندرون ملک تجارتی ترقی کے لئے مراعات سمیت ایسے متعدد اقدامات کئے جا سکتے ہیں جن سے برآمدات بڑھانے میں مدد ملے۔اس وقت اندازے کے مطابق عالمی مارکیٹ میں ہماری برآمدات کی ڈیمانڈ میں 30 فیصد کمی ہو چکی ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے ہماری درآمدات برآمدات کے مقابلے میں بہت زیادہ رہی ہیں جس سے ملکی تجارتی خسارہ بہت بڑھ گیا ہے۔ تجارتی خسارہ کم کرنے کے لئے کاشتکاروں، صنعت کاروں اور تاجروں کو مراعات و ترغیبات فراہم کرنے کے علاوہ ان پہلوؤں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہو گی جو برآمد کنندگان کو بیرونی تجارت کے لئے ملنے والے آرڈرز کی تکمیل میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔پاکستانی برآمدات کی کوالٹی کی اچھی طرح چھان پھٹک کی جائے، کارخانوں کے ماحول کو بین الاقوامی معیار سے ہم آہنگ کیا جانا چاہئے، ایکسپورٹ انڈسٹری کے خام مال کی فراہمی میں آسانیاں پیدا کی جائیں۔ پچھلے کئی برسوں سے جاری تجارتی خسارے سے قومی معیشت کو لاحق خطرات دور کرنا ہی ہمارے اکنامک مینیجرز کی صلاحیتوں کا اصل امتحان ہے۔
انہیں ایسی حکمتِ عملی اختیار کرنی چاہئے کہ درآمدات و برآمدات کا عدم توازن دور ہو، برآمدات میں قیمتوں اور کوالٹی کے اعتبار سے دوسرے ممالک کے ساتھ مسابقت ممکن ہو اور کاروبار کے بڑھتے ہوئے اخراجات کو گھٹا کر بین الاقوامی مسابقتی سطح پر لایا جا سکے۔ سی پیک منصوبے کی تکمیل ہمارے لئے بڑی اہم ہے اس سے پورا فائدہ اٹھانے کے لئے بروقت اقدامات کر لینے چاہئیں۔ سی پیک کی تکمیل کے بعد اپنے ملک کو اس خطے میں ٹرانس شپمنٹ کا مرکز بنا لیں اس روٹ سے جو تجارت ہو اس کے لئے ہم ویئر ہاؤس کا کردار ادا کریں اور مال کی دونوں طرف ترسیل کرتے ہوئے کچھ ویلیو ایڈیشن کر دیں تو شائد ہم آنے والے دس بیس سال میں ملک میں غربت کو کافی حد تک کم کر سکنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے پھر ہمیں امداد کی بھی اتنی زیادہ ضرورت نہ پڑے اور ہم قرضوں کا بوجھ بھی کافی حد تک کم کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔
(کالم نگارمختلف امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

ایرک پرنس کاظلم اوربلیک واٹر

محمدنعیم قریشی
یہ ایک ایسے انسانیت کے قاتل کی داستان ہے جس کے کپڑوں پر دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے قتل کے چھینٹے ہیں جس کا دامن معصوم مسلمانوں کے خون سے سرخ ہے یہ بے رحم قاتل آخر ہے کون،اگر آپ کو یاد ہوتو کچھ دن قبل کابل ائیر پورٹ پر ایک خود کش حملہ ہوا اس خودکش حملے کے نتیجے میں 175افراد موت کا شکار ہوگئے اور دو سوکے قریب لوگ زخمی ہوگئے۔اس ایئر پورٹ پر ہزاروں کی تعداد میں لوگ موجود تھے لوگوں پر خوف طاری تھا کہ اگر اکتیس اگست تک انہیں سیٹ نہیں ملتی اور طالبان نے انخلا پر پابندی لگا دی تو ان کا کیا ہوگا؟ اس قاتل کا ذ کر کرنے سے قبل میں ذرا تاریخ پر نظر دوڑانا چاہوں گا، اگر آپ کو یاد ہو تو چنگیز خان کے بارے میں ہم نے تاریخ میں پڑھا اور سنا ہے اس نے جنگوں کے دوران دو کروڑ افرادکو بے رحمی سے قتل کرد یا تھا،چنگیز خان کے بعد اس کا پوتا ہلاکو خان جس نے بغداد پر حملہ کیا اور بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجاد ی،ہلاکو خان کے بعد ہم تیمور لنگ کے بارے میں پڑھتے ہیں جس نے 54علاقوں کو فتح کیا، اور جس شہر کو وہ فتح کرتا تھا وہاں کی پوری آبادی کو قتل کرنا وہ اپنا فرض سمجھتا تھا اور اس بے رحمانہ رویئے کے ساتھ شہر کو بھی آگ لگا دیتا تھا، تیمور لنگ نے کئی بار کھوپڑیوں کے مینار بنائے اس کے بعد ظالمو ں کی فہرست میں ہم نے پڑھا کہ سلطنت مغلیہ کے بادشاہ کس طرح ایک دوسرے کے بیٹوں کو قتل کرتے رہے پھر اس کے بعد ہم نے سلطنت عثمانیہ میں دیکھا کہ ایک بادشاہ نے اپنے 19بھائیوں کو قتل کردیا، شایدآپ کو یقین نہ آئے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس کے منہ پر خون لگا ہووہ کسی کا بھی سرقلم کرنے سے پہلے کچھ نہیں سوچتا،یہ واقعات صدیوں پر محیط ہیں،لیکن ہمیں کیا معلوم تھا کہ اکیسویں صدی کے اس دور میں جب انسان علم کی رفعتوں کو چھور ہا ہوگا، ہم اسی طرح کے ایک ایسے ظالم انسان کو اپنے سامنے دیکھیں گے جو ظلمات کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈز توڑنے کے باوجودحکومتی پروٹوکول میں پھرتا ہے جسے انسانی قتل کا پرمٹ خود سرکار جاری کرتی رہی، یہ شخص امریکہ میں رہتا ہے اورحالیہ دنوں میں اپنے چارٹرڈ طیاروں کے ذریعے افغانستان سے لوگوں کا انخلا کر رہا تھا اس وقت جب ساری انسانیت اس بات کے لیے پریشان تھی کہ لوگ اطمینان سے اپنے گھروں کو چلے جائیں محفوظ ہو جائیں یہ شخص اس وقت بھی پیسے بنا رہا تھا، جب لوگ اس خوف کے عالم میں کابل ایئر پورٹ پر موجو د تھے اور دھماکے کے بعد پریشان تھے تو یہ شخص فی آدمی چھ ہزار پانچ سو ڈالر طلب کر رہا تھا لوگوں سے گویااگر ایک خاندا ن کے چار افراد ہیں تو یہ 26ہزار ڈالر طلب کر رہا تھا، جو کہ پاکستانی 43لاکھ روپے بنتے ہیں اس شخص کو انسانی زندگی سے زیادہ ڈالرز سے پیار ہے اور دولت کے اس پجار ی کا نام ہے ایرک پرنس، یہ امریکہ کی بد نام زمانہ تنظیم ”بلیک واٹر“ کا سربراہ اور خالق ہے اس نے 1997میں اس تنظیم کی بنیاد امریکہ کے شہر نارتھ کیرونا میں رکھی۔
1998میں امریکہ کا سب سے بڑا ٹریننگ سینٹر بنایا، اور اس ٹریننگ سینٹر میں اس نے مختلف ایجنسیز کے سابق عہدیدار، سی آئی کے سابق عہدیدار اور سابقہ فوجیوں کے ایک بڑی تعداد کو بھرتی کیا اور انہیں کمانڈوز کی ٹریننگ دی، گویا ایک پرائیویٹ فوج تشکیل دے دی اور اپنے آپ کو ایک سیکورٹی کمپنی کے نام سے متعارف کروایا اور اپنی خدمات امریکہ کو دیدیں۔ امریکی حکومت نے اس تنظیم ”بلیک واٹر“ کی خدمات سب سے پہلے 2003میں عراق جنگ کے دوران حاصل کیں، ان کو اکیس ملین کا ایک معاہد ہ دیا گیا جس کے تحت یاتحادی افواج کے سربراہ اور کچھ اہم تنصیبات کی حفاظت ان کے ذمے لگائی گئی، اور اس کے بعد پھر انہوں نے پلٹ کر نہیں دیکھا 2008تک یہ وہاں موجود رہے اور ان پانچ سالوں کے دوران یہ نہ صرف امریکی سفارتخانوں اور امریکی سفیروں کی حفاظت کرتے رہے بلکہ یہ امریکی فوج کے شانہ بشانہ اس جنگ کا حصہ بن گئے اورپھر عراق میں انہوں نے ظلم کی نئی نئی داستانوں کورقم کیا۔
عراق کے خلاف جنگ میں چار لاکھ ساٹھ ہزار عراقیوں کو ہلاک کیا گیا جس میں لاتعدا د بچے، بوڑھے نوجوان اور عورتیں شامل ہیں، اور اس پورے ظلم کا سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ جب 2001میں یہ جنگ ختم ہوگئی تو امریکہ اور برطانیہ نے تسلیم کر لیا کہ وہاں ڈسٹرکشن کا اسلحہ موجود نہیں تھا یہ محض ایک غلط فہمی تھی لیکن اس غلط فہمی کے چکر میں ان ظالموں نے چار لاکھ ساٹھ ہزاربے گناہ عراقیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، اور ان پانچ سالوں میں بلیک واٹر ظلم کی ایک مشین بنی رہی انہوں نے بے تحاشالوگوں کو قتل کیا حتیٰ کہ 2004میں بغداد کے چوک میں انہوں نے سترہ بے گناہ لوگوں کو قتل کردیا اس دوران ان پر بہت لعن طعن بھی ہوئی ان پر بہت مقدمات بھی ہوئے لیکن ایرک پرنس کا کوئی کچھ بھی نہ بگاڑ سکا وہ آج بھی ایک آزاد شہری کی طرح امریکی میں موجود ہے،اس ظالم شخص نے امریکی حکومت سے ایک ارب ڈالر سے زیادہ کمائے یہ ہی وجہ ہے کہ امریکا کے سو امیر ترین شہریوں میں اس کا نمبر88ہے۔امریکا نے اس شخص کو دنیا بھر میں استعمال کیا۔ اریک پرنس کی خدمات امریکی سی آئی اے لیبیا میں حاصل کی گئیں۔لیبیا میں کرنل قذافی کے خلاف سیاسی مشکلا ت کھڑی کروانا اور اس کو اقتدار سے نکلوانا اور پھر بعدازاں قتل کرنے میں سی آئی نے ”بلیک واٹر“ کو استعمال کیا اور وہاں بھی یہ لوگ ایک مشن مکمل کر کہ آئے لیبیا کے بعد تیسرے مسلمان ملک کے لیے امریکہ نے اس کی خدمات حاصل کیں، جیسے ہی امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا فورا ہی ایرک پرنس نے افغانستان کا دورہ کیا اور عراق اور لیبیا کے طرح افغانستان جنگ میں بھی یہ لوگ امریکی فوج کا حصہ بن گئے۔
افغان جنگ میں 2500امریکی فوجی ہلاک ہوئے اور چار ہزار کنٹریکٹر ہلاک ہوئے یہ بلیک واٹر کے فوجی تھے اس جنگ میں پچاس ہزار افغان شہری اور 66ہزار افغانی فوجی ہلاک ہوئے، ظلم کی وہ داستان جو عراق سے شروع ہوئی اس کی انتہا انہوں نے افغانستان میں کی اور جب بیس برس کے بعد امریکہ کو ایک ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا اسی ہی طرح بلیک واٹر کو ذلیل و خوار ہونا پڑا لیکن جیسے ہی انخلا کا سلسلہ شروع ہوا اور انہوں نے چارٹرڈ فلائٹس چلائیں تو جاتے جاتے بھی افغان شہریوں اور غیر ملکیوں کا خون انہوں نے ایسے ہی چوسنا شروع کیا جس طرح میں نے بتایا کہ انخلا کے وقت ایئر پورٹ سے جاتے ہوئے لوگوں سے 6500ڈالرز طلب کیے۔بلیک واٹر ایک سیکورٹی ایجنسی کے نام پر متعارف کروائی گئی لیکن درحقیقت یہ قاتلوں کی ایک تنظیم ہے جس نے مسلمان ممالک میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا۔
چائنہ کی واحد حکومت ہے جس نے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ جنگ میں جس نے جنگی جرائم کیے ہیں ان کے خلاف ایک کمیشن بنایا جائے اور ان پر مقدمہ بنایا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بہت ہی مناسب اور برحق مطالبہ ہے چین کا بلکہ پوری عالمی برادری کو اس کا مطالبہ کرنا چا ہیے اور ایک کمیشن بننا چاہیے جو ان تمام جنگی جرائم کی تحقیقات کرے اور جو ذمہ دار ہیں ان کو عالمی عدالت میں لے جایا جائے اور ان کو قرار واقعی سزا دی جائے‘جس میں بلیک واٹر کاسربراہ ایرک پرنس بھی شامل ہو۔
(کالم نگار مختلف امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

 

 

الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اوورسیز پاکستانی

مرزا روحیل بیگ
وزیراعظم عمران خان 2023 کے قومی انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال چاہتے ہیں، اس حوالے سے حکومت متحرک نظر آتی ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ آئندہ انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے ہوں گے اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن اور اپوزیشن نے اس حوالے سے لاتعلقی اختیار کر رکھی ہے۔ الیکشن کمیشن نے الیکٹرانگ ووٹنگ کو مسترد کرتے ہوئے اعتراضات اٹھائے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر اعتراضات پر تفصیلی رپورٹ سینٹ کی قائمہ کمیٹی میں جمع کرائی ہے جس میں الیکٹرانک ووٹنگ پر 37 اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے دھاندلی رک سکتی ہے اور نہ ہی ووٹر کی شناخت خفیہ رہے گی۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ 4 لاکھ مشینوں پر کم از کم 150 ارب روپے خرچ ہوں گے، اتنا پیسہ خرچ کرنے کے باوجود الیکشن کی شفافیت اور ساکھ مشکوک رہے گی۔
الیکشن کمیشن سے قبل اپوزیشن جماعتیں بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر عدم اعتماد کر چکی ہیں، جنہوں نے الیکشن کمیشن سے ملتے جلتے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان اعتراضات میں بیلٹ پیپر کی رازداری نہ رہنا، ویئر ہاؤسز اور ٹرانسپوٹیشن مشینوں کے سافٹ ویئر کی تبدیلی، ہیکنگ وغیرہ کے خدشات شامل ہیں، جبکہ ووٹر کی تربیت اور ٹیکنالوجی کا استعمال بھی رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اس طرح نتائج میں تاخیر کے باعث میڈیا، این جی اوز اور سول سوسائٹی کو بداعتمادی ہو سکتی ہے۔ 2023 کے انتخابات میں اگر آر ٹی ایس کی طرز پر یہ سسٹم فلاپ ہو گیا تو ذمہ دار متعلقہ وزارتیں اور الیکشن کمیشن ہو گا۔ اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی کہ جرمنی، ہالینڈ، آئرلینڈ، اٹلی اور فن لینڈ نے سکیورٹی مسائل کی وجہ سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال ترک کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ملک میں شرح خواندگی کم ہونے اور ووٹروں میں اس مشین کے استعمال کے بارے میں آگہی نہ ہونے کی وجہ سے اس مشین کو انتخابات میں استعمال کرنا ٹھیک نہیں ہو گا اور الیکشن کمیشن کے سٹاف کو اس مشین کے استعمال کی تربیت دینے میں وقت بہت کم ہے۔ الیکشن کمیشن کی رائے میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں سے شفاف الیکشن ممکن نہیں، الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کا یکطرفہ فیصلہ کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن کی تجاویز پر سنجیدگی سے غور کے ساتھ ساتھ اپوزیشن جماعتوں سے بھی مشاورت کی جائے کیونکہ الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کئی ترقی یافتہ ملکوں میں بھی ناکام ہو چکا ہے۔ جرمنی میں قومی انتخابات ہونے جا رہے ہیں، یہاں ووٹ بیلٹ پیپر اور ڈاک کے ذریعے ڈالے جاتے ہیں۔
جرمنی میں 2005 میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کے بعد شفافیت پر اعتراضات اٹھائے گئے۔ عدالت نے سائبر ایشوز، آئن لائن مداخلت کا خدشہ قرار دے کر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال غیر آئینی قرار دیا۔ الیکشن کمیشن کے سربراہ نے بیلٹ پیپر طریقہ کار میں ہاتھ سے کاؤنٹنگ کے ذریعے کسی قسم کی بے ضابطگی خارج از امکان قرار دی، جس کے بعد سے جرمنی میں انتخابات کا روایتی طریقہ رائج ہے۔ اس بات میں وزن ہے کہ اگلے انتخابات میں صرف دو سال رہ گئے ہیں اور اس مختصر عرصہ میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو پہلی بار پورے ملک میں متعارف کروانا بہت مشکل کام ہو گا۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے منصوبے میں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔ الیکشن میں ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اس میں جلد بازی فائدہ مند نہیں۔ ورچوئل دنیا اب ایک حقیقی دنیا بن چکی ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ کے حوالے سے ڈیٹا سکیورٹی انتہائی اہم ہے۔ شفافیت اور بے ضابطگیوں کے خاتمے کے لیئے درکار آئینی تبدیلیوں کے لیے فریقین کی مشاورت ناگزیر ہے اور کسی ایسے اقدام سے بہر صورت گریز کیا جائے جس سے قومی وحدت اور اتفاق رائے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔
سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور نے بھی کثرت رائے سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال سے متعلق ترمیم مسترد کر دی اور ساتھ ہی اوورسیز پاکستانیوں کے لیئے الیکٹرانک ووٹنگ سے متعلق ترمیم بھی مسترد کر دی۔ یہ معاملات اصلاح کی بجائے نئے تنازعات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ عوام کے حق رائے دہی کو شفاف اور بھرپور انداز سے بروئے کار لانے کے لیے حکومت، اپوزیشن اور الیکشن کمیشن کوئی راستہ نکالیں۔ اب تک الیکشن کمیشن نے دوسرے کچھ ملکوں میں مشین کی ناکامی اور ووٹر کی شناخت کے حوالے سے جن مسائل کا ذکر کیا ہے حکومت کو ایسے خدشات دور کرنا چاہئیں اور ادارہ جاتی ٹکراؤ کی فضا پیدا نہیں ہونے دینی چاہیئے۔ جمہوریت کے استحکام کی آج کی مثالی فضا گدلی ہو گی تو اس سے جمہوریت کو پہنچنے والے نقصان کے باعث کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
(کالم نگارجرمنی میں مقیم،بین الاقوامی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

سپرطاقت اوربڑی غلطی

مسلمان ہونے کے ناطے علم حاصل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔اللہ تعالیٰ نے خود قرآ ن شریف میں کہا ہے کہ ہم نے انسان بنایا۔اور اس کو زبان بولنا سیکھائی اور پھر اسی زبان کے ذریعے علم دیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ علم حاصل کرنا ہر انسان پر فرض ہے۔اور علم انسان کو انسان بناتا ہے۔اگر انسان علم حاصل کرنے کے بعد اچھا انسان بن جاتا ہے تو یقینی طور پر اچھا مسلمان بھی ہو گا اور کرشماتی طور پر اس کو کامیا بیاں بھی ملیں گی۔لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم انسان کو پہلے مسلمان بناتے ہیں اور پھر اس کے بعد کچھ اور بنانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ در حقیقت ہونا اس کے الٹ چاہیے۔قران شریف میں واضح طور پر انسان کی بات کی گئی ہے نہ کہ مسلمان کی قرآ ن شریف انسان کو مخاطب کرکے اسے تعلیمات دیتا ہے اور پھر ان تعلیمات کے زیر اثر جب مسلمان بنتا ہے تو طارق بن زیاد بھی بنتا ہے،خالد بن ولید بھی بنتا ہے اور ارطغرل غازی بھی بنتا ہے۔اصل میں مسلمان بننا اتنا آسان کام نہیں ہے۔
ایک مسلمان کو بے خوف ہونا چاہیے اور ڈٹ کر برائی کا مقابلہ کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ایسی برائیوں کا مقابلہ مسلمان کرتا ہے جو کہ انسان کی نشو نما اور بہبود کے خلاف ہوں جو مسلمان ڈر جاتا ہے وہ ایک کمزور مسلمان ہے اور اللہ تعالیٰ ان پر رحم اور مہر بانی کرے ہم سب کا شمار اسی کیٹگری کے مسلمانوں میں ہو تا ہے۔میں اپنی اس بات کو موجودہ دور اور سیاست کے زمرے میں دیکھوں تو آج کی دنیا میں ہم بطور قوم امریکہ سے مرعوب ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ امریکہ سے ڈرتے ہیں۔اور بات یہاں ختم نہیں ہو تی ہم تو اتنا ڈرتے ہیں کہ ان کے بارے میں سچ بولنے سے بھی اجتناب کرتے ہیں۔افغانستان کے تناظر میں بات کروں تو حال ہی ہم نے دیکھا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کے ساتھ کیا حشر ہوا ہے،اللہ کے نڈر بندوں نے 40سال کی مسلسل کوشش کے بعد افغانستان میں امن قائم کیا ہے اور حکومت حاصل کر لی ہے۔اس طویل جد و جہد کے دوران وہ ہر طرح کی آزمائش سے گزرے ہیں۔طرح طرح کی مصیبتوں اور مشکلا ت کا سامنا کیا بد ترین تذلیل اور تشدد کا سامنا بھی کیا اس سب کے بعد انسان یہ ضرور سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر ان میں ایسی کیا بات تھی کہ وہ دنیا کی طا قت ور ترین قوتوں کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے؟ ان میں آخر کچھ تو ایسی بات ہو گی کہ ایسا ممکن ہوا جو کہ بظاہر ناممکن تھا اس کا جواب انسان کے ذہن میں یہی آتا ہے کہ یہ لوگ سچے مسلمان ہیں اور ایمان کی طاقت سے لبریز ہیں اور کسی طرح سے بھی کمزور مسلمان نہیں ہیں۔یہ مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔افغان قوم اس لحاظ سے شاید دنیا کی نرالی قوم ہے کہ انھوں نے کسی بھی طرز حکومت پر اکتفا نہیں کیا ہے پہلے بادشاہت کی حکومت کا خاتمہ کیا،اس کے بعد جمہوری حکومتوں کا خاتمہ کیا سوشلسٹ حکمرانوں کو بھی نہیں ٹکنے دیا گیا اور ان کو بھی افغانستان سے نکال باہر کیا۔طویل جدو جہد کے بعد جب سویت یونین کو افغانستان سے نکال باہر کیا گیا تو افغان عوام بلا شبہ ایک عظیم فتح سے ہمکنار ہو ئے لیکن دنیا کی سامراجی قوتوں کو افغان عوام کی فتح پسند نہیں آئی اور افغانستان کو خانہ جنگی کی دلدل میں دھکیل دیا گیا۔افغانستان کی تاریخ کے اس تاریک دور میں تحریک طالبان ابھری اور انھوں نے افغانستان کو امن دیا،استحکام دیا اور افغان عوام کو ایک بہتری کی امید دلائی لیکن اس کے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا دنیا میں سوائے تین ممالک کے کسی نے ان کی حکومت کو تسلیم تک نہ کیا۔افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا گیا ایک طرح سے دنیا سے کاٹ دیا گیا جس کا نتیجہ کیا نکلا کہ افغان سرزمین اور افغان عوام محرومیوں میں گھرتے چلے گئے اور افغان سرزمین پر ایسی قوتوں نے جنم لیا جن کو شاید جنم نہیں لینا چاہیے تھا اور انھی قوتوں کے باعث افغانستا ن میں ایک اور جنگ مسلط ہوئی۔
امریکہ نے قبضہ کیا اور اس کے بعد اس تحریک کے ارکان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ میں شاید اپنے قلم سے یہاں پر تحریر بھی نہ کر سکوں۔اس کے بعد کی کہانی بھی سب ہی جانتے ہیں امریکی نے افغانستان میں ڈالروں کا انبار لگادیا۔ایک فوج بنائی،ایک انتظامیہ تشکیل دی گئی کچھ حکمران بھی منگوائے گئے یعنی کہ حکمرانی کے جو بھی لوازمات ہوتے ہیں وہ سب پورے کیے گئے لیکن اگر کچھ نہیں کیا تو وہ یہ تھا کہ اس تمام کٹھ پتلی نظام کو افغان عوام کی حمایت اور قبو لیت بلکہ اگر ”اونر شپ“ کا لفظ استعمال کیا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا،نہیں دلواسکے۔دنیا کی سپر پاور اپنی طاقت کے نشے میں عوام کو کچھ سمجھتی ہی نہیں ہے اور شاید یہی سپر پاور کی سب سے بڑی غلطی ہو تی ہے جس کے باعث ناکامی اس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔عوام کی طاقت اور حمایت کے بغیر کو ئی بھی نظام نہیں چلایا جاسکتا ہے عوام ہی وہ بنیادی قوت ہوتی ہے جس کے اوپر ایک نظام کھڑا کیا جاتا ہے۔اس لیے کوئی بھی حکمران کتنا ہی عظیم اور طاقت ور کیوں نہ ہو عوام کی طاقت کے بغیر زیادہ دیر چل نہیں سکتا ہے۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو بہر حال خلق کی آواز کو خدا کی آواز سمجھنا چاہیے۔اور افغانستان میں اس آواز کا نہ کو ئی لحاظ کیا گیا اور نہ ہی کوئی بھروسہ کیا گیا اور سامراجی قوتوں کی جانب سے اس قسم کا رویہ صرف اور صرف افغانستان کے حوالے سے روا نہیں رکھا گیا ہے بلکہ امریکہ نے ہر ترقی پذیر اور غریب ملک کے عوام کو انسان سمجھنے سے انکار کیا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ اتنی بڑی طاقت ہوتے ہوئے بھی پوری دنیا میں تتر بتر ہے۔اور اسی رویے کی وجہ سے امریکہ کے دنیا میں مقاصد پورے نہیں ہو پاتے ہیں۔بہرحال طالبان خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالی نے انہیں افغانستان پر حکومت کا دوسرا موقع دیا ہے اور وہ گولی چلائے بغیر کابل میں داخل ہو گئے اور قبضہ کر لیا۔لیکن دنیا کی مقتدر قوتیں کبھی نہیں چاہیں گی کہ دنیا میں ایک صحیح مسلم ریاست وجود میں آئے ایک ایسی مسلم ریاست جس کا نقشہ علامہ محمد اقبال نے خطبہ الٰہ باد میں پیش کیا تھا،پاکستان کے نصیب میں تو ایسی ریاست بننا نہ تھا لیکن افغانستان اپنے نڈر عوام کی وجہ سے ایسی ریاست ضرور بن سکتا ہے۔ایک ایسی ریاست جس کے خوف سے آج امریکہ بھی نئے اتحاد بنا تا پھرتا ہے۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭

پاکستان‘ہمسایہ ممالک اورافغانستان

عبدالستار خان
افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قائم ہوتے ہی ایک نئی بحث نے جڑ پکڑنا شروع کردیا ہے کہ افغانستان کے تعلقات اپنے پانچ ایسے ہمسایہ ممالک کے ساتھ کون سا رخ اختیار کرتے ہیں جن کی سرحدیں افغانستان کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ایک تو دنیا کا وہ بڑا حصہ ہے جو طالبان کو افغانستان سے نکالنے اور پھر 20سال تک افغانستان کی سابقہ حکومتوں کو سنبھالنے کا فرض ادا کرتے رہے۔لیکن ان کی سرحدیں افغانستان سے جڑی ہوئی نہیں ہیں۔لیکن وہ پانچ ممالک جن کی سرحدیں افغانستان کی سرحد کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ان کے بدلتے حالات میں اپنے ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ تعلقات کیسے ہوں گے۔
اور پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ افغانستان کے ساتھ کس قسم کے معاملات رہے ہیں۔لیکن سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ افغانستان میں طالبان نے 6اگست سے 15اگست کے دس دنوں کے دوران افغانستان کے 34صوبوں میں سے جن 26صوبوں میں اقتدار حاصل کیا ان میں کتنے صوبوں کی سرحد یں افغانستان کے پانچ ہمسایہ ممالک سے جڑی ہوئی ہیں۔افغانستان میں طالبان نے 6اگست سے 15اگست دس دنوں کے دوران افغانستان34 صوبوں میں سے جن 26صوبوں کو فتح کرلیا تھا۔ان میں سے 10صوبوں کی سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں۔ان 10صوبوں میں سے ایک صوبہ کی پاکستان کے ساتھ ساتھ ایران سے بھی سرحد ملتی ہے جبکہ ایک صوبے کی سرحد چین اور ازبکستان سے ملتی ہے۔ویسے تو افغانستان کے 11صوبے ایسے ہیں جن کی سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں۔چار صوبے ایسے ہیں جن کی سرحدیں ترکمانستان سے ملتی ہیں۔ان میں سے ایک صوبے کی سرحد ایران سے بھی ملتی ہیں۔دو صوبے ایسے ہیں جن کی سرحدیں تاجکستان سے اور ازبکستان دونوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ویسے تاجکستان سے افغانستان کے تین صوبوں کی سرحدیں اور ازبکستان کے ساتھ دو صوبوں کی سرحدیں ملتی ہیں۔
افغانستان کا ایک صوبہ بدخشاں کی سرحد چین سے ملتی ہیں۔اسی صوبہ کی سرحد پاکستان اور تاجکستان سے ملتی ہیں۔اس کے علاوہ 9صوبے ایسے ہیں۔جن کی سرحدیں کسی ہمسایہ ملک کے ساتھ نہیں ملتی۔
افغانستان کی آبادی تقریباًتین کروڑ 86لاکھ ہے جس میں سے 2کروڑ 62لاکھ کی آبادی افغانستان کے ان صوبوں میں بستی ہے جن کی سرحدیں افغانستان کے پانچ ممالک سے ملتی ہیں۔سب سے زیادہ تعداد اور سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پاکستان کی سرحدوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔جن کی تعداد ایک کروڑ سات لاکھ ہے۔ایران کی سرحدوں کے ساتھ جڑے ہوئے افغانستان کے صوبوں کی آبادی 70لاکھ ہے۔ترکمانستان کے ساتھ جڑے ہوئے صوبوں کی آبادی 46لاکھ ہے۔تاجکستان کے ساتھ جڑے ہوئے صوبوں کی آبادی 24لاکھ ہے۔ازبکستان کے ساتھ جڑے ہوئے صوبوں کی آبادی 12لاکھ ہے۔جبکہ چین کے ساتھ جڑے ہوئے صوبے کی آبادی5لاکھ ہے۔
اس صور ت حال سے ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ طالبان نے دس دنوں میں ان تمام صوبوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔جن کی سرحدیں ان پانچ ممالک سے ملتی ہیں۔کچھ صوبے تو ایسے ہیں جن کا کنٹرول یا تو طالبان نے چند گھنٹوں میں حاصل کرلیا یا پھر بغیر مزاحمت کے ہی قبضہ کرلیا۔کچھ صوبے تو ایسے ہیں جہاں کے یا تو انٹیلی جنس سربراہ گرفتا ر کرلئے گئے۔یا پھر انہوں نے خود ہی سرنڈر کردیا۔چین کی بات کریں تو چین طالبان کی حکومت سے کسی قسم کی محاز آرائی یا تلخی پیدا نہیں کرنا چاہتا۔لیکن چین صرف ایک ہی بات سے پریشان ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ طالبان کی حکومت میں آنے سے چین کے صوبے xingjuangمیں uygurمسلمانوں کی تحریک میں نئی پھونک نہ پڑ جائے۔چین کا افغانستان کی ایک چھوٹی سی نکر میں سرحدی ملاپ ہے جو چین اور افغانستان کو پہاڑی سلسہ واخاں Corridor کے ذریعہ ملاتا ہے۔لیکن حیرت کی بات ہے کہ افغان صدارتی دستاویزات میں بدخشاں صوبے کو چین اور پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا نہیں بتاتے۔ایران کے لئے افغانستان سے امریکہ کا نکلنا ایک اچھا شگون ہے۔لیکن دوسری طرف طالبان کے آنے کے بعد فرقہ وارانہ جارحیت میں شدت ایران کو پریشان کرسکتی ہے۔ایران کے نئے صدر ابراہیم رئیسی نے بیان دیا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی فوجی شکست افغانستان میں امن کے ایک نئے سفر کا عندیہ ہے۔لیکن دوسری طرف افغانستان میں تبدیلی اس وقت آئی جب خود ایران میں نئے صدر کی آمد ہوئی ہے۔دوسری وجہ کرونا ہے جو ابھی تک ایران کو وہ لمحات نہیں دے سکا جس میں کچھ اور پیچیدہ معاملات کی طرف توجہ ہو۔1978میں جب افغانستان میں طالبان کی پہلی حکومت تھی۔تو ایران اور افغانستان حالت جنگ میں چلے گئے تھے کیونکہ طالبان نے ایرانی سفارتکار ہلاک کردیئے تھے۔ایران کی اسلامک انقلاب کے زور وشور میں 2013میں افغانستان میں سینکڑوں کی تعداد میں جنگجو تیار کئے تھے تاکہ شام اور عراق میں جنگجوون کو استعمال کیا جاسکے۔لیکن کیا اب افغانستان میں طالبان کی حکومت بننے سے ایران جنگجووں کی تلاش جاری رکھ سکے گا۔کیا افغانستان میں طالبان کے علاوہ ایسی اسلامی تنظیمیں بسیرا کرلیں گی جن کے ایران کے ساتھ واضح اختلافات ہیں۔
ایران نے 2001کے بعد لاکھوں کی تعداد میں پناہ گزینوں کوپناہ دی تھی۔لیکن اب لگتا ہے کہ ایران ایسا نہیں کرے گا۔تاجکستان نے افغانستان کی پنج شیر وادی میں طالبان کے خلاف معروف ترک جنگجووں کی کوئی مدد نہیں کی تھی۔اور نہ ہی پنج شیر کے ترک تاجکستان کی امید لگائے بیٹھے تھے۔تاجکستان کے طاقتور حکمران راحمون نے اشارہ دیا تھا کہ وہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرلیں گے۔لیکن یہ بھی واضح کیا کہ تاجکستان افغانستان کی حکومت میں طالبان کی اجارہ داری نہیں چاہتا۔بلکہ ایک ایسی حکومت چاہتا ہے جس میں افغانستان میں رہنے والے تمام ethnicگروپوں کی نمائندگی ہو۔تاجک 20 فیصد کے قریب افغانستان کی آبادی کا حصہ ہیں اور تیرہ سو کلو میٹر سرحد ہے۔
راحمون نے یہ بھی واضع کیا کہ ان کا ملک ایسی افغان حکومت کو مسترد کردے گا۔جو باقی حکومت کو مسترد کردے گا۔جو باقی قوموں کی ذلت رسوائی پہ مبنی ہو۔ازبکستان نے ان تمام ویسٹرن ممالک کے لوگوں کو اور 500 سے زائد افغان پائلٹ جو طالبان کے آتے ہی افغانستان چھوڑ کر بھاگ گئے تھے کو ازبکستان میں پناہ دی اور ان کو منزل تک پہنچانے میں مدد کی۔
وہ جہاز جو ان بھاگنے والوں کو لے کر جارہے تھے۔ان کی ری فیولنگ بھی ازبکستان میں ہوئی۔طالبان کے رویہ کی وجہ سے ازبکستان نے وقتی طور پر اپنی پالیسی تبدیل کی اور 200کے قریب افغانستان سے بھاگے ہوئے لوگوں کو واپس افغانستان بھیج دیا۔جس سے انٹرنیشنل کمیونٹی نے کافی اعتراض کیا۔ترکمانستان نے طالبان اور افغانستان کے حوالے سے ایسی پالیسی رکھی۔جسے غیر جانبدارانہ کہا جا سکتا ہے۔لیکن ترکمانستان کی حکمران جماعت افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کے بہت قریب تھی۔یہاں تک کہ حامد کرزئی کے دور میں ترکمانستان نے افغانستان کی rehabilitation اور reconstruction میں اپنی بساط کے مطابق بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔اور کابل کے الیکٹریکل پاور کا قرضہ بھی بہت کم کردیا تھا۔اس کے علاوہ انرجی کم داموں میں فراہم کرتے رہے۔ترکمانستان نے ریلوے کا ایک حصہ بھی تعمیر کرلیا جو افغانستان اور ترکمانستان کو ملاتا تھا۔اس تمام صورت حال پاکستان ہی ایک واحد ملک ہے۔جس کے بارے میں پہلے دن سے طے ہے۔کہ افغانستان اگر اپنے کسی ہمسایہ ملک سے سب سے بڑھ چڑھ کر تعلقات بڑھائے گا۔تو وہ پاکستان ہی ہوگا۔لیکن جہاں کچھ اور معاملات سر اٹھا سکتے ہیں۔وہاں یہ ایک ایسا ایشو ہے۔اگر اس ایشو نے کوئی خاص رنگ پکڑ لیا۔تووہ دونوں ممالک کے لئے مناسب نہ ہوگا۔وہ ایشو ہے ڈیورنڈ لائن۔ ڈیورنڈ لائن ایک ایسا ایشو ہے جو افغانستان کی ماضی کی تمام حکومتوں چاہے وہ لبرل تھے۔کمیونسٹ تھے۔ مجاہدین تھے۔یا پھر طالبان۔سب اس بات پر اڑے رہے کہ ڈیورنڈ لائن کا 100سالہ معاہدہ ختم ہوچکا ہے۔اسے نئے سرے سے ترتیب دیا جائے۔ افغانستان کے ہمسایہ ممالک اور باقی دنیا جانتی ہے۔اگر بات ڈیورنڈ لائن تک چلی گئی۔تو یہ مسئلہ دونوں ممالک کے درمیان گھمبیر ہوسکتا ہے۔
(کالم نگارمعروف صحافی‘اینکرپرسن ہیں)
٭……٭……٭