سعودی عرب کا قومی دن: پاکستانی طبلہ پلیئرز رائن اور ازیک زار نے سعودی قومی ترانہ ریلیز کر دیا

سعودی عرب کے قومی دن پر پاکستانی طبلہ پلیئرز رائن اور ازیک زار نے سعودی قومی ترانہ ریلیز کر دیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق پاکستانی طبلہ پلیئرز رائن اور ازیک زار نے سعودی قومی ترانہ سعودی عرب کے قومی دن پر ریلیز کر دیا ہے۔

ذرائع نے کہا کہ قومی ترانے میں استاد رستم فتح علی اور شاہمیر رستم فتح علی خان بھی شامل ہیں۔ ترانے کا میوزک بھی استاد رستم فتح علی خان نے ترتیب دیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ترانے کی ویڈیو ڈائریکٹر عصمہ ضیا ہیں۔

زار برادرز کا کہنا ہے کہ ہم نے قومی ترانہ گا کر کنگ عبد العزیز اور سعودی عوام کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔

والد ڈاکٹر زار کا کہنا ہے کہ ہماری خواہش ہے کہ مکہ مکرمہ کے اندر جا کر نوافل ادا کریں۔

ذرائع کے مطابق رائن اور ازیک نے آج اسلام آباد میں سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی سے ملاقات بھی کی ہے جس میں نواف بن سعید المالکی نے زار برادرز کا سعودی قومی ترانہ گانے کی تعریف کی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ملاقات میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی طاہر اشرفی اور طبلہ پلیئرز کے والد ڈاکٹر زار بھی شریک تھے۔

زار برادرز نے اس موقعے پر کہا کہ سعودی عرب کے قومی دن کے موقع پر سعودی ترانہ ہماری طرف سے تحفہ ہے۔

زار برادرز کا مزید کہنا تھا کہ ہم سعودی قومی ترانے کی ویڈیو کو سعودی عوام اور کنگ عبد العزیز کے نام کرتے ہیں۔

جہاں چین کی سرمایہ کاری ہوگی اسے سی پیک والی سکیورٹی دیں گے: اسد عمر

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی وترقی اسد عمر کا کہنا ہےکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ ہمارے مشرق میں ہمسائے کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے، چین کے ساتھ دوستی سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسد عمر کا کہنا تھا کہ کئی چیلنجز کے باوجود پاکستان اور چین کی قیادت نے سی پیک کو جاری رکھا ہوا ہے،پاکستان کی واضح خارجہ پالیسی ہے، پہلے ہم نے خارجہ پالیسی میں وہ فیصلے کیے جس کی بھاری قیمت ادا کی، ہم دوسروں کی جنگ یا سرد جنگ میں حصہ دار بنے رہے۔

یہ بھی پڑھیں
اسدعمر کی سی پیک پر کام کی بندش کی تردید
چینی کمپنیاں سی پیک پر کام کی رفتار سے مطمئن نہیں: معاون خصوصی سی پیک
پاکستان براہ راست افغانستان کے کسی مسئلے میں ملوث نہیں: شیخ رشید
آئندہ مالی سال کے بجٹ میں سی پیک منصوبوں کیلئے87 ارب روپے رکھے ہیں، اسد عمر
اسد عمرکا کہنا تھاکہ سی پیک منصوبوں کے لیے چینی ورکرز گزشتہ سال ہی واپس آگئے تھے ، پاکستان اور چین کی قیادت سی پیک کےلیے پرعزم ہے ،سی پیک کے آئی ٹی کا جوائنٹ ورکنگ گروپ بنانےکا فیصلہ کیا ہے، سی پیک کے پہلے مرحلےکی تکمیل دونوں ملکوں کے بڑھتے تعاون کی مظہر ہے ، سی پیک کے جنوبی زون سے پاکستان میں کثیر غیر ملکی سرمایہ کاری آئے گی ۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ داسو کا منصوبہ سی پیک کا منصوبہ نہیں ہے، داسو اس سکیورٹی حصار کا حصہ نہیں جس میں سی پیک منصوبے آتے ہیں، چین کو سکیورٹی معاملات پر تحفظات ہیں، مگرکام شروع ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چین کے بجلی منصوبوں کو خصوصی طریقوں سے ڈیل کیا جائےگا، چین نےکہا ہے کہ مستقبل میں کوئلے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری نہیں کریں گے، کوئلے سے بجلی پیدا کرنےکے پہلے کے منصوبے جاری رہیں گے،پاکستان میں آدھی سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری چین سے آتی ہے، چین کی سرمایہ کاری جہاں آرہی ہے اس پر سی پیک والی سکیورٹی دی جائے گی۔

وزیر منصوبہ بندی کا کہنا تھا کہ کورونا پر قابو پانے کے لیے چین کی حکومت نے پاکستان سے پھر پور تعاون کیا، چین کی مدد کرنے پر ان کے شکر گزار ہیں،زراعت کے شعبے میں بھی چین پاکستان کے ساتھ تعاون کر رہا ہے ، کورونا کے باوجود کوشش کی گئی سی پیک منصوبوں پر کام جاری رہے۔

امریکی فو ج کی واپسی اور جوبائیڈن

روہیل اکبر
افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی کے حوالہ سے صدر جو بائیڈن پربہت تنقید کی جارہی ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ جو بائیڈن نے افغانستان سے افواج کے انخلا کا انتہائی سمجھداری سے فیصلہ کیا طالبان کے جیتنے اور امریکا کے بالآخر 20سال بعد شکست کا تفصیلی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کیوں دنیا کی بہادر ترین افغان قوم کی فوج نے لڑے بغیر ہتھیار ڈال د ئیے پاکستان مخالف افواہ ساز فیکٹریاں اس ساری صورتحال کے پیچھے پاکستان کو پیش کرنے کے لیے اپنا پورا زور لگا رہی ہیں فرض کریں اگر یہ تصور کر لیا جائے کہ پاکستان نے طالبان کی امریکا کے خلاف مدد کی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پاکستان امریکا اور یورپی ممالک سے زیادہ طاقتور ہے اور اتنا طاقتور ہے کہ اس نے 60 سے 65ہزار معمولی اسلحے سے لیس ملیشیا کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ بہترین اسلحہ سے لیس فوج کو شکست دینے میں کامیاب رہی ایسا ہر گز نہیں یہ صرف پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا ہے جو سب سے پہلے افغان حکومت نے کرنا شروع کیاتھا تاکہ وہ اپنی نااہلی، کرپشن اور افغانستان کو مناسب حکومت کی فراہمی میں ناکامی کو چھپا سکیں، اسے ایک کٹھ پتلی حکومت تصور کی جاتا تھا جس کا وہاں کے عوام احترام نہیں کرتے تھے اور دوسرا بھارت ہے جس نے اشرف غنی حکومت پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کی یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے خلاف اس پراپیگنڈے کی کوئی منطق نہیں ہے۔
امریکا کے خلاف طالبان کی مدد کا الزام درست مانا جائے تو مطلب‘ پاکستان امریکا سے زیادہ طاقتور ہے جب کہ پاکستان پر طالبان کی مدد کرنے کا پروپیگنڈا افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت نے کیا، اشرف غنی حکومت نے اپنی نااہلیوں کو چھپانے کے لیے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کیا اور پاکستان مخالف پروپیگنڈے کو بھارت نے اپنے ناپاک عزائم پورے کرنے کے لیے اسپانسر کیا۔ایک اور مثال پیش کرتا ہوں اس وقت پاکستان کے 22کروڑ عوام کے لیے کل بجٹ 50ارب ڈالر ہے اوریہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے منہ کا نوالہ شدت پسندی کو فراہم کریں جو امریکا پر حاوی ہو وہ بھی ایک ایسی جنگ میں جہاں امریکا نے 20سالوں میں 2کھرب ڈالر جھونک دئیے۔اس وقت امریکہ کا کہناہے کہ آخر تین لاکھ افغان فوج نے طالبان سے لڑائی کیوں نہیں کی کیا پاکستان نے ان سے کہا کہ وہ جنگ نہ لڑیں۔ آخر دنیا کی بہادر ترین افغان قوم کی فوج نے لڑے بغیر ہتھیار کیوں ڈال دئیے۔ رہ گئی بات طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی پاکستان چونکہ عالمی برادری کا حصہ ہے اور ہم اس وقت افغانستان کے تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں اس لیے طالبان کی حکومت کو جامع ہونا چاہیے کیونکہ افغانستان میں بہت زیادہ تنوع ہے۔
طالبان ایک پشتون تحریک ہے اور پشتون افغانستان کی نصف آبادی ہیں پھر وہاں تاجک بھی نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ ازبک اور ہزارہ بھی ہیں لہٰذا افغانستان کے مفاد اور دیرپا امن کے قیام کے لیے ہم محسوس کرتے ہیں وہاں ایک جامع حکومت ہونی چاہیے جو افغانستان کو متحدرکھ سکے طالبان ایک مشکل دور سے گزرے ہیں اور انہوں نے انسانی تاریخ کے مہلک ترین ہتھیاروں کا مقابلہ کیا ہے۔ انہیں اس میں بہت جانی نقصان بھی ہوا لہذا اس جنگ میں جنہوں نے زیادہ قربانیاں دی ہیں انہیں حکومت میں مرکزی حصہ ملے البتہ طالبان میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک باقی اقلیتی گروہوں کو ایک چھتری تلے جمع نہیں کیا جاتا اس وقت تک حکومت غیرمستحکم رہے گی۔ ایک اور اہم بات کہ افغانستان اس وقت ایک تاریخی دوراہے پر کھڑا ہے جو یا تو چالیس سال کی جنگی صورتحال کے بعد استحکام کی طرف بڑھے گا یا پھر یہاں سے غلط سمت میں چلا گیا تو اس سے افراتفری، انسانی بحران، پناہ گزینوں کا ایک بڑا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ جو ایک بڑے مسئلے کی صورت اختیار کر سکتا ہے جس سے تمام ہمسایہ ممالک متاثر ہوں گے۔ پاکستان کے نقطہئ نظر سے افغان سرزمین سے دہشت گردی کا بھی خطرہ ہو سکتا ہے کیونکہ پہلے سے ہی تین دہشتگرد گروہ افغان سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کراتے رہے ہیں۔
امریکا کابھی افغانستان میں بہت بڑا کردار ہے کیونکہ وہ وہاں 20 سال رہا۔ امریکا کی افغانستان پر حملہ کرنے کی واحد وجہ مبینہ طورپردہشت گردی تھی۔ اگر افغان سرزمین دوبارہ دہشت گردوں کی جائے پناہ بن جائے تو پھر آخر آپ نے کیا کامیابی حاصل کی؟ افغانستان میں شکست کے بارے میں امریکی سینیٹرز کے پاکستان مخالف بیان پربھی شدیدحیرت ہوئی ہے کیونکہ پاکستان وہ ملک ہے جس نے اس جنگ میں امریکا کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دیں ہمیں اس جنگ میں اتحادی بننے کا کہا گیا حالانکہ پاکستان کا نائن الیون سے کوئی لینا دینا نہیں تھا کیونکہ اس میں کوئی پاکستانی شامل نہیں تھا۔ ہماری اس جنگ میں شمولیت کی کوئی وجہ نہ تھی لیکن اب اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے امریکا کو پاکستان کو قربانی کا بکرا بناتے ہوئے دیکھنا انتہائی تکلیف دہ ہے۔
طالبان اب ایک حقیقت ہیں اور دنیا کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ انہیں ایک مستحکم ملک کے قیام کی ترغیب دیں اگر دنیا نے افغانستان پر پابندیاں لگائیں تو افغانستان ٹوٹ جائے گااور پھر دہشت گردی پوری دنیا میں پھیل جائیگی۔
(کالم نگارسیاسی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

نیا ”آزاد“ کشمیر

اسرار ایوب
شاید آپ کے ذہن میں کبھی یہ بات نہ آئی ہولیکن دنیا میں غالباً ایک ہی حکومت ایسی ہے جو اپنے نام کے ساتھ ”آزاد“لکھتی ہے اور وہ ہے آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر،شاید اسی لیے یہ مادر پدر آزاد ہے اور اسے پوچھنے والاکوئی نہیں۔ہو سکتا ہے آپ کو یہ جان کر حیرت ہو کہ ”آزاد“ حکومت کے عہدیداران اور افسران اپنی تنخواہ و مراعات کے تعین کے لئے پاکستان کے جس صوبے سے برابری کرتے ہیں وہ پنجاب ہے جس کی آبادی 11کروڑ اور بجٹ 2کھرب 653ارب ہے جبکہ آزاد کشمیر کی آبادی صرف40لاکھ اور بجٹ فقط 121ارب روپئے ہے۔ لیکن اس سے بھی حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ برابری”ظاہری“ ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ انتظامی ڈھانچے کے اعتبار سے آزادکشمیرپنجاب سے بھی آگے نکل چکا ہے، مثلاً پنجاب کے 9ڈویژن ہیں جنہیں صوبے کی کل آبادی پر تقسیم کیا جائے تو فی ڈویژن آبادی کا تناست 1کروڑ 22لاکھ بنتا ہے جبکہ آزادکشمیر کے 3ڈویژن ہیں یعنی یہاں فی ڈویژن آبادی کی شرح13لاکھ بنتی ہے۔ پنجاب کے 36اضلاع ہیں جبکہ آزادکشمیر کے 10ہیں یعنی پنجاب کی فی ضلع اوسط آبادی 30لاکھ 55ہزار اور آزادکشمیر کی 4لاکھ ہے۔ سیدھے لفظوں میں یوں کہیے کہ ایک طرف 11کروڑ کی آبادی پر 9کمشنر اور 36ڈپٹی کمشنر جبکہ دوسری جانب40لاکھ لوگوں پر 3کمشنر اور 10ڈپٹی کمشنر ہیں۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی کیونکہ نئے پاکستان کے بعد اب نیا آزادکشمیر بھی بننا شروع ہو گیا ہے چناچہ پاکستان تحریکِ انصاف نے آزادکشمیر کی حکومت سنبھالتے ہی آزادکشمیر کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری صاحبان کی تعداد 2سے بڑھا کر 4کر دی جبکہ پنجاب میں یہ تعداد 3ہے۔جو2 نئے ”اے سی ایس“ بنائے گئے اُن کے پاس فقط ایک ایک محکمہ ہے(جس کا سربراہ دراصل ایک سیکریٹری ہوتا ہے)، اس اقدام کی مثال پنجاب تو کیا کسی بھی صوبے میں نہیں ملتی،اگر یہی ہے”نیا آزاد“کشمیر تو ”نئے“ آزادکشمیرکے قیام پر عمران خان اور اُن کی پوری ٹیم کو بہت بہت مبارکباد۔
پنجاب کے ساتھ فی الواقعہ برابری کی جائے توآپ خود ہی فرمائیے کہ آزادکشمیرکی آبادی کیا ڈیڑھ ضلع کے برابر بھی بنتی ہے؟ ڈیڑھ نہ سہی تین اضلاع رکھ لو، اور تھا بھی یہی کہ آزادکشمیرکے تین ڈویژن (مظفرآباد، میرپور اور پونچھ) دراصل تین اضلاع ہوا کرتے تھے۔بظاہر ”اوور سمارٹ“ عوام سمجھتے ہیں کہ ان3 اضلاع کو 3 ڈویژنوں میں تبدیل کر کے10اضلاع میں اس کے فائدے کے لئے تقسیم کیا گیالیکن سچ تو یہی ہے کہ ایسا اس لئے کیا گیا کہ نئی نئی آسامیاں تخلیق کر کے نئے نئے گریڈ لئے جائیں ورنہ میری عمر کے لوگ بڑی اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب آزادکشمیر کے تین ڈویژن نہیں بلکہ تین اضلاع ہوا کرتے تھے تو حکومت کی کارگزاری آج سے کہیں بہتر ہوا کرتی تھی۔
مشہور تو یہ ہے کہ پنجاب کی بیوروکریسی بہت تیز ہے لیکن آزادکشمیر کے افسران نے parity with punjab کی اصول کو اس ہوشیاری سے استعمال کیا ہے کہ پنجاب کو بھی پیچھے چھوڑ دیا، لگتا ہے کہ اب پنجاب کے افسران کو ”پیریٹی وِد آزادکشمیر“ کی حکمتِ عملی اختیار کرنی پڑے گی۔
ایک مثال اوردیکھئے کہ آزادکشمیر کا چیف سیکریٹری گریڈ21کا ”سی ایس پی“آفیسر ہوتا ہے لیکن اس کے ماتحت کام کرنے والے آزادکشمیر کے اپنے بیوروکریٹس میں سے پانچ کا گریڈ22ہے۔ انسپکٹر جنرل پولیس بھی گریڈ21کا سی ایس پی آفیسر ہے لیکن اس کے ماتحت کام کرنے والے آزادکشمیر پولیس کے ایک افسر کو بھی حکومتِ آزادکشمیر نے گریڈ 22دے رکھا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ آزادکشمیر کے بجٹ میں ان افسران کے لئے گریڈ 22کی کوئی منظور شدہ آسامی سرے سے ہے ہی نہیں چناچہ ان کے ماورائے بجٹ گریڈ کو ”پرسنل گریڈ“کا نام دے کر منظور کر لیا گیا۔ ایڈیشنل چیف سیکریٹری ترقیات بھی حکومتِ پاکستان کا افسر ہے جس کا گریڈ20 ہے جبکہ ماتحت سیکریٹری صاحبان میں سے کئی گریڈ21 کے ہیں۔ اس سب کا کریڈٹ مسلم لیگ ن کے وزیرِ اعظم راجہ فاروق حیدر خان کو جاتا ہے جن سے توقع تو یہ تھی کہ آزادکشمیر کے بہترین وزیرِ اعظم ثابت ہوں گے لیکن وہ بدترین ثابت ہوئے۔
ایک نمونہ اور ملاحظہ فرمائیے۔ ن لیگ کی حکومت جو حال ہی میں فارغ ہوئی جاتے جاتے اسمبلی ممبران کی پنشن میں بھی جی بھر کر اضافہ کر گئی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اسمبلی ممبران کو پنشن ملتی کہاں ہے جو اس میں اضافہ کیا گیا؟کہیں اور ملتی ہے یا نہیں لیکن ”آزاد“حکومت میں ضرور ملتی ہے۔یہ نومبر 2005کی بات ہے جب ”آزاد“حکومت کی کابینہ نے اسمبلی ممبران کے حق میں پنشن کی منظوری کا بل قانون ساز اسمبلی میں پیش کیے جانے سے”اصولی“ اتفاق کیا، اس سے ایک ہی مہینہ پہلے(اکتوبر 2005میں) آزاد کشمیراپنی تاریخ کے بدترین زلزلے کی شدید ترین لپیٹ میں آیا،یعنی کابینہ نے جب یہ بل منظور کیا ابھی سارے کے سارے زلزلہ زدگان کی لاشیں بھی ملبے سے نہیں نکالی جا سکی تھیں۔جنوری 2006میں اس بل کو حکومت اور اپوزیشن نے مشترکہ طور پر پاس کیا جب زلزلے کے ہزاروں متاثرین روکھی سوکھی روٹی اور پھٹے پرانے گرم کپڑوں کو بھی ترس رہی تھے۔جون 2008میں اس بل کو منسوخ کر کے ازسرِنو پاس کیا گیا تاکہ اسے مزید ”سازگار“ بنایا جا سکے۔ اس بل کو پاس کرنے کے جواز میں دنیا کی جس اسمبلی کو مثال کے طور پر پیش کیا گیا وہ مقبوضہ کشمیر کی ہے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی اسمبلی ایسی تھی ہی نہیں جس کے ممبران پنشن لیتے ہوں۔
یاد رہے کہ مقبوضہ کشمیر کی اس اسمبلی کو آزادکشمیر کے اسمبلی ممبران کٹھ پتلی کہہ کر پکارتے ہیں؟یہی نہیں بلکہ ”غلام“کشمیر کی”کٹھ پتلی“ اسمبلی کو بنیاد بنا کر ”آزاد“کشمیر کی”خود مختار“ اسمبلی نے اپنے حق میں پنشن کا جو قانون منظور کیا اسے جنوری 2003سے نافذالعمل قرار دیا گیاتاکہ ممبران کو پچھلے برسوں کی پنشن بھی ملے،اسے کہتے ہیں مارنے کے ساتھ ساتھ بے عزت بھی کرنا۔کیا اسی لئے ”آزاد“ کشمیر کو تحریکِ آزادیء کشمیر کا بیس کیمپ قرار دیا جاتا ہے؟
سید ضمیر جعفری (مرحوم) نے یونہی تو نہیں کہا تھا کہ
شوق سے نورِ نظر لختِ جگر پیدا کرو
ظالمو تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو
حضرتِ اقبال کا شاہین کب کا اُڑ چکا
اب کوئی اپنا مقامی جانور پیدا کرو
(کالم نگار ایشیائی ترقیاتی بینک کے کنسلٹنٹ
اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں)
٭……٭……٭

اجنبی اپنے دیس میں

عارف بہار
جموں وکشمیر کونسل برائے انسانی حقوق نے تیرہ ستمبر سے یکم اکتوبر تک منعقد ہونے والے اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کے اڑتالیسویں اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں محصور آزادکشمیر کی خواتین کی حالت زار سے متعلق ایک رپورٹ جمع کرائی ہے۔یہ دستاویز ہیومن رائٹس کونسل کے ایجنڈا آئٹم تین کے تحت جمع کی گئی ہے۔یہ شق انسانی حقوق کے فروغ اورتحفظ سے متعلق ہے۔اس رپورٹ میں اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا گیا ہے ہیومن رائٹس کونسل اور اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق یہ معاملہ بھارت کے سامنے اٹھائیں۔اس معاملے میں انٹرنیشنل کمیٹی فار ریڈ کراس سے مدد لینے کے علاوہ دہلی میں پاکستانی ہائی کمشن سے بھی تعاون لیا جائے تاکہ مقبوضہ کشمیر میں پھنسی ہوئی خواتین کو پاکستا ن واپس لوٹنے کے لئے عارضی سفری دستاویزات فراہم کی جاسکیں۔جموں وکشمیر کونسل برائے انسانی حقوق لندن میں مقیم معروف کشمیری دانشور،صحافی اور قانون دان ڈاکٹر سید نذیر گیلانی کی سربراہی میں قائم تنظیم ہے جو تین دہائیوں سے اقوام متحدہ میں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف بھرپور جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے اور اس حوالے سے اقوام متحدہ میں کئی تاریخی دستاویزات جمع کرائی گئی ہیں جن میں بھارتی فوج کی کارستانیوں سے دنیا کو باخبر رکھا گیا ہے۔
آزادکشمیر کی مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں سے بیاہی جانے والی خواتین مقبوضہ کشمیر میں شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ ان خواتین کے لواحقین آزادکشمیر میں پریشانی اور اضطراب کا شکار ہیں جبکہ یہ خواتین اپنوں سے بچھڑ کر کئی بیماریوں اور سماجی مسائل کا شکار ہو چکی ہیں۔یہ خواتین آئے روز سری نگر کی گلیوں میں اپنے حقوق کے لئے احتجاج کررہی ہیں مگر بھارتی حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔یہ تنازعہ کشمیر سے جڑی ہوئی ایک نئی المناک کہانی اور جہت ہے۔جموں وکشمیر کونسل برائے انسانی حقوق نے اس موقع پر ان مظلوم خواتین اور ان کے مسائل زدہ عزیر واقارب کے دکھ کو سمجھتے ہوئے انسانی حقوق سے متعلق دنیا کے سب سے بڑے فورم پر اٹھایا ہے۔جس سے ایک بار پھر یہ امید بندھ چلی ہے کہ یہ خواتین مسائل کے بھنور سے نکل آئیں گی۔ اس وقت آزادکشمیر اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی 350سے 400خواتین مقبوضہ کشمیر میں ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے قیدی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ ان خواتین کا شمار Stateless citizensیعنی بے وطن شہریوں میں ہوتا ہے۔المیہ در المیہ یہ کہ یہ خواتین اپنے ہی وطن میں بے وطن ہو کر رہ گئی ہیں۔یہ خواتین ان عسکری نوجوانوں کی بیویاں ہیں جو آزادی وطن کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لئے کنٹرو ل لائن عبور کر گئے تھے مگر بہت سی وجوہات کی وجہ سے یہ لوگ عسکریت سے الگ ہو کر معمول کی زندگی کی طرف لوٹ گئے۔اس دوران بھارتی اور مقبوضہ کشمیر کی حکومت نے ان نوجوانوں کی بحالی کے لئے غالباً کسی فارن ایجنسی کے تعاون سے بحالی کی پالیسی اور پروجیکٹ تشکیل دیا۔جس کے تحت ان افراد کی اہل خانہ سمیت واپسی کی حوصلہ افزائی کی جانے لگی اور یوں سابق عسکری نوجوان نیپال او ردوسرے راستوں سے مقبوضہ کشمیر چلے گئے۔
مقبوضہ کشمیر پہنچے تو بھارتی حکومت نے اپنی پالیسی سے یوٹرن لیا اور عمر عبداللہ بے بسی کی تصویر بن گئے۔آزادکشمیر سے جانے والی خواتین کو شہریت دینے سے انکار کیا گیا۔جس کی وجہ سے ان کی پوری زندگی متاثر ہو گئی۔حق شہریت نہ ملنے سے ان سے حقِ سفر اور حق ملازمت اور جائیداد کی خرید کا حق بھی چھن گیا۔یوں یہ خواتین ہوا میں معلق ہو کر رہ گئی ہیں۔مودی نے شہریت ترمیمی ایکٹ لاکر ان خواتین کی زندگی بد سے بدتر کر دی۔اب انہیں غیر قانونی مقیم قرار دے کر کسی بھی وقت گرفتار ہونے کا خوف بھی تنگ کرنے لگا۔ان میں کئی خواتین بیوہ ہوگئیں کئی کو طلاق ہوئی۔کئی ایک خواتین اس جہان فانی سے کوچ کرگئیں۔آزادکشمیر میں ان کے عزیز واقارب اس دنیا سے رخصت ہوتے چلے گئے مگر یہ اپنوں کو پرسہ دینے کی پوزیشن میں بھی نہ رہیں کیونکہ سفری دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے یہ خواتین آزادکشمیر نہیں آسکتی تھیں۔ آزادکشمیر سے جانے والی ایک خاتون کادوبرس پہلے انتقال بھی ہوا۔اس کے گھر والے بیٹی کی موت سے زیادہ اس بات پر ملول تھے کہ وہ دوبارہ اسے دیکھ اور مل نہ سکے۔اس بھی زیادہ دلدوز کہانی یہ ہے کہ ایک خاتون کی دوبیٹیاں سابق عسکری نوجوانوں کے ساتھ بیاہ کر سری نگر چلی گئی تھیں۔یہ بزرگ خاتون جو آزادکشمیر مسلم لیگ ن کے ایک معروف سیاسی کارکن طارق رسول بٹ کی والدہ تھیں سری نگر مظفرآباد بس کے ذریعے بیٹیوں سے ملنے گئیں۔قیام کی مقررہ مدت ختم ہونے کے دن قریب آتے گئے اور ایک روز یہ خاتون بیٹیوں کے ہاتھوں میں دم دے بیٹھیں اور اس کی بیٹے مظفرآباد میں بیٹھ کر ماتم کرتے رہے۔بعد میں ماں کی اس انداز سے موت نے طارق بٹ کو بھی دل کا مریض بنایا اور وہ ہارٹ اٹیک کے باعث یہ عارضی دنیا چھوڑ گیا۔ اس اذیت اور کرب نے خواتین کو بے پناہ سماجی اور نفسیاتی مسائل کا شکار بنا دیا ہے۔
گزشتہ برس ایک خاتون نے اپنی زندگی کی عکاسی کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہاں کی زندگی نہ ختم ہونے والی سزا ہے۔اس خاتون نے کہا کہ اگر ہم ناپسندیدہ اور غیر قانونی ہیں تو ہمیں واپس پاکستان بھیج دیا جائے۔ان خواتین نے سری نگر ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن بھی دائر کر رکھی ہے مگر بھارتی عدالتوں کا حال یہ ہے کہ مودی کا موڈ دیکھ کر فیصلے سناتی ہیں۔پانچ اگست کو کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کئے جانے کے بعد اس کیس کی نوعیت ہی بدل گئی۔اب یہ خواتین سٹیٹ سبجیکٹ کی بنیاد پر اپنا دعوی آگے بڑھا ہی نہیں سکتیں۔اس طرح معاملہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔چندبر س قبل ایک ایسے ہی فرد نے اپنے بیوی بچوں کے لئے حق سفر مانگ مانگ کر تھک جانے کے بعد چوک میں خودسوزی کی تھی۔ایسے میں جموں وکشمیر کونسل برائے انسانی حقوق کے سربراہ سید نذیر گیلانی نے دنیا کے ایک بڑے فورم پر اس مسئلے کو انسانی بنیاد پر اٹھا یا ہے۔اس کام کو اب ایک منظم مہم کے طور پر آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔وزارت خارجہ کو بھی اس کام میں سید نذیر گیلانی کے ساتھ بھرپور تعاون کرکے اپنی شہری خواتین کو اس عذاب سے نجات دلانے میں اپنا حصہ ڈالنا چاہئے۔
(کالم نگارقومی وسیاسی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

23 ستمبرسعودی عرب کا قومی دن

پروفیسر ساجد میر
ستمبر 1932 کو سعودی عرب کی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ جب سلطان عبدالعزیز ابن سعود نے نجدو حجاز کے تمام علاقوں پر فتح و نصرت کا پرچم لہرایا اور عرب کے اس خطے کا نام ”المملک العربی السعودیہ“ رکھا گیا۔ اس دن سعودی عرب سمیت دنیا بھر میں اہم تقریبات کا اہتمام ہوتا ہے۔ دنیا بھر اور عالم اسلام میں وہ واحد ملک ہے جس میں دین اور سیاست دونوں یکجا ہیں۔ اس بنا پر اس کی سیاست کا تعلق دعوت اسلام سے بھی ہے ملک عبدالعزیز نے جب سعودی عرب کو متحد کیا تو اس کی سیاست کی بنیاد دین پر رکھی۔ پھر تجرباتی اور واقعاتی طور پر سعودی عرب نے دور حاضر میں یہ ثابت کر دیا کہ سیاسی اور معاشرتی میدان میں وہ دین ودعوت کی بنیاد پر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔
آل سعود نے شیخ الاسلام امام محمد بن عبدالوہاب کی رہنمائی میں دعوت حق کا پرچم بلند کیا۔ظلمت شب کے پرستاروں نے گرد وپیش سے یلغار کر دی اور چاہا کہ اس ابھرتی ہوئی روشنی کو ہمیشہ کے لیے گل کر دیں۔ مگر اس کی راہ کوئی نہ روک سکا جو راہ میں آیا زوال وفنا سے دو چار ہو کر ہمیشہ کے لیے پردہء گمنامی میں چلا گیا۔یہ روشنی کیا تھی؟ تجدید دین اور احیائے اسلام کی ایک انقلابی دعوت تھی۔ عزیمت واستقامت کی بنیادوں پر دعوت جسے نجد کے ریگزاروں میں پلے ہوئے ایک فولادی عزائم کے مالک انسان محمد بن عبدالوہاب نے برپا کیا تھا جو اس دعوت کے خاکوں میں اپنے خون جگر سے رنگ بھرنے کا حوصلہ رکھتا تھا۔سعودی حکومت اور امام محمد بن عبدالوہاب کی دعوت کا باہمی رابطہ حقیقت میں اللہ تعالی کے فضل وکرم کا نتیجہ ہے کہ اس نے سعودی حکومت کو اس دور میں یہ اعزاز بخشا کہ حکومت کا قیام اور تجدید دین ایک ساتھ عمل میں آئے۔ یہ اعزاز اللہ تعالی نے اس مقدس سرزمین کو اس وقت بخشا جب مکہ المکرمہ میں خانہ کعبہ کو تعمیر کیا گیا اور جب مدینہ منورہ میں نبی اکرمﷺنے اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی۔
سعودی عرب کے حکمران، جس اخلاص اور فراخ دلی سے اسلام کی خدمت اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی معاونت کرتے ہیں، اس کے باعث بھی ہمارے خراجِ تحسین و عقیدت کے حق دار قرار پاتے ہیں۔ جبکہ بحیثیت پاکستانی ہم پر سعودی عرب کا اکرام یوں بھی لازم ہے کہ پوری دنیا میں مملکتِ خداداد پاکستان سے مخلصانہ دوستی جس طرح سعودی عرب نے نبھائی ہے اور نبھا رہا ہے، وہ کہیں اور دکھائی نہیں دیتی۔
آج یہ مملکت اسلام اور مسلمانوں کا قلعہ ہے جس کی مقدس سر زمین پر قبلہ اور حرمین شریفین موجود ہیں، سعودی حکمرانوں کے اخلاص کی بدولت ملک میں قانون الٰہی کی عملداری اور امن و سکون کا دور دورہ ہے اور اس کے باشندے اپنی مقبول قیادت سے محبت اور وفاداری کے باعث خوشحال اور پرمسرت زندگی گزار رہے ہیں۔ سعودی حکومت نے ہمیشہ اپنے عوام کو اسلامی طرز حیات، جدید علوم وفنون کی خدمات اور مختلف شعبوں میں تعمیر و ترقی کے ہر ممکن مواقع فراہم کئے ہیں۔اسی طرح خدمت خلق کے لئے بھی نیم سرکاری وغیر سرکاری تنظیم قائم کی جن میں رابطہ عالم اسلامی مسلمانوں کی بین الاقوامی تنظیم کا درجہ رکھتی ہے جس کا مقصد مسلمانوں میں یکجہتی پیدا کرنا، اسلام کی دعوت و تبلیغ اور اسلامی تعلیمات کو فروغ دینا اور اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات کو دور کرنا اور گمراہ کن عقائد و نظریات کی نفی کرنا ہے۔حکومت نے ہمیشہ اپنی و جاہت علم و اسلام دوستی اسلامی تعلیمات پر پوری طرح عمل درآمد، ملک میں نفاذ قرآن و سنت اور ایک مستحکم اسلامی معاشرہ کے قیام کے لئے تاریخی خدمات انجام دی ہیں۔
جب ہم شاہ سلمان کی سیرت پر نظر ڈالتے ہیں تو وہ ہمیں ایک انتہائی تجربہ کار عام روش سے ہٹ کر ایک عبقری شخصیت نظر آتے ہیں۔
شاہ سلمان ذاتی طور پر ایک دین پسند،بلند اخلاق، انصاف پرور، صاحب علم اور علم وعلماء دوست شخص ہیں، مطالعے کے شوقین اور فن تاریخ وادب کے دلدادہ ہیں، علم انساب اورتاریخ سے ان کی ذاتی دلچسپی معروف ہے، اور اسی وجہ سے اقوام عالم پر ان کی گہری نظر ہے، ایک حاکم یا سیاست دان کے لئے علم تاریخ کی کتنی افادیت و ضرورت ہے یہ کسی صاحب علم وبصیرت سے مخفی نہیں۔
اپنی بادشاہت کے پہلے ہی دن انہوں نے جو سب سے پہلا خطاب کیا اس میں یہ بات واضح کردی کہ سعودی عرب اپنے اصل بنیاد سے کسی قیمت پر نہ ہٹے گا، اور نہ ہی اپنے ان اصولوں سے دستبردار ہوگاجن پر اس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔مزید کہا: ہم اللہ رب العزت کی نصرت ومدد کے سہارے اپنے اصول ومنہج پر قائم رہیں گے، اور اس سلطنت کے بانی والد محترم شاہ عبد العزیز کے زمانے سے جو منہج حیات وسیاست چلی آرہی ہے نہ صرف اس کی پاسداری کریں گے بلکہ اس سے کسی صورت رو گردانی نہ کرتے ہوئے کتاب وسنت کے قانون کی بالا دستی قائم رکھیں گے۔
سعود بن محمد سے لے کر شاہ سلمان بن عبدالعزیز تک اس عظیم خاندان نے سعودی عرب کو ایک مکمل فلاحی اسلامی مملکت بنانے کے لئے نہ صرف عظیم قربانیاں دی ہیں، بلکہ ایک طویل جدوجہد کے ذریعے اسلامی معاشرہ قائم کر دیا ہے۔ ایک دوسرے کا احترام جان ومال کا تخفظ و آبرو امن و امان کی شاندار مثال سعودی عرب میں دیکھی جاتی ہے۔
سعودی عرب کے حکمرانوں کی پاکستان سے محبت اور چاہت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ وہ پوری امت مسلمہ سے انتہائی عقیدت و محبت رکھتے تھے۔وہ پاکستان کو اپنا بھائی اور دوسرا گھر سمجھتے تھے۔ انہوں نے اپنے عمل سے بھی یہ ثابت کیا کہ وہ واقعی پاکستان کے عوام سے محبت رکھتے ہیں۔ پاکستان نے ہندوستان کے جواب میں ایٹمی دھماکے کیے توپورا مغرب پاکستان سے ناراض اور اقتصادی پابندیاں عائد کرنے پر آمادہ تھا اس نازک اور مشکل وقت میں ساتھ دینے والا ملک سعودی عرب تھا۔ پاکستان کو ڈیفرڈ ادائیگی پر تیل فراہم کرنے والے شاہ عبد اللہ مرحوم ہی تھے جنہوں نے دنیا کی پروا کیے بغیر پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑا اور اعلانیہ، بلا ڈر و خوف پاکستان کا ساتھ دیا۔ ڈیفرڈ ادائیگی پر تیل کی فراہمی تقریبا مفت میں تیل کی فراہمی کے برابر تھی۔
شاہ سلمان بن عبد العزیز نے تختِ شاہی پر براجمان ہوتے ہی کہا تھا کہ مملکت کی سیکورٹی،اس کے استحکام سلطنت کو تمام برائیوں سے محفوظ بنانے کے لیے سعودی عوام میری مدد کریں۔ یہ بیان ان کے عزائم اور مستقبل کے رویے کی غمازی کرتا ہے۔ وہ نہ صرف سعودی عرب کو مستحکم بنیادوں پر آگے لے کر چلنا چاہتے ہیں بلکہ شاہ عبد اللہ کے پیروکار کے طور پر کام کررہے ہیں۔ شاہ سلمان نیک اورصالحِ انسان ہیں۔ ان کے صالح ہونے اورجرات کے اظہار کے لیے یہ کافی ہے کہ دنیا کے سب سے بڑی قوت امریکہ کے سابق صدر اوباما کو گارڈ آف آنر کی تقریب کے دوران نماز کی ادائیگی کے لیے تقریب سے اٹھ کر چلے جانا، پھر ان کے ہمراہ تقریب میں موجود تمام سعودیوں کا شاہ کے ساتھ اٹھ کر چلے جاناشاہ سلمان کی دین سے گہری وابستگی اور تقویٰ کا مظہر ہے۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے پاکستان کے حالیہ دورے میں اقتصادی شعبے میں سعودی پاکستان سٹریٹجک تعلقات میں بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی تھی جب سعودی عرب نے پاکستان میں 20 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا جس میں سٹریٹجک بندرگاہ شہر گوادر میں 10 ارب ڈالر مالیت کی آرامکو آئل ریفائنری اور پیٹرو کیمیکل کمپلیکس بھی شامل تھا۔سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات کا یہ امید افزا لمحہ علاقائی جغرافیائی سیاست میں موافق تبدیلی کے درمیان پیش آ رہا ہے۔خاص طور پر اس طرح کی سرمایہ کاری کے لیے گوادر کے انتخاب نے وسیع تر علاقائی نیٹ ورک یعنی چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے میں سعودی دلچسپی کا اشارہ دیا ہے۔بدقسمتی سے مسلم دنیا میں سعودی عرب کی غیر معمولی پوزیشن اور تاریخی سعودی پاکستان اتحاد کی مخالف بین الاقوامی قوتیں اس حقیقت کو ہضم نہیں کر سکیں کہ دونوں برادر ممالک اپنے تعلقات کو ایک مختلف سطح پر لے جا رہے ہیں جہاں مستقبل میں ان کے مفادات جغرافیائی اور معاشی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہو سکتے ہیں۔
دونوں ممالک افغانستان میں امن اور استحکام کے لیے بھی قریبی تعاون کرتے ہیں۔ سعودی عرب کا پاکستان کے ساتھ بڑھتا حالیہ ربط و تعاون اسلامی بنیادوں پر قائم انہی برادرانہ تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔
(مرکزی امیرجمعیت اہلحدیث ہیں)
٭……٭……٭

پاکستانی کرکٹ نشانے پر۔۔۔۔

ملک منظور احمد
دنیا پر گزشتہ 300سالوں کے دوران مغربی قوتوں کاغلبہ رہا ہے۔ پہلے برطانیہ نے تقریباً پوری دنیا پر 200سال تک بلا شراکت غیرے حکمرانی کی اور پھر اس کے بعد جنگ عظیم دوئم کے بعد گزشتہ 76سالوں سے امریکہ نے دنیا پر اپنی حکمرانی کا سکہ جمایا،جنگ عظیم دوئم سے پہلے تو مغربی قوتوں نے دنیا میں سر عام دنیا کی کمزور قوموں کو محکوم بنا رکھا تھا اور ان کمزور اور غریب ممالک جن میں بر صغیر پاک و ہند بھی شامل تھا اس کے رہنے والے مغربی ممالک کے غلام کہلاتے تھے۔جنگ عظیم دوئم کے بعد سے یہ سلسلہ تو ختم کر دیا گیا لیکن مغربی ممالک کی حکمرانہ ذہنیت آج بھی بد ل نہیں سکی ہے۔کسی بھی شعبے کے حوالے سے بات کر لی جائے مغربی دنیا بطورمجموعی ترقی پذیر اور غریب ممالک کو اپنی حاکمیت سے باہر نہیں نکلنے دینا چاہتی ہے اور یہ بات میں ایسے ہی نہیں کر رہا ہوں بلکہ بے شمار مثالیں اس حوالے سے ہمارے پاس موجود ہیں جن سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے۔امریکہ نے 90ء کی دہائی میں پاکستان سے رقم کی وصولی کے باوجود پاکستان کو ایف 16طیارے دینے سے صاف انکار کر دیا،اور صرف یہ 90کی دہائی کی بات نہیں ہے بلکہ آج بھی امریکہ نے پاکستان سے رقم وصول کرنے کے با وجود پاکستان کے ہیلی کاپٹر روک رکھے ہیں اور فراہم کرنے سے انکار کر رہا ہے۔
اسی طرح فرانس کی جانب سے فاٹف کے اندر پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کے معاملہ کی مخالفت ہو یا پھر حال ہی میں انگلینڈ اور نیو زی لینڈ کی جانب سے پاکستان میں کرکٹ کھیلنے سے انکار کے یکے بعد دیگرے واقعات، پاکستان کی جانب مغرب کے دوہرے معیار کو بار بار واضح کرتے ہیں۔مغرب کی جانب سے بھی ترقی پذیر ممالک اور خصوصا ً پاکستان کے ساتھ دوہرا معیار ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے جن مغربی ممالک کو ہم اپنا دوست سمجھتے ہیں یا پھر ان سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں وہ اپنا مفاد نکلنے کے بعد ہمارے ساتھ کیسا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں یہ ہمارے لیے سبق ہونا چاہیے۔پاکستان نے نائن الیون کے بعد امریکہ کی جنگ کا ساتھ دیا،جس جنگ سے ہمارا براہ راست کوئی تعلق بھی نہیں اس جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،نتیجہ کیا ہو ا کہ افغان جنگ ہمارے ملک میں آگئی گلی گلی میں خود کش دھماکے ہوئے،80ہزار شہریوں اور 150ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا اور آج جنگ کے خاتمے کے بعد سپر پاور امریکہ کا صدر ہمارے وزیر اعظم کو ایک فون کا ل کرنے کا روادار بھی نہیں ہے۔یہی رویہ مغربی ممالک کی جانب سے کھیل کے میدان میں بھی ہمارے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے۔پاکستان میں 2009ء میں سر لنکا کی ٹیم پر حملے کے بعد پاکستان میں 6سال تک کرکٹ سمیت کوئی بھی کھیل انٹر نیشنل لیول پر نہیں کھیلا جاسکا لیکن پھر حکومت پاکستان اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی انتھک کا وش سے 6برس کے وقفے کے بعد 2015ء میں پاکستان میں زمبابوے کی ٹیم نے دورہ کیا اور پاکستان میں کھیلوں کے دروازے کھلنا شروع ہوئے لیکن اب ایک بار پھر پاکستان میں سیکورٹی صورتحال میں واضح بہتری کے باوجود پاکستان میں بین الا قوامی کھیلوں کا راستہ بند کیا جا رہا ہے اور ایک بار پھر مغربی دنیا اس کھیل میں پیش پیش ہے۔
نیو زی لینڈ کی کرکٹ ٹیم پاکستان پہنچی،یہاں پر پانچ دن تک رہنے اور پریکٹس کرنے کے باوجود میچ شروع ہونے سے کچھ لمحے پہلے دورہ کینسل کرکے واپس چلتی بنی،جبکہ اس کے بعد انگلینڈ کی ٹیم بھی نیو زی لینڈ کی پیروی کرتے ہوئے اپنا دورہ پاکستان منسوخ کرنے کا اعلان کر چکی ہے۔جبکہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ آسٹریلیا کا کرکٹ بورڈ بھی دورہ پاکستان کے حوالے سے یہی فیصلہ کرے گا۔نیو زی لینڈ کی حکومت نے دعویٰ کیا کہ انہیں یہ اطلا عات موصول ہوئیں ہیں کہ پاکستان میں ان کی کرکٹ ٹیم پر حملہ کیا جاسکتا ہے اس لیے انہوں نے یہ دورہ منسوخ کرنے کا فیصلہ کیاجبکہ انگلینڈ نے کھلا ڑیوں کے اوپر ذہنی دباؤ آنے کے خطرے کے پیش نظر دورہ پاکستان منسوخ کیا ہے جو کہ سیکورٹی کے بہانے سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہے۔کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ امریکہ،برطانیہ،آسٹریلیا،کینیڈا اور نیوزی لینڈ پر مشتمل انٹیلی جنس گروپ فا ئیو آئیز (five eyes) کی جانب سے نیوزی لینڈ کو یہ اطلا ع دی گئی کہ نیو زی لینڈ کی ٹیم خطرے میں ہے اور سب جانتے ہیں کہ فائیو آئیز گروپ کا روح رواں امریکہ ہی ہے اس لیے اگر یہ سمجھا جائے کہ امریکہ شاید اب پاکستان سے سقوط افغانستان کا بدلہ لینے پر اتر آیا ہے اور آنے والے دنوں میں ہمیں امریکہ کی جانب سے پاکستان کے خلاف مزید انتقامی کار روائیوں کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے تو غلط نہیں ہو گا۔وفاقی وزیر اطلا عات اور نشریات فواد چوہدری نے تو واضح طور پر کہا ہے کہ جب امریکہ کو ابسولیو ٹلی ناٹ (absolutley not) کہیں گے تو اس کی قیمت چکانا پڑے گی۔بہر حال پاکستان کے لیے بطور ملک آنے والے دنوں میں مشکلا ت میں اضافہ ہو تا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔یہاں پر سوال یہ بھی بنتا ہے کہ پاکستانی کرکٹ کو کیوں تواتر سے نشانہ بنایا جاتا ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ کرکٹ کا کھیل پاکستانی قوم کے لیے جذباتی طور پر اہمیت کا حامل ہے۔ قوم کے جذبات اس کھیل سے جڑے ہیں اس لیے نشانہ دراصل کرکٹ کو نہیں بلکہ پاکستانی قوم کے جذبات کو بنایا جا رہا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے نو منتخب چیئرمین رمیز راجہ نے مستقبل کے حوالے سے اپنا پلان بتاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ آئی سی سی میں ویسٹرن بلاک کے مقابلے میں ایشین بلاک کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے جو کہ بہتر پلان ہے لیکن کتنا قابل عمل ثابت ہو گا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔پاکستان کرکٹ ٹیم برطانیہ اور نیوزی لینڈ کی جانب سے اس ہتک آمیز سلوک کے بعدسخت جواب اسی انداز میں دے سکتی ہے کہ آئندہ ماہ عرب امارات میں شروع ہو نے والے ٹی 20کرکٹ عالمی کپ کو جیت کر دکھائے اور دنیا کو پیغام دے کہ ہمیں کسی صورت تنہا نہیں کیا جاسکتا ہے اور ہمارے ساتھ تعلقات رکھنا ان کے مفاد میں ہے اوربُعدالمشرقین پیدا کرناخود پاکستانی کرکٹ مخالف قوتوں کے لئے گھاٹے اورخسارے کا سودا ہے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭

مودی سرکار کی پالیسیاں خطے کےمفاد میں نہیں،معید یوسف

وزیراعظم کے مشیر قومی سلامتی معید یوسف کا کہنا ہے کہ انتہاء پسند مودی سرکار کی پالیسیاں خطے کےمفاد میں نہیں ہیں۔

کراچی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے کہا کہ معاشی استحکام اورملکی سلامتی کا گہرا تعلق ہے، ملک کو ریاست مدینہ کی طرز پر اس

انہوں نے کہا کہ پاک،چین اقتصادی راہداری سے روابط کے فروغ میں مدد ملےگی، پاکستان نے دہشت گردی کےخلاف کامیاب جنگ لڑی ہے جبکہ بھارتی حکومت کی پالیسیاں خطے کے مفاد میں نہیں ہیں۔

مشیر قومی سلامتی نے مزید کہا کہ ہمیں وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ رابطے کے فروغ کی ضرورت ہے۔

طالبان کا یواین جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب کامطالبہ, سابقہ حکومت کے ایلچی اسحق زئی اب ملک کے نمائندہ

افغان عبوری حکومت کے وزیرخارجہ امیرخان متقی کا کہنا ہے کہ انھیں رواں ہفتے نیو یارک میں ہونے والے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب کا موقع دیا جائے۔

افغانستان کے وزیرخارجہ نے درخواست ایک خط کے ذریعے کی ہے جس پر فیصلہ اقوام متحدہ کی ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کرے گی۔

اقوام متحدہ کے ترجمان کے مطابق جنرل اسمبلی اجلاس میں حصہ لینے کی طالبان حکومت کی درخواست پر ایک کمیٹی غور کر رہی ہے جس کے نو ارکان میں امریکہ، چین اور روس شامل ہیں۔

اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق اس وقت تک سابق افغان حکومت کے ایلچی غلام اسحق زئی ہی اقوام متحدہ میں افغانستان کی نمائندگی کریں گے کیونکہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے اختتام سے قبل تک اس کمیٹی کے ارکان کی ملاقات کا امکان نہیں ہے۔

واضح رہے کہ طالبان کے گذشتہ دور اقتدار کے دوران 1996 سے 2001 کے درمیان معذول حکومت کے سفیر ہی اقوام متحدہ میں ملک کے نمائندے کی حیثیت سے برقرار رہے تھے۔

طالبان حکومت نے کل طالبان تحریک کے خارجہ امور کے ترجمان سہیل شاہین کو اقوام متحدہ کے لیے افغانستان کا سفیر نامزد کیا ہے، طالبان کا کہنا ہے کہ سابقہ حکومت کے ایلچی اسحق زئی اب ملک کے نمائندہ نہیں ہیں۔

پاک بحریہ قومی و بین الاقوامی سطح پر گالف کو فروغ دے رہی ہے ،کموڈور مسعود خورشید

کموڈور مسعود خورشید نے کہا ہے کہ پاک بحریہ قومی و بین الاقوامی سطح پر گالف کو فروغ دے رہی ہے۔

تفصیلات کے مطابق کموڈور مسعود خورشید نے کمانڈر فرخ نواز سری کے ہمراہ پریس کانفرنس  کرتے ہوئے کہا کہ 14ویں چیف آف نیول سٹاف امئچور گالف چیمپئین شپ 23سے 26 ستمبر مارگلہ گرین گالف کلب میں کھیلی جائیگی۔

کموڈور خورشید مسعود کا کہنا تھا کہ پاک بحریہ کے شوٹرز نے دوسری مرتبہ اولمپک کھیلوں کے لئے کوالیفائی کیا ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان گالف فیڈریشن سے ملکر پاک بحریہ چیمپئین شپ کا انعقاد کرے گی ۔

کموڈور خورشید مسعود کا کہنا تھا کہ  چیمپئین شپ میں پورے پاکستان سے 300 سے زائد گالفرز کی شرکت متوقع ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ چیمپئین شپ کی مین کیٹیگری 54ہولز جبکہ خواتین اور سینئیر ایمچور 36 ہولز پر کھیلی جائیگی، جونیئرز امچورز کیٹگریز 18ہولز پر کھیلی جائیگی ۔

اس موقع پر کموڈور خورشید مسعود کا مزید کہنا تھا کہ ہول ان ون کیلیے ایک گاڑی بھی رکھی گئی ہے ۔