کینیڈین وزیراعظم تیسری مرتبہ منتخب، واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام

کینیڈا کے لبرل وزیراعظم جسٹن ٹروڈو سخت مقابلے کے بعد قدامت پسند اُمیدوار کو شکست دے کر تیسری مرتبہ منتخب ہونے میں کامیاب ہو گئے البتہ وہ واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق گزشتہ ماہ جسٹن ٹروڈو نے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا تھا لیکن گزشتہ دونوں مرتبہ کے برعکس اس دفعہ انہیں سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑا۔

پانچ ہفتوں تک چلائی جانے والی مہم کے بعد یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ اس مرتبہ انتخابات میں کامیابی ٹروڈو کے لیے گزشتہ دونوں مرتبہ کی نسبت اتنی آسان نہیں ہوگی کیونکہ گزشتہ کچھ سالوں میں خصوصاً کووڈ-19 کی وبا کی وجہ سے ان کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔

انتخابات میں فتح کے بعد جسٹن ٹروڈو نے عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ووٹ دے کر آپ نے لبرل ٹیم پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا اور روشن مستقبل کا انتخاب کیا، ہم کووڈ-19 کے خلاف جنگ جلد ختم کرلیں گے اور ہم ہر کسی کے لیے کینیڈا کو آگے لے کر جائیں گے۔

فتح کے بعد اپنی بیوی اور بچوں کے ہمراہ عوام سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ آپ ہمیں واضح مینڈیٹ دے کر دوبارہ اقتدار میں لائے ہیں تاکہ ہم اس وبا سے نمٹ کر آپ کو ایک روشن مستقبل دے سکیں اور ہم یہی کرنے کے لیے تیار ہیں۔

49 سال جسٹن ٹروڈیو کو اس مرتبہ سخت انتخابی مزاحمت کا سامنا تھا لیکن اس کے باوجود وہ کامیابی کے حصول میں کامیاب رہے۔

چھ سال اقتدار میں رہنے کے بعد ٹروڈیو کی انٹظامیہ میں تھکاوٹ کے آثار نمایاں نظر آتے تھے اور ان کے لیے کینیڈا کے عوام کو قائل کرنا آسان نہ تھا کیونکہ 2015 کے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی کے بعد وہ عوام کی توقعات پوری کرنے میں ناکام رہے تھے۔

انتخابات کے دوران پورا دن مختلف شہروں میں پولنگ اسٹیشن کے باہر عوام قطار میں کھڑے نظر آئے جن میں سے ایک ٹروڈیو کے ضلع مونٹریال میں ووٹ ڈالنے والے 73سالہ ڈگلس اوہارا بھی ہیں جو وزیر اعظم کی کارکردگی سے مایوس نظر آئے۔

انہوں نے کہا کہ وبا کے سلسلے میں انہوں نے آدھا کام تو ٹھیک کیا لیکن ساتھ ساتھ یاد دہانی کرائی کہ وزیراعظم نے کہا تھا کہ وبا کے خاتمے تک انتخابات نہیں ہوں گے لیکن جیسے ہی انہیں لگا کہ وہ اکثریت حاصل کر سکتے ہیں تو انہوں نے الیکشن کا اعلان کردیا، میرا ماننا ہے کہ انہوں نے ہم سے جھوٹ بولا۔

ریاست اوٹاوا کی 25سالہ ووٹر کائی اینڈرسن نے کہا کہ کینیڈا کا وبا سے نمٹنے کا طریقہ کار سے اہم مسئلہ تھا اور میرے خیال میں وبا کے حوالے سے وزیراعظم نے بہت اچھا کام کیا۔

72سالہ لیز میئر بھی وزیراعظم اور ان کی انتظامیہ کے کاموں سے مطمئن نظر آئیں اور صحت کے بحران کے دوران حکومت کی مستقل مزاج پالیسی کی وجہ سے ٹروڈیو کی کامیابی کے لیے پرامید ںظر آئیں۔

پارلیمانی اکثریت کے حصول کے لیے وزیر اعظم نے مقررہ مدت سے دو سال قبل ہی الیکشن کے انعقاد کا اعلان کردیا تھا۔

وہ نومبر 2015 سے ملک کے وزیر اعظم ہیں اور وہ پہلے لیڈر تھے جو لبرلز کو تیسرے نمبر سے پہلے نمبر تک لانے میں کامیاب رہے تھے۔

البتہ اس نئی حکومت میں لبرلز واضح اکثریت حاصل نہ کر سکے کیونکہ وہ 338نشستوں کے ایوان میں 170 نشستیں جیتنے میں کامیاب ناکام رہے اور اب انہیں ایک اتحادی حکومت تشکیل دینی پڑے گی۔

اب تک آنے والے 95فیصد غیرحتمی نتائج کے بعد لبرل پارٹی نے 157 سیٹیں جیتی ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں

قدامت پسند رہنما او ٹول نے منگل کو اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جسٹن ٹروڈیو کو کال کر کے انہیں مبارکباد دی البتہ ابھی حتمی نتائج آنے میں کئی دن لگ سکتے ہیں۔

15 اگست کو انتخابات سے دو سال قبل ہی نئے الیکشن کے انعقاد کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم نے عوام سے سوال کیا تھا کہ وہ فیصلہ کریں کہ کووڈ-19 کے خلاف لڑائی ختم اور ملک کی بحالی کے لیے سب سے موزوں کون ہے۔

البتہ 38روزہ انتخابی مہم کے بعد سامنے آنے والے ملے جلے نتائج اس بات کی عکاسی کررہے تھے کہ ایک اقلیتی حکومت کو اکثریتی حکومت میں تبدیل کرنے کا منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکے گا۔

سمندر جال خالی لوٹانے لگے

ڈاکٹرناہید بانو
ماہی گیری اور ماہی پروری ابتداء کائنات سے ہی کسی نہ کسی صورت میں انسانی زندگی پر اثرانداز ہوتی آئی ہے جیسے جیسے وقت گزرتا گیا انسان نئی سے نئی تکنیک اور ایجادات کرتا گیا۔ سمندر زمین کو زندگی فراہم کرتے ہیں اگر بات کی جائے پانی کی تو یہی پانی نہ صرف پانی کے اندر جانداروں کو زندگی فراہم کرتا ہے بلکہ زمین پر رہنے والے جانداروں کی زندگی بھی اسی سے جڑی ہوئی ہے۔ زمین پر بڑا حصہ (تین چوتھائی) پانی کا ہے اور کرہ ارض کا 97 فیصد پانی سمندر کی شکل میں موجود ہے جو جانداروں کو 99 فیصد رہائش کی جگہ فراہم کرتا ہے۔ ہمارے کرہ ارض کے قدرتی وسائل کا تحفظ ہی مستقبل کا تحفظ ہے۔ تاہم موجودہ حالات میں ساحلی پانی آلودگی اور سمندر کی تیزابیت میں اضافے سے مسلسل خراب ہو رہا ہے۔ جو ایکوسسٹم اور بائیو ڈائیورسٹی کی تباہی کا باعث ہیں۔ یہ چھوٹے پیمانے پر ماہی گیری اور ماہی پروری پر بھی منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔
سمندر کا تحفظ ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ آبی حیات انسانی صحت اور ہمارے سیارے کے لیے بہت اہم ہے۔ آبی تحفظ کے علاقوں کے درست انتظامات، قواعد و ضوابط، مچھلی کے بے دریغ شکار، آبی آلودگی اور پانی کی تیزابیت کو کم کرنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں جب سمندر تمام مچھیروں کو خوش واپس لوٹاتے تھے پھر کیا ہوا کہ سمندر نے جال خالی واپس لوٹانا شروع کر دئیے۔ یہ شکایت کیا واقعی سمندر سے کی جائے یا انسان کو خود دیکھنا ہوگا کہ اس نے سمندر کے ساتھ کیا کیا۔ جی ہاں یہ انسان ہی ہے جس نے ترقی کی منازل طے کیں، نئی سے نئی ٹیکنالوجی کو ہر شعبے میں استعمال کیا مگر قدرتی وسائل کا استعمال کرتے ہوئے کبھی یہ نہ سوچا کہ دنیا میں صرف انسان ہی نہیں اور بھی بہت سی مخلوق ہے جس سے خود انسان بھی فوائد حاصل کرتا ہے۔ خواہ وہ خوراک کی صورت ہو، لباس یا رہائش کی شکل میں۔ انہی میں سمندری حیات بھی شامل ہیں۔ سمندر یا دوسرے قدرتی پانی سے انسان اپنی خوراک کے لیے مچھلی کا شکار کرتا آیا ہے۔ مچھلی کے شکار کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے آجانے سے شکار میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ یہی نہیں شکار کے لیے استعمال ہونے والے جال کے سائز کے بارے میں نہ صرف آگاہی دی گئی بلکہ قوانین بھی بنائے گئے جن کے تحت شکار پر ایک مخصوص سیزن میں پابندی بھی لگائی گئی مگر دریاؤں اور سمندر سے مچھلی کے چوری چھپے شکار میں کافی حد تک کامیابی نظر نہیں آتی اور اس کا ثبوت موجودہ کچھ سالوں سے پکڑی جانے والی مچھلی کی تعداد میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
دنیا میں آبی حیات کی تعداد کی قدرتی آبی ذخائر میں بہت زیادہ کمی سے یہ خطرہ بھی لاحق ہوسکتا ہے کہ اگر اس کمی اور بے دریغ شکار پر فوری توجہ نہ دی گئی توہم سمندر سے خوراک حاصل کرنے والے انسان کی آخری پیڑھی ہوگی۔ کچھ سالوں سے مچھلی کی مانگ میں پوری دنیا میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور مچھلی کا استعمال فی آدمی تقریباً 40 سے 45 فیصد تک ریکارڈ کیا گیا ہے جبکہ مچھلی کی تعداد (سٹاک) میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 1950ء میں جس تعداد سے مچھلی انسانی خوراک میں استعمال ہوتی تھی اب اس میں چار گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ تقریباً 85 سے 90 فیصد تک دنیا میں مچھلی کا زیادہ استحصال کیا گیا۔
ایک سروے کے مطابق سمندر سے پکڑے جانے والی کوڈ میں بہت کم اس عمر کی تھیں کہ جو اپنی نسل کو آگے بڑھا سکیں یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ بڑی مچھلی کا بندی کے سیزن میں بھی شکار جاری رہا۔ اس کے علاوہ سمندر کی تہہ سے ٹرالنگ کے ذریعے مچھلی پکڑے جانے سے سمندر صحرا کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ اگر افریقہ کو دیکھا جائے تو پچھلے 40 سالوں میں مچھلی کے شکار میں 50 فیصد کمی آئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2050ء تک مچھلی کے زخائر میں 40 فیصد تک کمی واقع ہوگی۔ مگر سب سے زیادہ متاثر ایشیاء اور افریقہ کے 400 ملین افراد ہوں گے جن کا روزگار اور خوراک مچھلی کے شکار پر منحصر ہے ان میں پاکستانی بھی شامل ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف چھوٹے سائز کی مچھلی کو تحفظ فراہم کیا جائے بلکہ ساتھ ہی موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلی پر بھی توجہ دی جائے تاکہ آئندہ انسانی نسلیں عمدہ پروٹین والی خوراک سے محروم نہ ہو جائیں۔
(کالم نگار ممتازماہر تعلیم ہیں)
٭……٭……٭

حُریت اورقومی شناخت کاروشن اِستعارہ

حسین مجروح
21ستمبر1857ء رائے احمد خان کھرل کی شہادت کا دن ہے۔ انگریزی استعمار کے خلاف بے مثل مزاحمت اورشجاعت کے بیچ‘احمد خان کھرل اوران کے جانثار ساتھیوں کی شہادت‘ تاریخ حریت کاروشن باب تو ہے ہی لیکن اُن کی عزیمت اور آزادی کی راہ میں جان ومال قربان کردینے کی قابل فخر مثال نے پنجاب کاغیرت مند چہرہ اور سیاسی استقامت سے لبریز کردار اُجالنے میں بھی اہم کردار ادا کیاہے‘ جسے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انگریزوں اور بعض مقامی لیکن متعصب مؤرخین نے ٹوڈی اور طاقت کے آگے سرنگوں ہوجانے والے خطے کے طورپر متعارف کروانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ حالانکہ پورس کی سکندر کے خلاف بھرپور جنگ‘گکھڑوں کی مغلوں اور افغانیوں کے مقابل مسلسل مزاحمت‘ دُلابھٹی کی اکبرکے خلاف مسلح بغاوت اور انیسویں صدی کے وسط میں نیلی بار کے کھرلوں‘ فتیانوں اور وٹوؤں کی برطانوی سامراج کے خلاف مبارزت‘ پنجاب کے حُریت آگیں چہرے کی گواہی اور اپنی دھرتی کی حرمت کے لئے کٹ مرنے کی روشن ترین مثالوں کی موجودگی پنجاب کے حقیقی کردار کا تعارف کروانے کے لئے کافی ہے۔ رہے ٹوڈی اور غدار تو وہ دنیا کے کس حصے میں نہیں پائے جاتے لیکن کسی بھی قوم یا خطے کی تاریخ‘ بے ضمیروں سے نہیں‘ سورماؤں اور لوک سیوا کرنے والوں سے پہچانی جاتی ہے۔
خیر یہ تو جملہئ معترضہ تھا‘ ورنہ احمد خان کھرل کی آزادی کے لئے تڑپ اور اپنی زمین سے وفاداری کاجوہر‘ ان کے اس تاریخی مکالمے میں تلاش کیا جاسکتاہے جو انہوں نے گوگیرہ کے انگریز اسسٹنٹ کمشنربرکلے کو حرف انکار کے طورپرکردار ادا کیا کہ ”ہم لوگ اپنی زمینیں‘عورتیں اورگھوڑے دوسروں کو نہیں دیا کرتے“ اس جملے کے سیاق وسباق کو تلاش کرنے کے لئے ہمیں تاریخ میں کچھ پیچھے جانا ہوگا۔
پنجاب میں برطانوی اقتدار1849ء میں قائم ہو چکا تھا جسے مستحکم کرنے کے لئے قابض انگریزوں نے جا بجا مالگزاری‘ جیلوں اور انتظامی دفاتر کا جال بچھانا شروع کردیاتھا۔ اس قبضے کے ٹھیک آٹھ سال بعد‘ یو پی اور ملحقہ علاقوں میں مقامی لوگوں نے انگریز سامراج کے خلاف جنگ آزادی کااعلان کردیا جسے انگریز بہادر نے ”غدر“ کانام دیا۔ یہ جنگ آزادی جس کا آغاز مئی1857ء میں میرٹھ چھاؤنی سے ہوا۔ آن کی آن میں ہندوستان کے دیگر علاقوں میں بھی پھیل گئی اورباغیوں نے انگریزی چھاؤنیوں اور دفاتر کے علاوہ انگریزوں کوپکڑ کرقتل کرنا بھی شروع کردیا۔ بغاوت کی اس لہر کو کچلنے کیلئے انگریزکو دیگر صوبہ جات سے بھرتی اورگھوڑوں کی ضرورت محسوس ہوئی اوراسی ضمن میں برکلے نے احمدخان کھرل شہید سے بھی جو نہ صرف راوی کنارے آباد کھرل قبیلے کے سردار تھے بلکہ دیگر جانگلی قبائل میں بھی گہرا رسوخ رکھتے تھے۔انگریزوں کی مدد کامطالبہ کیا۔ رائے احمد خان کھرل کاجواب دھرتی کے ایک سچے سپوت کاجواب تھا لیکن نشہ استعمار میں چُور برکلے کی انا اور انگریزی اقتدار کیلئے ایک تازیانہ۔ سو انگریزوں نے احمد خان کھرل کے گاؤں جھامرہ پرحملہ کردیا۔ احمد خان کھرل اُن کے ہاتھ نہ آئے تو انہوں نے پوری بستی کو آگ لگادی۔ جھامرہ اور اردگرد کے لوگوں کے علاوہ عورتوں‘ بچوں جن میں احمدخان کھرل کے اہل وعیال بھی شامل تھے‘ کوقیدی بناکر گوگیرہ جیل میں ڈال دیا۔ تاہم چندہی روز بعدمراد فتیانہ اور بہلول فتیانہ نے گوگیرہ جیل پر حملہ کرکے تمام قیدیوں کو چھُڑوا لیا۔
اگرچہ احمد خان کھرل کا انکار اور گوگیرہ جیل پر حریت پسندوں کے حملے نے نیلی بار کے جانگلی قبائل میں آزادی کی لپک اور انگریزوں کی بے دخلی کی لہر کو ایک منہ زو طوفان میں بدل دیا تھا لیکن آزادی اور انگریز سے نجات کی چنگاری تو اس وقت سے سلگنی شروع ہو چکی تھی جب 1849ء میں پنجاب پر قبضے کے بعد انگریز نے وہاں لگان اور آبیانے کے نام پر ظالمانہ ٹیکس لاگو کردیئے اور معاشرتی زندگی میں مداخلت شروع کردی تھی۔ گوگیرہ جیل ٹوٹنے کے بعد‘ آزادی کی تحریک اس قدر عروج پکڑ گئی کہ اس کے دائرہ کار کا پھیلاؤ‘ راوی سے ستلج کے درمیانی علاقوں تک پھیل گیا اور مجاہدین کی تعداد‘ ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ تک پھیل گئی۔ مجاہدین کے حملوں اور روز بہ روز پھیلتے اثرورسوخ سے نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ تین ماہ تک ساہیوال اور ملتان میں انگریزکی عمل داری ختم ہوگئی اور مجاہدین آزادی کا غلبہ قائم ہونے سے کمالیہ‘ چیچہ وطنی‘ اوکاڑہ‘ دیپالپور اور پاکپتن آزادی کے متوالوں کے نشیمن بن گئے۔ چنانچہ لاہور ملتان سے گورا فوج کے تازہ دم دستوں اور توپ خانے کو انگریز کے باغیوں لیکن دراصل حریت پسندوں کی سرکوبی کیلئے طلب کرلیا گیا۔ مجاہدین آزادی نے جو جدید اسلحے اور توپ خانے سے محروم تھے‘ برطانوی استعماریوں کا نیزوں‘ تلواروں اور تیروں سے خوب مقابلہ کیا اور کئی مقامات پر انہیں پسپا ہونے پر مجبور بھی کردیا۔ قریب تھا کہ ان کی جدوجہد مکمل کامیابی سے ہمکنار ہو جاتی جس میں ان کے جانی مالی نقصان کا تناسب انگریزوں کی نسبت اگرچہ زیادہ تھا لیکن سرفروشی کی تمنا نے ان کی ہمتوں اور جذبوں کو بدستور جوان رکھا ہوا تھا۔ بدقسمتی سے ملتان‘ مثال پور‘ جلال پور پیروالہ کے گدی نشینوں کی غداری‘ امیر بہاولپور کی انگریزوں کیلئے حمایت اور کمالیہ کے سرفراز کھرل کی مخبری کے باعث‘ مجاہدین آزادی کی بڑی تعداد کو انگریزوں نے تہہ تیغ کرنا شروع کردیا اور تحریک کا دائرہ سمٹ کر راوی کے کناروں تک آگیا۔ اس تگ وتاز کا فیصلہ کن معرکہ گشکوریاں کے نزدیک نورے دی ڈل میں برپا ہوا۔ جہاں انگریزوں اور سکھوں کے مشترکہ دستوں نے احمد خان کھرل اور اس کے ساتھیوں کا محاصرہ کرلیا۔ مجاہدین نہایت بے جگری سے لڑے لیکن تابہ کے۔
یہ 21ستمبر 1857ء کا دن تھا۔ صبح سے سہ پہر تک گھمسان کا رن پڑا۔ اسی دوران نماز عصر کا وقت ہوگیا۔ احمد خان اور اس کے ساتھیوں نے میدان جنگ ہی میں وضو کیا اور نماز شروع کردی۔ یزیدیوں کی طرح گورا اور سکھ فوجوں نے ان کی نماز ختم ہونے کا بھی انتظار نہ کیا اور دوسری رکعت میں ہی احمد خان کھرل اور ان کے درجن بھر ساتھیوں پر فائر کھول دیا۔ یوں 81سالہ سالارِ آزادی نے راہ حق میں جرأت اور عزیمتِ کردار کی روشن ترین مثال قائم کرتے ہوئے‘ اپنے جانثاروں کے ہمراہ‘ آزادی کی راہ میں متاع حال کو نچھاور کردیا۔
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
(کالم نگارممتاز ماہرین تعلیم اورمعروف شاعر ہیں)
٭……٭……٭

ریاست مدینہ کیلئے عملی اقدام کی ضرورت

خیر محمد بدھ
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے جس کی اساس اسلام ہے آئین پاکستان میں بھی اور قرار داد مقاصد میں بھی کہا گیاہے کہ ملک میں اسلامی نظام حکومت ہو گا کیوں کہ ہماری آبادی کی اکثریت مذہب اسلام سے بے حد لگاؤ رکھتی ہے اور مذہبی عنصر نے ہمیشہ ملک کی سیاست میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔وزیراعظم پاکستان نے جب ملک کو ریاست مدینہ کی طرز پر چلانے کا اعلان کیا تو عوام نے اس اعلان کو بہت پسند کیا۔اس لیے کہ اسلام ایک مکمل طرز زندگی ہے جس میں کسی قسم کے استحصال کی گنجائش نہیں ہے اب حکومت نے اپنے تین سال مکمل کرلیے ہیں لیکن عملی طور پر ریاست مدینہ کی منزل ابھی دور دکھائی دیتی ہے اس منزل کو حاصل کرنا انتہائی آسان ہے۔ 1971ء میں جب سرحد میں مفتی محمود صاحب وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں نے وزیر اعلیٰ کے کچن کو بند کر کے زمین پر بیٹھ کر اسلامی روایت کے مطابق کھانے کا رواج شروع کیا۔اس دسترخوان میں ان کا عملہ اور ملاقاتی بھی شامل ہوتے تھے اور وہ سبھی لوگ سادہ کھانا کھاتے تھے۔اس سے لاکھوں روپے کی بچت ہوئی اورسادگی کی مثال بھی قائم ہوئی۔ ملک میں پہلی بار انہوں نے ماہ رمضان میں مکمل احترام کا حکم دیا کھانے پینے کے ہوٹل بند کئے۔خلاف ورزی کرنے پر سخت سزائیں دیں شراب پر پابندی لگائی اس طرح دنیا نے دیکھا کہ جب انقلاب ایران آیا تو عالمی سربرا ہ بھی جب رہبر انقلاب امام خمینی سے ملنے جاتے تھے تو یہ درویش فرش پر بیٹھے ہوئے ان سے ملتے تھے تمام اکابرین اور وزرا ء کو پانچ وقت کی نماز مسجد میں جا کر پڑھنے کا پابند کیا گیا۔
مجھے ای ڈی او ہیلتھ ڈاکٹر حبیب الرحمن بتا رہے تھے کہ وہ ڈبلیو ایچ اوWHO کے زیراہتمام ایران میں کام کرتے تھے جب وزیر صحت کے ساتھ میٹنگ ہوتی تھی تو ظہر کی نماز سب مل کر پڑھتے تھے اور پھر سیکرٹریٹ کی کینٹین پر وزیر اور عملہ سبھی جاکر ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اور ان کے ایک صدر احمدی نژاد دفتر جاتے ہوئے اپنا کھانا ساتھ لے کر جاتے تھے اور جب بھی سرکاری وفد سے ملاقات کرتے تھے تو وہ انہیں سرکاری فنڈ سے کھانا دیتے تھے جبکہ خود اپنے گھر کا کھانا کھاتے تھے اور پھر موجودہ صدی میں دنیا نے دیکھا طالبان جنہوں نے اسلامی حکومت کا اعلان کیا ہے۔انتہائی سادگی کے ساتھ امور حکومت چلا رہے ہیں ایک صوبے کے گورنر خود ہاتھ میں جھاڑو پکڑ کراپنے عملہ کے ساتھ صفائی کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں طرز زندگی بدلنے سادگی اور کفایت شعاری کو شروع کرنے اسلامی اقدار کو اپنانے میں کوئی بھی مشکل نہیں ہے۔اس کے لیے نہ تو فنڈز درکار ہیں اور نہ ہی کسی قانون سازی کی ضرورت ہے۔یہ نیت سوچ اور مائنڈ سیٹMind Set کا معاملہ ہے۔آپ فیصلہ کریں اور اگلے منٹ میں عمل کریں۔اقتدار سنبھالنے کے بعد وزیراعظم نے کچھ اچھے اقدامات بھی کیے ہیں جن کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔انہوں نے سرکاری اجلاسوں میں صرف چائے اور بسکٹ کی اجازت دے کر سادگی کی اچھی مثال قائم کی ہے۔ملک میں پناہ گاہ اور لنگر خانے قائم کرکے مسافروں اور غریب لوگوں کیلئے راحت اور آرام کے اسباب فراہم کیے ہیں۔بیرونی دورے میں اخراجات میں بہت کمی کی ہے۔سرکاری اخراجات میں ماضی کی نسبت بہت کمی آئی ہے۔وزیراعظم نے اپنی فیملی اور رشتہ داروں کو امور سلطنت سے علیحدہ رکھا ہے اور انہیں سرکاری پروٹوکول کی سہولت سے محروم کیا ہے لیکن ان کے ذاتی اقدامات سے معاشرتی طور پر حیران کن تبدیلی نہ آئی ہے اور نہ ہی اس کے اثرات نیچے تک آئے ہیں۔
عربی زبان کی کہاوت ہے کہ لوگ بادشاہوں کی تقلید کرتے ہیں ” الناس علی دین ملوکھم “حکمران اور صاحب اقتدار جس طرز زندگی کو اختیار کریں گے باقی لوگ بھی ان کی تقلید کریں گے جنرل ضیاء نے پہلی بار شلوار قمیض اور واسکٹ کومتعارف کرایا سب سیاست دان اور بیوروکریٹ بھی کوٹ پتلون چھوڑ کر اسی لباس میں نظر آنے لگے انہوں نے دفتری اوقات میں نماز کی ادائیگی لازمی قرار دی کہا جاتا ہے کہ نماز کے وقت بعض بیورو کریٹس بغیر وضو کے ہی صف میں کھڑے ہوجاتے تھے۔
ریاست مدینہ کا تصور بہت ہی اعلیٰ سوچ ہے۔اس میں عوام کی فلاح و بہبود بھی ہے اور ریاست کا استحکام بھی۔اس پر عملدرآمد فوری ہونا چاہیے۔انقلاب جب بھی آتا ہے تو وہ فوری طور پر تبدیلی لاتا ہے چیزوں کوبلاتاخیر تبدیل کر دیا جاتا ہے اگر اس میں وقفہ آ جائے تو پھر دشمن طاقتیں رخنہ ڈالنا شروع کر دیتی ہیں اور آدھا تیتر آدھا بٹیر کی شکل میں وہ لٹک جاتا ہے۔وزیر اعظم کی نیت پر کسی کو شبہ نہیں ہے بیشک وہ وزیراعظم ہاؤس یا گورنر ہاؤس کو یونیورسٹی نہ بنائیں لیکن اپنے وزیر‘ وزرائے اعلیٰ اور بیوروکریٹ حضرات کو اس بات کا پابند کریں کہ وہ باقاعدگی سے نماز ادا کریں اور وہ بھی اپنے دفاتر کی مساجد میں دیگر لوگوں کے ساتھ، کھانے پینے میں بھی اسلامی طرز کی طرح عام لوگوں کے ساتھ سادہ کھانا کھائیں اور صرف فوٹو سیشن کے لیے نمائشی طور پر نہیں بلکہ روزانہ کا معمول بنائیں،دفتروں میں بیٹھنے کے بجائے عوام کے پاس فیلڈ میں بغیر اطلاع جائیں۔ را ت کے وقت نکلیں،بھیس بد ل کر صورت حال کا جائزہ لیں۔ اگر خلفائے راشدین راتوں کو اپنی رعایا کی خبر گیری کرتے تھے اور وہ بھی پیدل چل کر اور اپنی پیٹھ پر آٹااور راشن لے کر آج کے وزیر اعلیٰ اور وزرا ء کے پاس تو گاڑیاں اور وسائل ہیں وہ ایسا کیوں نہیں کر سکتے جو کھلی کچہریاں بیوروکریٹ اپنے ایئرکنڈیشن دفتروں میں کر رہے ہیں وہ مساجد میں بیٹھ کر کریں جزا اور سزا کے عمل میں کوئی بے ایمانی نہیں ہونی چاہیے۔ذخیرہ اندوزی،ملاوٹ اور کم تولنے والوں کو اسلامی سزائیں دی جائیں۔ریاست مدینہ کے اصولوں پر عمل کرنے کیلئے کسی قانون یانئی حکمت عملی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ تو ماڈل موجود ہے صرف اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے اور اس کا آغاز اوپر سے ہونا چاہیے اگر حکومت ریاست مدینہ کے اصولوں پر انفرادی اور اجتماعی طور پر عمل کرنا شروع کر دے تو اس سے معاشرتی انقلاب برپا ہوگا۔لوگوں کے رویے اور سوچ میں تبدیلی آئے گی گورننس بہتر ہوگی لوگوں کے مسائل حل ہوں گے حکمرانوں کیلئے آسانیاں ہوں گی۔ ریاستی اخراجات میں بچت ہوگی۔ ملک ترقی کرے گا اخلاقی اقدار مضبوط ہوں گی۔پاکستان میں ایک زمانہ تھا کہ وزیر اعلیٰ صاحب سیکرٹریٹ میں بیٹھتے تھے وہ وقت پر آتے تھے تو سب سیکرٹری صاحبان اور عملہ بھی وقت کی پابندی کرتا تھا‘ اخراجات میں بھی بچت ہوتی تھی‘پنجاب میں نواز شریف نے اپنا دفتر سیکرٹریٹ کے بجائے جی او آر بنایا اور پھر سب آفس بنائے‘ان پر بہت اخراجات آئے۔یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔اس سے لوگوں کو تکلیف بھی ہوتی ہے اور انتظامی امور پر گرفت بھی کمزور ہوتی ہے۔ابھی حکومت کے پاس دو سال باقی ہیں اب بھی ریاست مدینہ کیلئے عملی اقدامات ہو سکتے ہیں۔وزیراعلیٰ‘ گورنر‘ وزراء‘ سینئر بیوروکریٹ اپنے انداز اور ذہن کو بدل لیں اپنے طرز زندگی کو عوامی بنائیں‘اپنے دفاتر میں وقت پر آئیں‘دن رات کام کریں‘سادگی کو اپنائیں‘پروٹوکول کو کم کریں‘ کھانے پینے اور سرکاری کچن کے اخراجات کو ختم کریں‘سیکرٹریٹ میں موجود کینٹین سے سبھی وزراء‘ وزیر اعلیٰ اور بیوروکریٹ ایک ساتھ کھانا کھائیں۔ عوام سے روابط کو بڑھائیں۔زندگی کو بدلنے میں تو حکمرانوں کا اختیار ہے۔اس سے حقیقی تبدیلی بلکہ نظام کی تبدیلی عملی طور پر نظر آئے گی۔
(کالم نگار سیاسی وسماجی موضوعات پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

فیقا بھی میٹرک پاس ہو گیا

ندیم اُپل
ماں نے اپنے بیٹے سے پوچھاکیا کر رہے ہو؟بیٹے نے جواب دیا کہ اپنے دوست کو خط لکھ رہا ہوں۔ماں نے پھر پوچھا کیا تمہیں خط لکھنا آتا ہے جس پر بیٹے نے جواب دیا میرے دوست کو کون سا پڑھنا آتا ہے۔
دراصل آج کل ہم ایسے ہی طلبا کی کھیپ تیار کر رہے ہیں جنہیں خود لکھنا آتا ہے اور نہ ہی ان کے دوستوں کہ پڑھنا آتا ہے۔
جب سے وزارت تعلیم کی طرف سے یہ اعلان ہوا ہے کہ اس سال میٹرک کا امتحان دینے والے سب بچوں کو پاس کر دیا جائے گا نالائق اور سکول سے بھاگنے والے بچوں کی تو گویاچاندی ہو گئی ہے۔ان کادل بلّیوں اچھلنے لگا ہے اور یہ معصوم جس قدر ہمارے وزیر تعلیم شفقت محمود کو دعائیں دے رہے ہیں اس کے نتیجہ میں انشااللہ آئندہ دو سال کے لیے بھی وزارت تعلیم کاقلمدان شفقت محمود کے پاس ہی رہے گاالبتہ یہ الگ بات ہے کہ جو طلبا مفت میں پاس ہوگئے ہیں نہ صرف میٹرک کی سند حاصل کرنے کے باوجود ان کا مستقبل تاریک ہوجائے گا بلکہ جو محنتی اور لائق طالب علم ہیں ان کی ڈگریاں بھی مشکوک سمجھی جائیں گی وہ جب بھی کہیں نوکری لینے جائیں گے اوران کی سند پر امتحان پاس کرنے کا سال 2021-22ہوگا ان سے نوکری کے لیے انٹرویو کرنے والا یہی سوال کرے گا۔ بچے سند تو تمہیں مفت مل گئی تھی مگر نوکری ایسے نہیں ملے گی۔ تاہم زیادہ پریشانی تو ان ذہین فطین اور محنتی طلباو طالبات کو ہوگی جو پوزیشن لینے کی پوزیشن میں تھے مگر اس طرح سب کو پاس کرنے کے سبب ان کی قابلیت بھی مشکوک ہو جائے گی۔اس کا حل یہ بھی نکالا جاسکتا ہے جو بچہ ایسی مفت کی سند کے ساتھ نوکری لینے جائے گا اس کا بھی انٹری ٹیسٹ ہوگا تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔مفت کی اسناد ملنے سے سب سے زیادہ خوشی ان خلیفہ ٹائپ طلبا کو ہوگی جو برسوں انگریزی اور حساب کے مضمون میں فیل ہونے کی وجہ سے میٹر ک کی سند حاصل کرنے سے دور تھے مگر وزیر تعلیم شفقت محمود کی بے پناہ شفقت سے اب وہ بھی فیقامیٹرک پاس کہلوا سکیں گے۔وزارت تعلیم کا موقف تو یہ ہے کہ بچوں کا ایک تعلیمی سال ضائع ہونے سے بچا لیا گیا ہے مگر جس شارٹ کٹ سے ان کا تعلیمی سال ضائع ہونے سے بچایا گیا ہے درحقیقت اس کے نتیجہ میں ان کی زندگی ہی برباد ہو کر رہ جائے گی۔وہ دوستوں عزیزوں اور رشتہ داروں سے زندگی بھر پڑھے لکھے جاہل کہلوانے کے طعنے الگ سنیں گے۔ہم ماضی میں دعوے سنا کرتے تھے پڑھا لکھا پنجاب۔مفت پاس کیے جانے کے بعد اب توپڑھا لکھا پنجاب کاخواب بھی شرمندہ تعبیر ہو گیا ہے یہ الگ بات ہے جن نااہل اور سکول کے بھگوڑے طلبا کو پاس کیا جائے گا ان کے والدین کو ہمیشہ اپنے عزیز رشتہ داروں سے اس کے طعنے سننا پڑیں گے۔جس طرح بچوں کو فیاضی کے ساتھ پاس کیا گیا ہے اب تو کوئی یہ بھی نہیں کہے گا کہ علم حاصل کرو خواہ اس کے لیے تمہیں چین جانا پڑے کیونکہ اب تو سارے معاملات ایک ہی چھت کے نیچے طے ہو گئے ہیں۔
ماضی میں جب بہت سی اہم شخصیات کی ڈگریوں کی چھان بین ہوئی تھی تو اس کے نتیجہ میں بہت سے لوگوں کی ڈگریاں جعلی قرار دی گئی تھیں مطلب کہ انہوں نے بغیر امتحان دیے ڈگریاں حاصل کی تھیں جسے ایک جرم قرار دیا گیا تھا مگر ہماری نوجوان نسل جسے بغیر امتحان لیے میڑک پاس کی اسناد دی جائیں گی ان کی اسناد میں اور ماضی میں جعلی ڈگریوں کی بنا پر نوکریاں حاصل کرنے والوں میں کیا فرق رہ جائے گا۔
آج ہمارے ماہرین تعلیم ڈاکٹر نذیر احمد،صوفی غلام مصطفی تبسم،پروفیسر قیوم نظراور ڈاکٹر وحید قریشی زندہ ہوتے تونہ جانے ان کے دل پر کیا گذرتی اور ہمیں یقین ہے کہ اس فیصلے پر ان کی روحیں بھی آج یقینا بے چین ہوں گی مگر کیا کیا جائے،بچوں کا قیمتی سال ضائع ہونے سے بچانے کے لئے اس کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ بھی تونہ تھا۔ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں خالی قصوروار حکومت کا بھی نہیں ہے بلکہ اس میں بچوں کے والدین بھی برابر کے قصور ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اور کردار سازی پرکبھی توجہ دینا ضروری ہی نہیں سمجھا۔انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ انہوں نے اپنے بچے کے ہاتھ میں کتا ب کی جگہ انٹر نیٹ سے لیس موبائل دے دیا ہے وہ اس موبائل سے کس قسم کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ بچے تاریخ اور معاشرتی علوم کے اسباق یاد کرنے کے بجائے ٹک ٹاکرزکے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے لگے ہیں۔وہ پیسے جو ماں باپ کاپیاں اور کتابیں خریدنے کے لیے دیتے ہیں وہ ان پیسوں سے موبائل پر اپنی اپنی گیمز سے لطف اندوز ہونے کے لیے رات بھر کے لیے پیکیج کروانے لگے ہیں،سونے پر سہاگہ یہ کہ حکومت نے میٹرک اور ایف اے کا امتحان دینے والوں کو ان کے پیپرز چیک کیے بغیر غیر مشروط طور پر پاس کرنے کا پیکج دے دیا ہے جس سے مارے خوشی کے پھولے نہیں سما رہے جبکہ دوسرا پیکیج بچوں کا ہے جو کہ وہ پوری پوری رات کے لئے موبائل کمپنیوں کا پیکیج کروا کر اپنے من پسند پروگراموں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔کاش حکومت نئی نسل کو کوئی ایسا بھی پیکج دے دے جس سے ان کا مستقبل اور قوم کی تقدیر سنور جائے۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

کیا بلاول بھٹو کا ملتان مضبوط ہے؟

رانامحبوب ا ختر
2023 میں بلاول بھٹو زرداری کا پہلا بڑا انتخابی معرکہ ہوگا جب کہ دوسری بڑی جماعتوں کے قائدین اپنا آخری انتخاب لڑ رہے ہوں گے۔ طبعی عمر کے کھیل میں بلاول کو برتری حاصل ہے اور مخالفین خسارے میں ہیں۔ملتان میں بلاول بھٹو سے ملنے والے دانش وروں میں سے ایک نے کہا کہ بلاول بھٹو ایک حیران کن نوجوان ہے۔ دوسرے نے کہا کہ بلاول کو دیکھنا (نعوذباللہ) ثواب ہے۔یہ عقیدت کی بات ہے کہ صدیوں سے سامراجیت کا شکار مظلوم وسیب مظلوم بھٹوز سے عقیدت رکھتا ہے۔ بلاول کا ڈی این اے بھٹوز کی شعلگی اور آصف علی زرداری کی عملیت پسندی کا آمیزہ ہے۔ افغانستان میں زمیں زادوں کی فتح پاکستان کے لئے تزویراتی نعمت ہے اور امریکی شکست سامراجیت کے زوال کی نوید ہے مگر طالبانی ماضی سے دنیا خوفزدہ ہے۔ پرانے طالبان کی طرح نئے طالبان کا مسئلہ inclusive سماج سے انکار ہے۔ ہمارے مشرق میں نریندرا مودی اور آر ایس ایس کی ہندو بربریت کا راج ہے۔ دو بنیاد پرست ریاستوں کے درمیان پاکستان کو متوازن اور inclusive polity بننے کا چیلنج درپیش ہے۔کیا پاکستانی ریاست اور بلاول بھٹو کے مقاصد میں مطابقت یا synergyکا امکان ہے؟ یہ بلاول کی ذکاوت اور ریاست کے اجتماعی شعور کا امتحان ہے۔ ایک عام فہم بات یہ ہے کہ اچھی حکومت، اچھی سیاست ہوتی ہے۔سندھ حکومت کے سیکرٹری تعلیم اور روشن دماغ لکھاری اکبر لغاری نے حال ہی میں میرٹ کے خلاف تمام تقرریاں منسوخ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی تھی۔ بلاول کے نامور ساتھی مخدوم احمد محمود اچھی حکومت کی بات تواتر کے ساتھ کرتے ہیں اور بطور گورنر انہوں نے نیک نامی بھی کمائی ہے۔بلاول کا دوسرا چیلنج پسماندہ اور متشدد پاکستانی سیاست کو تہذیب آشنا کرنا ہے۔ ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو جانتے تھے کہ تاریخ کو وقت کے اعلیٰ آدمی کو قتل کرنے کی عادت ہے۔ سقراط کو جب زہر کا پیالہ دیا گیا تو ایتھنز کی شہری ریاست سپارٹا سے شکست کھا چکی تھی۔ بھٹو کو بھی مشرقی پاکستان کی شکست کے بعد ایک جھوٹے مقدمے میں پھنسا کر دار کی خشک ٹہنی پہ وارا گیا۔ اپنے اعلیٰ آدمی کو مارنا شکست خوردہ سماج کی عادت ہے۔ بلاول بھٹو کو مگر ایک فاتح اسٹیبلشمنٹ سے مکالمہ درپیش ہے اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک شعلہ صفت بھٹو کی جگہ ایک cool as cucumber قدیم DNA والے بلاول سے واسطہ ہے۔ موہنجوداڑو کی قدیم تہذیبی روایت اچھی حکومت کے ملاپ سے وہ معجزہ برپا کر سکتی ہے جس کا صدیوں سے انتظار ہے۔Structural imperialism سے آزادی کا معجزہ پاکستان کو غربت، بیماری، مذہبی جنون اور بربریت کی غلامی سے نجات دلا سکتا ہے۔
اس کے لئے ماضی کی نئی تفسیر بھی درکار ہوگی۔ قابل استعمال ماضی یا usable past کو اپنی اجتماعی دانش کا حصہ بنانے کے ساتھ مردہ ماضی کو تاریخی amnesia کے حوالے کرنا ہوگا۔ mythopoetic heroes کا زمانہ تمام ہوا۔ دارا و سکندر اب نہیں آئیں گے۔ چنگیز خاں اور ہلاکو خاں جیسی toxic masculinity کے مریض مٹ گئے۔ڈونلڈ ٹرمپ،بورس جانسن، اربان اور بولسینارو کے بعد دنیا روشن خیال، امن پسند اور انسانیت نواز لیڈروں کی تلاش میں ہے۔ نئی تاریخ، رحمتؐ الّلعالمین کا کلمہ پڑھتی ہے۔ سب کے لئے رحمت،آج کے لیڈر کے لئے حکمِ مطلق ہے کہ غصے اور کرودھ سے ماورا قیادت ہی ایک پُر امن دنیا کی تخلیق کر سکتی ہے۔ فساد سے بھری دنیا کو السلام علیکم کی اعلانیہ سلامتی درکار ہے کہ دنیا سفید نسل پرست سامراجیت، ہندوتوا اور طالبانی کرودھ سے تنگ ہے۔ ثقافتی پاکستان ہمارا مقدرہے کہ cultural federalismہی پاکستانی وفاق کومضبوط بنا سکتا ہے۔ بلاول بھٹو کے پاس سندھ وادی اور جھولے لعل کا healing touchہے۔ پاکستانی ریاست کے خدشات اور پاکستان کے غریبوں کے خوابوں کو ہم آہنگ کرنا مگر ایک کٹھن مرحلہ ہے۔
دیدہ ور، اسلم انصاری کہتے ہیں کہ اگر مولانا روم مثنوی نہ لکھتے تو اسلامی فکر اور علم الکلام کی پانچ صدیاں گونگی رہ جاتیں۔ سرائیکی وسیب کے شاعروں نے تاریخ کی گونگی صدیوں کو زبان دی ہے۔عاشق بزدار، احمد طارق، رفعت عباس، اشو لال، جہانگیر مخلص اور عزیز شاہد وسیب کے فردوسی ہیں۔ سرائیکی وسیب کے لگ بھگ دس ہزار سے زیادہ شاعروں نے مشاعرے کو سیاسی جلسے بنا دیا ہے۔آج صوبہ نئے اور پرانے زمیں زادوں کا متفقہ مطالبہ ہے۔ ہر بڑی قومی سیاسی جماعت وسیب میں انتخابات کے وقت صوبے کی حمایت کرتی ہے اور انتخابات جیتنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کا عذر رکھ کر مکر جاتی ہے۔ 2018 کی طرح 2023 کے انتخابات میں بھی سرائیکی وسیب کے ووٹ اسلام آباد کے تخت کے حصول کے لئے فیصلہ کن ہوں گے۔ پی ٹی آئی سو دنوں میں کیا تین سالوں میں صوبہ نہیں بنا سکی۔ مگر عمران خان کو جاننے والے دوست بتاتے ہیں کہ وہ اپنا آخری اوور پورے زور سے پھینکیں گے اور سرائیکی صوبہ بنا کر انتخابی میچ جیتنے کی کوشش کریں گے۔ بلاول کے دورے میں بارہا یہ سوال اٹھایا گیا کہ آپ کی جماعت صوبہ تو کجا، سرائیکی وسیب کو جنوبی پنجاب کہتی ہے۔جنوبی پنجاب کا نام سرائیکی صوبے کا مقدمہ کمزور کرنے والا misnomer اور gimmick ہے۔چھوٹے صوبے، پنجاب کی سینٹ کی نشستیں دگنی ہونے کا خدشہ ظاہر کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک جنوبی پنجاب صوبے سے وفاق پر پنجاب کی تجارتی اور صنعتی اشرافیہ کی گرفت مضبوط تر ہو جائے گی۔تاریخی طور پر لاہور اور ملتان صدیوں سے دو مختلف سیاسی اکائیاں ہیں۔ ملتان، ادی استھان ہے۔ ادی کا مطلب پہلا اور استھان کا مطلب، اسمبلی یا آستانہ ہے۔ 1849 میں انگریز سامراج نے ملتان صوبائی شناخت ختم کی تھی کہ لیفٹیننٹ اینڈرسن اور وانس اگنیو قتل ہو گئے تھے اور ملتان نے نو مہینے مزاحمت کی تھی۔ ملتان کو سامراجی کرودھ کی وجہ سے لاہور میں ضم کرکے ملتان کی صوبائی حیثیت ختم کی گئی کہ رنجیت سنگھ کے دور میں بھی ملتان صوبہ تھا۔ قبضے اور لوٹ مارکے بعد شناخت مٹانا آزمودہ سامراجی ہتھکنڈہ ہے۔1947میں آزادی ملی مگر سامراجی ساختیاتی انتظام برقرار رہا۔ صوبہ بحال نہ ہوا کہ ملتان کی قدامت، شناخت اور تاریخ کی ہمدردانہ تفہیم کے بغیر صوبے کی بحالی ناممکن ہے۔ سرائیکی صوبہ، ملتان کی بازیافت کا نام ہے۔بلاول سے زیادہ یہ پیراڈائم اسٹیبلشمنٹ کو سمجھنا ہے کہ سرائیکی صوبے کے بغیر متوازن وفاق کا قیام ناممکن ہے۔
بلاول نے ملتان میں میاں مظہر عباس کو این اے 156 سے ٹکٹ کا عندیہ دیا ہے۔ ملتان کا یہ گنجان آباد شہری علاقہ، مخدوم شاہ محمود قریشی کا حلقہء انتخاب ہے۔ہمارے مرنجاں مرنج دوست اور سینئر سیاسی رہنماء، مخدوم تنویر الحسن گیلانی کہتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی، تحریکِ انصاف کے واحد رہنما ہیں جو سیاست جانتے ہیں۔ مظہر عباس کے بارے میں ایک جلے ہوئے جیالے نے کہا کہ وہ 1970 کی دہائی کے جاوید ہاشمی اور 1983 کے یوسف رضا گیلانی ہیں کہ وہ مخادیم کے راستے پر ہی چل رہے ہیں۔ کہنہ مشق شاہ محمود قریشی negative ووٹنگ کو کیسے روکتے ہیں اور مظہر عباس کس طرح ناراض ووٹروں اور حلقے کی بڑی انصاری، رانا، بھٹہ اور جانگلہ برادریوں کو مائل کرتے ہیں۔ اس پر پھر کبھی بات ہوگی۔
بلاول بھٹو کا دورہء ملتان ایک mixed bag تھا۔ جس میں ان کی outreach میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ ان کی inner reachسے بہت کم ہے۔ اس دوران جیالوں کے مچاٹے جاری رہے اور ان کی دلبری کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی۔بلاول کے جانے کے بعد کینٹ بورڈ ملتان کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کا ایک امیدوار بھی کامیاب نہ ہو سکا۔ مغل عہد میں یہ کہا جاتا تھا کہ جس کا ملتان مضبوط ہو وہ دلی پر حکمرانی کرتا ہے۔ بلاول کا ملتان کینٹ بورڈ کے انتخابات سے طشت از بام ہے۔دوسری طرف، زخم خوردہ نواز شریف آخری قہقہے کا انتظار کرتے ہیں تو شہباز شریف سفارت کاری کے گُر آزما رہے ہیں۔مگر ایک بات طے ہے کہ 2023 کا انتخاب بلاول بھٹو کا پہلا اور ان کے مخالفوں کا آخری الیکشن ہوگا۔
(کالم نگارقومی وبین الاقوامی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

مولانافضل الرحمن اورپاکستان کی صحافت

عبدالستار خان
پاکستان کی سیاست میں مولانا فضل الرحمن کے بارے میں کہا جاتا رہا ہے کہ شائد سیاست کے مدوجزران سے بہترکوئی دوسرا سیاستدان نہیں جانتا۔ سیاست کو بیانیہ کے انداز میں پیش کرنے کامولانا فضل الرحمن کا اپنا ہی انداز رہا ہے۔جو سب سے جداگانہ ہے۔میں ایک ٹی وی چینل کااسلام آباد میں بیوروچیف تھا۔میں اکثر اپنے رپورٹرز کو کہتا تھا کہ تم لوگوں کاسیاسی میدان میں رپورٹنگ کا امتحان مولانا فضل الرحمن سے ایک ایسا سوال ہے جو مولانا فضل الرحمن کو حقیقی معنوں میں لاجواب کردے یا پھر مولانا فضل الرحمن آپ کے سوال سے پریشان ہوجائیں یا پھر ٹی وی پر گفتگو کے دوران ایکpause آجائے۔pauseکے بارے کہا جاتا ہے ٹی وی پر pauseایک killing ہے۔
میں بے ہودگی،بدتمیزی،چیخ وپکا ر اور ایک دوسرے پر چڑھ دوڑنے کی بات نہیں کررہا اور بدقسمتی سے یہ ماحول ہمارے ٹی وی شوز پر غلبہ پاچکا ہے۔میں تو صرف ایک ایسے سوال کی بات کرتا رہا جس کے جواب میں یا تو خاموشی ہوجائے یا پھر لاجواب۔اسی طرح سے میں اپنے کچھ اینکر دوستوں سے جو مختلف سیاسی رہنماوں سے انٹرویو کیا کرتے تھے ان سے پوچھتا تھا کہ وہ کون سا رہنما ہے جس کا انٹرویو کرتے ہوئے آپ لوگوں کو لگ پتہ جاتا تھا اور اکثریت کا جواب مولانا فضل الرحمن تھا۔ اورکچھ ٹی وی اینکرز کا خیال تھا کہ انہوں نے مولانا فضل الرحمن کو ٹف ٹائم دیا لیکن جب میں ان شوز کو دیکھتا تھاتو میں اپنے دوست ٹی وی اینکرز کو کہتا تھا کہ جناب! آپ نے مولانا کو ٹف ٹائم نہیں دیا الٹا مولانا نے آپ کو ٹف ٹائم دیا ہے۔میں نے اپنے صحافتی کیرئیر میں مولانا فضل الرحمن کی حد تک یہ محسوس کرلیا تھاکہ غالباً وہ پاکستان کے ایسے سیاستدان ہیں جو سیاسی گفتگو ایک الگ تھلگ،نپے تلے انداز میں کرتے ہیں۔نیز سیاسی قلابازیوں میں بھی مولانا فضل الرحمن کا اپنا ہی انداز رہا ہے۔یہاں تک کہ میرے بھارتی صحافی دوست جب پاکستان آتے تھے تو وہ تقریباًہر سیاسی جماعت کے سربراہ اور صف اول کی قیادت کا انٹرویو کرتے تھے۔جب میں ان سے پوچھتا تھاکہ بتاؤ کس کا انٹرویو کرکے آپ کو سب سے زیادہ مزہ آتا ہے یا پھر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سیاسی رہنما کمال کی گفتگو کرتا ہے یا انٹرویو کرنے والوں کو پریشان کردیتا ہے تو ان کا جواب بھی مولانا فضل الرحمن ہی ہوتا تھا۔بھارتی صحافیوں کایہ کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ انٹرویو کرنے کے لئے انہیں سب سے زیادہ محنت کرنا پڑتی تھی کیونکہ ان کو اس بات کا اندازہ ہو جاتا تھاکہ بہت سے لاجواب سوالوں“ کا جواب بھی مولانا فضل الرحمن کے پاس ہوتا تھا۔کیونکہ مولانا فضل الرحمن بڑی آسانی سے ہنستے کھیلتے ہوئے جواب دے جایا کرتے تھے جو بھارتی صحافیوں کو پریشان کردیتے تھے جس کا وہ برملا اظہار میرے سامنے کرجاتے تھے۔
حکومت وقت کے ساتھ رہنے کا بھی مولانا فضل الرحمن کا اپنا ہی انداز تھا نہ تو وہ پیپلز پارٹی میں تھے نہ ہی مسلم لیگ ن میں لیکن کچھ پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کا خیال تھا کہ مولانا فضل الرحمن تو ہم سے بھی زیادہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید،سابق صدر آسف علی زرداری اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے ہم سے بھی زیادہ قریب ہیں۔لیکن اب پچھلے تین سالوں میں وہی مولانا فضل الرحمن کئی بارسیاسی گفتگو کرتے ہوئے غصہ میں پائے جاتے ہیں۔ماضی کے اپنے ہی انداز کے بالکل برعکس اور پاکستان کے باقی سیاسی رہنماوں کی طرح جوش میں بات کرجاتے ہیں۔ایسے لگتا ہے جیسے انہیں غصہ چڑھا ہے یا پھرمولانا فضل الرحمن کسی صدمے یا تکلیف میں ہیں۔میری حد تک اس کی وجہ غالباً 25جولائی2018کے الیکشن ہیں۔جس میں مولانا ہار گئے تھے۔یا تو مولانا کو اپنی ہار کا بالکل یقین نہیں تھا پھر وہ اپنی ہار کا ملک کے طاقتور ترین حلقوں کو ذمہ دار سمجھتے ہیں اوریا پھر وہ سمجھتے ہیں کہ طاقتور ترین حلقوں نے ان کو یقین دہانی کروائی تھی کہ آپ کی نشستیں محفوظ رہیں گی لیکن شائد الیکشن کے موقع پر وہی حلقے اپنی بات پر قائم نہ رہ پائے ہوں۔الیکشن کے بعد مولانا فضل الرحمن جس غصہ کے ساتھ طاقتور ترین حلقوں پر چڑھتے رہے ہیں اس طرح سے تو صرف مریم نواز ہی حملہ آور ہوتی ہیں۔
اگرچہ مریم نواز آج کے دور کی وہ سیاستدان ہیں جو کچھ حلقوں پر شدید تنقید کرتی رہتی ہیں۔لیکن پھر بھی کچھ موقعوں پرمولانا فضل الرحمن مریم نواز کو بھی مات دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔مریم نواز صاحبہ مولانا فضل الرحمن سے سیاست میں بہت جونیر ہیں۔یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ مریم نواز اور شریف خاندان کو یقین ہے کہ ان کی مضبوط حکومت کو ختم کرنے میں مکمل طور پر جانبدارانہ کردار ادا کیا جس کی وجہ سے مریم نواز کا مستقبل کا وزیر اعظم ہونا بھی مشکوک ہوگیا۔لیکن مولانا فضل الرحمن کا انداز گفتگو تو ایسے بدلا جیسے طاقتور ترین حلقوں میں نواز شریف صاحب کی نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمن صاحب ہی کی حکومت ختم کردی گئی۔
(کالم نگارمعروف صحافی‘اینکرپرسن ہیں)
٭……٭……٭

طالبان پر شک کی کوئی وجہ نہیں، ترجمان پاک فوج,بھارتی میڈیا جھوٹی خبروں پر پروان چڑھتا ہے، بابر افتخار

پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ پاکستان کے پاس طالبان کی افغان سرزمین کسی دوسرے ملک بشمول پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی یقین دہانیوں پر شک کی کوئی وجہ نہیں ہے، قومی سلامتی یقینی بنانے کیلئے طالبان کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔

فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ طالبان نے کئی مواقع پر اس بات کو دہرایا کہ کسی گروہ یا دہشت گرد تنظیم کو کسی ملک بشمول پاکستان کیخلاف دہشت گرد سرگرمی کیلئے افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس طالبان کی نیت پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے اور اسی لئے ہم ان سے مسلسل رابطے میں ہیں تاکہ اپنے قومی مفاد کا تحفظ کر سکیں۔

طالبان کے 15 اگست 2021ء کو افغانستان کے دارالحکومت کابل پر کنٹرول کے بعد سے پاکستان سلامتی اور امن کیلئے عالمی برادری کے کردار پر زور دیتا آرہا ہے اور اس کیلئے تمام دھڑوں پر مشتمل حکومت بنانے کا حامی ہے۔  وزیراعظم عمران خان نے گزشت ہفتے ایک ٹویٹر پیغام میں کہا تھا کہ طالبان سے اس حوالے سے بات چیت شروع کردی ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا مزید کہنا تھا کہ بارڈر مینجمنٹ میں مسلسل بہتری لائی جارہی ہے اور مستقبل قریب میں اس کو مکمل طور پر محفوظ بنادیا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ ہمارا ہمیشہ سے مقصد سرحد کے اس طرف والے حصے پر بہتر مینجمنٹ رہا ہے، پاکستان افغان سرحد پر باڑ لگانا مشکلات کی وجہ سے بڑی ذمہ داری تھی، تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستان نے بارڈر کے 90 فیصد حصے پر باڑ لگانے کا کام مکمل کرلیا ہے۔

طالبان کے ہمراہ افغانستان میں پاک فوج کے لڑنے سے متعلق بھارتی میڈیا کے پروپیگنڈے کے سوال پر ترجمان پاک فوج نے کہا کہ جس طریقے سے بھارتی میڈیا نے طالبان کے پنجشیر پر حملے کے حوالے سے خود کو پیش کیا ہے وہ اس بات کی کافی شہادت ہے کہ ان کا میڈیا جعلی خبروں اور جھوٹی گھڑی گئی کہانیوں پر پروان چڑھتا ہے۔

تیسرے چیف آف نیول اسٹاف آل پاکستان ہاکی ٹورنامنٹ کا آغاز 21 ستمبر کو ہوگا

تیسرے چیف آف دی نیول اسٹاف آل پاکستان ہاکی ٹورنامنٹ کا افتتاح کل بروز منگل 21 ستمبر کو شام چار بجے عبدالستار ایدھی ہاکی اسٹیڈیم میں ہوگا۔

تفصیلات کے مطابق  گورنر سندھ عمران اسماعیل افتتاحی میچ کے مہمان خصوصی ہونگے جو ٹورنامنٹ کا افتتاح کرینگے،افتتاحی میچ پاکستان نیوی اور صوبہ پنجاب کی ٹیموں کے مابین چار بجے کھیلا جائیگا جبکہ ٹورنامنٹ میں نیشنل بینک کی ٹیم اپنے اعزاز کا دفاع کرے گی۔

ٹورنامنٹ میں مسلح افواج کی تین ٹیموں کے علاوہ چار اداروں اور صوبہ پنجاب کی ٹیمیں شرکت کریں گی 8 ٹیموں کو دو گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے، گروپ اے میں پاکستان واپڈا، ماڑی پیٹرولیم، پاکستان ائیر فورس اور پورٹ قاسم اتھارٹی کو رکھا گیا ہے جبکہ گروپ بی میں میزبان پاکستان نیوی کے علاوہ پاکستان آرمی، نیشنل بینک اور پنجاب کی ٹیمیں شامل ہیں۔

ٹورنامنٹ کے شیڈول کے مطابق 21 ستمبر کو گروپ بی میں ایک ہی میچ کھیلا جائے گا جہاں نیوی اور پنجاب مدمقابل ہوں گی۔

22 ستمبر کو تین میچ کھیلے جائیں گےگروپ اے میں پورٹ قاسم کا مقابلہ پاکستان ائیر فورس سے صبح دس بجے، گروپ بی میں نیشنل بینک کا سامنا پاکستان آرمی سے ڈیڑھ بجے جبکہ تیسرے میچ میں گروپ اے سے ماڑی پیٹرولیم اور آرمی کی ٹیمیں آمنے سامنے ہوں گی۔

23 ستمبر کو بھی تین میچ کھیلے جائینگے، گروپ اے میں پورٹ قاسم کا مقابلہ ماڑی پیٹرولیم سے صبح دس بجے، دوسرا میچ گروپ اے کی واپڈا اور ایئر فورس کے مابین ڈیڑھ بجے جبکہ تیسرا میچ گروپ بی کینیشنل بینک اور پنجاب کی ٹیموں کے مابین چار بجے کھیلا جائیگا۔

24 ستمبر کو دو میچ کھیلے جائینگے، پہلے میچ میں گروپ اے سے واپڈا کا مقابلہ پورٹ قاسم سے صبح دس بجے اور گروپ بی سے شام چار بجے پاکستان نیوی اور پاکستان آرمی کی ٹیمیں مد مقابل ہوں گی۔

ٹورنامنٹ میں 25 ستمبر کو تین میچ کھیلے جائینگے، پہلے میچ میں گروپ اے میں صبح دس بجے پاکستان ایئر فورس کا مقابلہ ماڑی پیٹرولیم سے ،گروپ بی میں پاکستان آرمی کا سامنا پنجاب سے ڈیڑھ بجے جبکہ گروپ بی کے آخری میچ مین نیشنل بینک اور میزبان پاکستان نیوی کی ٹیمیں شام چار بجے آمنے سامنے ہوں گی۔

اتوار 26 ستمبر کو ٹورنامنٹ میں آرام کا دن ہوگا۔

ایونٹ کے سیمی فائنلز 27 ستمبر کو کھیلے جائینگے، پہلا سیمی فائنل دوپہر دو بجے گروپ اے کی ونر اور گروپ بی رنراپ ٹیم سے ہوگا جبکہ دوسرے سیمی فائنل میں شام چار بجے گروپ اے کی رنراپ ٹیم کا سامنا گروپ بی کی ونر ٹیم سے ہوگا۔

28 ستمبر کو ٹورنامنٹ کا فائنل اور تیسری پوزیشن کا میچ کھیلا جائے گا۔

نیوزی لینڈ میں اتنی فورس نہیں ہوگی، جتنی کیویز کو یہاں سیکیورٹی ملی، شیخ رشید

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے دورہِ پاکستان پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کابینہ نے نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کو سیکیورٹی فراہم کرنے کی منظوری دی تھی، کیویز میں اتنی فورسز نہیں ہوں گی جتنی انہیں یہاں سیکیورٹی فراہم کی گئی تھی۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ ‘پہلی مرتبہ کسی ٹیم کو فوج کی سیکیورٹی فراہم کی گئی‘۔

‘ایک سے زائد پاسپورٹ رکھنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن’

علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ 31 اکتوبر تک دو پاسپورٹ یا دو شناختی کارڈ رکھنے والوں کو رعایت ہوگی کہ اس دوران وہ فیصلہ کرلیں کہ کون سا پاسپورٹ یا شناختی کارڈ رکھنا ہے اور کون سا منسوخ کروانا ہے۔

مزید پڑھیں: 15 چینی عہدیدار داسو واقعے کی تحقیقات کا حصہ ہیں، شیخ رشید

انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں سمری کابینہ کو ارسال کردی گئی ہے جس کی منظوری اور مقررہ تاریخ کے بعد کریک ڈاؤن شروع ہوجائے گا۔

وفاقی وزیر شیخ رشید نے بتایا کہ صوبوں کی درخواست پر چہلم امام حسین کے موقع پر موبائل فون سروس معطل رہے گی جبکہ 19 اور 20 صفر کو فوج، رینجرز، نیم فوجی دستے بھی امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے تعینات کیے جائیں گے۔

شیخ رشید نے بتایا کہ مردم شماری کے مطابق اسلام آباد میں 50 کے بجائے 100 وارڈز پر انتخابات ہوں گے، اس حوالے سے کابینہ سے منظوری مل چکی ہے۔

’بلاگر بلال خان کے قاتل کو گرفتار کرلیا گیا‘

انہوں نے بتایا کہ جون 2019 میں قتل ہونے والے بلاگر بلال خان کے کیس میں پیش رفت ہوئی ہے اور پولیس نے بلال خان کے قاتل کو گرفتار کرلیا ہے۔

وزیر داخلہ شیخ رشید نے زور دیا کہ اسلام آباد میں قتل ہونے والے بلاگر پر بعض طبقوں نے اس واقعے کی ذمہ داری ایجنسیوں پر عائد کی تھی لیکن قتل کی اصل وجہ مذہبی عقائد تھے۔

مزید پڑھیں: سیکیورٹی خدشات: شیخ رشید کا چمن بارڈر بند کرنے کا عندیہ

محمد بلال خان پر وفاقی دارالحکومت کے علاقے جی نائن فور (G-9/4) میں حملہ کیا گیا تھا جس میں بلاگر جاں بحق جبکہ ان کا دوست احتشام زخمی ہوگئے تھے۔

واضح رہے کہ بلاگر محمد بلال خان اسلامک یونیورسٹی میں شریعہ فکیلٹی کا طالبعلم تھا۔

‘مولانا عبدالعزیز کے ساتھ مذاکرات کا عمل جاری ہے’

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ مولانا عبدالعزیز کے ساتھ مذاکرات کا عمل جاری ہے کیونکہ ہم اسلام آباد میں پرامن ماحول کے خواہاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مولانا العزیز کے خلاف متعدد مقدمات درج ہیں اور اسی لیے ان سے مسلسل رابطے میں ہیں لیکن وہ ہر دوسرے روز ایک نیا مسئلہ کھڑا کردیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں کم و بیش 511 مدارس ہیں، ان تمام مدارس میں سے صرف ایک کے ساتھ مسئلہ ہے، ہماری انتظامیہ اور متعلقہ لوگ ان سے مذاکرات کررہے ہیں۔

خیال رہے کہ چند روز قبل جامعہ حفصہ کی چھت پر افغان طالبان کے جھنڈے لہرائے جانے کے بعد مولانا عبدالعزیز، ان کے ساتھیوں اور طلبا کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) اور پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔

علاوہ ازیں وفاقی وزیر داخلہ نے تنظیم کا نام لیے بغیر کہا کہ ’تصفیہ طلب مسائل پر بات کرنے کی کوشش مذہبی تنظیم کے ساتھ کی تھی لیکن اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلا، ہماری کوشش ہے کہ معاملات احسن طریقے سے حل ہوں‘۔

‘اپوزیشن شیشے کے کمروں میں بیٹھ کر وزارت داخلہ پر پتھر نہ برسائیں’

شیخ رشید نے نیوزی لینڈ کے دورہِ پاکستان پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کابینہ نے نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کو سیکیورٹی فراہم کرنے کی منظوری دی تھی، اپوزیشن شیشے کے کمروں میں بیٹھ کر وزارت داخلہ پر پتھر نہ برسائیں۔

یہ بھی پڑھیں: گوادر اور کوئٹہ حملوں میں ملوث دہشت گرد افغانستان سے آئے تھے، شیخ رشید

انہوں نے کہا کہ ’نیوزی لینڈ میں اتنی فورسز نہیں ہوں گی جتنی انہیں یہاں سیکیورٹی فراہم کی گئی، پہلی مرتبہ کسی ٹیم کو فوج کی سیکیورٹی فراہم کی گئی‘۔

ان کا کہنا تھا کہ یہاں سری لنکا کی ٹیم سمیت دیگر ممالک کے ٹیمیں آئیں لیکن کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔

خیال رہے کہ نیوزی لینڈ 2003 کے بعد پہلی مرتبہ پاکستان کا دورہ کررہا تھا اور اس کا دورہ منسوخ کرنے کے بعد انگلینڈ کرکٹ بورڈ نے بھی اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے اکتوبر کے دورہ پاکستان کے بارے میں حتمی فیصلہ آئندہ چند دنوں میں کریں گے۔

پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان تین ون ڈے میچز کے بعد لاہور میں 5 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز کھیلے جانے تھے۔

‘بھارتی میڈیا کے پاس صرف شیخ رشید اور طالبان موضوع رہ گئے ہیں’

بھارت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ نئی دہلی کے میڈیا کے پاس صرف دو ہی موضوع ہیں ایک شیخ رشید اور دوسرا طالبان، بھارت ایک ماہ سے ہمارے خلاف پرویپگنڈا کررہا ہے۔

شیخ رشید نے کہا کہ بھارت کو افغانستان میں سبکی ہوئی ہے کیونکہ نئی دہلی کا ماسٹر پلان ناکام ہوا ہے اور اب وہ افغانستان میں اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتا ہے اور بھارت کو کیا تکلیف ہے اگر شیخ رشید بارڈر کا دورہ کرے؟

وفاقی وزیر داخلہ نے افغانستان سے متعلق کہا کہ سرحدیں محفوظ ہیں اور اس بات کی مکمل تردید کرتا ہوں کہ پاکستان میں کوئی افغان مہاجرین کیمپ نہیں بنائے گئے، جب افغانستان چاہیے تو پاکستان میں پہلے سے موجود افغانیوں کو واپس بھیجنے کی بات شروع کریں گے۔