مداح ماہرہ خان کو لیفٹیننٹ جنرل نگار کے روپ میں دیکھ کر ناخوش

سچی کہانی پر مبنی آنے والی ٹیلی فلم ’ایک ہے نگار‘ میں ماہرہ خان کو پاکستان آرمی کی پہلی خاتون لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر کے روپ میں دیکھ کر زیادہ تر مداح ناخوش دکھائی دے رہے ہیں۔

’ایک ہے نگار‘ کو پاک فوج کے شعبہ تلعقات عامہ (آئی ایس پی آر) کےتعاون سے بنایا گیا ہے اور جلد ہی اسے اے آر وائے پر ریلیز کردیا جائے گا۔

ٹیلی فلم کا پہلا ٹیزر تو یوم آزادی کے موقع پر ریلیز کیا گیا تھا، تاہم اس کا دوسرا ٹیزر جاری کیے جانے کے بعد زیادہ تر لوگ ماہرہ خان کو لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر کے روپ میں دیکھ کر ناخوش دکھائی دیے۔

جاری کیے گئے دوسرے ٹیزر میں جہاں ماہرہ خان کو جنرل نگار کے روپ روپ میں دکھایا گیا ہے۔

وہیں ٹیزر میں لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر کے شوہر کا کردار ادا کرنے والے بلال اشرف کی جھلک بھی دکھائی گئی ہے۔

ٹیزر میں پاک فوج کی پہلی خاتون لیفٹیننٹ جنرل کی شادی اور فوج میں شمولیت سمیت ان کی جدوجہد کو بھی دکھایا گیا ہے۔

تاہم ٹیزر جاری ہوتے ہوئے ہی زیادہ تر لوگوں نے رائے دی کہ ماہرہ خان لیفٹیننٹ جنرل کے روپ میں فٹ نہیں دکھائی دے رہیں، ان کی جگہ کسی اور کو کاسٹ کیا جانا چاہیے تھا۔

زیادہ تر لوگوں نے ماہرہ خان کی اداکاری کی تعریف کی اور کہا کہ انہیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے مگر چوں کہ ’ایک ہے نگار‘ بائیوگرافی فلم ہے، اس لیے کوشش کرکے ایسی اداکارہ کو کاسٹ کیا جاتا جن کے خدوخال لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر سے ملتے جلتے ہوں۔

بعض افراد نے تجویز بھی دے ڈالی کہ ماہرہ خان کی جگہ اریبہ حبیب کو کاسٹ کیا جانا چاہیے تھا، کیوں کہ وہ جنرل نگار سے کافی ملتی جلتی ہیں۔

اسی طرح بعض مداحوں نے صنم بلوچ کا نام بھی تجویز کیا اور کہا کہ ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی ہے، اس لیے وہ لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر کا کردار اچھے طریقے سے ادا کر سکتی تھیں۔

ساتھ ہی کچھ افراد نے ماہرہ خان کی جانب سے پاک فوج کی پہلی خاتون جنرل کے کردار کو انتہائی سنجیدگی اور غصے سے ادا کرنے کی بھی شکایت کی اور کہا کہ ماہرہ خان کو مسکراتے ہوئے کردار کرنا چاہیے تھا۔

ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ ’ایک ہے نگار‘ کو کب تک ریلیز کیا جائے گا، تاہم خیال کیا جا رہا ہے کہ اسے رواں ماہ ہی جاری کیا جائے گا۔

ائیوگرافی فلم کی کہانی عمیرہ احمد نے لکھی ہے اوراس کی ہدایات عدنان سرور نے دی ہیں۔

اسے نینا کاشف اور ماہرہ خان کے پروڈکشن ہاؤس سول فرائے کے بینر تلے ریلیز کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ نگار جوہر خان کو پاک فوج میں گزشتہ برس جون میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی، اس سے قبل وہ میجر جنرل کے عہدے پر خدمات سر انجام دے رہی تھیں۔

وہ مذکورہ عہدہ حاصل کرنے والی پہلی خاتون فوجی افسر بنی تھیں، انہیں جون 2020 میں ترقی دے کر سرجن جنرل آف پاکستان آرمی تعینات کیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ نے میڈیا کی آزادی کے معاملے میں سب کو نوٹس دینے کا فیصلہ کرلیا

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ہر ریاستی ادارے کو نوٹس دینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ انہیں احساس دلایا جائے کہ عدالت جائرہ لے رہی ہے اور ان میں سے ہر ایک سے انکوائری کرے گی کہ اظہار رائے اور میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانے کا آئینی فرض کیوں پورا نہیں کیا جا رہا۔

رپورٹ کے مطابق عدالت نے صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق ایک درخواست کی سماعت کی جبکہ درخواست گزار نے اپنی درخواست واپس لے لی لیکن جسٹس منیب اختر نے ریماکس دیے کہ عدالت ازخود نوٹس لے کرسماعت جاری رکھے گی یہاں تک کہ اگر کمرہ عدالت خالی ہو گا تب بھی، اس میں صحافیوں کے بنیادی حقوق شامل ہیں۔

عدالتی ریمارکس ایسے وقت پر سامنے آئے جب فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے چیئرمین اور اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل کو آئندہ سماعت (15 ستمبر) کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کے نوٹس جاری کیے جاچکے ہیں تاکہ سپریم کورٹ کی پریس ایسوسی ایشن (پی اے ایس) کے تحفظات کا جائزہ لیا جا سکے۔

عدالتی دفتر کو یہ بھی ہدایت کی گئی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق اسی طرح کے کیس میں کارروائی کی مکمل رپورٹ اور درخواست کی ایک کاپی جو ہائی کورٹ زیر سماعت ہے، اسے حاصل کی جائے۔

عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سے آزادی صحافت سے متعلق مسائل کی نشاندہی کرنے اور پی اے ایس کے صدر امجد بھٹی سے کہا کہ وہ صحافیوں کو ہراساں کرنے کی مخصوص کیسز کے ساتھ مکمل فہرست پیش کریں۔

اس دوران جسٹس قاضی محمد امین احمد نے ریماکس دیے کہ ججوں کی طرح صحافیوں پر بھی لازم ہے کہ وہ سیاست میں ملوث نہ ہوں اور اپنے پیشے کو شائستگی اور اخلاقیات کے ساتھ جاری رکھیں۔

اس سے قبل سینئر صحافی عبدالقیوم صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ وہ اپنی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ متاثرین کو قیامت کے دن انصاف ملے گا جنہوں نے ان پر ظلم کیے اور جب ظالموں کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے سزا ملے گی۔

عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ میں درخواست واپس لے رہا ہوں کیونکہ 20 سے 26 اگست تک گزشتہ ہفتے کے واقعات ملک کی عدالتی تاریخ میں افسوسناک تھے۔

اسی طرح سینئر صحافی عامر میر نے لاہور میں ایک صفحے کی درخواست میں لکھا کہ وہ جانتے ہیں کہ انہیں انصاف نہیں ملے گا کیونکہ ’پوشیدہ‘ عناصر جو ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو دھمکانے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایف آئی اے سے زیادہ طاقتور ہیں جنہوں نے انہیں اغوا اور گرفتار کیا اور انہیں دو برس سے ہراساں کررہے ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریماکس دے کہ یہ غیر ضروری ہے کہ درخواست گزاروں نے اپنی درخواست واپس لے لی ہے کیونکہ چیف جسٹس کی جانب سے معاملے کو طلب کیے جانے کے بعد عدالت نے صورتحال کا نوٹس لیا تھا۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ عدالت درخواست گزاروں کے بیان کا خیر مقدم کرے گی اور اگر وہ (موقف پیش نہیں کرتے) تو عدالت ریاستی عہدیداروں سے جواب طلب کرے گی کہ آئین کے تحت شہریوں اور صحافیوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کیوں کی جا رہی ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر درخواست دہندگان کارروائی کے ساتھ منسلک نہیں ہونا چاہتے تو یہ ان کی پسند ہے کیونکہ یہ ایک آزاد ملک ہے اور انہیں عدالت سے رجوع کرنے یا نہ کرنے کی آزادی ہے۔

وزرات صحت نے کورونا ویکسین کی خریداری کیلئے حکومت سے 50 ارب روپے مانگ لیے

اسلام آباد : قومی وزارت صحت نے کورونا ویکسین کی خریداری کے لیے حکومت سے 50 ارب 10 کروڑ روپے مانگ لیے ہیں۔

 جیو نیوز کے مطابق وزارت صحت نے کورونا ویکسین کی خریداری کے لیے رقم ایشیائی ترقیاتی بینک سے ملنے والے قرض کے تحت مانگی ہے۔

ذرائع کے مطابق پاکستان اور  ایشیائی ترقیاتی بینک کے درمیان 6 اگست کو معاہدے پر دستخط ہوئے تھے  جس کے تحت اے ڈی بی نے پاکستان کو کورونا ویکسین کی خریداری کے لیے 50 کروڑ ڈالرکا قرض دینے کی منظوری دی تھی۔

ذرائع کے مطابق کورونا ویکسین کی خریداری کے لیے قرض کی منظوری کی سمری اقتصادی رابطہ کمیٹی کو  بھی بھیجی جا چکی ہے۔

سمری کے مطابق پہلے مرحلے میں ویکسین کی خریداری کے لیے 30 کروڑ ڈالر خرچ کیے جائیں گے جس کے تحت وزارت صحت اور  نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) ویکسین کی خریداری کریں گے جبکہ رقم تکنیکی سپلیمنٹری گرانٹ کے تحت فراہم کی جائے گی۔

خیال رہے کہ اس سے قبل عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے  بھی پاکستان کو 2 ارب 77 کروڑ ڈالر دیے گئے ہیں۔ یہ رقم آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری کے بعد کورونا سے نمٹنے کے لیے فراہم کی گئی ہے۔

امریکا نے افغانستان سے سفارتی مشن قطر منتقل کر دیا

امریکی وزیر خا رجہ انتھونی بلنکن کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی سفارتی مشن معطل کر کے قطر منتقل کر  دیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے افغانستان سے فوجی انخلا مکمل ہونے کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ دہشت گردی کے سائے میں انخلا  کا آپریشن مکمل کیا، انخلا میں معاونت کرنے والے تمام ممالک کے شکر گزار ہیں۔

امریکی وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ ا فغانستان میں ملٹری آپریشن ختم اور سفارتی مشن شروع ہو چکا ہے،  افغانستان سے سفارتی مشن قطر منتقل کر دیا گیا ہے اور افغانستان کی صورتحال پر مختلف ممالک سے بات چیت کی جا رہی ہے۔

 ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ مستقبل میں بات چیت امریکا کے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے ہو گی، تسلیم کیے جانے اور تعاون حاصل کرنے کے لیے طالبان کو مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے۔

انسانی بنیادو ں پر افغان عوام کی امداد جاری رہے گی: امریکی وزیر خارجہ

انتھونی بلنکن کا کہنا تھا کہ افغان جنگ 20 سال چلی لیکن اب بھی افغانستان کو  اکیلا نہیں چھوڑا جائے گا، افغانستان کے عوام کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد جاری رہے گی، یہ امداد طالبان کو نہیں بلکہ این جی اوز کے ذریعے عوام تک پہنچائی جائے گی۔

امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغانستان سے ایک لاکھ 23 ہزار  سے زائد افراد کو بحفاظت منتقل کیا گیا، افغان شہریوں کی منتقلی کے لیے بہت محنت کی، اب بھی افغانستان سے نکلنے والے افغانیوں کی معاونت کریں گے، اگر وہ نکلنا چاہیں۔

انہوں نے بتایاکہ 6 ہزار سے زائد امریکی شہریوں کو افغانستان سے نکالا تاہم اب بھی افغانستان میں 200 کے قریب امریکی موجود ہیں جن کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہے، افغانستان میں رہ جانے والے امریکیوں کو بھی نکالنے کی کوشش کی جائے گی۔

انخلا کیلئے طالبان سے بات چیت جاری رہے گی: انتھونی بلنکن

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں رہ جانے والوں کو نکالنا مشکل ضرور ہو گا اور اس مقصد کے لیے زمینی راستے استعمال کیے جائیں گے، طالبان نے بھی یقین دہائی کروائی ہےکہ سفری دستاویزات رکھنے والوں کو ملک سے جانے کی اجازت ہوگی۔ انتھونی بلنکن کا کہنا تھا کہ انخلا آپریشن کو جاری رکھنے کے لیے طالبان سے بات چیت جاری رہے گی، طالبان کو کہا ہے کہ بیرون ملک جانے والوں کو نہ روکا جائے، دنیا کے آدھے سے زائد ممالک اس پر متفق ہیں کہ طالبان شہریوں کو نکلنے دیں۔

امریکی وزیرخارجہ کی کابل دھماکے پر گفتگو

پریس بریفنگ کے دوران کابل دھماکے پر گفتگو کرتے ہوئے انتھونی بلنکن کا کہنا تھا کہ کابل ائیرپورٹ کےگیٹ پر 4 روز  پہلے 13 امریکیوں سمیت کئی افغان ہلاک ہوئے، دھماکے میں ہلاک امریکی فوجیوں کی قربانیوں کو فراموش نہیں کریں گے۔

امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ افغان سرزمین شدت پسندوں کے خلاف استعمال نہیں ہو گی لیکن  ہم طالبان پر انحصار نہیں کریں گے، شدت پسندوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے طالبان پر  بھروسہ ان کے عمل پر منحصر ہو گا۔

امریکی انخلا مکمل طالبان نے کابل ائیر پورٹ کا کنٹرول سنبھال لیا، طالبان کا جشن

واشنگٹن، لندن، پیرس : (نیوز ایجنسیاں)  گیارہ ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد افغانستان پر چڑھائی کے 20 برس بعد آخری امریکی فوجی بھی افغانستان سے روانہ ہوگیا، جس کے باعث کابل کی گلیاں خوشی میں کی گئی ہوائی فائرنگ سے گونج اٹھیں۔

برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق طالبان کی جانب سے تقسیم کردہ ویڈیو فوٹیجز میں جنگجوؤں کو رات گئے امریکی فوجیوں کے جانے کے بعد کابل ایئرپورٹ میں داخل ہوتے دیکھا جاسکتا ہے۔

قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق طالبان کے ترجمان قاری یوسف نے کہا کہ ’آخری امریکی فوجی بھی کابل سے جاچکا ہے اور ہمارے ملک نے مکمل آزادی حاصل کرلی ہے‘۔

امریکی فوج نے کابل سے باہر نکلنے کی آخری پرواز پر سوار ہونے والے آخری امریکی فوجی کی نائٹ ویژن آپٹکس کے ساتھ لی گئی تصویر شیئر کی جو 82ویں ایئربورن ڈویژن کے میجر جنرل کرس ڈونا تھے۔

امریکا کی تاریخ کی طویل ترین جنگ کے دوران تقریباً ڈھائی ہزار امریکی فوجی، 2 لاکھ 40 ہزار افغان شہری ہلاک ہوئے اور اس پر 20 کھرب ڈالر لاگت آئی۔

اگرچہ اس نے طالبان کو اقتدار سے نکالنے میں کامیابی حاصل کی اور افغانستان کو القاعدہ کی جانب سے امریکا پر حملے کے لیے اڈے کے طور پر استعمال ہونے سے روک دیا لیکن اس کا اختتام ایسے ہورہا ہے کہ عسکریت پسند 1996 سے 2001 تک کے اپنے سابقہ دورِ حکمرانی سے زیادہ ملک پر کنٹرول حاصل کرچکے ہیں۔

چنانچہ امریکا اور اس کے اتحادی گزشتہ 2 ہفتوں کے دوران ایک وسیع مگر افراتفری والی ایئرلفٹ کے ذریعے کابل سے ایک لاکھ 22 ہزار سے زائد افراد کو نکالنے میں کامیاب رہے۔

اس کے باوجود ہزاروں ایسے افغان شہری پیچھے رہ گئے ہیں جنہوں نے مغربی ممالک کی مدد کی اور طالبان کی طرف سے انتقامی کارروائیوں سے خوفزدہ ہیں۔

امریکی شہریوں کا ایک دستہ ، جو امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے مطابق 200 سے کم اور ممکنہ طور پر 100 کے قریب افراد پر مشتمل تھا وہ بھی انخلا کرنا چاہتا تھا لیکن آخری پروازوں میں جانے سے قاصر تھے۔

امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل فرینک میک کینزی نے پینٹاگون کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں چیف امریکی سفارت کار راس ولسن، اڑان بھرنے والی آخری سی -17 فلائٹ میں تھے۔

اس افراتفری کے شکار انخلا کے دوران ایئرپورٹ پر ہوئے دھماکے کے نتیجے میں 13 امریکی فوجیوں سمیت 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے اس کے باوجود طالبان کی حکومت سے فرار کے خواہشمند ہزاروں افغان اور سیکڑوں امریکی شہری افغانستان میں ہی رہ گئے۔

پینٹاگون نے ایک نیوز کانفرنس میں اعلان کیا کہ القاعدہ کے 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد امریکا کی شروع کی گئی جنگ کے 20 برسوں میں پہلی مرتبہ افغانستان میں امریکی فوج کا کوئی ایک رکن موجود نہیں ہے۔

دل شکستہ وہ لفظ تھا جسے امریکی میرین جرل فرینک میکنزی نے امریکا کی طویل ترین جنگ سے واپس جانے سے منسلک جذبات بیان کرنے کے لیے استعمال کیا۔

جنرل میکنزی نے کہا کہ اس روانگی سے بہت سے دل ٹوٹے ہیں، جو کوئی جانا چاہتا تھا ہم ہر ایک کو نہیں نکال سکے لیکن میرے خیال میں اگر ہم مزید 10 روز بھی رہتے تب بھی ہر ایک کو نہیں نکال سکتے تھے۔

تاہم امریکی افواج نے جانے سے قبل 70 سے زائد طیاروں، درجنوں بکتر بند گاڑیوں اور کابل ایئرپورٹ پر داعش کے راکٹ حملوں کو روکنے والے ایئر ڈیفنس سسٹم کو ناکارہ بنادیا۔

طالبان اور احمد شاہ فورسز میں لڑائی شروع

پنجشیر میں افغان طالبان اور مزاحمتی تحریک کے کارکنوں کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات سامنے آئی ہیں جبکہ مزاحمتی فورس کے اہلکاروں کی جنگی مشقوں کی تصاویر بھی سامنے آئی ہیں۔

افغان طالبان اور پنجشیر میں موجود مزاحمتی اتحاد کے درمیان افغان دارالحکومت کابل میں مذاکرات جاری ہیں اور گزشتہ دِنوں فریقین کے درمیان ایک دوسرے پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ بھی طے پایا تھا۔

وادی پنجشیر طالبان کے خلاف مزاحمت کا آخری گڑھ ہے اور اس کے علاوہ وہ تقریباً پورے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرچکے ہیں۔

فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی

پنجشیر میں مزاحمتی فورس کی قیادت سابق جہادی کمانڈر احمد شاہ مسعود کے جواں سال بیٹے احمد مسعود کررہے ہیں جبکہ گزشتہ دنوں احمد مسعود نے اعلان کیا تھاکہ طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بجائے مرنا پسند کروں گا۔

گذشتہ دنوں یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ طالبان نے افغانستان کے صوبے پنجشیر میں مختلف اطراف سے پیش قدمی شروع کردی ہے جس کے بعد وہاں جنگ کے بادل ایک بار پھر منڈلانے لگے۔

فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی

اطلاعات کے مطابق طالبان جنگجوؤں نے وادی سے متصل پہاڑوں اور چوٹیوں پر مورچے قائم کرلیے ہیں۔

طالبان کے ثقافتی کمیشن کے رکن امان اللہ کا کہنا تھاکہ وادی میں داخلے کے وقت کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ تاہم وادی پنجشیر کی مزاحمتی فورس کے رکن نے طالبان کے ان دعوؤں کی تردید کی ہے۔

فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی

اب فرانسیسی خبر رساں ایجنسی (اے ایف پی) نے وادی پنجشیر میں مزاحمتی فورس کے اہلکاروں کی مشقوں کی تصاویر جاری کی ہیں۔

اے ایف پی کے مطابق ان تصاویر میں طالبان مخالف مزاحمتی تحریک کے جنگجوؤں کو جنگی مشقیں کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی

خبر رساں ایجنسی نے یہ نہیں بتایا کہ مزاحمتی تحریک کے کارکن کس کے خلاف جنگ کی تیاری کررہے ہیں البتہ موجودہ صورتحال میں ممکنہ طور پر یہ تیاری طالبان کے خلاف ہی ہے۔

فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی

اس حوالے ترجمان پنجشیر مزاحمتی تحریک جمشید دستی نے برطانوی نشریاتی ادارے کو  بتایا کہ پنجشیر میں طالبان اور مزاحمتی اتحاد کے مذاکرات جاری ہیں، مذاکرات میں ڈیڈ لاک نہیں مگرپیش رفت کم ہے۔

فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی

جمشید دستی کا کہنا ہے کہ طالبان نے پنجشیر میں مواصلاتی نظام معطل کرنےکی کوشش کی، مواصلاتی نظام ختم کرنے سے پنجشیر والوں کیلئے مسائل ہوسکتے ہیں۔

فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے کہا کہ پنجشیر میں روزمرہ استعمال کی چیزوں کی کمی نہیں، نظام زندگی چل رہا ہے، پنجشیر کا محاصرہ لمبا ہوا تو بیک اپ موجود ہیں، پنجشیر میں محصور رہ کر طویل عرصے تک مزاحمت کیلئے تیار ہیں۔

فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی

ترجمان مزاحمتی تحریک کا مزید کہنا تھا کہ طالبان سے براہ راست رابطوں کا سلسلہ جاری ہے، تمام ثالث قوتوں، شخصیات کو بتا دیا ہے کہ ہم اپنے حقوق پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

مزاحمتی فورسز نے طالبان کا ایک حملہ پسپا کیا، ذرائع

فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی

افغان نشریاتی ادارے طلوع نیوز کے مطابق احمد مسعود کے قریبی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان نے پیر کی شام پنجشیر میں ایک سرحدی چوکی پر حملہ کیا جسے مزاحمتی فورسز نے پسپا کردیا۔

فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی

ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان اور مزاحمتی فورسز کے درمیان وقفے وقفے سے لڑائی کا سلسلہ جاری ہے۔

اس حوالے سے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ علاقےمیں نیٹ ورک سگنل کا مسئلہ ہے، معاملے کی تصدیق کررہےہیں۔

طالبان نے پنجشیر کا مواصلاتی رابطہ منقطع کردیا، ذرائع

فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی

طلوع نیوز نےمقامی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ طالبان نے پنجشیر کا مواصلاتی رابطہ منقطع کردیا ہے۔

پنجشیر کے ایک رہائشی گل حیدر نے بتایا کہ ’گذشتہ دو روز سے انہوں نے مواصلاتی نظام منقطع کررکھا ہے جس کی وجہ سے مقامی افراد کو مشکلات کا سامنا ہے اور لوگ ملک کے دیگر علاقوں میں اپنے رشتہ داروں سے رابطے نہیں کر پارہے ہیں۔‘

فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی

اس معاملے پر بھی طالبان کا کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا ہے۔

طالبان کیخلاف مزاحمتی تحریک کے مقاصد کیا ہیں؟

اطلاعات کے مطابق پنجشیر سوویت یونین کے دور سے اب تک تقریباً آزاد ہی رہا ہے اور ہر دور میں مزاحمت جاری رکھی ہے۔

فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی

طالبان کے آخری دور حکومت میں بھی بلخ، بدخشاں اور پنجشیر میں طالبان کا نظام حکومت نافذ نہیں تھا البتہ اس بار طالبان نے بلخ اور بدخشاں پر کنٹرول قائم کرلیا ہے لیکن پنجشیر اب بھی ان کے کنٹرول میں نہیں۔

فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی

میڈیا رپورٹس کے مطابق مزاحمتی تحریک کا ایک مقصد تو طالبان کے ساتھ شراکت اقتدار ہوسکتا ہے جس میں اہم ترین شرط پنجشیر کی خودمختاری شامل ہوسکتی ہے۔

فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی

ماضی میں طالبان کے زیر اثر نہ رہنے کی وجہ سے احمد مسعود اور ان کے ساتھ موجود دیگر قوتیں اب بھی اپنے طور پر آزادانہ نظام کی خواہاں ہیں کیوں کہ ان خوف ہے کہ طالبان کا نظام حکومت سخت قوانین پر مشتمل ہوسکتا ہے۔

وادی پنجشیر ناقابل تسخیر کیوں؟

فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی

افغان صوبہ پنجشیر اب بھی ناقابل تسخیر ہے اور طالبان بھی اب تک وہاں داخل نہیں ہوسکے ہیں۔ پنجشیر اس سے قبل پروان صوبے کا حصہ تھا جسے 2004 میں الگ صوبے کا درجہ دیا گیا۔

فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی

پنجشیر صوبے کا دارالحکومت بازارک ہے، یہ سابق جہادی کمانڈر اور سابق وزیر دفاع احمد شاہ مسعود کا آبائی شہر ہے۔

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد احمد شاہ مسعود نے 90 کی دہائی میں وادی کا کامیاب دفاع کیا تھا جبکہ اس سے قبل سابقہ سوویت یونین کی فوج بھی اس وادی میں داخل نہیں ہوسکی تھی اور متعدد حملوں کے باوجود ہر دفعہ یہ وادی ناقابل تسخیر رہی۔

جنوبی وزیرستان : بارودی سرنگ کا دھماکہ، سپاہی واجد اللہ شہید

جنوبی وزیرستان میں بارودی سرنگ کے دھماکے میں سپاہی واجد اللہ شہید ہوگئے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق جنوبی وزیرستان کے علاقے آسمان منزہ میں سیکیورٹی فورسز کے کلیرنس آپریشن کے دوران بارودی سرنگ کا دھماکہ ہوا، بارودی سرنگ کے دھماکے میں سپاہی واجد اللہ شہید ہو گئے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے آئی ای ڈی نصب کرنے والے دہشت گردوں کو پکڑنے کے لیے فوری طور پر علاقے کا گھیراؤ کیا۔

آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ فائرنگ کے شدید تبادلے میں بھاگنے کی کوشش کرنے والے دہشت گردوں میں سے ایک مارا گیا۔

ورلڈ بینک اور اے ڈی بی پانچویں توسیعی منصوبے کیلئے رقم فراہم کررہے ہیں

ورلڈ بینک پانچویں توسیعی منصوبے کیلئے 390 ملین ڈالر اور اے ڈی بی 300 ملین ڈالر فراہم کررہا ہے۔

تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر اقتصادی امور عمر ایوب خان کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا،جس میں  تربیلا پانچویں توسیعی منصوبے، داسو پاور پراجیکٹ اور ٹرانسمیشن لائن منصوبوں پر غور کیا گیا۔

وفاقی وزیر اقتصادی امور عمر ایوب خان  کا کہنا تھا کہ منصوبے کی بروقت تکمیل سے بجلی کی بڑھتی ضروریات پوری ہوسکیں گی، منصوبے کی بروقت تکمیل کیلئے تمام مشکلات کا خاتمہ یقینی بنایا جائے۔

وفاقی وزیر اقتصادی امور عمر ایوب خان کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ  تربیلا پانچویں توسیعی منصوبے سے ڈیم سے 1410 میگاواٹ بجلی حاصل ہوسکے گی۔

وفاقی وزیر عمر ایوب نے داسو منصوبے کے جائزے کے دوران کام کی رفتار بڑھانے پر زور دیا ہے۔

افغانستان میں امن، پاکستان، وسطی ایشیاء معاشی تعلقات کو مزید مضبوط بنائے گا،وزیر خارجہ

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ امید ہے کہ افغانستان میں امن، پاکستان،وسطی ایشیاء معاشی تعلقات کو مزید مظبقط بنائے گا۔

تفصیلات کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی  کی زیر صدارت “اقتصادی سفارتکاری” کے سلسلے میں ساتواں اجلاس ہوا جس میں وزیر خارجہ کا کہنا  تھا کہ حکومتی ترجیح جغرافیائی سیاست سے مجموعی اقتصادی تعاون میں تبدیل ہو چکی ہے۔

ان کا کہنا  تھا کہ اقتصادی سفارتکاری نے جدید سفارتی امور میں مرکزی حیثیت حاصل کر لی ہے، سفراء حکومتی معاشی ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ٹھوس کاوشیں کریں۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا  تھا کہ سفراء وسطی، جنوبی ایشیائی ممالک سے باہمی تجارت، اقتصادی شراکت داری کو فروغ دیں، سفراء ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے کردار ادا کریں۔

اس موقع پر ترجمان دفتر خارجہ عاصم افتخار کا کہنا تھا کہ وزیر خارجہ نے بین الاقوامی سیاست میں اقتصادیات کی بڑھتی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔

 عاصم افتخار کا کہنا تھا کہ وزیر خارجہ نے سفراء کو پاکستانی تارکین وطن کی سہولت کے لیے اجراء کردہ “ایف ایم پورٹل” سے بھی آگاہ کیا ہے۔

ترجمان دفترخارجہ عاصم افتخار کا اس موقع پر مزید کہنا تھا کہ  سفراء نے اپنے اپنے سفارتی مشنز کی مختلف سرگرمیوں سے آگاہ کیا ہے۔

اجلاس میں وسطی و جنوبی ایشیائی ممالک میں متعین پاکستانی سفراء نے مجازی طور پر شرکت  کی اجلاس میں آذربائیجان، بنگلہ دیش، قازقستان میں متعین پاکستانی سفراء نے شرکت کی، کرغزستان، مالدیپ، نیپال میں متعین پاکستانی سفراء بھی اجلاس کا حصہ تھے۔