نصیب ِطائرانہ خلد

انجینئر افتخار چودھری
کیا نصیب پایا ہے ہے ہمارے اس دوست نے اللہ کے پیارے نبیؐ نے اپنا ہمسایہ بنا لیا ہے ہر سال اقامہ تجدید ہو تا ہے اور ہر سال آقا مہر لگوا دیتے ہیں۔خوش نصیب ڈاکٹر خالد عباس الاسدی واقعی خوش بخت ہیں جو تقریباً چار عشروں سے مدینہ منورہ میں رہ رہے ہیں۔
رؤف طاہر مرحوم بڑی مزے مزے کی باتیں سنایا کر تے تھے۔ ایک دن کہنے لگے کہ ایک اللہ کے ولی تھے اپنے مریدوں کے ساتھ بڑی دور سے مکہ پہنچے پڑا ڈالا دوسرے ہی روز کہنے لگے کہ خواب میں ملتان نظر آیا ہے۔ مریدوں سے کہا چلو واپس انہوں نے سوال کیا حضرت یہ کیوں؟جواب دیا یہاں آ کر ملتان خواب میں آیا ہے چلو ملتان جا کر مکے کے خواب دیکھتے ہیں۔نور جرال اور افتخار دونوں شائد خواب دیکھنے نیویارک اور پنڈی چلے گئے باقیوں کو ضرور مکہ اور مدینہ ہی خوابوں میں نظر آتا ہو گا شائد اسی لئے ٹکے ہوئے ہیں۔جیسے مدینہ کے باسی ڈاکٹر خالد عباس الاسدی جو بن لادن ہسپتال میں برس ہا برس سے خدمت خلق کر رہے ہیں۔
نور جرال بڑا پیارا بھائی ہے اس کی زبانی ایک نعت کو مدتوں سے گنگناتا ہوں ۔
کاش طیبہ میں سکونت کا شرف مل جاتا
دیکھتے روضہ سرکارؐ کو آتے جاتے
نعت کا فیض نور جرال کو مل چکا ہے اللہ نے صدارتی تمغہئ حسن کارکردگی سے نوازا ہے شکریہ صدر پاکستان! شکریہ! اب ہمارے دوست کی باری ہے جو مدینے میں بیٹھ کر نعت لکھتا ہے اور حُب نبیؐ میں ڈوب کے لکھتا ہے۔
بات تو سچ ہے یہ نصیب نصیبوں والے کو ملتا ہے۔ان میں ڈاکٹر خالد عباس الاسدی بھی شامل ہیں جو کئی عشروں سے دنیا کی مقدس ترین سر زمین میں رہ رہے ہیں۔میری تقریر سننے والے جانتے ہیں کہ میں اپنی تقریر کا آغاز وہ دانائے سبل،ختم الرسلؐ، مولائے کل سے شروع کرتا ہوں اور اس کے ساتھ ایک شعر آقا ؐلفظ جب تک وضو نہیں کرتے ہم تیری گفتگو نہیں کرتے اور بعد میں درود شریف پڑھتا ہوں اس سے میری تقریر میں برکت پڑ جاتی ہے جب سے یہ وطیرہ ہے اللہ نے زبان کی ساری لکنتیں دور کر دی ہیں اور لفظ سامنے دست بستہ کھڑے ہوتے ہیں۔میرے بیٹے کا دوست سلیم ہاشمی پوچھتا ہے انکل آپ تقریر کی تیاری کرتے ہیں اسے یہ علم ہی نہیں سب اس کے نانا سے محبت کا فیض ہے۔یہ لازوال شعر ڈاکٹر خالد عباس الاسدی کا ہے۔اللہ انہیں سلامت رکھے اس بار آیا تو مدتوں بعد بالمشافہ ملاقات ہوئی۔ جب آنکھ کا عارضہ لاحق ہوا تو روتا تھا ایک دن فون آیا میں دعا کروں گا آپ آنکھ بند کر کے یا نور یا نور پڑھتے رہئے اور علاج جاری رکھئے۔میرے اللہ کا کرم ہوا میں پھر مدینے آ گیا۔جون میں حاضری دی امتیاز مغل اور ان سے ملاقات نہ ہو سکی واپسی پر فون آیا راستے میں تھے ڈاکٹر صاحب نے محبت کا اظہار کیا پچھلے ہفتے پھر حاضری نصیب ہوئی تو کھانے پر بلا لیا وہیں عزیزم جہانزیب منہاس سے ملاقات ہوئی۔منہاس انہی راستوں پر ہے جن سے ہم تیس سال پہلے گزر کر آئے۔مدینے والے کے دربار میں ہر حاضر ہونے والے کی خدمت کرتا ہے۔وہاں برادر سردار صابر کے ہوٹل میں نشست ہوئی اپنی دو کتابیں عطا کیں پاک چین دوستی اور پاک سعودی دوستی دو لاجواب کتابیں ان کی شاعری پر مشتمل ہیں۔کبھی اللہ نے موقع دیا تو ان کتب پر لکھوں گا۔صدارتی ایوارڈ کو اعزاز مل جائے اگر یہ ڈاکٹر خالد کو مل جائے۔ڈاکٹر علوی صدارت کو پیارے ہونے سے پہلے اچھے دوست تھے میری کوشش ہو گی کہ ایوان کی بلند و بالا دیواروں پر کوئی کمند ڈال کر ان کے کان میں کہہ دوں سرکارؐ مدینہ کے درباری کو اعزاز دے کر اعزاز پا لیجئے۔
دیکھنے میں لکھنو والے لگتے ہیں چھریرا بدن سامنے سے کم کم بال اور پیچھے سے شاعروں جیسے بال،کیوں نہ ہو خود بھی بڑے پائے کے شاعر ہیں۔جی کرے ویخدا رواں،نفیس ڈاکٹر خالد کے لئے جدہ کے اتحاد کلب کے ساتھ ایک فلیٹ میں رات کے اس پہر جو کچھ لکھ رہا ہوں وہ دل ہی سے لکھ رہا ہوں۔کمال کا بھائی ہے ہمارا اور اوپر سے خاتون خانہ بھی لا جواب۔تاریخ شاہد ہے کہ ہر کامیاب شخص کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔اور اس بہن سے مل کر دلی خوشی ہوئی جس نے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ سالہا سال گزارے۔میں دوران ملازمت کوئی چار بار مدینہ رہا اسی کی دہائی میں پھر نوے اور اس کے بعد دو ہزار دس اور دو ہزار چودہ میں۔ڈاکٹر صاحب سے کافی ملاقاتیں رہیں۔ مرنجان و مرنج خالد عباس کی شاعری کی خوبصورتی کا ایک شعر ہی کافی ہے۔میں چونکہ تبصرہ کتب نہیں کر رہا میں نے ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کرنا ہے کہ انہوں نے میرے لئے قطعہ لکھا اس کالم کو یہ بھی نہ سمجھئے کہ من ترا حاجی بگویم تو مرا ملا بگو میں تمہیں حاجی کہوں اور اس کے بدلے تو مجھے ملا کہے۔ویسے آج کل دونوں نام ہی کوئی خاص وزن نہیں رکھتے کیونکہ اس نام کے ورثا نے کچھ اچھا نہیں کیا۔اللہ پاک انہیں خوش رکھے جو اللہ کے دین کی خدمت کرتے ہیں۔
نسیم سحر تگڑا شاعر ہے جدہ سے ایک بار جا رہا تھا تو کہا
ہمارے شہر سے یوں افتخار کا جانا
ہے دوستوں کے دلوں سے قرار کا جانا
گراں گزرتا نہ تھا صد ہزار کا جانا
مگر ایک دیرینہ یار کا جانا
نسیم معاف کر دیں اگر لکھنے میں کوئی بھول چوک ہو۔منور ہاشمی کے ہوتے ہوئے مشہور شاعر انور مسعود نے بھی ارشاد فرمایا تھا۔
رس ملائی اور بیت الافتخار۔۔۔یو بی ایل میں تو ملازم تو نہیں
اے منور ہاشمی۔۔۔۔نہ مار
ڈاکٹر صاحب نے قطعہ کہا اور بار بار سنایا واٹس ایپ پر بھیجا۔یہ میرے لئے عنائت ہے۔چھوٹا بھائی سجاد اس کی قدر سمجھتا ہے کہنے لگا نسلوں کے لئے انمول تحفہ ہے سچی بات ہے اس میں شک بھی کوئی نہیں۔
کبوتر مدینہ مکہ حرم دانہ ہماری شاعری میں بڑے معنی رکھتا ہے۔ڈاکٹر خالد عباس کی نظر نور جرال کا شعر پیش کر رہا ہوں۔
نصیب طائران خلد میں قرباں اس کبوتر پر
کہ جس کا آشیاں ہے گنبد خضرا کے سائے میں
جناب الاسدی صاحب اس شعر میں آپ کو دیکھتا ہوں۔گنبد خضرا کے سائے میں کتنے لوگ تھے اور اڑ گئے نہ جہانگیر خالد مغل رہے نہ ضیغم خان نہ فارقلید چودھری نہ ہی خواجہ صاحب اور بے شمار ان گنت لوگ مدینے آئے چلے گئے آپ خوش نصیب ہیں کس پیاری جگہ میں ہیں۔اور ہم بھی کچھ کم نصیب نہیں کہ گنبد خضرا کے سائے میں عزیزم فیصل جدون عزیزم جہانزیب منہاس کے ساتھ آپ ایک معتبر آواز ہیں۔سرکار مدینہ کو آتے جاتے دیکھتے رہئے دعا کیجئے وہ آنکھیں سلامت رہیں جو مدینے وچ رہ گئیاں سن اور وہ لکھتا رہے افتخار جس کا تذکرہ آپ نے اس قطعے میں کیاہے۔ ہم پندرہ سوالفاظ لکھتے ہیں حق ادا نہیں ہوتا آپ پچاس ساٹھ لفظوں میں دل جیت لیتے ہیں۔آج عزیزم عدنان اور عزیزہ حمیرہ سے پلاؤ کھا کر آیا ہوں آتے ہوئے ڈھیر سی کتابیں دیں کہنے لگا بھائی جان انکل لے جائیے میر کی کتابیں اب ہم نے کیا کرنی اللہ نے اپنے کرم اور اس شاعری کی جادوگری سے گھر بنا دیا ہے آپ لے جائیے گویا وہ اب میرا گھر خراب کرنے کے لئے حسرت موہانی،میر اور جگر مراد آبادی کی کتابوں کو گھر سے نکال رہا ہے۔ہائے افسوس ہماری نسلیں اب کتابیں نہیں پڑھتیں۔
ڈاکٹر خالد میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں اس قطعے کا قرض اتار سکوں البتہ روز محشر دکھا دوں گا کہ گنبد خضرا کے سائے میں رہنے والے نے لکھا ہے۔مجھے آقا بخشش دلوا دیں گے۔ سلامت رہئے سارے بیٹوں اور بیٹیوں کو پیار اس عظیم خاتون کو بھی سلام جس نے اس ارض پاک میں پاکستان کو سچے پاکستانی دئیے۔جیوندے رو ڈاکٹر صاحب
(تحریک انصاف شمالی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات ہیں)
٭……٭……٭

طالبان کا کڑا امتحان

لیفٹیننٹ جنرل(ر)نعیم خالد لودھی
افغان طالبان نے جس سرعت اور تیزی کے ساتھ افغانستان کو غیر قانونی بیرونی قبضے اور کٹھ پتلی حکومت سے آزاد کروایا اس نے ساری دنیا کوورطہئ حیرت میں ڈال دیاہے۔ عین ممکن ہے میرے پہلے جملے میں الفاظ کے چناؤ پہ کچھ لوگوں کو اعتراض ہو۔ لیکن یہ بات تو ہمیں بھی معلوم ہے کہ امریکہ اور نیٹو کی فوجیں اقوام متحدہ کی اشیرباد اور دنیا کے اثبات کے بعد افغانستان پر حملہ آور ہوئیں لیکن جونہی انہوں نے اپنے ابتدائی ہدف حاصل کر لئے تھے جن کیلئے ان کو اقوام متحدہ اور عمومی طور پر دنیا کی حمایت حاصل تھی اس کے فوراً بعد ان کا انخلا ہو جانا چاہئے تھا۔ اس کے بعد ان کے وہاں رہنے کا کوئی جواز نہ تھا اس لئے ہم اس لمبے قبضے کو غیر قانونی کہہ سکتے ہیں۔ بہرحال یہ ہمارا آج کا موضوع نہیں۔
کیا یہ ایک فقط عسکری فتح ہے؟ ہرگز نہیں، گو کہ عسکری حکمت عملی بھی اس کامیابی کی ایک وجہ ہے لیکن ہم تو اس کو سیاسی و عسکری انقلابی مہم کہیں گے۔ اس میں نفسیاتی اور انٹیلی جنس آپریشن بھی شامل تھے گو کہ بین الاقوامی میڈیا بھی ان کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ آیئے دیکھتے ہیں تمام معاملہ کیا تھا اور حالاات اب کس نہج پہ چل رہے ہیں۔
حالات کی سمجھ بوجھ: سب سے پہلے امریکہ، برطانیہ اور ان کے حلیفوں نے غچا کھایا جب انہوں نے افغان فوج کے مقابلے میں افغان طالبان کی طاقت اور جذبے کا بہت غلط اندازہ لگایا۔ غالباً جب امریکہ نے یہاں سے نکلنے کا فیصلہ کیا تو ان کو اس بات کی زیادہ پرواہ نہیں تھی کہ افغان حکومت اور فوج کے ساتھ کیا بیتے گی۔ اشرف غنی کو کیل کانٹے سے لیس اپنی فوج پر بہت اعتماد تھا۔ کیونکہ ان کے پاس ماڈرن ہتھیار، ہیلی کاپٹر‘ رات کو دیکھنے والے آلات اور لڑاکا جہاز بھی موجود تھے۔ طالبان نے جنگ سے پہلے کی پوری تیاری کی اور تقریباً تمام صوبوں میں خفیہ طور پر اپنے مندوب بات چیت کے لئے بھیجے۔ انہیں اقتدار کا لالچ دیا اور کہیں دھمکی استعمال کی اور جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی جنگ جیت چکے تھے۔
تزویراتی حکمت عملی کا موازنہ: طالبان نے سب سے پہلے نسبتاً خالی علاقوں اور آمدورفت کے راستوں پہ قبضہ کیا۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ جتنے بھی سرحدی رابطے تھے ان کے راستوں کو پکڑا اور آخر میں شہروں کا رخ کیا جہاں پہلے ہی راہ ہموار ہو چکی تھی۔ بغیر زیادہ خونریزی کے تقریباً تمام ملک پر تسلط قائم کر لیا اور طرہئ امتیاز یہ کہ کابل پر ایک بھی گولی چلائے بغیر حاوی ہو گئے۔ ان کی اس تیز رفتار فتح نے دنیا کوورطہئ حیرت میں ڈال دیا کیونکہ اس میں کوئی عسکری منطق نظر نہیں آتی تھی۔ اسی لئے ہم اسے سیاسی اخلاقی اور فوجی فتح کا امتزاج کہیں گے۔
دوسری جانب افغان فوج نے بہت بے ڈھنگی حکمت عملی اختیار کی اور طاقت کو یکجا رکھنے کے بجائے چھوٹی چھوٹی کمزور ٹکڑیوں میں بانٹ کر دور دراز علاقوں میں بھیج دیا جہاں ان کو فضائی مدد پہنچانا بھی دشوار تھا۔ افغان فوج میں کچھ اور مسائل بھی تھے۔ مثلاً ان کے پیادے زیادہ تر پشتون اور آفیسر تاجک اور ترک نسل کے تھے۔ اس کے علاوہ افغان فوجیوں میں جذبے اور مقصد کی شدید کمی تھی۔ وہ دوسرے عوام کی طرح قابض فوج کے رویے اور اشرف غنی اور اس کی حکومت کی بدعنوانیوں سے بھی نالاں تھے۔ اور جب انہیں نظر آیا کہ عوام اور ان کے بڑے لیڈر ہر صوبے میں طالبان کا پرجوش استقبال کر رہے ہیں اور جوق در جوق ان کے ساتھ ملتے جا رہے ہیں تو ان کا مورال بالکل گر گیا اور ہتھیار ڈالنے ہی میں عافیت سمجھی۔
دو عوامل اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ افغان طالبان کو یقیناً عوام کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ ایک تو اتنی بڑی طاقت کے خلاف مدافعتی جنگ کی کامیابی اور دوسرے تقریباً تمام بڑے شہروں اور قصبوں کی بلا چون وچرا ان کے حوالے ہو جانا۔
افغان طالبان کا امتحان۔ شاید ایسی حکومت کو ہٹانا بہت مشکل کام نہیں تھا جس کی معیشت، فوج اور روزمرہ کاروبار حکومت کا زیادہ تر دارومدار بیرونی طاقت کے مرہون منت ہواور وہ ہو بھی بدعنوان۔
لیکن اب افغانستان جیسے ملک میں جو قومیتوں اور مسالک میں بٹا ہوا ہو وہاں ایک ایسی حکومت کی تشکیل جس میں تمام مکاتب فکر اور مختلف اقوام کے لوگ شامل کئے جا سکیں ایک نہایت کٹھن مرحلہ ہے اور اس میں کچھ وقت بھی لگ سکتا ہے۔ پھر ایک موثر اور قوی حکومت کی بنیاد رکھنا جو ملک کے طول و عرض میں قوانین نافذ کر سکے جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔ اور یہ کچھ بیرونی اور اندرونی مخالفت کے باوجود کرنا ہو گا۔ خارجہ محاذ پر اپنے رویے اور وعدوں کی بنیاد پر اپنے آپ کو تسلیم کروانا اور تمام بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کرنا بھی ایک کڑا امتحان ہو گا۔ کچھ ایسے وعدے جیسے اپنی سرزمین دوسرے ملکوں کے خلاف استعمال نہ ہونے دینا، خواتین کے کام کرنے اور بچیوں کی تعلیم کی ذمہ داری، اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری وغیرہ کو بھی دنیا بہت غور سے دیکھے گی۔
طالبان کے دونوں نمائندے ذبیح اللہ مجاہد اور سہیل شاہین نے بڑی جاں فشانی سے بار بار واضح کیا ہے کہ اس دفعہ طالبان اپنے بنیادی عقائد کو چھوڑے بغیر ایک ایسی حکومت عملی اپنائیں گے جو بالعمومم دنیا کے بیشتر ممالک کو قبول ہو۔ لیکن پرانی یادداشتوں کی روشنی میں یہ وعدے دنیا کو فوری طور پر مرعوب نہ کر پائیں گے۔ حالانکہ ایسے اشارے موجود ہیں جو طالبان کے قول و فعل کو قابل اعتبار بنا رہے ہیں۔ جو معاہدہ امریکہ کے ساتھ ہوا اس کو نبھایا، بغیر بڑے خون خرابے کے ملک کا کنٹرول سنبھالا، سب کے لئے عام معافی کا اعلان کیا وغیرہ وغیرہ۔
کابل کا ہوائی اڈہ غیر ملکیوں اور جو افغان بھی جانا چاہیں ان کے لئے کھلا رکھا۔ جو خواتین ٹی وی یا ریڈیو پہ کام کر رہی ہیں ان کو اپنا کام جاری رکھنے کا عندیہ دیا بلکہ اگر کچھ خواتین نے اپنے حقوق کے لئے مظاہرہ کرنا چاہا تو نہ صرف ان کو اجازت دی بلکہ ان کی حفاظت پہ بھی مامور رہے۔ جھنڈے کے مسئلے پہ جلوس نکلے جن کو اکثر پرامن طورپر منتشر کیا۔ ان تمام امور پہ غور کیا جائے تو یہ طالبان اپنے رویے اور سوچ میں بیس سال پہلے والے طالبان سے بہت مختلف ہیں۔ بیشک ان کی بنیادی اسلامی سوچ میں کوئی فرق نہ آیا ہو لیکن تاویل یقیناً نئی ہے۔
لیکن طالبان کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو جب بھی موقع ملا وہ ضرور ایسے رخنے ڈالیں گے جس سے آپس کی دشمنیاں سامنے آئیں گی اور ایک نئی سول جنگ کی سی کیفیت پیدا کی جائے۔ ڈس انفارمیشن کی مہم پہلے ہی شروع ہے۔ طالبان کو اپنے لیڈرز کی حفاظت کے اچھے انتظامات کرنے چاہئیں اور فالس فلیگ کارروائیوں پہ نظر رکھی جائے۔
پاکستان کے لئے مضمرات: اگر افغانستان امن اور سکون کا مسکن بن جاتا ہے جس کے اس دفعہ امکانات روشن ہیں تو وسط ایشیا، جنوبی اور مغربی ایشیا کے لئے آپس میں جڑنے اور مل کر ترقی کرنے کا ایک نادر موقع ہاتھ آ سکتا ہے۔ چین اور روس کی بحر ہند تک ایک چھوٹے راستے سے رسائی ممکن ہو جائے گی۔ پی آر آئی اور سی پیک میں بہت تیزی آ جائے گی اور افغانستان صنعت اور تجارت کا مرکز بن سکتا ہے۔ کیا پاکستان اتنے بڑے موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے تیار ہے؟ اس سلسلے میں چاق و چوبند طریق پہ منظم ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ یہاں بہت سخت معاشی مقابلہ ہو گا اور اگر ابھی سے کچھ اقدامات نہ اٹھائے گئے تو ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ لوگوں کی آمدورفت کو نہایت آسان بنایا جائے۔ میڈیکل کی سہولیات، تعلیم کے زیادہ مواقع فراہم کئے جائیں۔ بارڈر پہ مزید مارکیٹیں بنائی جائیں۔ انجینئرز، ڈاکٹرز، واپڈا، نادرا، سٹاک ایکسچینج اور فوج کے ماہرین مہیا کئے جائیں۔ بینک کھولے جائیں۔ تجارت، کنسٹرکشن کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ مختصر یہ کہ ایک نیا جہاں وقوع پذیر ہوا چاہتا ہے۔ جو ہاتھ بڑھا کے تھام لے یہ جام اسی کا ہے۔
(کالم نگار سابق کورکمانڈر اور وفاقی
سیکرٹری دفاع رہے ہیں)
٭……٭……٭

حکومت کے تین سال۔کیا کھویا کیا پایا

ملک منظور احمد
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو بر سر اقتدار آئے ہوئے تین برس کا عرصہ گزر گیا ہے اور اپوزیشن جماعتوں کی تمام تر کا وششوں کے باوجود حکومت نہ صرف بددستور اپنی جگہ پر مضبوطی سے قائم ہے بلکہ بظاہر ایسا ہی لگتا ہے اب حکومت کو اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔پاکستان تحریک انصاف نے حکومت میں آنے سے قبل عوام سے بڑے بڑے وعدے کیے،دعوئے کیے نیا پاکستان کا خواب ہر خاص و عام کو دکھایا اور اسی سلوگن سے متاثر ہو کر پاکستان کے عوام کی بڑی تعداد نے پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ ڈالا اور ان کو بر سر اقتدار لے کر آئے۔لیکن اقتدار میں آنے کے بعد جیسا کہ ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے زعما کو حقیقت کی دنیا کا ادراک ہوا ان کو معلوم ہوا کہ خزانہ خالی ہے اور حالات بہت سخت ہیں اور ان حالات میں عوام کی خواہشات پر پورا اترنا کسی صورت آسان نہ ہو گا۔
اس بات میں کو ئی شک نہیں ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے جب اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی تو اس وقت پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر گزشتہ حکومت کی ناقص پالیسوں کے باعث بہت کم رہ چکے تھے اور تیزی کے ساتھ گر رہے تھے،پاکستان کو اگر فوری طور پر چین،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے امداد نہ ملتی تو پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے خدشات تھے۔پاکستان دوست ممالک کی امداد کے باث دیوالیہ ہونے سے تو بچ گیا لیکن اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے فیصلوں کے باعث ان پر بہت تنقید ہو ئی کہا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پہلے تو آئی ایم ایف پروگرام میں جانے یا نہ جانے کا فیصلہ بر وقت نہ کرسکی اور جب گئی تو سخت ترین شرائط پر آئی ایم ایف پروگرام لیا گیا جس کے باعث پاکستان کی معیشت کا گلا گھونٹ دیا گیا،شرح نمو نہایت ہی کم ہو گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں کاروباری سرگرمیاں ماند پڑ گئیں اور بے روزگاری کا ایک طو فان آگیا۔اگرچہ اب جا کر شرح نمو میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کا روپیہ اب بھی مسلسل گر رہا ہے اور مہنگائی کا طوفان ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔عوام مہنگائی کے باعث بہت پریشان ہیں اور حکومت ابھی تک ان کو اس حوالے سے ریلیف دینے میں ناکام ثابت ہو رہی ہے۔معیشت یقینا پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے لیے ان تین سالوں کے دوران سب سے بڑا چیلنج رہا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی پاکستان تحریک انصاف دیگر شعبوں میں خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا سکی ہے،الیکشن سے قبل پاکستان تحریک انصاف نے عوام سے ادارہ جاتی اصلاحات،پولیس اورنظام عدل میں جامع اصلاحات،سمیت انتخابی اصلاحات سمیت کئی وعدے کیے۔ کرپشن ختم کرنے کا 90روزہ پلان دیا گیا،نظام احتساب کو بہتر کرنے کے وعدے کیے گئے،لیکن اب جبکہ حکومت اپنے تین سال مکمل کر چکی ہے یہ تمام وعدے اور دعوے ایک سیراب کی مانند ہی محسوس ہو رہے ہیں۔اس بات کی مثال میں یوں دوں گا کہ حالیہ دنوں میں یوم آزادی کے موقع پر لاہور کے گریٹر اقبال پارک میں مینار پاکستان پر ایک خاتون کے ساتھ ایک نہایت ہی افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔اس واقعہ کے بعد خاتون نے میڈیا کو بتا یا کہ واقعے کے دوران اس نے دو بار پولیس کی ہیلپ لائن 15پر کال کرکے پولیس سے مدد طلب کی لیکن مدد کو کوئی نہیں آیا،اور بس یہی بات پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے پولیس سمیت دیگر اداروں میں اصلاحات کے دعوؤں کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے۔ احتساب اور بڑے پیمانے پر کرپشن 90روز میں ختم کرنا بھی پاکستان تحریک انصاف کا عوام کے ساتھ کیا گیا ایک کلیدی وعدہ تھا جو کہ ابھی تک پورا ہو تا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے،اگرچہ احتساب کے نام پر پکڑ دھکڑ تو بہت ہوئی ہے لیکن کسی بھی بڑی مچھلی سے کوئی بھی بڑی ریکوری نہیں ہو سکی ہے۔ اگرچہ نیب کے ترجمان کا دعویٰ ہے کہ موجودہ دور میں 500ارب روپے سے زائد کی ریکوریز ہوئی ہیں لیکن کسی بھی سیاست دان سے کو ئی ریکوری نہیں ہو سکی ہے، اور احتساب کا عمل بذات خود ہی سیاست کا شکار ہو چکا ہے۔لیکن جہاں پر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کسی بھی ادارے میں کوئی بھی ادارہ جاتی اصلاحات کرنے میں یکسر ناکام رہی ہے،وہیں پر کچھ اچھے کام بھی ضرور کیے گئے ہیں جن کا ذکر کرنا بنتا ہے۔حکومت نے پنجاب اور کے پی کے میں صحت کارڈز تقسیم کیے ہیں اور اب یہ سلسلہ بلوچستان میں بھی شروع ہو گیا ہے۔اس سکیم کے تحت اس کارڈ کے ذریعے شہریوں کو ہیلتھ انشورنس کی سہولیات دی جا رہی ہیں جو کہ یقینا ایک قابل ستائش بات ہے اس کے علاوہ کسان کارڈ،اور کوئی بھوکا نہ سوئے پروگرام کے تحت لنگر خانے اور پناہ گاہیں کھولنے کا پروگرام بھی قابل تعریف ہے۔
خارجہ محاذ پر یقینا حکومت نے اہم کامیابیاں ضرور سمیٹی ہیں،جن کی تعریف کی جانی چاہیے،2019ء میں بھارت کے ساتھ ہونے والی کشیدگی میں پاکستان کا پلڑا بھاری رہا اور پاکستان نے سفارتی طور پر اہم کامیابی حاصل کی جبکہ اس کے بعد بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے معاملے پر بھی وزیر اعظم اور حکومت نے عالمی سطح پر خاصا موثر کردار ادا کیا۔سعودی عرب سمیت عرب ممالک اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے ساتھ ساتھ افریقا کے ساتھ سیاسی اور سفارتی تعلقات میں اضافہ بھی حکومت کی اہم سفارتی کامیابیاں ہیں۔موجودہ افغان بحران میں بھی حکومت پاکستان کی کا رکردگی اور سفارت کاری بہت بہتر رہی ہے،اور سابق افغان حکومت اور بھارت کی جانب سے پاکستان کو افغان بحران کا ذمہ دار ٹھہرانے کی کوششیں کا رگر ثابت نہیں ہو سکیں ہیں۔پاکستان خطے مین ایک اہم ملک کے طور پر ابھرا ہے اور اپنا کردار بہتر انداز میں نبھا رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اپنے ان تین سالوں میں پارلیمان کو بہتر انداز میں چلانے مین ناکام رہی ہے،اور حکومت کا زور قانون سازی سے زیادہ آرڈیننس جاری کرنے پر رہا ہے،دیگر سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے لیے ایک سیراب ہی رہا ہے،لیکن وزیر اعظم عمران خان کے احتساب کے بیانیہ کی موجودگی میں شاید اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا ناممکن ہی تھا لیکن پھر بھی اس حوالے سے معاملات کو قدرے بہتر انداز مین مینج کیا جاسکتا تھا جو کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نہیں کر سکی ہے۔ اگر پاکستان تحریک انصاف کے تین سالہ دور حکومت کے دوران اپوزیشن جماعتوں کے کردار کے حوالے سے بھی کچھ بات کی جائے تو اپوزیشن جماعتوں کا کردار ہمیں نہایت ہی کنفیوژ نظر آتا ہے۔اپوزیشن جماعتوں کا آپس میں مفادات کا ٹکراؤ اور اندرونی اختلافات پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے لیے نہایت تقویت کا باعث بنے ہیں۔اگر کہا جائے کہ اپوزیشن بھی گزشتہ تین سالہ دور میں موثر کردار ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے تو غلط نہ ہو گا۔
حکومت کے تین سال میں جہاں پر حکومت کی کامیابیاں ہیں وہاں پر ناکامیوں کی فہرست بھی طویل ہے۔اگر کہا جائے کہ حکومت اب اپنی مدت کی 65فیصد معیاد پوری کر چکی ہے اور اب صرف 35فیصد وقت باقی رہ گیا ہے تو یہی حقیقت ہے،حکومت کے پاس اب پہلے سے شروع کیے گئے منصوبوں کو پایہئ تکمیل تک پہنچانے کا وقت ہے، نئے منصوبے شروع کرنے کا وقت گزر چکاہے۔ دیکھنا ہو گا کہ حکومت 2023ء میں اپنی مدت کا اختتام کیسے کرتی ہے کیا اس وقت تک مہنگائی پر قابو پا یا جاسکے گا یا نہیں؟ یہ شاید اس حکومت کے مستقبل کے لیے سب سے اہم سوال ہے۔حکومت کے پاس اپنی کمیوں اور کو تاہیوں پر قابو پانے کے لیے دو سال کا وقت ابھی باقی ہے۔مہنگائی اور بے روزگاری اب بھی عوام کے لیے سب سے بڑے مسائل ہیں ان کو حل کیا جانا نہایت ضروری ہے۔انہی مسائل کی بنیاد پر عوام 2023ء میں اپنا فیصلہ سنا ئیں گے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭

منال اور احسن کی شادی کا کارڈ منظرِ عام پر آگیا

اداکارہ منال خان اور  احسن محسن اکرام کی شادی اگلے ماہ ستمبر میں ہونے جا رہی ہے۔

احسن محسن اکرام کی جانب سے شادی کے کارڈ کی تصویر انسٹاگرام پر شیئر کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ منال احسن کے ساتھ 10 ستمبر بروز جمعہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوں گی۔

شادی کے کارڈ کی تصویر اداکار کی جانب سے کچھ دیر قبل شیئر کی گئی ہے جو اب سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر وائرل ہو رہی ہے۔

دوسری جانب کارڈ کی تصویر منظر عام پر آتے ہی مداحوں اور  شوبز شخصیات کی جانب سے جوڑے کو مبارکبادیں دینے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔

خیال رہے اداکارہ منال خان اور احسن محسن اکرام کی رواں برس مئی میں بات پکی ہوئی تھی جبکہ دونوں کی منگنی جون میں ہوئی تھی جس کا تذکرہ کافی عرصہ تک زبان زدِعام تھا۔

حکومت سندھ نے کورونا ویکسین لگوانے کیلئے 30 ستمبر کی ڈیڈ لائن دیدی

حکومت سندھ نے بھی اسکولوں، پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے والوں اور ریسٹورینٹس میں جانے والوں کے لیے ویکسی نیشن لازمی قرار دیدی۔

محکمہ داخلہ سندھ کی جانب سے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر  (این سی او سی) کی ہدایات پر نیا حکم نامہ جاری کیا گیا ہے۔

حکم نامے کے مطابق تعلیمی اداروں، ریسٹورینٹس، ہوائی جہاز اور پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے کے لیے ویکسی نیشن لازمی قرار دی گئی ہے۔

تاہم ہوٹل، شاپنگ مالز اور شادی ہالز میں داخلے کے لیے بھی ویکسین لگوانا لازمی ہوگا۔

محکمہ داخلہ سندھ کی جانب سے ویکسی نیشن کے لیے 30 ستمبر کی ڈیڈ لائن بھی دی گئی ہے لیکن پبلک ڈیلنگ کے تمام ادارے، ٹرین اور  بذریعہ سڑک سفر کے لیے ویکسی نیشن کی مہلت 15 اکتوبر  رکھی گئی ہے۔

پنجاب کارڈیالوجی میں دل کا مریض 3 گھنٹے فرش پر تڑپتا رہا

لاہور : (جنرل رپورٹر) زندگی اور مت کی کشمکش میں میں مبتلا افراد بے یارو مددگار زمین پر لیٹ کر علاج کو ترسنے پر مجبور ہو گئے۔

حکومت کے 3 سال مکمل ہوگئے مگر محکمہ صحت پنجاب کی کا رکردگی آج بھی صفر ہے۔ وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کے صوبہ کے ہسپتالوں کو بہتر بنانے کے دعوے محض اعلانات تک محدود ہو کر رہ گئے۔

بستروں کی کمی کے باعث زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا افراد بے یارومددگار زمین پر لیت کر علاج کروانے پر مجبور۔

چیک اپ کا کہا جائے تو ڈاکٹرز ڈانٹتے ہیں ، ادویات بھی نہیں ملتیں ، مریضوں کے لواحقین کا وزیراعلیٰ اور وزیر صحت سے نوٹس کا مطالبہ

مفت ادویات ختم، قیمتوں میں 500 فیصد اضافہ، ڈاکٹروں پر لاٹھی چارج : شہباز شریف

لاہور، کراچی : ( نمائندگان خبریں) پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر و قائد حزب اختلاف میاں محمد شہباز شریف نے کہا پڑھے لکھے لوگوں پر لاٹھیاں برسا کر حکومت جہالت کا مظاہرہ کررہی ہے ،مسئلہ سننے ، سمجھنے اور خوش اسلوبی سے حل کرنے کی بجائے لاٹھی اور آنسو گیس استعمال کرنا افسوسناک ہے۔

مفت دوائی ختم کرنے اور قیمت میں 500 فیصد اضافے کے بعد اب ڈاکٹرز پر لاٹھیاں برسائی جارہی ہیں،تین سال سے اساتذہ، طالب علم، مزدور، خواتین، پنشنرز ، ظلم پر آواز اٹھانے والا ہر شہری حکومت سے لاٹھیاں کھارہا ہے ،پولیس گردی کا شکار ہونے والے ڈاکٹرز سے ہمدردی ہے ، ان کے ساتھ یک جہتی کرتے ہیں۔

 مرکزی ترجمان مسلم لیگ ن مریم اورنگزیب نے کہاہے کہ مہنگائی کے جہنم کو عمران خاں اپنی جعلسازی اور جھوٹ سے جنت ثابت نہیں کرسکتے ، مہنگائی نے ریکارڈ توڑ دیئے لیکن مافیا ز،اے ٹی ایمز، آٹا چینی بجلی گیس دوائی ، ایل این جی چوروں کے ساتھ کپتان ڈٹ کر کھڑا ہے ۔ عمران کا مینڈیٹ جھوٹ، دعوے جھوٹ، کارکردگی جھوٹ، معاشی اعدادوشماربھی جھوٹ ہے ، تین سال میں مہنگائی کی شرح3 فیصد سے بڑھ کر 17 فیصد ہوگئی ،35 روپے کلو والا آٹا 100 روپے ہوگیا ،52 روپے کلو چینی تین سال میں 120 روپے ہوگئی ،بجلی کی فی یونٹ قیمت 11 روپے سے 22 روپے ہوگئی ، گیس کی قیمت میں 146 فیصد اضافہ ہو گیا ۔

تنخواہوں ، مراعات میں اضافہ کیلئے ارکان اسمبلی کی لابنگ شروع

ملتان: (جنرل رپورٹر) قومی اسمبلی کے 340 ارکان مین بمشکل 40 فیصد حاضر ہوتے ہیں۔

سال میں 26 بار کورم پورا نہہونے کے باعث اجلاس ملتوی ہوئے۔

وزرا کی عدم شرکت پر حکومتی و اپوزیشن ارکان احتجاج کرتے رہے۔

زیادہ غیر حاضر ارکان بھی تنخواہوں ، مراعات کے اضافہ کیلئے سر گرم

موجودہ تنخواہ سے گزارا مشکل ، حکومت زیادہ ریلیف دے : اپوزیشن ارکان

آپس میں لڑنے والے تنخواہوں میں اضافہ پر متحد

کابل میں 7 خود کش بمباروں کی موجودگی کی اطلاع

کابل: (نیٹ نیوز) افغان خفیہ اداروں کے مطابق کابل میں مزید 7 خودکش طیاروں کی موجودگی کی اطلاع ہے۔

خودکش بمبار کابل کی سڑکوں پر اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے تلاش کر رہے ہیں۔

افغان خفیہ ادارے ، امریکہ اور برطانیہ نے بھی حملوں کا الرٹ جاری کردیا ہے۔

طالبان افغانستان میں داعش کے نیٹورک کیخلاف تحقیقات کریں : نیٹو کامطالبہ

دہشتگردوں سے خوف زدہ نہیں ہوںگے ضرورت پڑی تو افغانستان میں مزید فوجی بھجیں گے، داعش کامیاب نہیں ہوگی: امریکی صدر کا رد عمل

پاکستان کا افغانستان میں کوئی فریق پسندیدہ نہیں،آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ

راولپنڈی:  آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ پاکستان کا افغانستان میں کوئی فریق پسندیدہ نہیں، افغانستان میں پائیدار امن واستحکام اور ترقی بنیادی مقاصد ہیں۔ افغانستان میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرا رنج ہوا۔

پاک فوج کے تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے یہ بات امریکی ناظم الامور انجیلا ایگلر کیساتھ اہم ملاقات کے موقع پر کہی۔

دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی سیکیورٹی اور افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ آرمی چیف نے کابل ائیرپورٹ پر دہشت گرد حملوں کی سخت مذمت کی۔

آئی ایس پی آر کے مطابق ملاقات میں آرمی چیف نے کہاکہ پاکستان کا افغانستان میں کوئی فریق پسندیدہ نہیں، افغانستان میں پائیدار امن استحکام اور ترقی بنیادی مقصد ہیں۔ پاکستان دہشتگردی اور انتہا پسندی کے مکمل خاتمے کے لیے پُرعزم ہے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ افغانستان میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرا رنج ہوا۔ امریکی ناظم الامور نے خطے میں امن واستحکام کے لیے پاکستان کی کوششوں کو سراہا اور کابل سے انخلا میں تعاون پر آرمی چیف کا شکریہ ادا کیا۔