لاہور میں قتل کا سانحہ

خضر کلاسرا
شکر ہے، وزیراعلی پنجاب اس وقت فائرنگ میں محفوظ رہے،جب ان کو کھوکھر برادران نامزد صوبائی وزیراسد کھوکھر کے بیٹے کے ولیمہ کے بعد ان کو رخصت کررہے تھے اور تاک میں بیٹھے مسلح سزایافتہ شخص نے اس وقت پنجاب پولیس سمیت سیکورٹی اداروں کے انتظامات کاپول کھول دیا، جب اس نے فائر کھول دیا،اور وہ اتنا قریب آچکاتھا کہ کھوکھربرادران میں سے ایک بھائی گولیوں کا نشانہ بن کر موقع پر ہی زندگی کی بازی ہارگیا۔ اس کریمنل مائنڈ شخص سے کسی بھی بڑی واردات کی توقع کی جاسکتی تھی؟ یہ تو شکرہے کہ قدرت کو کچھ اور منظور تھا یوں نامزد صوبائی وزیر اسد کھوکھر اور ان کا دوسرا بھائی اور بالخصوص وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار اس فائرنگ کرتے ہوئے شخص کے حملہ میں محفوظ رہے۔تھوڑی دیر کیلئے اپنے آپ اس منظر میں لے جائیں، جب ایک مسلح شخص فائرنگ کرتا اور للکارتا ہوا۔اپنے مذموم مقصد کے حصول کیلئے بڑھا ہوگا اوروزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار سمیت کھوکھربردران کسی بھی ناگہانی صورتحال کیلئے ذرا برابر بھی تیار نہیں تھے۔ مسلح شخص کی گولیوں کی بوچھاڑ ایک ایسے سانحہ کو جنم دے سکتی تھی جس کا ازالہ کسی طورپر بھی نہیں کیاجاسکتاتھا۔میں ایک بار پھر کہوں گاکہ یہ قدرت کا پاکستان بالخصوص پنجاب پر کرم ہوا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اس سانحہ میں محفوظ رہے۔ ادھر نامزد صوبائی وزیراسد کھوکھر اور ان کے ایک بھائی قاتل کے وار سے بچ گئے۔دوسری طرف کھوکھر برادران کیلئے ایک بھائی کا خوشیوں میں بالخصوص ولیمہ کی تقریب میں یوں مارا جانا یقینا انتہائی تکلیف کا سبب ہے۔ پروردگار کھوکھر برادران کو حوصلہ دے اور مرحوم کے درجات بلند فرمائے، آمین۔
ادھر وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی موجودگی میں ایک کریمنل کے ہاتھوں مارے جانیوالے کھوکھر بردران کے بھائی میزبان کی لاش گرنا بھی انتہائی تکلیف دہ ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار پر بھی واقعہ کے تلخ اثرات پڑے ہونگے۔لیکن سوال یہاں پر یہی ابھرتاہے کہ آخر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سمیت اعلیٰ شخصیات کی موجودگی میں ایک مسلح شخص کو اتنی آزادی کیسے ملی کہ وہ وزیراعلیٰ کے سیکورٹی کے حصار کو توڑ کر اتنا قریب چلا گیا کہ اس نے فائر کھول دیا اور قتل کی سنگین واردات کرلی اور ابھی اس بارے میں بھی چہ میگوئیاں جاری ہیں کہ وہ کوئی بڑی واردات کیلئے ولیمہ میں مہمان بن کرآیا تھا؟ ا س سے زیادہ میں کیا عرض کروں؟ حالات وواقعات بھی اس بات کی چغلی کھارہے ہیں کہ قاتل صرف کھوکھر برادران تک کارروائی محدود رکھنے کا متمنی نہیں تھا لیکن پروردگار کا کرم ہوگیا وگرنہ کیا تلخ اور افسوس ناک صورتحال ہوتی،اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
یہاں اس بات پر بھی بحث ہورہی ہے کہ آخر ایک کریمنل بیک گراونڈ کے حامل شخص کویوں ولیمہ کے پنڈال میں داخل ہونے اورپھر اپنے مذموم مقصد کو حاصل کرنے کیلئے آخرکہیں سے تو سہولت کاری ملی ہے؟ کو ئی کاریگر تو اس کی پشت پر ہوگا؟ ادھر یہ بھی اطلاعات ہیں کہ وزیراعلی سردار عثمان بزدار کی سیکورٹی بلیو بک کے مطابق نہیں تھی، جوکہ اب کرنے کا فیصلہ گیا ہے؟ یہ بھی بہت سارے سوالات کو جنم دیتاہے کہ آخر پنجاب کے وزیراعلیٰ کو یوں ان حالات میں بلیوبک کی سیکورٹی کے بغیر لے کر جایاجاتارہاہے؟ مان لیا وزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدار عاجزی اور انکساری سے کام لیتے ہیں لیکن ان کی سیکورٹی کو یقینی بنانا سیکورٹی اداروں کی پہلی اور آخری ذمہ داری بنتی ہے۔ یہاں یہ بھی عرض کرتاچلوں کہ اگر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو اس بات پر مطمئن کیا جارہاہے کہ کھوکھر برادران کے ولیمہ میں وہ ہد ف نہیں تھے تو زیادتی ہے؟ اس لیے تحقیقات کو تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر کیاجائے، بصورت دیگر قاتل کے سہولت کار باآسانی بچ جائینگے جوکہ اگلے خطرے کو جنم دیں گے۔جس کی متحمل یہ قوم نہیں ہوسکتی ہے۔
اورایک تکلیف دہ واقعہ مظفرگڑھ میں سابق رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کے بڑے بھائی مشتاق دستی کے قتل کی صورتحال میں ہواہے۔جمشید دستی کے ساتھ بڑے بھائی کی تعزیت بھی کرتاہوں (ساتھ توقع کرتاہوں کہ جمشید دستی کے بھائی کے قاتل کے سہولت کار بھی پولیس ٹریس کرے گی)۔لیکن اس کے ساتھ مظفرگڑھ پر بھی بات کرنا چاہتاہوں۔ مظفرگڑھ پنجاب بالخصوص تھل کا ایک ایسا ضلع ہے جوکہ پسماندگی کی دلدل میں ایک مدت سے کھڑا ہے۔ اس بات کے باوجود کہ مشتاق گورمانی سے لے کر مصطفی کھر اور پھر نوابزادہ نصراللہ خان تک قومی سیاست میں طاقت ور رہے، اور حکمران بھی رہے۔اسی طرح مظفرگڑھ کے عوام نے اقتدار تک جتوئی،قریشی، دستی اور ہنجراسمیت وغیرہ وغیرہ کوبھی پہنچایا لیکن مظفرگڑھ کے لوگوں کی قسمت نہ بدلی تھی اور نہ بدلی ہے۔ مظفرگڑھ تو لاہور چھوڑیں، اپنے اردگرد کے اضلاع ملتان، بہاول پور اور ڈیرہ غازی خان سے بھی ترقی کے سفر میں کہیں پیچھے دور کھڑا ہے۔مطلب نواب مظفر خان کا مظفرگڑھ لاوارث کے طورپر دن پورے کررہاہے۔ مظفرگڑھ کیلئے تخت لاہور اور اسلام آباد کوئی بڑا پیکج دینے پر تیار نہیں ہے؟ مظفرگڑھ میں خوشحالی صرف ان خاندانوں کے گرد گھوم رہی ہے جوکہ اقتدار میں آجارہے ہیں۔ادھر مظفرگڑھ کے عوام کو اگر پنجاب کے دیگر اضلاع پر فوقیت ہے تو وہ تھانوں کی برسات ہے مطلب آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ مظفرگڑھ میں اس وقت 22 پولیس اسٹیشن ہیں۔ادھر قومی اسمبلی کی 6 سیٹیں ہیں جبکہ صوبائی اسمبلی کی تعداد بارہ ہے۔اورتحصیلوں کی تعداد پانچ ہوچکی ہے لیکن اس کے ساتھ تخت لاہور اور تخت اسلام آباد کی محبتوں کا یہ عالم ہے کہ مظفرگڑھ میں قیام پاکستان کو 73سال ہونے کے باوجود ایک بھی یونیورسٹی نہیں ہے (اگر بن گئی ہے تو تاریخ بتادی جائے تاکہ سند رہے)اسی طرح مظفرگڑھ کے پاس ٹیچنگ ہسپتال سے لے کر میڈیکل کالج تک نہیں ہے،وویمن یونیورسٹی نہیں ہے۔سڑکوں کی حالات دیکھیں تو قیامت کا نظارہ ہوجاتاہے۔ مظفرگڑھ کی آبادی کے تناسب سے مظفرگڑھ میں نیا ضلع بنانے کی طرف بھی تخت لاہور کا دھیان نہیں ہے۔ حکومت کی پالیسی اس بات کی چغلی کرتی ہے کہ مظفرگڑھ کی عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح پانچ تحصیلوں میں جینے پر مجبور کیا گیا ہے۔ تحصیلوں کا اپنے ضلعی ہیڈکوارٹر سے فاصلہ گھنٹوں کا ہے۔ اور بنیادی سہولتیں تک نہیں ہیں۔ جیسے میں نے عرض کیا کہ مظفرگڑھ میں تھانوں کی تعداد 22 ہونے کی وجہ یقینا جرائم ہونگے۔ اورہمارے خیال میں بڑھتے ہوئے جرائم کو روکنے کیلئے صرف تھانے بنانا کافی نہیں ہیں۔ ہرسطح پر اقدامات کی ضرورت ہوگی۔ لوگ قانون کو ہاتھ میں کیوں لے رہے ہیں؟ اس کی وجہ کیا ہے؟اس بارے میں سوچنا ہوگا؟آخر پر کھوکھر برادران اور جمشید دستی سے جاں بحق ہونے والے بھائیوں کی وفات پر تعزت کرتا ہوں۔ پروردگار سے مرحومین کے درجات کی بلندی کیلئے دعاگو ہوں۔
(کالم نگاراسلام آباد کے صحافی اورتجزیہ کار ہیں)
٭……٭……٭

صحافت کی تطہیر کا ارتقائی عمل

میڈیا کی بہت ساری خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ جب کوئی پارٹی اپوزیشن میں ہو اسے یہ بہت پیارا لگتا ہے لیکن جونہی وہ پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو اسے سب سے زیادہ جھنجھلاہٹ اور چڑ اسی میڈیا سے ہو جاتی ہے۔ وہ میڈیا جو تکلیف و آزمائش کے دنوں میں پیارا اور راج دلارا ہوتا ہے، طاقت اور اقتدار آتے ہی وہ غیر ذمہ دار اور قابل اصلاح سمجھا جانے لگتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف جو خود بھی اقرار کرتی ہے کہ اس کے برسر اقتدار آنے میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ ایک بڑی وجہ میڈیا کا بھر پور ساتھ دینا تھا۔ لیکن کیا کیجئے کہ صرف 3 سال بعد ہی اسے اپنا مخالف سمجھنے لگی اور اس کی سمت درست کرنے کی باتیں ہی نہیں بلکہ عملی اقدامات ہو رہے ہیں۔پہلے پنجاب اسمبلی میں ارکان اسمبلی کا استحقاق بل لایا گیا جسے تمام حکومتی و اپوزیشن پارٹیوں نے اپنے تمام تر اختلافات بھلا کر منظور کر لیا۔ یہ واحد موقع تھا کہ جب حکومت کو کرپشن کے خلاف اپنا اصولی موقف یاد رہا نا پیپلزپارٹی کو جمہوریت یاد آئی۔ مسلم لیگ ن جو عمران خان پر نریندر مودی کو ترجیح دینے سے نہیں کتراتی ”ووٹ کو عزت دو“کا نعرہ بھی فراموش کرکے اسی حکومت کے ساتھ جا بیٹھی جسے آج تک وہ تسلیم نہیں کرتی۔ بقول علامہ اقبال میڈیا کے خلاف
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
صحافیوں کے شور مچانے اور گورنر کے دستخط نا کرنے کے باوجود اس طفل تسلی کے ساتھ بل دوبارہ منظور کر لیا گیا کہ یہ قانون میڈیا کے خلاف استعمال نہیں ہوگا۔
ابھی پنجاب اسمبلی کا شور تھما نہیں تھا کہ وفاقی حکومت باقاعدہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس (پی ایم ڈی اے)کے نام سے نئی تلوار ہی نہیں پورا بم لے آئی ہے جسے پاکستان بھر کی تمام میڈیا تنظیموں نے بیک زبان مسترد کر دیا ہے۔ ویسے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے مروت میں اس کا نام پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی رکھا ہے حالانکہ یہ سیدھی سادی پاکستان میڈیا کنٹرول اتھارٹی(پی ایم سی اے)ہے۔
اس سے پہلے کہ اس مجوزہ اتھارٹی بارے مزید کچھ کہا جائے صحافیوں کی اپنی اخلاقی حالت کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے۔ برصغیر میں پہلا اردو اخبار 1830 کے بعد سامنے آیا۔ اس طرح پرنٹ میڈیا کی 3 صدیاں مکمل ہونے کے قریب ہیں۔ پاکستان میں اگرچہ ٹیلی ویژن کا آغاز 26 نومبر 1964 سے ہوا تاہم گزشتہ صدی کے اختتام تک صرف سرکاری ٹی وی کا راج رہا۔ملک میں الیکٹرانک میڈیا کا اصل دور رواں صدی کے ساتھ شروع ہوا……اور افسوس کہ صرف ڈیڑھ عشرے میں عروج پا کر واپسی کا سفر بھی شروع ہو گیا۔ آج صرف 20 سال بعد الیکٹرانک میڈیا پر غلبہ ٹیلی ویژن کا نہیں بلکہ سوشل میڈیا کا ہے۔2021 میں اس وقت کے حاکم جنرل پرویز مشرف نے ٹی وی چینلز کو دھڑادھڑ لائسینس دینے شروع کئے تو سوال پیدا ہوا ٹیلی ویژن کے اس وسیع تر کردار کے بعد کیا اخبار زندہ رہے گا؟ آج ٹی وی کا سورج ڈھلنے پر بھی اخبار زندہ ہے لیکن سوشل میڈیا کی چکا چوند میں جکڑے ٹی وی بارے سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا ٹی وی زندہ رہے گا؟ میرے خیال میں اخبار ختم ہوا نہ ٹی وی کہیں جا رہا ہے البتہ فطرتی ارتقائی عمل کے تحت انداز ضرور تبدیل ہو رہے ہیں۔بقول اقبال
زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا راگ ہے ساز بدلے گئے
ٹی وی اور اخبار نے جس قدر جلد اور جتنے بہتر انداز میں خود کو نئی ضروریات کے مطابق ڈھال لیا، اسی قدر مقبولیت اور آب و تاب کے ساتھ یہ میڈم زندہ و جاوید رہیں گے۔
پاکستان میں جب ٹی وی چینلز کو عروج ملا تو اخبارات سے صحافی جوق در جوق ٹی وی کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ اخبارات میں جو تنخواہیں ہزاروں میں لیتے تھے وہ ٹی وی میں لاکھوں روپے لینے لگے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ یہ تاثر ابھارا گیا کہ ملک کے بڑے صحافی جس کی چاہیں حکومت گرا سکتے ہیں اور جسے چاہیں حکومت میں لا سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ یہ عروج مختصر ہی رہا۔ بقول اختر ضیائی
اس کو منزل ملی نہ گھر ہی رہا
تم سے بچھڑا تو دربدر ہی رہا
زیست صد جشن آرزو ہی رہی
یہ فسانہ بھی مختصر ہی رہا
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف جب بار بار یہ کہتے ہیں کہ اس حکومت کو جتنی سازگار فضا دی گئی تاریخ میں کسی کو نہیں ملی تو ان کا اشارہ مخصوص سمت کے ساتھ ساتھ میڈیا کی طرف بھی ہوتا ہے کیونکہ پاکستان میں میڈیا کبھی اتنا کم خطرناک نہیں رہا جتنا آج ہے۔ بڑے بڑے صحافی اور اینکر پرسن اپنی پسندیدہ سیاسی جماعتوں اور مکاتب فکر کو پیارے ہو چکے۔ مخالف صحافی دن رات حکومت کے لتے لینے میں لگے ہیں جبکہ حکومت کے پیارے حکمرانوں کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملانے میں مصروف ہیں لیکن عوام پر ان کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ بقول میر تقی میر
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی
اس بے توقیری میں حادثات زمانہ کے ساتھ ساتھ صحافیوں کا اپنا رویہ بھی شامل ہے۔ ضروری تھا کہ وکلا اور ججز کے احتساب کیلئے بنائے گئے اداروں کی طرز پر صحافیوں اور میڈیا کے بھی ادارے موجود ہوتے جن کی باگ ڈور حکومت کے بجائے صحافیوں کے اپنے ہاتھوں میں ہوتی۔ کالی بھیڑوں کے گرد خود شکنجہ سخت کیا جاتا، اس طرح صحافیوں کو اپنی مونچھیں کسی اور کے ہاتھ میں دینے کی نوبت ہی نہ آتی۔ لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا۔اب عالم یہ ہے کہ صحافت کے وہ بڑے بڑے نام جو میر تقی میر کے انداز میں کہا کرتے تھے
سارے عالم پر ہوں میں چھا یا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
وہ جغادری جن کی ٹی وی چینلز پر مراعات ملینز روپے ماہانہ ہوتی تھیں بیروزگاری سے تنگ آکر سوشل میڈیا میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ یو ٹیوب، فیس بک پر اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی دکانیں بنا کر سنسنی خیزی، غلط بیانی، فریب، جھوٹ، بہتان تراشی سمیت ہر وہ چیز بیچ رہے ہیں جن کے خریدار ان کو میسر ہیں۔خود احتسابی کے فقدان کے باعث سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ بڑی ڈھٹائی سے پیاروں کے کرتوتوں پر پردے ڈالے جبکہ مخالفین کے کھاتوں میں ناکردہ گناہ بھی لکھے جا رہے ہیں۔ ایسے میں نہیں لگتا سوشل میڈیا اپنے عروج کا ایک عشرہ ہی پورا کر سکے۔آج ضروری ہو گیا ہے کہ اہل صحافت اپنے طرز عمل کا خود جائزہ لیں تاکہ ریاست کے اس اہم ستون کی ساکھ برباد ہونے سے بچائی جا سکے۔ دوسری طرف حکومت بھی میڈیا کو اپنے زیر نگیں لانے کی خواہش ترک کر دیااور صحافت کی تطہیر کا عمل اپنے ارتقا کی طرف جانے دے نہ یہ صرف ملک اور جمہوریت ہی نہیں بلکہ حکومت کے لئے بھی بہتر ہوگا۔
(کالم نگار قومی و سیاسی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

استعفیٰ دیکر ملک نہ چھوڑتا تو خونی سیلاب آتا ، ملک کو تباہی سے بچایا ، اشرف غنی

تاجکستان: سابق افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ کابل کے لاکھوں افراد کو خوں ریزی سے بچانے کے لیے افغانستان چھوڑا کیوں کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں تصادم ہوتا، طالبان نے اسلحہ کے بل پر فتح حاصل کرلی لیکن وہ دلوں کو فتح نہیں کرسکے۔

یہ بات انہوں ںے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر پوسٹ میں کہی۔ انہوں ںے اپنا یہ بیان فیس بک اکاؤنٹ پر عین اسی لمحے پوسٹ کیا جب طالبان کابل میں ان کے اپنے صدارتی محل میں داخل ہورہے تھے۔

ملک چھوڑنے کے بعد اپنے پہلے بیان میں اشرف غنی نے یہ بھی کہا ہے کہ’ طالبان تلوار اور بندوقوں کے بل پر فتح حاصل کرچکے ہیں لیکن وہ دلوں کو فتح نہیں کرسکے، اب وہ ملک کے باشندوں کی عزت اور جان کے تحفظ کے ذمے دار ہیں۔‘
سابق افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ انہوں نے کابل کے لاکھوں افراد کو خوں ریزی سے بچانے کے لیے یہ قدم اٹھایا کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں تصادم ہوتا۔

اشرف غنی نے مزید کہا کہ ’تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ غیر نمائندہ قوتوں کو تمام اختیارات دیئے جائیں، اب طالبان کو ثابت کرنا ہے کہ وہ تمام لوگوں، قومیتوں، طبقات اور افغان بہنوں اور بیٹیوں کا تحفظ کریں گے تاکہ لوگوں کے دلوں کو فتح کرسکیں‘۔

واضح رہے کہ اشرف غنی نے طالبان کی تیز رفتار پیش رفت کو دیکھتے ہوئے آج ملک چھوڑ دیا تھا۔ قریبی ذرائع کے مطابق ان کا انخلا باقاعدہ مذاکرات کے نتیجے میں ممکن ہوا ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق اشرف غنی اس وقت تاجکستان میں موجود ہیں۔

پاکستان افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریگا: شاہ محمود قریشی

ملتان (خبرنگار) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغان جو بھی فیصلہ کریں گے ہمیں قبول ہو گا جبکہ وزیر اعظم نے آج قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بھی طلب کر لیا ہے ۔وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغانستان میں پاکستان کاکوئی فیورٹ نہیں۔ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے ، افغانستان کے مستقبل کافیصلہ افغانوں نے کرناہے افغان جوبھی فیصلہ کریں گے وہ ہمیں قبول ہوگا،افغان قیادت کوبڑے پن کامظاہرہ کرناچاہیے اورمل بیٹھ کریہ مسئلہ حل کرناچاہیے ۔

افغان مسئلہ کا حل عسکریت نہیں صرف اور صرف مذاکرات ہیں۔ اس وقت کوئی افغان مہاجر پاکستان نہیں آرہا بلکہ افغان عوام امن چاہتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ہم اپنے گھرو ں میں محفوظ رہیں۔ بھارت اس مسئلہ کو الجھانے کی بجائے سلجھانے کی کوشش کرے ۔ رضا ہال میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا پاکستان پہلے دن سے ہی افغانستان میں امن کیلئے کوشاں ہے اور وزیراعظم کے اس وژن کو پوری دنیا نے تسلیم کیا کہ افغانستان میں امن کا قیام ضروری ہے ۔

 افغانستا ن کی موجودہ بدلتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر میں عاشورہ محرم کے بعد چین ایران تاجکستان سمیت افغانستان کے ہمسایہ ممالک سے رابطہ کرونگا۔ انہو ں نے کہا کہ پوری دنیا اور پاکستان افغان مسئلہ پر ایک پیج پر ہیں۔ اور سب یہی چاہتے ہیں افغانستان میں امن ہو۔ ہماری پہلے دن سے خواہش رہی ہے کہ افغان مسئلہ کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے اس کے لئے پاکستان نے بھر پور کوششیں کیں۔وزیر خارجہ نے کہا پوری دنیا کو افغان مسئلہ کی سنجیدگی کا احساس ہے ۔ اور پاکستان اس مسئلہ پر پہلے دن سے اپنا کردار ادا کررہا ہے ۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحد پر ریگولیٹری سسٹم اور جدید ٹیکنالوجی نصب کردی ہے ۔ انہو ں نے کہا افغان مسئلہ پر ڈس انفارمیشن اور بھارتی میڈیا کے پروپیگنڈہ پر توجہ نہ دی جائے ۔ کیونکہ اس سے صورتحال متاثر ہوسکتی ہے ۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افغانستان کی صورتحال کیونکہ لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہو رہی ہے اسی لئے اس پر محتاط طریقے سے بات چیت جاری ہے ۔ پاکستان نے افغانستان کے امن کیلئے ہمیشہ مثالی کردار ادا کیا۔ پاکستان نے ہزاروں افغانیوں کو اپنے ہاں پناہ دی اور ہمیں اب بھی توقع ہے کہ افغانستان میں نہ صرف امن قائم ہوگا بلکہ وہاں کے عوام اپنے گھرو ں میں خوشحال زندگی بسر کرسکیں گے ۔ یہ افغانستان کے مستقبل اور افغان قیادت کی آزمائش کے لمحات ہیں۔ افغانستان کے عوام چاہتے ہیں کہ انہیں کسی بھی طرح نقل مکانی نہ کرنی پڑے ۔ ان کے بچے انہیں کے تعلیمی ادارو ں میں تعلیم حاصل کریں۔ ان کے بازار کھلے ہوں اور انہیں ان کے حقوق ملیں۔ اس سلسلے میں ان کا کہنا تھا کہ افغان امن عمل کے حوالے سے دوحہ، ٹرائیکا پلس، استنبول سمیت تمام فورمز پر پاکستان نے بھرپور حصہ ڈالا۔افغانستان کے ہمسائیہ ممالک میں عاشورہ کے بعد دورے شروع کروں گا۔افغانستان میں امن و خوشحالی اور ترقی ہمارا ایجنڈا ہے ۔ افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے لمحہ بہ لمحہ تبدیلی آ رہی ہے ۔ ہمیں ذمہ دارانہ انداز میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ پاکستان کا افغانستان میں کوئی فیورٹ نہیں ہے ۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان کا سفارتخانہ افغانستان میں کام کر رہا ہے ۔ پاکستان افغانستان میں پھنسے تمام افراد کو نکالنے کے لئے مدد کی پیشکش کر چکا ہے ۔ ایسا سیٹ اپ جس میں امن کا فروغ ہو اسکی کوششیں جاری ہیں۔ پاکستان کا کام بین الاقوامی سوچ میں رہتے ہوئے امن کو قائم کروایا جائے ۔دنیا کو افغان مسئلہ کی سنگینی کا اندازہ ہے ۔ بھارت معاملات بگاڑنے کی بجائے تعمیری کردار ادا کرے تو یہ بہتر ہوگا۔ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغانوں نے کرنا ہے ۔ادھر افغانستان کی صورتحال پر وزیراعظم عمران خان نے اعلیٰ سطح کی مشاورت کا فیصلہ کر لیا ۔ اس اہم معاملے پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس آج 16 اگست کو ہو گا اجلاس میں خطے خصوصاً افغانستان کی صورتحال پر غور کیا جائے گا۔ اجلاس میں سول اور عسکری قیادت شرکت کرے گی۔ادھر برطانوی وزیر خارجہ نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے خدشات کااظہار کیا، برطانوی وزیر خارجہ اور شاہ محمود کا طالبان کو تشدد سے روکنے اور انسانی حقوق کی حفاظت یقینی بنانے پر اتفاق ہوا ۔دونوں وزرائے خارجہ نے افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال پر بات کی،شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن واستحکام کی واپسی کا پاکستان سے زیادہ کوئی ملک خواہاں نہیں ہوسکتا، افغان فریقین کے بے لچک رویوں سے موجودہ صورتحال پیدا ہوئی،طالبان کے مقابلے میں افغان سکیورٹی فورسز ریت کی دیوار ثابت ہوئیں جس پر عالمی برادری حیران ہے ، صورتحال پر ہماری مسلسل نگاہ ہے ،شاہ محمود قریشی کا برطانوی وزیرخارجہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ افغان رہنما امن اورمفاہمتی عمل کے لئے عالمی برادری کی واضح حمایت کا فائدہ اٹھائیں،مذاکرات کے ذریعے پرامن تصفیہ کے سوا آگے بڑھنے کاکوئی راستہ نہیں، افغانستان میں خانہ جنگی کا ایک نیا دور شروع ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے ،افغانستان میں خانہ جنگی کے ہمسایہ ممالک کے لئے نہایت منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے ،ان کا کہنا تھا سفر سے متعلق ریڈ لسٹ سے بھارت کا نام نکالنے کے برطانوی فیصلے پر حکومت پاکستان کو تشویش ہے ۔ادھر افغانستان میں غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر پاک افغان بارڈر کو سیل کر دیا گیا، سکیورٹی حکام ہائی الرٹ ہیں۔افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی جاری ہے ، اطلاعات کے مطابق پاک افغان بارڈر کو سیل کردیا گیا۔طورخم بارڈر پر پاکستان نے پہلے ہی 6 گیٹس بند کر دیئے تھے ۔ طورخم بارڈر ہر قسم کی آمدورفت اور مال بردار گاڑیوں کیلئے بند کر دیا گیا۔ پاکستانی سکیورٹی حکام ہائی الرٹ ہیں، گیٹ کے دوسری جانب طالبان موجود ہیں۔

میسی کے آنسو والا ٹشو پیپرفروخت کیلیے پیش، قیمت جان کر دنگ رہ جائیں گے

بارسلونا فٹ بال کلب کی الوداعی  پریس کانفرنس میں آنسو پونچھنے کیلئے لیونل میسی کا استعمال شدہ ٹشو  پیپر 1 ملین ڈالر( 16کروڑ پاکستانی روپے سے زائد)  میں فروخت ہونے کیلئے تیار ہے۔

ارجنٹائن کے  اسٹار فٹبالر لیونل میسی نے کچھ روز قبل ایک پریس کانفرنس میں مشہور ہسپانوی فٹبال کلب بارسلونا کو الوداع کہنے کا اعلان کیا تھا۔

کانفرنس میں جب میسی نے بارسلونا کے ساتھ اپنے 21 سال کے سفر کے اختتام کا اعلان کیا تو وہ آبدیدہ ہوگئے اور جیسے  ہی میسی کی اہلیہ  نے اپنے شوہرکی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو انہوں نے میسی کو ایک ٹشو پیپر دیا جس سے میسی نے آنسو صاف کیے اور پھینک دیا۔

تاہم پھینکا گیا ٹشو پیپر کوئی اٹھا لےگا اور اسے بیچنےکا اشتہار بھی لگا دے گا یہی کسی نے نہیں سوچا بھی نہیں ہوگا۔

طالبان پورے افغانستان پر قابض، مللا عبد الغنی برادر عبوری صدر نامزد

امریکہ، برطانیہ، فرانس کے سفارت خانے بند،  سفارتی عملہ واپس،  امریکی پرچم اتار دیئے گئے، افغان  طالبان  نے پل چرخی اور بگرام جیلوں کا کنٹرول لیے حکومتی عہدیداروں اور فورسز کو جلال آباد سے نکلنے کا محفوظ راستہ دیدیا۔

عبداللہ عبداللہ نے کابل میں امن کیلئے وقت مانگ لیا۔نائب صدر امراللہ صالح بھی تاجکستان فرار،عبوری وزیراعظم کے لیے احمد علی جلال کے نام پر غور ، منتقلی کیلئے صدراتی محل میں داخل ،عوام گھروں میں محصور۔

کابل(نیوز ایجنسیاں) ترجمان طالبان سہیل شاھین نے کہا ہے کہ سب کو دعوت دیتے ہیں،آہیں ملکر افغانستان کی خدمت کریں،ہم افغان اور دیگر لوگوں کیلئے عام معافی کا اعلان کر چکے ہیں،

اپنے بیان میں ترجمان طالبان نے کہا کہ ان کو خوش آمدید کہیں گے جو بد عنوان کابل انتظامیہ کے خلاف ہیں، جنہوں نے دخل اندازوں کی مدد کی،ان کیلئے بہی دروازے کھلے ہی

ترجمان طالبان نے کہا کہ جنگ کے زریعے کابل میں داخل ھونے کا ارادہ نھیں، جنگ بندی کا اعلان نھیں کیا لیکن کوئی جانی نقصان نہیں چاہتے۔
کسی سے انتقام لینے کا ارادہ نہیں۔

بجلی تقسیم کارکنوں کا کرنٹ الیکٹرک کا نقصان صارفین پر منتقل

بجلی چوری کرانے والے افسران کے خلاف کارروائی کاغذوں تک محدود لائن لاسز اور بجلی چوری میں ملتان الیکٹرک پاور کپمنی پہلے نمبر پر آئ۔

پشاور، سکھر ، حیدرآباد، کوئٹہ کی پاور سپلائی کمپنیوں نے صارفین پر اضافی بوجھ ڈالا

گیپکو بجلی چوری شرح 10.58فیصد فیسکو میں بجلی چوری شرح 9.8 فیصد رہی۔
بجلی چوری روکنے کیلیے کوئ اقدامات نہ ہو سکے: نیپرا نے رپورٹ جاری کردی

پہلی سے پانچویں تک یکساں نصاب کل سے نافذ العمل ہوگا، شفقت محمود

وفاقی وزیر برائے تعلیم و فنی تربیت شفقت محمود نے کہا ہے کہ پہلی سے پانچویں تک یکساں نصاب کل سے نافذ العمل ہوگا۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شفقت محمود کا کہنا تھاکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ یکساں نصاب لایا گیا ہے، پہلی سے پانچویں تک ملک بھر کے تعلیمی اداروں کیلئے یکساں نصاب ہے۔

ان کا کہنا تھاکہ پنجاب، خیبر پختونخوا، گلگت، آزاد کشمیر اور بلوچستان میں کل سے یکساں تعلیمی نصاب کا آغاز کر دیا جائے گا ، یہ ایسا نصاب ہوگا جو تمام اسکولز اور مدارس میں یکساں طور پر نافذ ہوگا۔

شفقت محمود کا کہنا تھاکہ یکساں نصاب تعلیم ہمارے منشور کا حصہ ہے اور کل وزیراعظم یکساں تعلیمی نصاب کی باقاعدہ لانچنگ کریں گے۔

امریکہ کی کابل سے پسپائی ویت نام کی یاد تازہ

طالبان کی جانب سے کابل کے گھیراؤ کے بعد امریکی سفارتخانے سے عملے اور شہریوں کا انخلاء بھی تیزھوگیا۔ہیلی کاپٹروں سے امریکی شہریوں کو نکالا گیا۔

1975 میں امریکہ کی شکست کے بعد ویتنام سے بھی اسی طرح امریکی شہریوں کو ہیلی کاپٹروں سے فرار کرایا گیا تھا۔

دونوں تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو رھی ھیں۔
پاکستان وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے بھی تصاویر پوسٹ کی ہیں۔

قابل، مخلص لیڈروں کا سوال ہے دان کر مولا

سلمیٰ اعوان
یہ اگست 2021ہے اور پاکستان نے اپنی چوہترویں سالگرہ منائی۔ اللہ اِسے سدا آباد و شاد رکھے۔ اس کے چہرے سے وہ سیاہی اُتار دے جس نے اسے گہنا دیا ہے۔ یہ دراصل میری عمر کے لوگوں کا وطن ہے جن کا جنم ضرور ہندوستان میں ہوا تھا مگر جنہوں نے ہوش اِس آزاد سرزمین میں آکر سنبھالا۔یہ ہماری ماؤں کا کسی حد تک مگر ہماری نانیوں اوردادیوں کا وطن نہیں تھا کہ ایک آہ ان کے کلیجے سے نکلتی اور تان ہمارے دیس ہندوستان پر ٹوٹتی تھی۔کچھ ان کا بھی دوش نہ تھا۔ وہ جڑی ہوئی تھیں اُس مٹی سے جہاں سے انہیں آنا پڑا تھا اور جس کے بارے انہیں امید تھی کہ یہ رولا غولا تو فقط چند دنوں کا ہی ہے۔جونہی یہ ختم ہوا وہ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گی۔
آزادی کا جشن یہ ملک کیسے مناتا تھا اس کی ہر تصویر میری آنکھوں میں رقصاں ہے۔ایک مدّت تک چودہ اگست میں نے اپنی دادی کے پاس ضلع فیصل آباد کی تحصیل سمندری میں منایا۔گلی گلی کوچہ کوچہ جھنڈیوں سے سج جاتا اور شام کو پورے قصبے میں ملٹری بینڈ کے سپاہی موسیقی کی دھنوں پر مارچ پاسٹ کرتے، کرتب دکھاتے، ٹرمپٹ ز کے لشکارے آنکھوں میں کُھبے جاتے۔بگل کی سنسنی رگ وپے میں دوڑتی چلی جاتی۔اُن کی کلف لگی وردیاں، گردن سے بندھی پشت پر لٹکتی سرخ روپہلی چادریں،کلارنٹ اور بین نما آلہ بجاتے سپاہی اُف کتنے حسین لگتے۔ساری شام ان کے ساتھ گشت کرتے، پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے۔ننگے پاؤں کو نہ دھول مٹی کی پرواہ ہوتی اور نہ وہ روڑے کنکر چبھنے سے خائف ہوتے۔نہ اگست کی گرمی اور حبس ہمیں کچھ کہتا۔
کھیلوں میں حصّہ لینا بے حد ضروری ہوتا۔سکول لیول پر پاکستان ڈے پر پریڈ ہوتی۔ہمارے سکول میں گراؤنڈ نہیں تھی مگر سامنے بوائز کی بڑی گراؤنڈ کو استعمال کیا جاتا۔اچھے بچوں کا چناؤ ہوتا اور وہ ڈسٹرکٹ لیول پر کھیلنے جاتے۔وہاں سے پھر آگے ٹیمیں ڈویژنل لیول پر کھیلتیں۔لفظوں میں بیان کرنا چاہوں تو لفظ تھوڑے پڑ جائیں گے جو ہمارے جوش و خروش اور ہمارے احساس و جذبات کی نمائندگی کرسکیں کہ جب دوسرے شہروں میں جانے کے لیے بسوں میں بیٹھتے۔
بصارتوں میں وسیع و عریض میدان نظر آتے ہیں۔تاحد نظر سفید لقی کبوتریاں مختلف رنگوں کی پٹیاں پہنے بھاگتی پھر رہی ہیں۔ان کے چمکتے چہرے عزم و حوصلہ کے رنگوں سے دمک رہے ہیں۔مہمان خصوصی کی آمد کا اعلان ہورہا ہے۔کِس تمکنت سے بیگم منظور قادر سلامی کے چبوترے پر چڑھتی ہیں۔ یہ وہی منظور قادر ہیں جو کبھی پاکستان کے وزیر خاجہ بھی رہے۔ دو دن کے اِس ٹرپ میں مختلف ضلعوں سے آنے والی لڑکیوں سے ملاقاتیں،دوستیاں، خط لکھنے کے وعدے۔کیسے وہ دن تھے جو جانے کہاں کھو گئے۔
ایک دن جب ملک کے نامور صحافی جناب محمود شام کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے میں نے بڑے اونچے سکولوں میں پڑھنے والے اپنے بچوں کے بچوں کو یہ سب سنایا۔ان کی آنکھوں میں حیرت تھی کہ اِس طرح کی سرگرمیو ں سے وہ کب آشنا تھے؟ اُن کی سکولوں کی عمارتوں میں کھیل کے میدان اتنے بڑے تھے ہی نہیں اور نہ ہی اِن دیسی قسم کی کھیلوں سے انہیں کوئی رغبت تھی۔
میرے موبائل کی سکرین پر ایک منظر جھلملایا تھا۔یہ مری کے سبزہ زاروں پر گرل گائیڈ لڑکیوں کی ایک تصویر تھی۔گائیڈنگ کے مخصوص یونیفارم میں لڑکیوں کا لہک لہک کر وطن کے گیت گانے کو میں نے حیرت اور مسرت سے دیکھا تھا۔ ارے یہ بھولا بھٹکا منظر کہاں سے میری بصارتوں سے آٹکرایا ہے۔بیگم جی اے خان یاد آئی تھیں۔ ذمہ دار اور فرض شناس سربراہ جس کی ہر سوچ اور عمل کا منتہائے مقصود اس ملک کی بچیوں کو صحت مند سرگرمیوں کے ساتھ پروان چڑھانا تھا۔پورے پاکستان میں نوجوان نسل کے لیے گرل گائیڈنگ اور بوائے سکاؤٹنگ جیسی سرگرمیاں لازم تھیں۔
آج اگر اِن جذبات و احساسات کا تجزیہ کروں کہ جب ہم جیسے غریب گھروں کی بچیاں گھروں سے کیمپنگ کے لیے نکلتی تھیں تو خوشی و مسرت اور تھرل کِس انتہا پر ہوتا تھا۔ ایک جوش، ایک عزم کچھ دیکھنے،کچھ دریافت کرنے،کچھ جاننے خود کو منوانے کا۔
ہم نے ٹاٹوں پر بیٹھ کر پڑھا۔چھٹی جماعت سے انگریزی شروع ہوئی۔اماں ابّا دونوں ان پڑھ۔چھٹی میں داخلہ لیٹ ہوا۔اے بی سی سیکھنے کا وقت نکل گیا۔لکھنا نہیں آتا تھا۔روز مارپڑتی۔پھر تفریح کے پریڈ میں کتاب کو دیکھ دیکھ کر کاپی پر لکھتی جاتی۔مار سے بچنے کے لیے۔ بس یوں لکھنا آگیا۔ نہ ہمیں ایگو ہرٹ ہونے کا پتہ تھا۔ نہ ہمارے ماں باپ کو ہماری شخصیت کے مجروح ہونے کا کوئی ڈر تھا۔کہاں گئیں وہ سب صحت مند باتیں اور سرگرمیاں۔
ادارے کیسے تباہیوں کے کنارے پہنچ گئے ہیں۔حرص و ہوس نے لوٹ کھسوٹ مچارکھی ہے۔پورے ملک میں گرلز گائیڈ ز کے لیے مختص وسیع و عریض جگہوں پر لینڈ مافیا قبضہ کرکے بیٹھ گیا ہے۔بلوچستان کی پردہ گروپ ایلیٹ عورتوں نے کیمپ کی جگہ پر اپنا کلب بنا لیا ہے۔پنڈی اسلام آباد والی جگہیں بھی بڑے لوگوں کے قبضوں میں ہیں۔کچھ ایسا ہی حال باقی شہروں کا بھی ہے۔
مجھے یاد ہے ایک بارمیں نے اپنی نانی سے کہا تھا۔ ماں جی آپ ساڈا دیس والا نغمہ جو اٹھتے بیٹھتے آپ کے لبوں سے آہوں کی صورت نکلتا ہے۔ ہمیں سنانابند کردیں۔ یہ میرا ملک اگر نہ بنتا تو آج میں اتنی پڑھی لکھی اور اعتماد سے بھری ہوئی ہوتی جیسی اب ہوں۔آپ کے دیس جالندھر کے اس سمی پور گاؤں میں گائے بھینسوں کے گوبر تھاپ رہی ہوتی یا پانچ چھ جماعتیں پڑھ کر چولہے چوکوں کی لپائیاں کررہی ہوتی۔یہ ہمارا دیس ہے۔اِس کی خیر اور سلامتی مانگا کریں۔پر میرے دیس کا حشر نشر کردیا ہے خود غرضیوں نے۔پروردگار مجھے گلہ ہے تجھ سے۔کیا تھا چند مخلص اور قابل بندے دان کردیتا ہمیں بھی۔
(کالم نگار معروف سفرنگار اورناول نگار ہیں)
٭……٭……٭