کابل: طالبان کے وزیر خارجہ نے افغان مہاجرین اور بڑھتے ہوئے معاشی بحران پر بات کرنے کے لیے ہفتے کے روز ایران کا دورہ کیا۔
طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد ہمسایہ ملک کا یہ اس طرح کا پہلا دورہ ہے۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق دیگر اقوام کی طرح ایران نے بھی اگست میں امریکی قیادت میں غیر ملکی افواج کے عجلت میں انخلا کے بعد اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان کی جانب سے تشکیل دی گئی نئی حکومت کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا ہے۔
طالبان کی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’اس دورے کا مقصد افغانستان اور ایران کے درمیان سیاسی، اقتصادی، راہداری اور پناہ گزینوں کے مسائل پر بات چیت کرنا ہے‘۔
پہلے ہی لاکھوں افغانوں کی میزبانی کرنے والے تہران نے نئی آمد کے خدشے کے پیشِ طالبان کے ساتھ تعلقات کا خاکہ تیار کرنے کی کوشش کی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ وزیر خارجہ امیر خان متقی کی قیادت میں طالبان کے وفد نے ایرانی حکام کے ساتھ ابتدائی ملاقات کی۔
ایران، کی افغانستان کے ساتھ 900 کلومیٹر طویل سرحد ہے اور اس نے 1996 سے 2001 تک کے اقتدار کے دوران بھی طالبان کی حکمرانی کو تسلیم نہیں کیا تھا۔
اسی طرح اس کی جانب سے ابھی تک طالبان کی موجودہ حکومت کو بھی تسلیم نہیں کیا گیا اور اس بات پر اصرار ہے کہ طالبان ایک جامع انتظامیہ تشکیل دیں۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے اس ہفتے کے اوائل میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ ’اس وقت ہم بنیادی طور پر طالبان کو تسلیم کرنے کے مقام پر نہیں ہیں‘۔
خیال رہے کہ طالبان نے ایک مردانہ کابینہ تشکیل دی ہے جو کہ مکمل طور پر ان کے اپنے اراکین پر مشتمل ہے اور تقریباً تمام ہی نسلی پشتونوں پر مشتمل ہے۔
علاوہ ازیں انہوں نے خواتین کے کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کے حقوق کو مزید محدود کر دیا ہے جس کی بین الاقوامی سطح پر بڑے پیمانے پر مذمت کی جاچکی ہے۔