عابد کمالوی
سیاسی سرگرمیوں کی جگالی بہت ہو چکی اور گزشتہ تقریباً 74سالوں کے دوران ہم نے سیاست کے نتیجے میں کیا کیا دُکھ اٹھائے، قوم کو کن مشکل مراحل سے گزرنا پڑا، کتنے حادثے اور سانحات غلط سیاسی فیصلوں کی وجہ سے تاریخ پاکستان کا حصہ بنے ایک طویل داستان ہے۔ اس لیے اب ہمارے تجزیہ نگاروں، کالم نویسوں، تاریخ دانوں، شاعروں اور ادیبوں کو وہ کچھ لکھنا چاہیے جو پاکستان کے 22 کروڑ سے زائد عوام کو ایک قوم بنانے میں معاون ومددگار ثابت ہو سکے۔ مجھے دُکھ ہوتا ہے یہ دیکھ کر جب پاکستان کی قومی اسمبلی میں سیاستدان دست وگریبان ہوتے ہیں اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر سپیکر ڈائس اور دوسرے ممبران پر اچھال دیتے ہیں، گالیاں دی جاتی ہیں۔ بالآخر ایوان مچھلی منڈی بن گیا۔ ایسا کرنے والوں کو شاید یہ علم نہیں کہ جب عام انتخابات ہوتے ہیں تو ان میں پورا ملک ہل کر رہ جاتا ہے اور قومی خزانے کے اربوں روپے اس پر خرچ ہوتے ہیں۔ اسمبلیوں اور جمہوری نظام پر اٹھنے والے اخراجات الگ ہیں۔ یہ لوگ تو عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے منتخب ہوئے ہیں لیکن اسمبلیوں میں پچھلے اور اب تک کے جمہوری ادوار میں جو کچھ ہوتا رہا اس پر مجھے بہت دُکھ ہوتا ہے۔ مجھے یہ پڑھ کر اور جان کر بھی دُکھ ہوتا ہے جب جنوبی پنجاب یا پاکستان کے کسی گاؤں کا جاگیردار ایک غریب پر اپنی مزدوری مانگنے یا کوئی سوال کرنے پر خونخوار کتے چھوڑ دیتا ہے۔ مجھے دُکھ ہوتا ہے یہ سن کر اور دیکھ کر جب حوا کی ایک بیٹی اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنتی ہے۔ مجھے دُکھ ہوتا ہے یہ جان کر اور پڑھ کر جب کسی خاتون کی میت کو قبر سے نکال کر زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
جب ایک دکاندار اشیائے خورونوش میں ملاوٹ کرکے انہیں شدہ چیزیں پوری قیمت بلکہ زیادہ قیمت وصول کرکے گاہکوں کو دیتا ہے تو مجھے دُکھ ہوتا ہے۔ میں دُکھی ہوجاتا ہوں یہ دیکھ کر جب شاہراہوں پر نوجوان اور اشرافیہ قوانین کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں۔ مجھے دُکھ ہوتا ہے جب بھی غریب کسی عدالت کے باہر یہ دہائی دے رہا ہوتا ہے کہ اس کا مقدمہ پچھلے 20سال سے عدالت میں چل رہا ہے لیکن اسے ابھی تک انصاف نہیں ملا۔ مجھے اس وقت بھی بہت تکلیف ہوتی ہے جب کسی تھانے میں ایک بے اثر اور عام شہری اپنی فریاد لیکر جاتا ہے لیکن اکثر اسے مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مجھے بہت کوفت ہوتی ہے اس وقت جب ایک معالج بھاری فیس وصول کرکے مریضوں کا صحیح علاج نہیں کرتا اور بیماری تک نہیں پہنچ پاتا۔ مجھے ذہنی کوفت ہوتی ہے یہ دیکھ کر جب دفاتر میں چھوٹے سے کام کے لیے بھی اہلکار منہ کھول کر رشوت مانگتے ہیں۔ مجھے دُکھ ہوتا ہے اس وقت جب غریب کا ایک بچہ اچھے نمبروں سے ایم اے کرنے کے بعد نوکری کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہوتا ہے لیکن ملازمتیں ان کے حصے میں آتی ہیں جن کے پاس بھاری سفارشی یا بھاری سرمایہ ہوتا ہے۔ مجھے دُکھ ہوتا ہے یہ پڑھ کر جب میرے قبیلے کا ایک فرد جھوٹ لکھتا ہے اور پیسے لیکر کسی کی پگڑیاں اچھالتا یا کسی کو وقتی عزت اور تحفظ فراہم کرتا ہے۔ مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے اس واعظ کو دیکھ کر جو دین کو قرآن وسنت کے مطابق ہم تک نہیں پہنچاتا۔ ہائے ہائے:
ہمارے قول وعمل میں تضاد کتنا ہے
مگر یہ دل ہے کہ خوش اعتقاد کتنا ہے
میرا دل خون کے آنسو روتا ہے جب مجھے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس دھرتی کا رزق کھانے والے اسی دھرتی کے خلاف سازشیں کرتے اور اسے بد نام کرتے ہیں۔ جھوٹ غیبت اور نمود ونمائش نے کتنے گھروں کا سکون برباد کردیا۔ کتنے شر ہیں جو ہماری ترقی اور خوشحالی کے راستے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ دھاندلی، دھونس، لاٹھی، گولی، آنسو گیس، دھرنے، احتجاج، نعرے، فحاشی وعریانی، گالیاں، سرعام بیٹیوں اور بہنوں کی بے عزتی و بے حرمتی، سوشل میڈیا پر فحاشی اور عریانی کا طوفانِ بدتمیزی، چوریاں ڈکیتیاں، قتل وغارت، چھینا جھپٹی، انسانی ذہنوں اور ایمانوں کو دیمک کی طرح چاٹ گئی ہیں۔
جھوٹ بول کر اپنا مال فروخت کرنے والے تاجر اور ظالم حکمران اللہ کے دُشمن ہیں، یہ میرے نبیؐ کا فرمان ہے لیکن اس کے باوجود یہ طبقات اپنی منفی سرگرمیوں سے باز کیوں نہیں آتے۔ بلیم گیم ہمارے معاشرے میں ایک رسم کی حیثیت اختیار کرچکی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ لڑنے والے دو بھائیوں کے درمیان صلح کون کرائے۔ ثالثی اور پنچایتی کا کردار کون ادا کرے؟ تقریباً سبھی متنازعہ ہوچکے ہیں اور جو دل میں اللہ کا خوف رکھتے ہیں ان کا پتہ ہی نہیں وہ کہاں چھپ گئے۔ ایسے میں اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے اور ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے ایسی جماعت کی تلاش میں نکلتے ہیں جس کے بارے میں ربِِ کائنات نے فرمایا: تم میں سے ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور برائی سے روکے۔
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
(کالم نگار قومی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭