کامران گورائیہ
کم وبیش دنیا کے تقریباً تمام جمہوری ممالک میں منتخب حکمران عوام کو براہ راست جواب دہ ہوتے ہیں اور اس کے لئے مختلف نوعیت کے ذرائع اور میڈیم استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی بہت سے مواقع آئے ہیں جب وزراء اعظم نے عوام سے خطاب کرنے اور ملک کو درپیش معاشی، سیاسی، خارجی اور اقتصادی امور پر قومی اتفاق رائے قائم کرنے کی روایت کو پروان چڑھایا، کئی بار جب حکمرانوں اور عوام کے درمیان خلیج بڑھنے لگتی ہے تو وزیراعظم قومی ٹیلی ویڑن پر آ کر عوام سے براہ راست مخاطب ہوتے اور درپیش چیلنجز، مسائل اور اہداف کے بارے میں آگاہ کرتے رہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے بھی اسی طرز عمل کو قدر جداگانہ انداز میں اپنایا اور عوامی شکایات سے قومی ٹیلی ویڑن پر ہی آگاہی حاصل کی اور شہریوں کے تحفظات جاننے کی کوشش کی لیکن پی ٹی آئی کے گذشتہ ساڑھے تین سالہ دور حکمرانی کے دوران وزیراعظم عمران خان نے کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جس میں اپنے سیاسی مخالفین کو آڑے ہاتھوں لیتے دکھائی نا دیئے ہوں۔ حال ہی میں وزیراعظم عمران خان ایسے ہی ایک عوامی خطاب کے دوران اپنے سیاسی مخالفین کو للکارتے ہوئے کہا کہ ”اگر انہیں اقتدار سے نکالا گیا تو وہ پہلے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے“۔ وزیراعظم عمران خان عوامی رابطہ کے اس قابل ذکر ٹی وی پروگرام کے دوران عوام کو درپیش مشکلات کا ازالہ کرنے کے لئے حکومتی اقدامات سے آگاہ کرنے کی بجائے اپنے سیاسی مخالفین اور نادیدہ قوتوں کے لئے یہ پیغام چھوڑا گیا کہ ”اگر مجھے نکالا گیا تو آنے والے دنوں میں سیاسی محاذ پر میں پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوں گا“۔
وزیراعظم کی گفتگو کے کئی پہلو ہیں لیکن اگر ہم صرف دو پہلوؤں کا جائزہ لیں تو آنے والے دنوں کیا ہوسکتا ہے اور سیاسی محاذ پرآرائی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے تو ہمیں کچھ حقائق جاننے میں آسانی ہوگی۔ وزیراعظم عمران خان کی تقریر کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ بطور وزیراعظم اب تک ناقابل تسخیر رہنے والے عمران خان اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ اب عوام کا غم و غصہ جس نہج پر پہنچ چکا ہے اور اپوزیشن جماعتیں جس طرح حکومت کی ناقص پالیسیوں کو جواز بنا کر ان کے خلاف فیصلہ کن لڑائی کے لئے تیار نظر آ رہی ہیں انہیں دیکھتے ہوئے موجودہ حکومتی سیٹ اپ کی تبدیلی اور گھر جانے کا بظاہر فیصلہ ہو چکا ہے۔ اگر اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آتی ہیں اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہو جاتی ہیں تو پھر عمران خان کو یقینی طور پر گھر جانا پڑے گا۔ وزیراعظم کی تقریر کا دوسرا پہلو زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو مختلف سیاسی اور ملک کی منظم قوتوں کے دباؤ سے نکالنے کے لئے ایک ایسا داؤ کھیلا ہے جس کے نتائج غیر متوقع اور جمہوریت کی بساط لپٹنے کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ اسی لئے بہت سے سینئر اور زیرک سیاستدانوں نے عمران خان کی حالیہ تقریر کو خود ان کے لئے ”خود کش حملہ“ قرار دیا ہے۔ اس حوالہ سے مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کا یہ بیان انتہائی اہم اور معنی خیز ہے جس میں انہوں نے خبردار کیا ہے کہ وزیراعظم کو اپنے مشاورتی بورڈ میں شامل مشکوک افراد کی طرف سے چوکنا رہنا پڑے گا جنہیں وہ بے حد زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
چوہدری شجاعت کا کہنا تھا کہ سیاست میں رہتے ہوئے کسی بھی وزیراعظم کی تقریر میں استعمال کیے گئے الفاظ کا چناؤ انتہائی محتاط انداز سے کیا جاتا ہے لیکن عمران خان ہمیشہ سے جذباتی رہے ہیں وہ بیشتر اوقات اپنے بیانات میں ایسے الفاظ کا استعمال بھی کر جاتے ہیں جو وزیراعظم کے منصب کے شایان شان نہیں ہوتے۔ چوہدری شجاعت حسین ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ عمران خان ان کی رائے کا کس حد تک احترام کرتے ہیں اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن وزیراعظم عمران خان نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں بہت سے ایسے بیانات دیئے ہیں جس پر انہیں بعد ازاں یوٹرن بھی لینا پڑا۔ ملک کی تمام قابل ذکر اور اہمیت کی حامل سیاسی جماعتیں ان ہاؤس تبدیلی لانے پر اتفاق کر چکی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کو آئندہ کے سیاسی منظر نامہ میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے جس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ واحد سیاسی جماعت ہے جو اپنی شرائط پر آئندہ انتخابات کے نتیجے میں اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کی آرزو مند ہے۔
کچھ عرصہ پہلے تک مسلم لیگ ن ان ہاؤس تبدیلی کے حق میں نہیں تھی لیکن اب تو جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن مائنس ون فارمولے پر آمادگی کا اظہار کر چکے ہیں لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں معاملہ محض ”مائنس ون“ سے آگے جائے گا اور قوی امکانات ہیں کہ سال رواں کے اواخر میں عام انتخابات کروا دیئے جائیں اور اکثریت محاصل کرنے والی جماعت کو اقتدار کی باگ ڈور تھما دی جائے۔ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے بیانیہ ”مجھے کیوں نکالا“ کے بعد اب وزیراعظم عمران خان سے یہ جملہ منسوب ہو چکا ہے ”اگر مجھے نکالا گیا“۔ بحرکیف ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے لگام بے روز گاری کا جن قابو میں کرنے کے لئے تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ اور وزیراعظم عمران خان کا لہجہ ناصرف تلخ ہو چکا ہے بلکہ وہ جارحانہ عزائم کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔
ملک کے عوام پہلے ہی سے غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں ایسے میں وزیراعظم عمران خان کی حکومت ہچکولے کھا رہی ہے۔ عوام میں اپوزیشن جماعتوں کی مقبولیت کا گراف بتدریج اوپر کی طرف اور حکمران جماعت پی ٹی آئی کی ساکھ زوال پذیر ہے۔ اپوزیشن جماعتیں مہنگائی مارچ کا اعلان بھی کر چکی ہیں،اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے کیا گیا یہ اعلان حکومت کے لئے درسر بن چکا ہے لیکن اگر مہنگائی مارچ کی نوبت آ ہی گئی تو اسے بھرپور عوامی حمایت حاصل ہونے کی توقع کی جا رہی ہے لیکن اس بات کو جھٹلانا بھی ناممکن ہوگا کہ اپوزیشن جماعتوں کا لانگ مارچ 23 مارچ کو ہوگا جبکہ باشعور طبقات کی جانب سے فروری کے مہینے کو مارچ کی آمد سے پہلے ہی بے بنیاد اہمیت حاصل ہو چکی ہے۔ قومی سیاست میں ہونے والے ممکنہ اکھاڑ پچھاڑ نے بہت سے خدشات بھی کھڑے کر دیئے ہیں کیونکہ ملک میں امن و امان کی صورت بگڑتی جا رہی ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے یقینی طور پر سب سے پہلے سکیورٹی معاملات پر فوکس کریں گے۔
وزیراعظم عمران خان اپنا مؤقف پیش کر چکے ہیں ایسے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ میں پاکستان کے اندر کرپشن میں اضافہ کی نشاندہی کی گئی ہے لیکن حکومتی ترجمانوں کی طرف سے ”میں نا مانوں“جیسے محاورے کے عین مطابق اس رپورٹ کو مالی کرپشن تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا ہے۔ عالمی ادارے کی یہ رپورٹ بھی وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت کے لئے نیک شگون نہیں بلکہ یہ ان کے اس اعلان جنگ کا جواب ہے کہ ”اگر مجھے نکالا گیا تو“ میں کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوں گا۔
(کالم نگارسینئر صحافی ہیں)
٭……٭……٭