وزیر احمد جوگیزئی
پاکستان میں تمام شعبے چاہے وہ تعلیم کے ہوں صحت کے ہوں یا پھر شعبہ عدل ہو جو کہ ہمارے ملک کا بڑا مسئلہ بھی ہے ہم نے کسی بھی شعبہ زندگی میں کوئی مناسب کام نہیں کیا ہے۔یا پھر صحیح طریقے سے کام کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔عوام کیا چاہتے ہیں؟ عوام کی چند بنیادی ضروریات ہو تی ہیں عوام صرف امن اور سکون کی زندگی چاہتے ہیں اور کچھ نہیں اور عوام کو بہتر زندگی کے لیے سہولیات دینا ریاست کا کام ہو تا ہے لیکن ہمارے ملک میں عوام کے بنیادی مطالبات ابھی تک پورے نہیں ہوئے ہیں او ر عوام ابھی تک اپنے بنیادی مطالبات میں ہی الجھے جا رہے ہیں،اور عوام کے مسائل اور حالات میں بہتری آنے کی بجائے ہم ایک تنزلی دیکھتے ہیں۔قومیں کیسے بنتی ہیں کیسے ابھرتی ہیں؟ اس سے تا ریخ بھری پڑی ہوئی ہے۔لیکن ہم ایک قوم بننے کی بجائے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس ملک میں کیا کچھ نہیں ہے؟ سب کچھ موجود ہے سونا اگلتی ہو ئی زمین ہے،وسائل ہیں محنت کش کی محنت میں کوئی کمی نہیں ہے۔
ہمیں ضرورت ہے تو صرف اور صرف ایک بہترین نظام تعلیم کی اور نظام تعلیم جلد بازی میں نہیں بنایا جاسکتا ہے اس کے لیے وقت درکار ہو تا ہے،کسی بھی نظام تعلیم کو بنانے اور موثر کرنے کے لیے 25سال کا عرصہ درکار ہو تا ہے۔ہم ہر سال اپنے نصاب تعلیم اور نظام تعلیم میں تبدیلی کرتے ہیں اور نئے اہدف ہر سال مقرر کیے جاتے ہیں،اس طریقے سے قومیں نہیں بنا کرتی ہیں۔ہماری بطور قوم میری نظر میں سب سے بڑی ناکامی بہود آبادی سے غفلت اور اس میں ناکامی ہے۔اس حوالے سے ہم نے بطور قوم بہت ہی لا پرواہ رویہ اپنائے رکھا ہے جو کہ ہمارے لیے آنے والے دنوں میں مسائل میں اضافے کی وجہ بنتا چلا جائے گا،اور اس مسئلہ کا حل صرف اور صرف ایک بہتر پلاننگ اور اپنی آبادی کو تعلیم دینے میں ہی ہے لیکن ابھی تک تو ہم ان محاذوں پر بُری طرح ناکام ہیں۔
ہم نہ تعلیم دینے میں کامیاب ہیں اور نہ ہی آبادی کو کنٹرول کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔جس طرح سے اور جس رفتار سے آبادی بڑھ رہی ہے،اسی طرح سے جہالت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے،ہم یا ہمارے حکمران 14صدیوں کے بعد ملک کو ریاست مدینہ بنانے کی باتیں تو کرتے ہیں،لیکن ہم اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے ہیں۔ ریاست مدینہ ایک مہم تھی ایک معجزہ تھی اللہ کے نبیؐ کا آخری پیغام تھا،اور اب نہ ہی کسی نبی کو آنا ہے او ر نہ ہی کسی ریاست کو پروان چڑھنا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا قانون قرآن مجید میں محفوظ ہے۔ اگر ہم واقعی قرآن پاک کی تعلیمات کی روشنی میں ایک ریاست بنانا چاہتے ہیں،تو سب سے پہلے ہمیں امن اور انصاف لانا ہو گا اس کے بغیر یہ کام ممکن نہیں ہے۔ہم اس ملک میں انصاف کو بالا ئے طاق کر کے ملک کو بہتر بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں یہ ممکن ہی نہیں ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم قرآن کو پڑھنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں۔یہ ہمارا ملک ہے اور ہمیں یہ ملک بہت مشکل سے حاصل ہو ا ہے اور ہمیں ہی اس کو لے کر آگے چلنا ہے۔اب ہم مزید اس ملک کو تباہ کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں۔21ویں صدی میں جمہوری نظام ہی ریاست کا نظام ہے اور اسی نظام کو لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ریاست میں قرآن مجید کا بھی براہ راست اثر و رسوخ اور قرا ٓن کی تعلیمات کی روشنی میں ہی اس نظام کا بنیادی ڈھانچہ تشکیل دیا جائے۔
امن اور سکون برابری اور انصاف کے جب کسی ریاست کو ملے گا تب ہی وہ ریاست آگے بڑھ سکتی ہے اور ترقی کی منازل بدرجہ اتم طے کرسکتی ہے۔اور انسان ایسے ماحول میں پھلتے اور پھولتے ہیں۔ہم ابھی تک صرف خواہشات اور نعروں کی دنیا میں پھنسے ہوئے ہو ئے ہیں،اور عملی طور پر کوئی کام کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ہماری ہزاروں خواہشات ایسی ہیں کہ ہر خواہش پر ہمارا دم نکلتا ہے،صرف خواہشات پر ملک نہیں چلتے اور نہ ہی قومیں بنتی ہیں،قوم بننے کے لیے انصاف کلیدی امر ہے،یہاں پر ہم نے اپنے ملک میں عدلیہ کو کبھی بھی آزادانہ طریقے سے کام کرنے ہی نہیں دیا۔ہمیں اپنے نظام عدل میں واضح بہتری کی ضرورت ہے اگر انصاف نہ ہو تو ملک ترقی نہیں کرسکتا ہے اور ہمارے نظام انصاف کی عالمی رینکنگ دیکھی جائے تو اس میں ہم بہت ہی پیچھے ہیں اور مسلسل تنزلی کا شکار ہیں اس کی وجوہات کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ججز کیسے سلیکٹ کیے جاتے ہیں؟یہ سارے عمل کو دیکھنے کی ضرورت ہے،سپریم کو رٹ یا جو ڈیشل کمیشن خود ہی اس سارے کام کو دیکھے گا تب ہی ان معاملات میں بہتری آسکتی ہے۔
اگر سیاست دانوں کو اس عمل میں شامل کیا گیا اس سارے عمل میں کوئی سیاسی آمیزش موجود ہو تو پھر ہم اپنی منزل مقصود تک نہیں پہنچ پا ئیں گے اور ہمارا نظام عدل عوام کو انصاف نہیں دے پائے گا۔ترقی چاہیے تو ایک مضبوط مستحکم اور پختہ نظام چاہیے اس کے بغیر ہمارا کام نہیں چلے گا۔ ہم اپنے معاشرے میں جوافراتفری کی کیفیت دیکھتے ہیں یہ اسی طرح برقرار رہے گی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ملک کے مسائل حل کرنے کے لیے نہایت ہی سنجیدہ طریقے سے کام کریں۔اپوزیشن کا کام ہی حکمران جماعت کی غلطیوں کی نشان دہی کرنا ہے،اور حکومت کا کام ہے کہ اس نشان دہی کے اوپر اپنی غلطیوں کودورکرے۔عدل نہ ہو تو معاشرے میں عدم برداشت کاکلچرپھیلتا جاتا ہے۔ہمارے اکابرین کا اولین فرض ہے کہ وہ معاشرے میں حصول انصاف اور انصاف کی فراہمی کو اپنا اولین مقصد بنائیں،ورنہ ہر آنے والا دن مشکل سے مشکل ہو تا چلا جائے گا۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭