تازہ تر ین

لاہور کی بے ہنگم ٹریفک

نیاز حسین لکھویرا
کافی برس بیت گئے لاہور میں تعینات پویس کے ایک ڈی ایس پی مشتاق گجر نے لاہور کی ٹریفک کے حوالے سے ایک کتاب ترتیب دی۔ اس وقت سید گلزار مشہدی آئی جی پنجاب کے ڈائریکٹر تعلقات عامہ تھے۔ علم وادب سے ان کا گہرا تعلق تھا اس لیے ان کی خصوصی کاوش سے اس وقت کے آئی جی پنجاب چودھری سردار اور اس خاکسار نے مشتاق گجر کی اس کتاب کا پیش نقط اور دیپاچہ تحریر کیا۔ مصنف نے اس کتاب میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ ٹریفک سے متعلق جتنے بھی محکمے ہیں ان سب کو ایک چھت کے نیچے اکھٹا کر دیا جائے ان میں آر ٹی اے، موٹر وہیکل ایگزامینر، رجسٹریشن، ٹوکن ٹیکس، لائسنسنگ اور دیگر تمام شعبوں کے اہلکار مو جود ہوں جو عوام کے مسائل ایک جگہ ہی حل کریں۔ مشتاق گجر بعد میں گوجرانولہ میں ایس پی سٹی تعینات رہ کر ریٹائر ہوگئے مگر ان کی تجاویز پر عمل نہ ہو سکا۔ لاہور کی ٹریفک کا جائزہ لیں تو ہمارے ایک دوست میجر ظہیر بہت عرصہ پہلے لاہور کے ایس ایس پی ٹریفک تھے۔ انہوں نے لاہور کی سٹرکوں پر نشانات لگوائے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ یہ نشانات سٹرکوں کی زبان ہیں۔ جب تک آپ کسی کو زبان نہیں دیں گے وہ بو لے گا کیسے؟ آپ کس لین میں جا رہے ہیں، کہاں کہاں سے لین تبدیل کر سکتے ہیں اور کہاں کہاں لین تبدیل نہیں کر سکتے؟ دائیں یا بائیں کہاں سے مڑ سکتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔
لاہور کی مرکزی حیثیت کے پیش نظر اس کا تمام شہروں سے رابطہ ہے ایک طرف تو قصور، چونیاں، پتوکی، اوکاڑہ، دیپال پور، سلیمانکی، منچن آبا د، بہاولنگر اور فورٹ عباس کے ساتھ ساتھ ساہیوال، چیچہ وطنی، میاں چنوں، خانیوال، ملتان، بہاولپور، رحیم یار خان، مظفرگڑھ اور ڈیرہ غازیخان سے لاہور کا رابطہ ہے اور دوسری طرف راولپنڈی، جہلم، گجرات، سیالکوٹ، گوجرانولہ، چنیوٹ، سرگودھا، فیصل آباد، جھنگ، سیالکوٹ میانوالی، لیہ اور دیگر شہروں سے لاہور جڑا ہوا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ پہلے لاہور میں راوی پر صرف ایک پل ہوا کر تا تھا اور اب راوی پر سات پل بن چکے ہیں۔ پہلے ایک جنرل بس سٹینڈ ہو تا تھا اور اب بادامی باغ، شاہدرہ بند روڈ اور ٹھوکر نیاز بیگ پر ان گنت بس سٹینڈ بن چکے ہیں۔ ٹریفک کا بہاؤ بڑھ گیا ہے۔ بینکوں کے لیزنگ سسٹم نے گاڑیوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ کردیا ہے۔ جو آدمی پہلے سائیکل لے سکتا تھا اب موٹرسائیکل لیتا ہے۔ جو موٹر سائیکل لے سکتا تھا وہ اب کار خرید تا ہے۔ لاہور شہر میں اس وقت ٹریفک کی جو صورت حال ہے اس بارے میں چیف ٹریفک آفیسر سید منتظر مہدی سے تفصیلاً گفتگو ہوئی۔ لاہور کے داخلی اور خارجی راستوں پر ٹریفک کا بے پناہ رش ہے جہاں ٹریفک کے اہلکار دن رات اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ گلاب دیوی ہسپتال، فردوس مارکیٹ کے انڈر پاس، اللہ ہُو چوک اور اس طرح کے دیگر اہم مقامات پر جو انڈر پاسز بنائے گئے ہیں یا چوک کی صورتحال کو بہتر بنانے کی کو شش کی گئی ہے وہاں کئی تکنیکی مسائل ہیں۔
تین لین والی سٹرک یکدم دو لین میں تبدیل ہوجاتی ہے اور وہاں ٹریفک کا رش ہوجاتا ہے اس کالم نگار کے خیال میں ٹیپا، ایل ڈی اے اور ٹریفک پولیس میں رابطوں کا فقدان ہے۔ ٹیپا ٹریفک ڈیزائن کر تا ہے، ایل ڈی اے عملدرآمد کر تی ہے اور اس سارے ملبے کو ٹریفک پولیس پر ڈال دیا جا تا ہے کہ وہ ٹریفک کے بہاؤ کو یقینی بنائے۔ فیروز پور روڈ پر سابق حکمرانوں نے کتنے ہی پل بنوا دئیے لیکن شاہدرہ روڈ، امامیہ کالونی کی ریلوے کراسنگ پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ شاہدرہ سے کالا شاہ کاکو تک اور گلبرگ سے بابو صابو تک فلائی اوور بننے کی نوید سنی تھی مگر ابھی تک ان منصوبوں کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔ دو باتیں ایسی ہیں جن پر لاہور کی ٹریفک پولیس تحسین کی مستحق ہے۔ ایک تو یہ کہ تعلیمی اداروں اور مختلف علاقوں میں 300 طلباء وطالبات اور افراد کو ٹریفک کو کنڑول کرنے کی خصوصی تربیت دی گئی ہے کہ وہ وقت ضرورت یہ رضاکار ٹریفک کنڑول کرنے کی خصوصی تربیت دی گئی ہے کہ وقت ضرورت یہ رضا کار ٹریفک پر قابو پا سیکں۔ دوسرا یہ کہ سیف سٹی کیمروں کے ذریعے جہاں ٹریفک کی روانی متاثر ہو وہاں فوری طور پر ٹریفک کے بہاؤ کے لیے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ ہیلمٹ پہننے کی پابندی سے حادثات میں کمی آرہی ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ایک اور دوست لیاقت علی ملک چیف ٹریفک آفیسر لاہور تھے، وہ ادیب بھی تھے اور کئی کتابوں کے مصنف بھی، انہوں نے ایک بہت اچھا مضمون لکھا تھا جس کا لب لباب یہ تھا کہ ہم شہری ٹریفک وارڈن کو عزت دیں۔ راقم کے خیال میں شہریوں اور ٹریفک اہلکاروں کے درمیان عزت و احترام کے تعلق کو مزید پروان چڑ ھانے کی ضرورت ہے۔ وارڈن دو ٹکے کا ملازم نہیں ہے بلکہ ہماری حفاظت کے لیے دن رات موسم کی سختی برداشت کرتے ہوئے سٹرک پر موجود ہے۔ آگاہی کے اس پیغام کو موجودہ چیف ٹریفک آفیسر آگے بڑھا رہے ہیں۔ ویل ڈن
(کالم نگارثقافتی اورسماجی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain