تازہ تر ین

مرشد کی صحبت

ڈاکٹرعبدالقادر مشتاق
مولانا روم اپنی مثنوی میں لکھتے ہیں کہ نیک لوگوں کی صحبت تجھے نیک بنائے گی اور بد لوگوں کی صحبت بد۔ اس لئے کسی بھی انسان کی زندگی میں صحبت کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی بدولت صحابہ کرام کو صحابہ ہونے کا اعزاز ملا۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے آداب سیکھے، تزکیہ نفس سیکھا، خاکساری سیکھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو انہیں کوئی ادب آداب کی کتاب پڑھائی اور نہ ہی لمبی چوڑی تقاریر کیں۔ صرف صحبت دی اور صحبت کے ذریعے ہی ان کی تربیت کی۔
برصغیر میں بزرگان دین نے بھی اپنی صحبت میں ایسے اولیاء پیدا کئے جن کے لو سے لوگ فیضیاب ہوئے۔ تصوف میں مرشد کی صحبت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس حوالے سے ہم چشتیہ سلسلے کے اولیائے کرام کی زندگیوں جائزہ لیتے ہیں۔ چشتیہ سلسلے نے بہت بڑے بڑے بزرگ پیدا کئے۔ خواجہ معین الدین چشتی، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، بابا فرید الدین گنج شکر، خواجہ نظام الدین اولیا، فخر الدین فخر جہاں، نصیر الدین چراغ دہلوی، خواجہ نور محمد مہاروی، خواجہ سیلمان تونسوی، خواجہ قمرالدین سیالوی اور پیر مہر علی شاہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ بابا فرید شکر گنج کے مرشد حضرت قطب الدین بختیار کاکی ہیں۔ آپ سے بابا جی کی پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب بابا جی عمر اٹھارہ سال تھی۔ حضرت قطب الدین بختیار کاکی، خواجہ بہاوالدین ذکریا کے مہمان تھے۔ بابا جی بھی بہاوالدین ذکریا کی خانقاہ پر تشریف لے گئے اور خانقاہ کے ایک خادم سے کہا کہ وہ حضرت قطب کی قدم بوسی کے لئے حاضر ہوے ہیں۔ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی آٹھ دن بہاوالدین ذکریا کی خانقاہ میں مقیم رہے اور بابا جی بھی وہاں ان کی خدمت میں رہے۔
ایک دن خلوت نصیب ہوئی تو عرض کی کہ یہ غلام شاہ کے دامن لطف و عنایت سے مستقل وابستگی چاہتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ انشااللہ تمہیں یہ وابستگی بھی حاصل ہو جائے گی۔ جب قطب الدین بختیار کاکی دہلی جانے لگے تو انہوں نے بابا فرید کو فرمایا کہ کچھ دن تم علم ظاہری حاصل کرو، اللہ کے بندوں سے ملاقات کرو کہ کون کس مقام پر کیا کر رہا ہے، پھر دہلی آنا میں آپ کا انتظار کروں گا۔ اس لئے بابا فرید کی مرشد سے باقاعدہ بیعت کئی سال بعد دہلی میں ہوئی۔ بابا فرید فرماتے ہیں کہ جب میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے شرف بیعت ہوا۔ اس وقت قاضی حمید الدین ناگوری، مولانا علی کرمانی، سید نورالدین مبارک، شیخ نظام الدین ابوالموید، مولانا شمس ترک، شیخ محمود موئنہ بھی موجود تھے۔ بابا فرید گنج شکر نے مرید ہونے کے بعد غربی دروازے کے برج کے نیچے حجرہ بنایا اور عبادت میں مشغول ہو گئے۔ اس دوران آپ کی ملاقات اپنے دادا مرشد حضرت خواجہ معین الدین چشتی سے بھی ہوئی جب وہ اجمیر سے دہلی تشریف لائے۔ خواجہ معین الدین اور خواجہ قطب الدین نے اپنی توجہ باطنی سے بابا فرید کو مالا مال فرمایا اور اسم اعظم کی تعلیم دی۔ جب آپ کے مرشد کے وصال کا وقت آیا تو آپ ہانسی میں تھے۔ آپ کی غیر موجودگی میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے قاضی حمید الدین اور شیخ بدرالدین کو فرمایا کہ میرا یہ خرقہ اور نعلین چوبیں فرید الدین مسعود کو دے دینا اور وہ میرا خلیفہ اور جانشین ہے۔ اسی رات ہانسی میں بابا فرید کو اپنے مرشد کے وصال کی خبر ہوئی تو دہلی کی طرف روانگی اختیار کی اور وصال کے چار دن بعد دہلی پہنچے۔ آپ نے خرقہ پہنا اور مسند پر بیٹھ گئے لیکن چند دنوں کے بعد ہی آپ نے دہلی کو الوداع کہا اور ہانسی تشریف لے آئے۔ ہانسی میں گوشہ خلوت میں رہے۔
بابا فریدالدین نے مرشد کی صحبت سے عاجزی‘ انکساری، شریعت، طریقت، معرفت اور حقیقت کی منازل طے کیں۔ اسی طرح خواجہ سیلمان تونسوی، خواجہ نور محمد مہاروی کے مرید تھے۔ ان کی صحبت میں رہے اور ان کی خدمت کرتے رہے۔ اس صحبت کا اتنا اثر تھا کہ آپ نے تزکیہ نفس کی منازل طے کر لیں۔ فنا فی شیخ اس حد تک ہو گئے کہ وہ جب بھی تونسہ سے چشتیاں کی طرف روانہ ہوتے تو ہمیشہ پیدل جاتے۔ ان کا خیال تھا کہ مرشد خانے تک پہنچنے تک جتنی تکالیف کا سامنا کرنا پڑے اتنا فیض زیادہ ملتا ہے۔ پھر وہ اپنے مرشد کے آداب کو بھی ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔ ایک دن خواجہ سیلمان تونسوی نے اپنے مرشد سے گھر جانے کی اجازت چاہی اور مل بھی گئی۔ وہ پیدل گھر پہنچے۔ آرام کرنے کے لئے لیٹے ہی تھے کہ خواب میں مرشد خواجہ نور محمد مہاروی ملے اور کہا کہ واپس جلدی آو، ہمارا آخری وقت آ گیا ہے۔ آپ جلدی میں اٹھے اور ننگے پاوں مرشد خانے کی طرف چل پڑے۔ جب چشتیاں پہنچے تو خواجہ نور محمد مہاروی نے اپنی دستار ان کے حوالے کی اور دنیا سے رخصت ہو گئے۔ یہ وہ ادب آداب تھے جو مرشد کی صحبت نے خواجہ سیلمان تونسوی کو سکھائے تھے۔ جب ہم درگاہ سیال شریف کا رخ کرتے ہیں تو وہ بھی ہمیں مرشد کی صحبت کے آثار نظر آتے ہیں۔ خواجہ قمرالدین سیالوی کا مرشد خانہ خواجہ سیلمان تونسوی کا تھا۔ جب بھی کوئی تونسہ سے تشریف لاتا تو آپ ننگے پاوں اس لئے اس کا استقبال کرتے کہ وہ آپ کے مرشد خانے سے آیا ہے۔ اس کی خوب خدمت کرتے۔ آپ سادات کی بھی بہت عزت کرتے تھے۔ کسی بھی سید کی موجودگی میں کسی اور کی امامت میں نماز نہیں پڑھتے تھے۔ بلکہ سید سے درخواست کرتے کہ وہ نماز کی امامت کرائیں۔ یہ وہ ادب آداب تھے جو مرشد کی صحبت کا فیض تھا۔ اب ہم آتے ہیں اپنے مرشد خانے کی طرف۔ پیر مہر علی شاہ کی بیعت تھی سیال شریف۔ آپ نے اپنی زندگی کے کئی سال اپنے مرشد کی صحبت اور خدمت میں گزارے۔ ان کی صحبت میں عاجزی، انکساری، محبت، قربانی کا جذبہ سیکھا۔
(کالم نگار جی سی یونیورسٹی فیصل آبادکے
شعبہ ہسٹری کے چیئرمین ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain