اسلام آباد: (ویب ڈیسک) نامزد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطاء بندیال نے کہاہے کہ سوشل میڈیا پر اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو اسکینڈلائز کیا جاتا ہے جس کا راستہ روکنا ہو گا، ججز کو سکینڈلائز کرنا غیر قانونی، غیر اخلاقی، غیر مہذب اور غیر آئینی ہے۔
سپریم کورٹ کے سبکدوش چیف جسٹس گلزار احمد کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس ہوا، جج صاحبان، اٹارنی جنرل، وکلاء کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نامزد چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ بطور 27 ویں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کو دو چیلنجر کا سامنا رہا، پہلا بڑا چیلنج کورونا وباء کا تھا جس کی وجہ سے انصاف کی فراہمی میں مشکلات پیش آئیں تاہم انھوں نے ایک دن کے لیے بھی عدالت بند نہیں ہونے دی۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسرا بڑا چیلنج جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس اور اس حوالے سے درخواستیں تھیں ، جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں 60 سے زائد سماعتیں کیں اور دن رات کام کیا۔ اس وجہ سے زیر التوا کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ ان زیر التوا کیسز کو کم کرنے کے لیے ججز نے عوامی رائے کے برعکس سردیوں اور گرمیوں کی چھٹیوں میں بھی کام کیا۔
نامزد چیف جسٹس نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو سکینڈلائز کیا جاتا ہے جس کے خلاف کچھ کرنا پڑے گا، ججز کو اسکینڈلائز کرنا غیر قانونی، غیر اخلاقی، غیر مہذب اور غیر آئینی بھی ہے۔
انہوں نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا پر ججز کو اسکینڈلائز کرنے کے معاملے پر بار سے مدد مانگیں گے، میں دہرا رہا ہوں مسٹر احسن بھون کہ بار سے مدد مانگیں گے۔
نامزد چیف جسٹس نے کہا جج حضرات اپنی اصلاح کرتے ہیں، اسی لیے جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں اقلیت اکثریت میں بدلی، عدالتی فیصلے کےخلاف سوشل میڈیا پر طوفان برپا گیا،اس کا راستہ روکنا ہوگا۔کورونا کی وجہ سے زیر التوا کیسز میں اضافہ ہوا، کوشش کریں گے کہ انصاف کی فراہمی کا نظام بہتر اور تیز ہو۔ پاکستان میں ٹیکس نیٹ میں اضافے اور بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانے کے لیے جب بھی عدلیہ کا کردار درکار ہوگا، ہم ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ 20 سال تک بطور جج اپنی خدمات محنت اور ایمانداری سے سرانجام دینے کے بعد آج ریٹائرڈ ہو رہا ہوں، بحثیت چیف جسٹس نہ صرف کیسسز کے فیصلے کئے بلکہ انتظامی امور کی ذمہ داری بھی نبھائی ، اختیارات میں توازن ریاستی اداروں کے دائرہ اختیار کو یقینی بناتا ہے۔ سپریم کورٹ میں خاتون جج کی تقرری سے نئی تاریخ رقم ہوئی۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی اور ججز کے احتساب کو الگ نہیں کیا جاسکتا ہے،عدلیہ آئین اور پارلیمانی نظام حکومت کی محافظ ہے۔