تازہ تر ین

روح بیدار ہورہی ہے

کنور محمد دلشاد
سینٹ میں اکثریت کے باوجود بین الاقوامی ادارے کی بالادستی قبول کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے نظام حکومت کے ساتھ سنگین مذاق کیا ہے۔ سینٹ میں اپوزیشن اکثریت کے باوجود اپنے ذاتی مفادات کے پیش نظر حکومت کے ترمیمی بل منظور کرا کے صرف عوام کو دھوکہ دینے کیلئے چیئرمین سینٹ کے ڈائس کا گھیراؤ کرتی رہی۔ ترمیمی بل کے حق میں 43‘ مخالفت میں 42ووٹ اور خصوصی منصوبہ بندی کے تحت حسب روایت اپوزیشن کے 8سینیٹرز غیرحاضر ہوگئے۔ اپوزیشن کے کردار نے آئندہ الیکشن میں وزیراعظم کی کامیابی کیلئے راہ ہموار کردی ہے اور اپوزیشن کے نام نہاد لانگ مارچ پر بھی کئی سوالات اور خدشات سامنے آگئے ہیں۔ اپوزیشن کے آٹھ ارکان کی پراسرار غیرحاضری سے عوام نے اپوزیشن کے اندرونی خفیہ عزائم کو بھانپ لیا ہے اور اپوزیشن کی اصولی سیاست کی توقع کرنا سنگین غلطی ہوگی۔ اپوزیشن کی ملک وقوم سے بیوفائی کرنے کے نتیجہ میں سٹیٹ بینک کی دستاویزات سے انٹرنیشنل مالی ادارے کو پاکستان کو نوآبادیاتی کالونی بنانے کا موقع مل جائے گا اور آئندہ آگے چل کر پاکستان کے ایٹمی اثاثے بھی ان کی زد میں آ جائیں گے اور کشمیر جیسے حساس خطہ کی آزادی سے پاکستان کو محروم کردیا جائے گا۔ کشمیر کے مظلوم مسلمان اب ہمیشہ کیلئے بھارت کے رحم وکرم پر ہی ہوں گے۔
سٹیٹ بینک کے ترمیمی بل کی مخالفت اور مزاحمت کے حوالہ سے اپوزیشن کے ارکان تو مسلسل بلند بانگ دعوے اور پاکستان کی معیشت کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھے جانے کے تناظر میں پاکستان کی سلامتی کے بارے میں خدشات کا اظہار کررہے تھے۔ پھر قومی اسمبلی کے ایوان میں اس ترمیمی بل کی منظوری کے موقع پر اپوزیشن کے 12ارکان غیرحاضر ہوگئے اور میڈیا نے ان غیرحاضر ارکان کی گوشمالی بھی کی اور میں نے بھی اخبار کے کالم میں واضح طور پر آئینی حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ان ارکان کو آئین کے آرٹیکل 63 (1) کے تحت نااہل کیا جا سکتا ہے۔
قومی اسمبلی سے ترمیمی بل کی منظوری کے بعد قوم ہی توقع کررہی تھی کہ سینٹ میں اس بل پر حکومت کو واضح طور پر شکست کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن اس بات کی توقع ہرگز نہیں تھی کہ سینٹ کے ایوان میں یہ نفرت انگیز بل اتنی آسانی سے منظور ہو جائے گا۔ اپوزیشن کی اس شکست اور حکومت کی کامیابی سے ہی نتیجہ سامنے آیا ہے یہ سب معاملات طے شدہ منصوبے اور ہم آہنگی کا حصہ تھا! مجھے پارلیمانی راہداری سے خبریں مل رہی تھیں کہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان بیک ڈور پارلیمانی کے تحت منصوبہ بندی ہو چکی ہے اور سینٹ میں سٹیٹ بینک کو مالیاتی ادارے کے حوالہ کرنے کیلئے ترمیمی بل منظور کرا لیا جائے گا اور جن سینیٹروں کے غائب ہونے کی اطلاعات موصول ہورہی تھیں اس میں چند ارکان کے نام بھی بتا دیئے گئے تھے! اب یوں محسوس ہورہا ہے کہ اپوزیشن کے کھوٹے سکوں کی بدولت اس بات میں صداقت موجود ہے کہ اب صدارتی طرز حکومت کے نفاذ کیلئے آئین کے آرٹیکل 7 اور آئین کے آرٹیکل 41 اور سیکنڈ شیڈول‘ الیکشن آف صدر مملکت میں ترامیم کرانے کیلئے دو تہائی اکثریت حاصل کرنا مشکل مرحلہ نہیں ہوگا‘ اپوزیشن کی بھاری اکثریت کرونا کی آڑ میں منظر سے غائب ہو جائے گی اور اس غیرحاضری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیکنڈ شیڈول کے آرٹیکل 19 کے مطابق حکمران جماعت اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
وزیراعظم عمران کو منقسم اپوزیشن کا سامنا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین اپنے اپنے نظریئے میں باہمی طور پر یکساں سوچ کی حامل نہیں ہیں اور متحدہ قومی موومنٹ کے سابق قائد الطاف حسین کی طرز پر نواز شریف اپنی پارٹی کے اہم رہنماؤں کی ڈوریاں ہلاتے رہتے ہیں اور ان کی آزادانہ حکمت عملی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کیلئے فعال سوشل میڈیا کی ٹیم مقرر کررکھی ہے۔ پرویز رشید اور ان کے گروپ نے شہباز شریف کو آگے بڑھنے سے روک رکھا ہے اور اسی طرح بلاول زرداری بھی جارحانہ پالیسی اختیار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی جس کے وہ سربراہ ہیں ان کی پارلیمنٹ میں کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین جس کے چیئرمین آصف زرداری ہیں جبکہ آئینی طور پر بلاول زرداری بھی پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کا ہی حصہ ہیں لہٰذا ان حالات میں وزیراعظم عمران خان کا مسکرانا حق بجانب ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ مئی 2013ء کے الیکشن سے پیشتر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کی رجسٹریشن متنازعہ رہی اور الیکشن کمیشن کے معزز رکن جسٹس(ر) ریاض کیانی (اب مرحوم ہیں) نے سنگل رکنی بنچ کے ذریعے ہی پاکستان پیپلز پارٹی کی رجسٹریشن منظور کی تھی اور بعدازاں 2018ء کے الیکشن سے پہلے جولائی 2018ء میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین اور پاکستان پیپلز پارٹی کو مشترکہ سمبل الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 15 کے تحت الاٹ کردیا تھا جو الیکشن ایکٹ 2017 کے رولز 162 (2) اور 163 کو مشترکہ سمبل ”تیر“ کا نشان الاٹ کردیا جو اس سے پیشتر پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کو جون 2002ء میں الاٹ کردیا گیا تھا۔
اس حساس معاملہ کو قانونی طور پر واشنگٹن میں مقیم سید اخترار حیدر نے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ریفرنس دائر کیا ہوا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کو مشترکہ سمبل تیر کا نشان قانون طور پر درست نہیں ہے‘ سید اخترار حیدر نے اہم قانونی نکات پر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں درخواست دائر کرتے رہے ہیں اور اب اپنے کیس کی پیروی کرنے کیلئے وہ مارچ میں پاکستان آرہے ہیں۔ اسی طرح سید اخترار حیدر نے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کی رجسٹریشن جو الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 203 کے تحت بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے کیونکہ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 203 کے تحت ایک ممبر بیک وقت ایک ہی پارٹی کا ممبر بن سکتا ہے جبکہ یہ اصول پاکستان پیپلز پارٹی کے ممبران دونوں پارٹی کے ممبر ہیں جو الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 203 سے انحراف ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان میں یکم فروری سے فارن فٹرک کیس کی سماعت بھی شروع ہورہی ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں الیکشن ایکٹ 2017 کے واضح کردہ قوانین کی روشنی میں کیا فیصلہ کرتا ہے وہ اگلے چند ہفتوں میں واضح ہو جائے گا‘ اسلام آباد کے حلقوں میں یہ خبریں گردش کررہی ہیں کہ 27فروری اور 23مارچ کے مہنگائی مارچ کی آڑ میں جو لانگ مارچ ہونے کی نوید کے اس کے سائے تلے اہم فیصلے ہورہے ہیں اور طاقتور حلقے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین سے رابطہ میں ہے جس کے سربراہ آصف زرداری ہیں اور ان سے معاملات طے ہورہے ہیں اور اس نتیجہ میں ہی سٹیٹ بینک ترمیمی بل مخصوص حکمت عملی کے تحت منظور کرا کے اپوزیشن کو مزید تقسیم کرکے کمزور کردیا گیا ہے۔
پارلیمانی راہداری میں یہ قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ آئندہ کیلئے قومی سیاست کا نیا رخ بدلنے جارہا ہے اور سابق صدر آصف زرداری کی پراسرار خاموشی سے یہ اخذ کیا جارہا ہے کہ سابق صدر آصف زرداری کے ساتھ پالیسی اور فیصلہ سازوں کے مذاکرات تقریباً فائنل ہونے کو ہے‘ آئندہ ماہ اس حوالہ سے اہم سیاسی پیش رفت سامنے آ سکتی ہے‘ ملک میں ایک نئی تھرڈ پارٹی کی تیاریوں کو تیزی سے آگے بڑھایا جارہا ہے جس کا مقصد شریف برادران کو الگ تھلگ کرتا ہے اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کی اہم شخصیات اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی ارکان کا ایک اہم گروپ نئی تھرڈ پارٹی کا حصہ ہوگا۔ تھرڈ پارٹی کے الائنس میں دیگر جماعتوں کے ارکان بھی شامل ہونے کیلئے پر تول رہے ہیں اور ان سب کی نظر میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اہم فیصلے پر لگی ہوتی ہیں۔ اگر کوئی سیاسی جماعت الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 209‘ 210‘ 212 اور 2015ء کی زد میں آئی تو پھر چند دنوں میں تھرڈ پارٹی کی رجسٹریشن کیلئے فوری طور پر الیکشن کمیشن سے رجوع کیا جائے گا۔ پارٹی کا آئین اور منشور کی تیاری زور شور سے جاری ہے عوام محسوس کررہی ہے کہ اپوزیشن نے ان ساڑھے تین سالوں میں تحریک انصاف کو ریلیف دیا ہے۔
(الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain