کامران گورائیہ
حکمران جماعت نے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منی بجٹ منظور کروا کر آئی ایم ایف کے تمام مطالبات پورے کر دیئے ہیں۔ منی بجٹ کی منظوری کے بعد گو یا حکومت کے ہاتھ میں پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے ساتھ ساتھ بنیادی ضروریات اور روز مرہ میں استعمال ہونے والی تمام اشیاء کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کرنے کا اختیار حاصل ہو چکا ہے۔ حکومت کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ اقتدار کے ساڑھے تین برسوں کے بعد بھی پاکستان تحریک انصاف ملک میں مہنگائی اور بدترین معاشی بحران کی ذمہ داری سابق حکومتوں پر ڈال رہی ہے بلکہ وزیراعظم عمران خان تو اس حد تک فرما چکے ہیں کہ انہیں بے روز گاری اور کسمپرسی کی وجہ سے کسی کے جینے مرنے کی بھی پرواہ نہیں کیونکہ انہیں ملک میں تاریخ ساز مہنگائی کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں منی بجٹ پیش کرتے ہوئے تقریبا 150 اشیا پر سیلز ٹیکس کی مد میں دی گئی چھوٹ کو ختم کر دیا گیا ہے یا اس کی شرح 17 فیصد کر دی گئی ہے جس سے حکومت کو اپنے خزانے میں 343 ارب روپے اضافے کی توقع ہے۔
درآمدی اشیا پر بھی چھوٹ ختم کر دی گئی ہے جس سے بظاہر تاجر پیشہ لوگ متاثر ہوں گے لیکن یہ اشیاء غریب آدمی استعمال نہیں کرتا۔ یہ درست ہے کہ دنیا بھر میں کرونا وباء کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک میں بھی مہنگائی کا تناسب بڑھا ہے لیکن کیا ہمارے حکمرانوں کو یہ حقیقت نظر انداز کرنا زیب دیتی ہے کہ وہ مہنگائی اور بے روز گاری کے ذمہ دار نہیں۔ کینیڈا سمیت دنیا کے جن ممالک میں مہنگائی بڑھی وہاں پر ذرائع آمدن میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ملک کی حکمران جماعت تصویر کا صرف ایک رخ پیش کرتی ہے، اسی لیے سالانہ بجٹ ہو یا منی بجٹ عوام کو ہی مہنگائی اور بے روز گاری کے آفٹر شاکس بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ موجودہ برسر اقتدار جماعت نے پٹرول، ڈالر، بجلی، گیس، آٹا، چینی، گھی اور حتیٰ کہ ادویات کی قیمتوں میں بھی بتدریج اضافہ کیا ہے اس اعتبار سے سابق ادوار کے تمام ریکارڈ پاش پاش ہو چکے ہیں۔ حیران کن طور پر یوٹیلیٹی اسٹورز پر برانڈڈ گھی کی فی کلو قیمت میں 47 روپے اور برانڈڈ آئل کی قیمت میں 57روپے اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد درجہ اول کا برانڈڈ گھی 355 روپے فی کلو سے بڑھ کر 402 روپے اور آئل 355روپے فی کلو سے بڑھ کر 412روپے فی کلو ہوگیا۔
درجہ اول کے گھی کا 5 کلو والا ڈبہ 1795سے بڑھ کر 2032روپے ہو گیا، پانچ کلو گھی کے ڈبے کی قیمت میں 237روپے اضا فہ ہوا، درجہ اول کے 5 کلو آئل کے ڈبے کی قیمت 1795سے بڑھ کر 2085روپے ہوگئی، پانچ کلو آئل کی قیمت میں 287روپے کا اضافہ ہوا، مختلف برانڈ ز کے درجہ اول اور دوئم کے مختلف گھی آئل کی فی کلو قیمت میں 70روپے تک اوسط اضافہ کیا گیا۔ گرم مصالحہ کی قیمت میں 16روپے اضافہ کیا گیا، سفید زیرہ 200گرام پیکٹ 198سے بڑھا کر 230روپے کر دیا گیا، سفید زیرہ کی قیمت میں 32روپے اضافہ ہوا، بڑی الائچی کی100گرام قیمت 95روپے سے بڑھا کر 98روپے کر دی گئی۔
مہنگائی کے پے درپے حملوں کی وجہ سے متوسط طبقہ کا وجود نا ہونے کے برابر رہ گیا ہے اب ہمارے ہاں صرف بہت زیادہ امیر یا پھر بہت ہی زیادہ غریب بچے ہیں اور بچے کھچے یہ غریب بھی سسکیاں لے رہے ہیں کیونکہ بدحالی اور پسماندگی کی وجہ سے ان میں اتنی سکت باقی نہیں رہی کہ وہ بے بسی اور بے چارگی کی کیفیت میں حکومن مخالف ردعمل کا اظہار کر سکیں۔حکومت کی بیڈ گورننس اور عدم دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ پٹرول، گیس، اور بجلی کے جھٹکے دے کر بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اگلے دو ماہ میں مہنگائی میں نمایاں کمی آئے گی اور روز گار کے بے پناہ مواقع میسر ہوں گے لیکن عالمی اداروں کی رپورٹس حکومتی دعواؤں کے برعکس ہیں اور پاکستانی عوام کے اوسان خطاء کرنے کے لئے کافی ہیں۔ پیش کردہ اعدادوشمار میں کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں آئندہ کئی سالوں تک معاشی بحران برپا رہے گا یہ حقائق لمحہ فکریہ ہیں لیکن ملک کی اشرافیہ اور مقتدر حلقے اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔
عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کی بجائے صدارتی نظام متعارف کروانے کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ یوں تو ماضی میں بھی حکمرانوں نے عوامی مسائل سے پہلو تہی کی ہے لیکن موجودہ حکومت غالباً عوام سے انتقام لینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ حکمران اعلانیہ طور پر اعتراف تو کر رہے ہیں کہ مہنگائی ہے اس کے علاوہ بھی بہت سے چیلنجز درپیش ہیں لیکن ان تمام مسائل کا خاتمہ کن تدابیر سے کیا جائے گا اس حوالہ سے حکومت کے پاس کوئی حکمت عملی ہے نہ منصوبہ۔ عوام کو پسماندگی کے ایسے کنویں میں دھکیلا جا رہا ہے جہاں سے نکلنا اب عام آدمی کے بس کی بات نہیں رہی۔ موجودہ حکومت کی بدترین کارکردگی میں ملک کی وہ اپوزیشن جماعتیں بھی برابر کی شریک ہیں جو بظاہر حکومت مخالف بیانات دیتی ہیں، جلسے جلوس کرتی ہیں، ریلیاں نکالتی ہیں لیکن جب پارلیمنٹ میں منی بجٹ اور اسٹیٹ بینک جیسے بلاجواز اور متنازعہ بلز لائے جاتے ہیں تو اپنی عددی اکثریت ثابت کرنے میں ناکام ہو جاتی ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف محض اپنے اتحادیوں کے ووٹوں پر اقتدار پر براجمان ہے لیکن عوامی مسائل کے معاملہ میں ہمیشہ اپوزیشن کے غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے۔ ان حالات میں ملک کے عوام میں بے بسی، مایوسی اور بے یقینی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ امن و امان کی صورت حال نے ایک اور پریشانی کھڑی کردی ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، افراتفری کا جواب اب صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ آئندہ انتخابات میں عوام اپنے ان تمام نام نہاد نمائندوں کو نشان عبرت بنائیں جو ملک کو بدترین بحرانوں سے دو چار کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ اگر ملک کے عوام اپنے ووٹوں کے ذریعے ایسا نا کہ سکے تو پھر ان کے پاس صرف دو ہی راستے ہوں گے۔ پہلا یہ کہ وہ گھروں کے لئے راشن کا بندوبست کرنے کی بجائے اہل خانہ سمیت لنگر خانوں کا رخ کریں یا پھر منی بجٹ کی وجہ سے بڑھنے والی مہنگائی کے آفٹر شاکس برداشت کرتے کرتے زندگی گزاریں۔
(کالم نگارسینئر صحافی ہیں)
٭……٭……٭