ملک منظور احمد
جنگ ِعظیم دوئم اس صدی یا پھر کہنا چاہیے کہ گزشتہ 100سال کا سب سے اہم ترین تاریخی موڑ تھا۔ اس جنگ میں ایک طرف امریکہ، انگلستان اور ان کے اتحادی تھے تو دوسری جانب جرمنی، جاپان اور ان کے اتحادی تھے، دونوں فریقین آمنے سامنے تھے اور جنگ دنیا پر بالادستی کی تھی۔ یہ بات واضح اس جنگ کے دوران ہی ہو چکی تھی کہ اس جنگ کا فاتح آنے والا طویل عرصے تک اس دنیا میں اپنی بالادستی قائم رکھے گا اور اسی کے حکم کے تحت دنیا کے معاملات سرانجام پائیں گے۔ اسی کو نیو ورلڈ آرڈر بھی کہا گیا۔ اس جنگ میں فتح امریکہ، انگلستان اور ان کے اتحادیوں کی ہوئی لیکن اس جنگ کے نتیجے میں انگلستان سمیت یورپ میں بڑی تباہی آئی جس کے باعث ان کی معیشتیں بھی تباہ ہوئیں لیکن امریکہ کی معیشت اس جنگ میں شامل ہونے کے باوجود اس تباہی سے بچی رہی، اسی لیے اس جنگ کے خاتمے پر امریکہ کو دنیا بھر پر معاشی، اقتصادی اور دفاعی برتری حاصل ہوگئی۔
امریکہ دنیا کا وہ واحد ملک تھا جس کے پاس خزانہ تھا اور وہ اس پوزیشن میں تھا کہ تباہ حال دنیا کی مدد کرتا۔ امریکہ نے اس جنگ کے بعد مارشل پلان کے ذریعے تباہ حال یورپ کو پھر سے بنانے میں مدد دی اور اس طرح یورپ سمیت پوری دنیا ہی امریکی معاشی اور اقتصادی تسلط میں چلی گئی اور امریکہ نے اس تقریباً 75سال تک دنیا پر شرکت غیر حکمرانی کی۔ اس تمام کے عرصے کے دوران ایک دور کے اندر سپر پاور کے طور پر سویت یونین موجود تھا جس نے امریکہ کو مختلف مواقع پر چیلنج کیا تھا لیکن پھر سویت یونین کے سرد جنگ میں شکست کھانے کے بعد سے امریکہ کو دنیا میں سول سپرپاور کا درجہ حاصل ہوا اور امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر دنیا پر اپنا حکم چلایا اور اپنی مرضی نافذ کی۔ کبھی انسانی حقوق کے نام پر کسی ملک پر قبضہ کیا اور کبھی تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے نام پر کسی ملک کو تباہ کیا گیا لیکن اب ایک طویل عرصے کے بعد دنیا ایک مرتبہ پھر ایک ملٹی پولر ورلڈ بلکہ ایک نئی سرد جنگ کی جانب بھی بڑھ رہی ہے۔ چین، روس، ترکی اور ایران سمیت کئی ایسی طاقتیں ابھر رہی ہیں جوکہ امریکہ اور اس کے نظام اور ان کے مفادات کو برملا چیلنج کررہی ہیں۔ یہ ایک بدلتی ہوئی دنیا ہے جوکہ ایک نئی سرد جنگ میں داخل ہوچکی ہے، جہاں پر دونوں فریقین میں سے کسی بھی ایک کی جانب سے ذرا سی بھی غلطی جنگ کی چنگاری بھڑکا سکتی ہے لیکن اس سلسلے میں حال ہی میں ایک نئی پیشرفت ہوئی ہے۔
چین اور روس نے ایک نیا معاہدہ کیا ہے اور اس معاہدے کے تحت چین اور روس دونوں ملکر دنیا میں ایک منصفانہ ورلڈ آرڈر کے نفاذ کیلئے کام کریں گے۔ تجارت کیلئے مقامی کرنسیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اور ہر شعبے میں تعاون کو بڑھایا جائے گا۔ کیا اس معاہدے کو باقاعدہ طور پر سرد جنگ کا اعلان قرار دیا جاسکتا ہے، یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے لیکن اس کا جواب شاید ہمیں اتنی جلدی نہیں ملے گا۔ اگر اس حوالے سے پاکستان کی ہی بات کرلی جائے تو پاکستان کیلئے بھی یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور پاکستان کو بھی اس صورتحال میں سوچھ سمجھ کر فیصلے کرنا ہوں گے۔ بظاہر پاکستان چین کے بہت قریب ہے لیکن امریکہ سے بھی پاکستان نے مکمل طور پر کنارہ کشی اختیار نہیں کی ہے۔ گزشتہ روز امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان سے پاک، چین تعلقات کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ کسی بھی ملک کیلئے امریکہ یا چین میں سے ایک ملک کو چننے کی پابندی نہیں ہے اور نہ ہی امریکہ اس حوالے سے کسی ملک کو کچھ کہتا ہے لیکن حقیقت میں امریکی اقدامات اس کے برعکس ہیں۔ پاکستان بھی بدلتی ہوئی اس دنیا سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ پاکستان کیلئے اپنی سلامتی کیلئے دفاعی شعبہ نہایت ہی اہم ہے اور پہلے پاکستان کا اس شعبہ میں سارا کا سارا انحصار امریکہ اور یورپ پر تھا لیکن اب کچھ عرصے سے پاکستان نے دفاعی شعبے میں اپنا انحصار امریکہ اور یورپ سے ہٹا کر چین اور ترکی کی جانب کرلیا ہے اور پاکستان کو اس کا بہت فائدہ بھی ہورہا ہے۔ پاکستان کو چین اور ترکی کی جانب سے تیارکردہ جدید ترین ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہے اور اب اس شعبے میں پاکستان کو چین اور ترکی کی بدولت امریکہ کی ضرورت نہیں رہی۔ یہ اس حوالے سے صرف ایک مثال ہے کہ کس طرح دنیا کے یونی پولر سے ملٹی پولر دنیا کی جانب جانے کی وجہ سے پاکستان کو کیا فائدہ ہوا ہے لیکن جہاں پر اس صورتحال کے فوائد ہیں وہیں پر اس کے چیلنجز بھی موجود ہیں۔
پاکستان کا چین کی جانب جھکاؤ کسی صورت امریکہ اور یورپ کو بہت زیادہ پسند نہیں ہے اور پاکستان ابھی بھی برآمدات، کاروبار اور ترسیلات زر سمیت عالمی اداروں پر انحصار کرتا ہے جوکہ امریکہ کے آشیرباد سے چلتے ہیں۔ پاکستان کو سب سے پہلے معاشی طور پر خودمختار ہونے کی ضرورت ہے تاکہ اس حوالے سے پاکستان پر دباؤ نہ ڈالا جاسکے لیکن بہرحال عالمی صورتحال کے تناظر میں روس اور چین کے اس معاہدے کو بہت اہمیت دی جارہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ ہم یقینی طور پر ایک نئی اور خطرناک سرد جنگ کے دور میں داخل ہورہے ہیں جس میں کامیاب ہونے والے ہی شاید اگلے 100سال تک اس دنیا پر حکمرانی کریں گے۔ یہ بدلتی ہوئی دنیا ہے اور اس دنیا میں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ذرا سی لاپروائی تباہ کُن نتائج کی حامل ہوسکتی ہے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭