شفقت اللہ مشتاق
کسی بھی ملک کے لئے اس کی افرادی قوت کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن ہر چیز کا ایک تناسب ہوتا ہے اور اگر وہ تناسب بگڑ جائے تو فائدہ نقصان میں اور نقصان تباہی و بربادی کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ بظاہرشادی کا بنیادی مقصد ارتقائے بنی نوع انسان ہی ہے۔ ویسے جوڑا بننا انسانی جبلت میں بھی ہے۔ بہرحال شادی کی صورت میں اگر شادی سے متصل معاملات ذوق شوق سے طے کئے جائیں تو بچوں سے ہر گھر کا آنگن بھر جاتا ہے۔ یہ سلسلہ جب کچھ زیادہ ہی طول پکڑتا ہے تو آبادی بڑھنے کا شور شرابا مچ جاتا ہے۔ سکھ کی آگ کا جب مچ مچتا ہے تو اس کے مقابلے میں مسائل کی آگ کا مچ ویسے ہی دم توڑ جاتا ہے۔ ہاں البتہ جب مسائل کو ہوشمندی اور حکمت سے حل نہیں کیا جاتا اس ساری صورتحال کی شدت کی بدولت تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں وسائل مسائل میں بدل جاتے ہیں۔ زمین تنگ ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ آکسیجن نفوس کے تناسب کے حساب سے کم ہو جاتی ہے۔ پانی بکثرت استعمال کی وجہ سے خشک ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ بھائی بھائی کے گریبان پکڑ لیتا ہے۔ دوستوں کے درمیان حساب شروع ہو جاتے ہیں۔ سڑکوں،چوکوں اور چوراہوں پر گاڑیاں آپس میں ٹکراتی ہیں۔
یہ وہ ساری صورتحال تھی جس کا واقفان حال کو ادراک بہت ہی پہلے ہوگیا تھا اور انہوں نے بروقت آبادی کنٹرول کرنے کی بات کی تھی لیکن بدقسمتی کہ ہمارے ارباب اختیار نیآبادی کو منصوبہ بندی سے روکنے کی پالیسی بنا دی اور میرے جیسے لوگوں نے منصوبہ بندی کو نس بندی سمجھ کر کمر کس لی اور پھر اس کے بعد ہم نے اپنی جہد مسلسل کی بدولت کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں منصوبہ بندی سے کچھ نہیں ہونے دیا۔ بڑے بڑے منصوبے منصوبہ بندی کے بغیر ہی بنانے شروع کر دیئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ منصوبے تو آئی ایم ایف کی مدد سے مکمل ہو گئے اور کچھ آج تک نامکمل چلے آرہے ہیں۔ جہاں تک آبادی کو کنٹرول کرنے کے منصوبے کا تعلق تھا۔ اس کی اہمیت اولا مشترکہ خاندانی نظام نے ہم پر واضح ہی نہ ہونے دی۔ ایک کمائے اور بے شمار کھائیں آخر مسئلہ کیا ہے۔ اولاد اللہ کا بہت بڑا انعام ہے۔ دوئم علمائے کرام نے اس منصوبے کے پیچھے جو فکر تھی اس کو کھل کھلا کر عوام کے سامنے رکھ دیا اور وہ فکر ان کے نزدیک یہ تھی کہ کافر چاہتے ہیں کہ ہم عددی طور پر کم ہو جائیں اور تیسرا یہ کہ ہم جذباتی لوگ ہیں اور آبادی بڑھانے میں تو جذباتیت کو بہت ہی عمل دخل ہے۔ اب جبکہ مشترکہ خاندانی نظام دم توڑ چکا ہے۔ کثرت آبادی کی وجہ سے زمین سکڑ چکی ہے۔ اول تو بجلی اور گیس ناکافی ہو گئی ہیں اور جو ہے وہ بھی قوت خرید سے باہر ہو چکی ہے۔ باہر کا پیسہ آنے سے پہلے ہی خرچ ہو جاتا ہے سود واپس کرنے کے مزید باہر سے پیسہ منگوایا جاتا ہے۔ ہسپتال، سکول،کالج اور یونیورسٹیوں میں گنجائش ختم ہو چکی ہے۔ امیر آبادی کی کوالٹی آف لائف تو شاید اچھی ہوگئی ہو گی لیکن کوالٹی آف ہیلتھ ناگفتہ بہ۔ باپ اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنا چاہتا ہے اور اس کے لئے اسے کروڑوں روپے کی ضرورت ہے اور ابھی اور بیٹیاں اور بیٹے پیچھے بیٹھے ہیں۔ یہ وہ آبادی بڑھانے کا ذوق شوق بلکہ جنون تھا جس کی وجہ سے آج ہم ترقی کے سفر میں پیچھے بلکہ بہت ہی پیچھے رہ گئے ہیں۔ اگر اعدادوشمار کی بات کی جائے تو اس وقت پاکستان آبادی کے لحاظ سے چھٹا بڑا ملک ہے اور اس کی کل آبادی 22کروڑ 94لاکھ 88ہزار 9سو چرانوے ہو چکی ہے اور آبادی بڑھنے سلسلہ آخری خبریں آنے تک جاری و ساری ہے اور اس پر کوویڈ کا بھی کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔ جہاں تک نظر دوڑائی جائے لوگ ہی لوگ نظر آتے ہیں شہروں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں اور دیہات شہروں کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں آلودگی نے انسانوں کا جینا دو بھر کردیا ہے۔
مختصراً چہار سو مایوسی اور پریشانی کے سائے منڈلا رہے ہیں اور آبادی کے اس خوفناک بند کمروں کو “چابی” سے بھی ہم اس لئے نہیں کھول سکے۔ مذکورہ صورتحال پر سوائے لفظی شور شرابے کے کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ ہم نے پاپولیشن ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ تو بنا دیئے ہیں لیکن ہمارا ویلفیئر سٹیٹ کا خواب شاید ان حالات میں کبھی بھی پورا نہیں ہوگا۔
ہم جذباتی قوم ہیں جو کہ منفی پہلوؤں کے فروغ کے لئے زیادہ جذباتی ہو جاتے ہیں اور اثبات کے فروغ کے لئے مصلحت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ صیاد کا کام آسان کرنے کا ہم نے ٹھیکہ اٹھایا ہوا ہے۔ ویسے صیاد بھی ہم خود ہی ہیں اور شکار بھی ہم خود ہی ہیں۔ تخلیق کار بھی خود ہی ہیں اور شہکار بھی خود ہی ہیں۔ کارآمد بھی ہیں اور بے کار بھی خود ہی ہیں کاش ہم اپنے نیچے دیکھ کر چلتے تو زمینی حقائق ہم پر آشکار ہوجاتے اور ہم یوں بے بس اور لاچار نہ ہوتے۔ ہمیں معلوم ہو جاتا کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ آج تو ہم کہیں بھی نہیں جارہے ہم جہاں آج سے بیس سال پہلے تھے وہیں کھڑے ہیں اور اپنی افرادی قوت بڑھا کر وسائل کو مسائل میں تبدیل کررہے ہیں۔ غوروفکر اور سوچ بچار ہم نے کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ویسے ہم چین کے بڑے ہی گہرے دوست ہیں لیکن ان کی کامیابی کے پیچھے جو راز مضمر ہے اس کا سراغ لگانا ہمارے لئے اس لئے ممکن نہیں کیونکہ ہم اغیار سے مستفید ہونا باعث شرم سمجھتے ہیں ویسے بھی آبادی کو کم کرنے کے طریقے بے حیائی کو فروغ دیتے ہیں اور اس قسم کی آگاہی مہم بھی باعث عار ہے۔ کاش ہم چند سال ان ساری مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ دیتے۔ اس سلسلے میں بنائے گئے سارے ادارے اپنا اپنا فعال کردار ادا کرتے۔ سیاسی راہنما آبادی کے اس ہڑ کا بر وقت ادراک کرتے اور اس کے تدارک کے لئے جامع پالیسیاں بنائی جاتیں۔ باقاعدہ آگاہی مہم کا آغاز کیا جاتا اور جملہ مرد وزن کو آبادی کے کنٹرول کرنے کی اہمیت و افادیت سے آگاہ کیا جاتا مزید یہ کہ ریاست اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے قانون سازی کرتی۔
(کالم نگار سیکرٹری ٹیکسز ریونیو بورڈ پنجاب ہیں)
٭……٭……٭