محبوب عالم محبوب
خبر آئی ہے کہ ”جمہوریت کی جھوٹی ماں“ ہندوستان کی ریاست اتر پردیش، جہاں 2011 کے مطابق مسلمانوں کی آبادی تقریبا 19.3 فیصد تھی، ضلع الہ آباد جس کا نام اب مسلم دشمنی میں تبدیل کرکے پریاگ راج رکھ دیا گیا ہے، دریائے گنگا کے ریتلے کنارے پر ماگھ میلہ ”برہما رشی آشرم ٹرسٹ“کے زیر اہتمام”سنت سمیلن“کی تقریب منعقد ہوئی ہے۔ جس میں مقررین نے چند ماہ پہلے ”ہردیوار“میں ہوئی”دھرم سنسد“کی مسلم نسل کشی پر مشتمل نفرت انگیز تقاریر کی یاد تازہ کردی ہے۔ اس سنت سمیلن میں شدت پسند ہندوؤں نے تین عجیب اور دہشت ناک قراردادیں پاس کی ہیں جس سے ہندوستان کے مسلمانوں کی جان، املاک اور عزت کو شدید ترین خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔
پہلی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کو ہندو راشٹرا قرار دیا جائے۔ دوسری قرارداد میں مذہب کی تبدیلی پر سزائے موت کا مطالبہ کیا گیا جبکہ تیسری قرارداد میں یتی نرسنگھا نند اور جیتندر نرائن تیاگی کی رہائی کی بات کی گئی ہے۔ شدت پسند ہندوسوامی نریندرا نند سرسوتی نے کہا کہ تمام ہندوؤں کو اپنے ملک کو ”ہندو راشٹر“لکھنا اور بولنا شروع کر دینا چاہیے ایسا کرنے سے حکومت ملک کو ”ہندو راشٹرا“ قرار دینے پر مجبور ہوجائے گی۔ شدت پسند ہندو بھیانک سازش کے ذریعے ہندوستان میں ایسی بہت سی تاریخی جگہوں، شہروں اور حتیٰ کہ دیہاتوں کے نام، جو پہلے مسلم ناموں پر تھے، پہلے ہی تیزی سے تبدیل کر رہے ہیں اور اب ملک کے نام کی تبدیلی کا مطلب ہے کہ ہندوستان میں صرف ہندو ہی رہ سکتے ہیں۔”سنت سمیلن“میں شدت پسند ہندو، مہا منڈلیشور بربھو دانند نے واضح الفاظ میں مسلمانوں کو ”جہادی بلی“کہا اور ہندوؤں کو ”کبوتر“ قرار دیا۔ اور یہ بھی کہا کہ اس”جہادی بلی“کی آنکھیں پھوڑ دو۔ اور مزید کہا کہ جو ہندوؤں کی عزت نہیں کر سکتے وہ پاکستان یا بنگلہ دیش چلے جائیں۔ خود کو ”معصوم“ کہنے والے شدت پسند ہندوؤں نے درحقیقت ہندوستانی تاریخ کے اوراق ہندوستانی مسلمانوں کے خون سے مسلسل رنگین کیے ہیں۔
آپ 1857 کے بعد کی ہندوستانی تاریخ پڑھیے تو سہی اور پھر 1947 کے بعد تو یہ منظر اور بھی بھیانک ترین ہوتا چلا جاتا ہے۔ ”ہندوؤں کی عزت“ کا بیانیہ واضح کر رہا ہے کہ شدت پسندی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اب ہندو اعلانیہ ہندوستانی مسلمانوں کو ”غلامی“قبول کرنے کا کہہ رہے ہیں یا پاکستان اور بنگلہ دیش میں ہجرت کرنے کا، ایک طرح سے، حکم جاری کر رہے ہیں۔ یہ سب ایک طرح سے بی جے پی حکومت کی شہہ پر ہورہا ہے ورنہ ایسے کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ جیسا کہ شدت پسند ہندو سوامی سوروپ آنند نے واضح الفاظ میں دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہمارے مذہبی جنگجو، نرسنگھا نند اور جیتندر نرائن تیاگی کو ایک ہفتہ کے اندر رہا نہ کیا گیا تو یہ مہم جارحانہ ہو جائے گی۔ اس کا نتیجہ بھیانک ہوگا۔ ہو سکتا ہے ان دو جنگجوؤں کی قید ہمیں وہی کرنے پر مجبور نہ کردے جو بھگت سنگھ نے اسمبلی کے ساتھ کیا۔ یہاں ہندوستان میں برطانوی راج کے دوران 1929 میں سینٹرل لیجسلیٹیو اسمبلی پر بم دھماکے کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ایسے بیانیہ کے بعد بھی حکومتی خاموشی صورت حال کو واضح کرنے کیلئے کافی ہے۔ تبدیلی مذہب پر پھانسی کی سزا کا مطالبہ اصل میں شدت پسند ہندوؤں کا دین اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرنے کاایک طرح سے واضح اعلان ہے۔ ورنہ کسی کے بھی اسلام قبول کرنے سے کسی کو کیا فرق پڑ سکتا ہے۔
سنت سمیلن میں ہندوستان میں مسلمانوں کی اقلیتی حیثیت کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا یعنی اب جو برائے نام ”اقلیت“ہونے کی وجہ سے دنیا سے کبھی کبھی ہندوستانی مسلمانوں کیلئے کہیں کہیں سے آواز اٹھائی جاتی ہے، اقلیتی حیثیت ختم ہونے کے بعد یہ سلسلہ بھی ختم ہوجائے گا۔ اور یہ انتہائی خوف ناک ہے۔ ایک تشدد پسند ہندو مذہبی رہنما کی جانب سے ان تمام اسلامی اداروں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جہاں سے فتویٰ جاری کیا جاتا ہے۔ دو ممتاز اسلامی مدارس”دیو بند“اور ”بریلی“کو بند کرنے کا خصوصی طور پر ذکر کیا گیا۔ اسلامی مدارس کی بندش کی بات کی گونج ہندوستان کی تاریخ میں نئی نہیں ہے مگر اب جیسی شدت پہلے کم ہی نظر آتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک شدت پسند ہندو کی طرف سے ”روکو، ٹوکو اور اگر نہ رکے تو ٹھونکو“ کے الفاظ کہے گئے جو ہندوستانی مسلمانوں کی نسل کشی کا واضح اعلان ہے۔ ایک انتہائی اہم بات آپ کی نذر کرنا چاہتا ہوں کہ چند ہفتے پہلے ہونے والی دھرم سنسد میں مسلمانوں کی کھلے عام نسل کشی کا اعلان کیا گیا تو بین الاقوامی سطح پر احتجاج کے بعد جب جیتندر نرائن تیاگی کو گرفتار کیا گیا، گو یہ صرف دکھاوا تھا پھر بھی ایک شدت پسند ہندو مذہبی رہنما یتی نرسنگھا نند نے اس گرفتاری پر ہندوستانی پولیس افسران کو خبردار کیا کہ ”آپ سب مر جائیں گے۔“ غالب امکان یہ ہے کہ ریاستی اداروں کو واضح دھمکیاں وہی دے سکتا ہے کہ جسے یقین دلا دیا گیا ہو کہ ”کچھ نہیں ہوگا۔“ ورنہ پولیس کے خلاف ایسے الفاظ کا استعمال کرنے والا کس حالت میں اور کہاں ہوتا ہے، یقینا بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جنیو سائیڈ واچ کے صدر نے ”دھرم سنسد“کے بعد کہا تھا، ”مودی ہندوستان کو مسلمانوں کے قتل عام کی طرف لے جارہے ہیں۔“ بات کو مزید واضح کرتے ہیں کہ گانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کو بھی کہنا پڑا کہ بی جے پی نے نفرت کی کئی فیکٹریاں لگا رکھی ہیں۔ ایک بات اچھی طرح یاد رہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کیلئے حالات اتنے خراب نہیں ہیں جتنے ہم سمجھ رہے ہیں بلکہ حالات اس سے کہیں زیادہ خراب ہیں۔ مزید یہ چارسو چیختی خاموشی بہت الم ناک اور فکر انگیز ہے۔
(کالم نگارسیاسی وسماجی موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭