ڈاکٹرعبدالقادر مشتاق
قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے۔مجھے اس ادارے میں جانے کا اتفاق 1985ء میں پہلی دفعہ ہوا تھا۔ جب میرے بڑے بھائی وہاں پر ایم اے تاریخ کے طالب علم تھے۔ یہ ضیاء الحق کا دور تھا اس لئے ڈسپلن کے حوالے سے بہت سختیاں تھیں۔ طلبہ سیاست پر مکمل طور پر پابندی تھی لیکن طلبہ کونسلز کو فروغ مل رہا تھا جس سے نظریات دم توڑ رہے تھے اور علاقائی تعصب کو فروغ مل رہا تھا۔ اس ادارے کے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات پاکستان میں ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
چند دن پہلے ہمارے دوست ڈاکٹر مظہر حیات چیرمین شعبہ انگریزی نے مجھے کہا کہ ہمیں قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد جانا ہے آپ تیار ہو جاو۔ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کا نام سنا تو میرے ذہن میں موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی شاہ کی شخصیت گھومنے لگی۔ میں نے زندگی میں ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ بہت خوب صورت شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کا طرز حکمرانی بہت ہی مختلف ہے۔ وہ ڈسپلن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے، کسی کو بے جا تنگ نہیں کرتے، کام کرنے والے لوگوں کی سرپرستی کرتے ہیں، صوفیائے کرام کی تعلیمات سے خاص شغف رکھتے ہیں، وائس چانسلرز میں وائس چانسلر ہیں اور دوستوں میں دوست، کلچر کو فروغ دینے والے انسان ہیں۔ جب وہ گورنمنٹ کالج یونورسٹی فیصل آباد میں وائس چانسلر تھے تو انہوں نے میری بڑی سرپرستی کی۔ مجھے کام کرنے کا موقع دیا۔ میں نے ان کے ساتھ بطور پبلک ریلشنز آفیسر کام کیا۔ جس طرح ہر انسان کے حاسدین ہوتے ہیں اسی طرح مجھے بھی ہر دور میں ایسے لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اس وقت زیادہ افسوس ہوتا ہے جب دوست نما دشمن آپ کی زندگی میں داخل ہو جائیں اور اندر ہی اندر سے آپ کی جڑیں کاٹنا شروع کر دیں۔ ایسے لوگوں کی کوششوں سے میرے اور ڈاکٹر محمد علی شاہ کے درمیان کچھ غلط فہمیوں نے جگہ لے لی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے چہروں سے غلاف اترنے شروع ہو گئے اور وہ بے نقاب ہوتے گئے۔ خدا انسان کو بے نقاب ضرور کرتا ہے بس کچھ وقت کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ان ساری باتوں کے باوجود ڈاکٹر محمد علی شاہ نے کبھی بھی انتقامی کاروائی کا عملی مظاہرہ نہیں کیا۔ ڈاکٹر مظہر حیات، خالد حسن اور میں نے اسلام آباد کا رخ کیا۔ میرے ہم سفر بہت خوبصورت انسان تھے اس لئے سفر کا احساس ہی نہیں ہوا۔ دوران سفر سیاست پر سیر حاصل گفتگو ہوئی، تصوف کی باریک بینیوں زیر بحث آئیں، لٹریچر پر بات ہوئی اور ہم اسلام آباد پہنچ گئے۔ ڈاکٹر محمد علی شاہ کے لئے ہی شاعر نے کہا تھا کہ جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے۔ انہوں نے قائداعظم یونیورسٹی میں محفل مشاعرہ کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ قومی سطح کے شاعر اپنا کلام پیش کر رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ ہمیں خوش آمدید کہا اور ہم خوب شعر و شاعری سے لطف اندوز ہوئے۔
قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی تاریخ میں یہ پہلا اتنا بڑا مشاعرہ تھا۔ میں چونکہ تاریخ کا طالب علم ہوں اس لئے تاریخ کی تلاش میں رہتا ہوں۔ میں نے پروگرام دیکھ کر اندازہ لگایا کہ محمد علی شاہ کا شمار ان لوگوں میں ہے جو تاریخ میں اپنا نام لکھوانا جانتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بطور وائس چانسلر قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کو بھی ایک نئی پہچان دی۔ ایک خوبصورت مسجد کی تعمیر کروا چکے ہیں، طلبہ و طالبات کے اندر قومی یکجہتی کو فروغ دینے کے لئے ان کی کاوشیں قابل تعریف ہیں، کئی نئے تعلیمی پروگرام شروع کئے گئے ہیں جن میں شعبہ انگریزی، ماس کمیونیکیشن، فزیکل ایجوکیشن کا قیام قابل ذکر ہے۔ طلبہ سیاست کو تشدد سے پاک کرنے کے لئے ان کو تعلیمی و ادبی سرگرمیوں میں مصروف کرنے ویثرن بھی قابل تعریف ہے۔ طلبہ و طالبات کی رہائش کا یونیورسٹی کو بہت بڑا مسئلہ درپیش تھا، وائس چانسلر صاحب نے نئے ہاسٹل کی تعمیر سے اس مسلے کو حتی الامکان حل کرنے کی کوشش کی ہے۔
قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کا پرامن ماحول دیکھ کر ایسا لگا کہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ ہمارے ایک اور دوست اعجاز الحسن کی بدولت ہمیں سینٹ کا اجلاس بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ سیاست دانوں کی قومی معاملات پر سنجیدگی کا بھی احساس ہوا کہ ہمارے لیڈر اجلاس میں کتنی سنجیدگی سے قومی معاملات پر بات کرتے ہیں۔ اعجاز الحسن کی مہمان نوازی نے میرے دونوں دوستوں کو بہت متاثر کیا۔ اس سارے سفر میں ہمیں جس چیز نے سب سے زیادہ تنگ کیا وہ خالد حسن صاحب کا فون تھا۔ لیکن ان کی محبت اتنی شامل حال رہی کہ فون کا بار بار بجنا بھی ہمارے خوشگوار ماحول کا متاثر نہ کر سکا۔ جس چیز نے ہمارا ساتھ نہیں دیا وہ دن کی روشنی تھی۔ جب روشنی اندھیرے میں ڈھلنے لگی تو ہم نے اسلام آباد کی خوبصورت یادوں کو اپنے ساتھ لیا فیصل آباد کا رخ کیا۔ کیونکہ محسن نقوی نے کیا خوب کہا ہے کہ شام ہو جائے تو محسن تم بھی گھر جایا کرو۔
(کالم نگار جی سی یونیورسٹی فیصل آبادکے
شعبہ ہسٹری کے چیئرمین ہیں)
٭……٭……٭