کوئی غلط فیصلہ بھی سنا دیتا تو عدنان اس پر بھی خاموشی سے عمل کرتا
عدنان شاہد میرے لےے ہمیشہ ناقابل فراموش رہے گا
عدنان اویس شاہد کی 15ویں برسی پر خصوصی اشاعت
وہ ایسا ہی تھا،دوستوں اور گھر والوں میں خوشیاں بانٹ کر خوش ہوتا تھا
عدنان فطرتا شرمیلے،خاموش اور کم گو مگر دل سے پیار کرنے والے تھا
عدنان شاہد کی 15ویں برسی پر اگرچہ آج انکے شفیق باپ اور بانی خبریں ضیا شاہدہمارے
درمیان موجود نہیں مگر ان کی تحریروں سے آج بھی ان کے لخت جگر کے پیار کی خوشبو آتی ہے
بانی خبریں کی ایک ایسی ہی تحریر قند مکرر کے طور پر پیش کی جا رہی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عدنان جب ایم اے کر رہا تھا تو ہم سب گھر والوں کا متفقہ فیصلہ تھا کہ اسے صحافی نہیں بنانا مگر اس دوران میں خبریں شروع ہو رہا تھا۔ وہ امتحان دے کر فارغ ہوا تو اس نے یونہی دفتر آنا شروع کر دیا۔ عبداللہ ادیب مرحوم خبریں کے جنرل منیجر تھے۔ ان کے پاس آ کر بیٹھ جاتا پھر وہ ان کے ساتھ تھوڑا تھوڑا کام کرنے لگا۔ ابتدائی زمانہ تھا، وسائل کم اور کام بہت زیادہ تھا۔ رفتہ رفتہ کاغذ کی دستیابی، پرنٹنگ اور پریس کے معاملات اور لڑائی جھگڑے اس کے ذمہ ہو گئے۔ سارا سارا دن وہ ان کاموں میں چکرایا پھرتا۔ مجھے یاد ہے کہ کئی مرتبہ میں نے اسے سوتے میں اٹھایا کہ کاغذ کا ٹرک اسلام آباد نہیں پہنچا۔ وہ اٹھتا اور پھر لاہور سے اسلام آباد جانے والی جی ٹی روڈ پر آنے والے تمام شہروں کے نمائندوں سے باری باری رپورٹ لیتا کہ ٹرک کہاں سے گزر گیا ہے، کہاں پہنچا ہے اور اسلام آباد کب تک پہنچے گا۔ ایک دفعہ ٹرک راستے میں خراب ہو گیا تو عدنان نے بڑی مشکل سے دوسری سواری کا بندوبست کر کے کاغذ اسلام آباد پہنچایا۔ اس کام کے لئے وہ رات بھر بھاگا پھرتا رہا۔
1994-95ءمیں خبریں ملتان کے آغاز سے قبل تیاریوں کے سلسلے میں وہ ملتان میںبھی مقیم رہا۔ وہاں بھی اس نے بڑی محنت سے کام کیا۔ اکیس سال کی عمر میں وہ خبریں کا منیجنگ ایڈیٹر بن گیا اور سارے سٹیشنوں کی انتظامی ذمہ داریاں نبھانے لگا تھا۔ پھر اسے مینجمنٹ سیکھنے کا شوق ہوا اور اس نے ظفر علی روڈ گلبرگ پر امریکن ایمبیسی کی سابقہ عمارت میں واقع امپیریل کالج کے ایم بی اے پروگرام میں داخلہ لے لیا۔ انہی دنوں ہم نے دوپہر کا اخبار صحافت کے نام سے شروع کیا۔ دوستوں اور ساتھیوں کا خیال تھا کہ لاہور شہر کا مزاج دوسرا ہے یہاں کسی ایوننگر کا چلنا ناممکن ہے۔ عباس اطہر صاحب اس کے ایڈیٹر مقرر ہوئے تھے۔ اخبار نکلا تو ساری پیشین گوئیاں اور قیاس آرائیاں غلط ثابت ہوئیں اور صحافت کی اشاعت 93 ہزار تک پہنچ گئی۔ عدنان نے اپنا ایم بی اے کا تحقیقی مقالہ (Thesis) اسی موضوع پر لکھا۔ اس کے مقالے کا عنوان تھا۔ “Eveninger Journalism in Lahore”
جب عدنان امپیریل کالج سے ایم بی اے کر رہا تھا تو انہی دنوں حمیرا اویس شاہد جو ابھی حمیرا حمید تھی، امپیریل کالج کے انتظامی عملہ کا حصہ تھی۔ اس نے یہ نوکری چند ماہ ہی کی۔ نوشین کی شادی پر عدنان کے جو ملنے والے اور دوست آئے تھے ان میں حمیرا بھی شامل تھیں۔ یہ پہلا موقع تھا جب وہ ہمارے گھر آئیں۔ پھر 1996ءمیں حمیرا کے ساتھ عدنان کی شادی طے ہو گئی۔ میری شادی جس قدر سادگی سے ہوئی تھی اس کی تمام کسریں عدنان کی شادی پر پوری کی گئیں اور ہم بڑی دھوم دھام سے بارات لے کر گارڈن ٹاﺅن میں عبدالحمید بھٹی صاحب کے گھر گئے۔
عدنان بڑا سادہ اور منکسر المزاج لڑکا تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ شادی بڑی سادگی سے ہو اور مسجد میں نکاح پڑھ کر چھوٹا سا ولیمہ کر دیا جائے۔ اس موضوع پر خاصی بحث ہوئی مگر ماں کی خواہش تھی کہ وہ سارے ارمان پورے کریں گی۔ آخر اس نے ہار مان لی اور کہا کہ ”جیسا امی کہتی ہیں ویسا ہی ہو گا۔“ وہ ایسا ہی تھا گھر والوں کو، دوستوں کو، قرابت داروں کو اور دوسروں کو خوشی دے کر اور خوش دیکھ کر خوش ہوتا تھا۔ اس کی شادی کا ہنگامہ کئی روز تک چلا۔ امتنان اور اس کے دوستوں نے خصوصی تیاریاں کیں۔ ایک جیسے لباس بنوائے، گانوں کی ریہرسلیں کیں۔ مہندی کی الگ الگ دو رسمیں ہوئیں۔ بارات بڑی دھوم دڑھکے سے گئی اور پھر ایک ولیمہ ہوا۔ دنوں تک اس کی شادی کے تذکرے رہے۔
اس کی شادی کے بعد خوشنود علی خان ہم سے الگ ہو گئے۔ روزنامہ صحافت اور اسلام آباد کا دفتر و پریس خوشنود صاحب کے حصہ میں آیا۔ علیحدگی کے لئے تیس روز کا وقت مقرر ہوا۔ اسلام آباد میں خبریں کا نیا سیٹ اپ بنانے کا چیلنج بھی عدنان کے ذمہ ٹھہرایا گیا۔ پچیس سال کی عمر میں انہیں اسلام آباد جیسے اہم سٹیشن کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ وہاں سابق سٹوڈنٹ لیڈر اور خبریں کے موجودہ ریذیڈنٹ ایڈیٹر ودود قریشی سے مل کر انہوں نے کرائے کی عمارت تلاش کی۔ پریس لگوایا، سٹاف جمع کیا، تیس دن سے پہلے ہی الگ پرچہ شائع کرنا شروع کر دیا اور اسلام آباد کے اخبار کو پھر سے پیروں پر کھڑا کیا۔
کرکٹ کے وہ شوقین تھے۔ اسلام آباد قیام کے دوران انہوں نے اخبارات کے مابین کرکٹ میچوں کا آغاز کیا۔ ایک اخبار کا میچ دوسرے سے، دوسرے کا تیسرے سے اور تیسرے کا پی ٹی وی سے کرانے کی روایت انہوں نے ہی اسلام آباد میں ڈالی۔ مگر اسلام آباد میں حمیرا کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی تھی وہاں درختوں سے جو پولن الرجی ہوتی ہے، حمیرا اسکی مریضہ ہو گئی چنانچہ میں نے انہیں واپس بلوا لیا اور لاہور میں انہیں خبریں کے تمام سٹیشنوں کے ایڈیٹر کی ذمہ داریاں تفویض کر دیں۔
کرکٹ کھیلنے اور چھوٹے چھوٹے میچوں کا اہتمام کرنے میں ان کا جواب نہیں تھا۔ خبریں کے طباعتی مراکز بڑھ گئے تو انہوں نے مختلف اسٹیشنوں کے مابین میچ رکھنے شروع کر دئیے۔ ادھر لاہور میں بھی خبریں کا سٹاف بڑھ گیا تو دو ٹیمیں بنا ڈالیں۔ ایک ٹیم کے کپتان وہ خود تھے دوسری ٹیم کا کپتان چھوٹے بھائی امتنان کو بنا دیا۔ کرکٹ میں وہ امتنان کے استاد بھی تھے۔
امتنان کی زیادہ عادتیں مجھ سے ملتی ہیں۔ اس کی ٹیم اگر ہار جاتی تو وہ غصے میں آ جایا کرتا تھا۔ دوسری طرف عدنان میں تحمل اور برداشت کا مادہ بدرجہ اتم تھا۔ وہ بھائی کو تلملاتا دیکھتے تو چپ سادھ لیتے تاکہ لڑائی نہ بڑھنے پائے۔ عدنان کو یوں بھی چھوٹے بھائی سے بے حد پیار تھا۔ ان کی عمروں میں ساڑھے آٹھ برس کا فرق ہے اور عدنان نے امتنان کو گودوں کھلایا ہے لہٰذا وہ اس کی چھوٹی موٹی بات بڑے حوصلے سے برداشت کر جاتے تھے۔ ساری مشکل ہمارے لئے ہوتی کہ جس کی بھی ٹیم ہاری غصہ دوسرے پر نکلے گا۔ ہارنے پر امتنان کا موڈ آف ہو جاتااور وہ بھائی سے لڑ جھگڑ بھی لیتا لیکن اگر کوئی تیسرا آدمی عدنان کے بارے میں بات کرتا تو امتنان خم ٹھونک کر بھائی کے ساتھ کھڑا ہو جاتا۔ دونوں آگ اور پانی ہونے کے باوجود ایک ہی تصویر کے دورخ لگتے تھے اور یوں لگتا کہ دونوں مل کر ایک شخصیت کی تکمیل کرتے ہیں۔
گٹار بجانا عدنان کا ایک مشغلہ تھا۔ انہوں نے گٹار سیکھا ہوا تھا اور گھریلو تقریبات اور دوستوں کی محفل میں گایا کرتے تھے۔ ان کا پسندیدہ گیت علی حیدر کا ”پرانی جین اور گٹار“ محلے کی وہ چھت اور میرے یار“ تھا۔ فلمی گیتوں میں انہیں روبن گھوش کی موسیقی میں ”مجھے دل سے نہ بھلانا، چاہے روکے یہ زمانہ“ پسند تھا۔ یہ گانے وہ اکثر گایا کرتے تھے۔ جلد ہی چھوٹے بھائی ا متنان نے بھی گانا شروع کر دیا تو عدنان نے رضاکارانہ طور پر اپنی جگہ اسے دے دی۔ کبھی کبھی دونوں بھائی مل کر فیملی فنگشنز میں گایا کرتے۔ عدنان نے چھوٹے بھائی کی شادی پر خصوصی تیاری کی تھی۔ یوں بھی یہ ہمارے گھر کی آخری تقریب تھی اور اس کے لئے گھر بھر نے خصوصی اہتمام کیا تھا مگر عدنان نے مہندی کے موقع کے لئے کئی گانے بطور خاص تیار کئے۔ ڈانس کی تیاریاں کیں۔ اس شادی کو انہوں نے کچھ اس طرح سے Celebrate کیا کہ لگتاہی نہیں تھا وہ ایک شادی شدہ شخص اور اخبار کا ایڈیٹر ہے۔ انہوں نے نورجہاں کا پنجابی گانا ”ماہی آوے گا میں پھلاں نال دھرتی سجاواں گی“ خاص طور پر تیار کیا۔ وہ ہاتھ والا پنکھا چہرے کے سامنے کر کے کچھ اس طرح سے آنکھوں کو دائیں بائیں مٹکاتے کہ سب کی ہنسی چھوٹ جاتی اور وہ خود بھی کھلکھلا کر ہنس پڑتے۔ تب ان کے چہرے پر بچوں کی سی معصومیت اور کھلنڈرا پن ہوتا۔ امتنان کی شادی عدنان کی بیوی حمیرا کی چھوٹی بہن سے ہوئی۔ یوں دونوں بھائی ایک دوسرے کے ہم زلف بھی تھے۔
گو کہ عدنان نے ایم اے اکنامکس کیا تھا اور پھر مینجمنٹ میں ایم بی اے بھی کیا مگر انہیں اخبار کے انتظامی معاملات سے دلچسپی نہ تھی۔ انتظامی معاملات کا بار چونکہ ان پر لاد دیا گیا تھا اس لئے وہ ان کو نبھاتے رہے لیکن وہ پیدائشی لکھاری اور تجزیہ نگار تھے۔ لکھنے پڑھنے میں ان کی دلچسپی حد سے بڑھی ہو ئی تھی۔ ان کے مطالعہ کے شوق کو مزید تحریک اور مہمیز دینے کے لئے میں ہمیشہ کتابوں کے تحفے دیا کرتا تھا۔ شروع کے دنوں میں نسیم حجازی کی کتابوں کا سیٹ دیا۔ بعد کے برسوں میں جب وہ کچھ سمجھدار ہو گئے تو مختار مسعود کی کتابیں دیں۔ قرآن پاک کے مختلف تراجم اور تفاسیر دیں۔ پھر محمد حسین ہیکل کی کتاب ”حیات محمد“ اور فاروق اعظم بھی انہیں میری طرف سے تحفے میں ملیں۔ ا یک دفعہ شفیق الرحمان کی کتابوں کا سیٹ لے کر دیا۔ شفیق الرحمان کو وہ بہت پسند کرتے تھے۔ انہیں شفیق الرحمان کے مزاح کے بجائے رومان اور سفرنامے زیادہ پسند تھے۔ عمر بھر ان کا یہ معمول رہا کہ باتھ روم جاتے ہوئے شفیق الرحمان کی کوئی نہ کوئی کتاب ہاتھ میں ہوتی۔
مختار مسعود کے وہ حافظ تھے۔ آواز دوست، سفر نصیب اور لوح قلم کے صفحات کے صفحات از بر تھے۔ شاعری میں فیض احمد فیض کے عاشق تھے۔ فیض کے مجموعہ کلام ”نسخہ ہائے وفا“ کے نئے نئے ایڈیشن خریدتے رہتے۔ وہ اس مجموعہ کو اس قدر استعمال کرتے اور اتنا پڑھتے کہ کچھ ہی عرصہ بعد کتاب یاتو پھٹ جاتی یامیلی ہو کر مضمحل ہو جایا کرتی تھی۔
عدنان فطرتاً شرمیلے، خاموش اور کم گو تھے۔ دل سے پیار کرنے والے انسان تھے۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ زندگی میں، جس قدر بھی ان کوملی، انہوں نے کبھی کسی سے نفرت کااظہار کیا ہو۔ ننانوے فیصد لوگوں کو ملتے ہوئے ہمیشہ ان کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی۔ ان کا تبسم بے حد نرم اور خوش کن ہوا کرتاتھا۔ مزاج میں ملنساری اور انکسار بے حد زیادہ تھا۔ میری سب سے زیادہ ڈانٹ ڈپٹ انہی کے حصہ میں آئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امتنان شاہد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کے ساتھ گزرے زندگی کے بہت سے ناقابل فراموش لمحات میر ا اثاثہ ہیں
عدنا ن بھائی کے لئے
پورے خاندان میں سب سے زیادہ حساس اور دوسرں کا خیال رکھنے والے تھے
انہیں قریب سے جاننے والے اس کی تصدیق کریں گے کہ وہ ملک کے محروم طبقوں کےلئے بہت کچھ کرنا چاہتے تھے
کرکٹ کے میدان میں عدنان بھائی نے مجھے فرنٹ اور بیک فٹ پرکھیلناسکھایا
عدنان بھائی کی تدفین کے بعد چند روز کے بعدمیں نے دفتر آنا شروع کیا۔ دفتر اور باہر کے بہت سے دوستوں اور عدنان بھائی کے چاہنے والوں نے اس دوران متعدد بار مجھ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان کے بارے میں کچھ لکھ چھوڑوں تاکہ دو بھائیوں کے درمیان سالہا سال سے موجود رہنے والے پیار، محبت، تعاون اور دوستی کے رشتے کو ریکارڈ پر لایا جا سکے اور شاید میرے لیے ان (اللہ تعالیٰ عدنان صاحب کو جنت الفردوس میں جگہ عطا کرے آمین) کے بارے میں لکھنا، کوئی بات تحریر کرنا ایک مشکل ترین اور عجیب سی بات لگتی ہے کیونکہ کسی انسان کے لئے شاید زندگی میں مشکل ترین کام اس حقیقت کو ذہنی طور پر تسلیم کرنا ہے کہ وہ جس سے پیار کرے وہ دنیا میں نہ ہو اور اس کے ساتھ ملاقات صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہی ہو سکتی ہو۔ بہرحال لکھنے کو تو بہت کچھ ہے پر کچھ یادوں کو تحریر کی شکل دینے کی کوشش کر رہا ہوں۔
یہ 9 شادمان لنک روڈ کی بات ہے جب میں کریسنٹ ماڈل سکول میں چوتھی جماعت کا طالب علم تھا اور عدنان صاحب اسی سکول سے میٹرک کر رہے تھے۔ ضیا صاحب ان دنوں روزنامہ جنگ لاہور میں جوائنٹ ریذیڈنٹ ایڈیٹرکے طور پر کام کرتے تھے اور ہم تقریباً ڈیڑھ دو برس پہلے کراچی سے لاہور شفٹ ہوئے تھے جہاں ضیا صاحب روزنامہ نوائے وقت کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر کے طور پر فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ میرے بہت سے دوست اب بھی مجھے کہتے ہیں کہ اگر میں پیشہ صحافت سے منسلک نہ ہوتا تو یقینا کرکٹر ہوتا۔ مجھے آٹھویں جماعت میں سکول کی کرکٹ ٹیم میں کھیلنے کاموقع ملا۔ جب میں نویں جماعت میں گیا تو واپڈا کی ٹیم کے ساتھ روزانہ منٹوپارک پریکٹس سیشنز میں جایا کرتا۔ دسویں جماعت میں تھا تو مجھے اسی ٹیم کی طرف سے قائد اعظم ٹرافی اور اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے کرکٹ ٹورنامنٹ ولز کپ میں کھیلنے کی پیشکش ہوئی۔ اس کے علاوہ پاکستان جونیئر ٹیم میں بھی کھیلنے کا موقع ملا جو ہماری فیملی کے مشترکہ فیصلے کے باعث پورا نہ ہو سکا۔ یہ سارا واقعہ مجھے عدنان شاہد مرحوم کی اس کوشش کی یاد دلاتا ہے جو انہوں نے اس وقت اپنے چھوٹے بھائی کے لئے کی۔ میں آل راﺅنڈر تھا میں نے بیٹنگ ان سے سیکھی۔ انہوں نے مجھے فرنٹ فٹ اور بیک فٹ پر کھیلنا سکھایا جس کاذکر میں اکثر ان کے ساتھ کرتا انہی کی کوشش سے میں واپڈا کے نیٹ پر جایا کرتا۔ میں سکول ٹیم میں گیا تو انہوں نے مجھے کرکٹ کا نیا بیٹ (Bat) لے کر دیا۔ میرے کرکٹر بننے میں ہمارے خاندان میں عدنان صاحب کا ووٹ ہمیشہ میرے ساتھ رہا۔ یہ صرف ایک چھوٹی سی مثال تھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے چھوٹے بھائی اور یہاں تک کہ چھوٹے بھائی کے دوستوں کی خواہشات پوری کرنے کے لئے سوچتے اور ان پر عملدرآمد کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ سب کو ہمیشہ بلا جھجھک کہتے کہ خبریں کی کرکٹ ٹیم کا کپتان صرف امتنان ہی بن سکتا ہے کیونکہ وہ بہت اچھا آل راﺅنڈر ہے اور اچھا کھیلتا ہے لیکن جب بھی وہ یہ بات کرتے مجھے اپنی چوتھی جماعت یاد آ جاتی جس میں انہوں نے مجھے بیٹنگ اور باﺅلنگ سکھائی۔ فرنٹ فٹ اور بیک فٹ پر کھیلنا سکھایا اور یہ سکھایا کہ مشکل گیندوں کو کس طریقے سے “Tip” کیا جاتا ہے اور بری گیند کو باﺅنڈری سے باہر پھینکنے کا کیا طریقہ ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کم وبیش ہر اتوار کو ہم کرکٹ کھیلتے تھے۔ مجھے ان کے ساتھ کھیلے گئے آخری میچ میں عدنان صاحب نے ہی آﺅٹ کیا تھا۔ میری وکٹ گرانے کے بعد ان کا ہنستا ہوا شرارتی چہرہ آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ وہ سب سے حسین یاد تھی جس میں عدنان شاہد مرحوم مجھے پویلین میں بھیج رہے تھے اور ساتھ ہی قہقہہ لگا کر دل میں کہہ رے تھے کہ ”بچے میں تمہارا استاد ہوں“
کہتے ہیں کہ والد کے بعد بڑا بھائی گھر کا بڑا ہوتا ہے وہ میرے استاد بھی تھے، بھائی بھی، دوست بھی تھے، خیر خواہ بھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ میرے بڑے بھائی تھے۔ میں انہیں 25/26 سال سے جانتا تھا ان پچیس چھبیس برسوں میں تقریباً اٹھارہ، انیس سال میں اور وہ ایک ہی کمرے میں رہے اور زندگی کے بہت سارے لمحے، یادیں میں نے ان کے ساتھ گزاریں اوران میں شریک رہا۔ جس میں وہ خوش ہوئے تو میں بھی اس میں خوش ہوا، جب وہ غصے میں آئے میں بھی غصے میں آیا۔ ہم شادمان سے اپنے موجودہ گھر ماڈل ٹاﺅن میں شفٹ ہو گئے تو عدنان صاحب مجھے صبح سکول چھوڑ کر گورنمنٹ کالج لاہور جایا کرتے تھے اور میری واپسی پر میری بڑی بہن ڈاکٹر نوشین مجھے لیا کرتی تھیں۔ صبح جاتے ہوئے وہ اکثر انگریزی گانے سنا کرتے تھے چند ماہ پہلے ان کی امریکہ روانگی سے قبل میں ”دی پوسٹ“ کے دفتر میں ان کے کمرے میں گیا اور بڑی خوشی سے ان کو بتاناچاہا کہ میں نے اس دور کے کچھ گانوں کی سی ڈی منگوائی ہے جو ہم اکٹھے سکول اور کالج جاتے سنتے تھے۔ میں ان کے کمرے میں داخل ہوا تو ان کا ”موڈ“ کچھ ٹھیک نہ تھا۔ میں نے یہ بات کرنا مناسب نہ سمجھا اور سلام کر کے دوسرے فلور پر واپس اپنے کمرے میں آ گیا اور سوچا کہ کسی مناسب وقت پر ان کے پاس جاﺅں گا اور ان کو بتاﺅں گا کہ یار عدنان بھائی مجھے آج بھی وہ گانے یاد ہیں جو ہم اکٹھے سنا کرتے تھے اور میرے پاس ان کی سی ڈی بھی ہے۔
ہمارے زمانہ طالب علمی میں ضیا صاحب اپنے کام کی وجہ سے بہت مصروف ہوتے اور ان سے ملاقات کم ہوتی تھی۔ یہ ایک واضح امر ہے کہ کوئی بچہ اپنے گھر کے بڑوں سے متاثر ہوتا ہے اس کی پسند دراصل ان کی پسند ہوتی ہے۔ وہ وہی کام کرتا ہے جن کو اس کے بڑے پسند کریں لہٰذا میری پسند بچپن ہی سے عدنان صاحب مرحوم کی پسند سے متاثر تھی۔
ڈاکٹر نوشین
۔۔۔۔۔
عدنان کے اندر سے کوئی آواز ایسی اٹھتی تھی اس کی وجہ سے وہ اللہ اور اس کے رسول کے بتائے راستے پر چلنے کی کوشش کرتا تھا
میرا بھائی۔میرا دوست۔میرا ہمراز
اسکول کے زمانے میں ہی جب عدنان کو نماز پڑھنا ہوتی تو کمرے میں بند ہر کر پڑھتا
میرا بھائی ساتویں جماعت میں ہی سکول کے ادبی رسالے کا جونیئر ایڈیٹر بن گیا تھا
عدنان چھوٹا ہونے کے باوجود میرے پسند پر حاوی رہامگر اس نے اپنی پسند کبھی مجھ پر مسلط نہیں
یہ جو اخبار میرے سامنے رکھا ہے، اس پر 14 اگست 2005ءکی تاریخ درج ہے۔ اس کے صفحہ اول پر اوپر کے بائیں کونے میں نیلے مارکر کے ساتھ چند سطریں لکھی ہیں۔
For Noshi
You are the truest friend that I have and I have shared all my life with you. I Love you more than I ever did.
Ednan
14-08-05
یہ دی پوسٹ کا پہلا شمارہ ہے جو عدنان نے مجھے بڑی محبت اور چاہت سے دیا تھا۔ اس پر مضمون لکھنے کا مرحلہ درپیش ہے تو میں نے اپنے ڈیسک میں سنبھال کر رکھا ہوا یہ پرچہ نکالا ہے۔ یہ تحریر دیکھ کر آنکھیں بھیگنے لگی ہیں۔ دو قسم کے لوگوں کے بارے میں لکھنا یا کچھ کہنا مشکل ہوتا ہے۔ ایک وہ جنہیں آپ بہت کم جانتے ہوں اور دوسرے وہ جن کو آپ بہت زیادہ جانتے ہیں۔ ضیا صاحب نے کہا ہے کہ تم عدنان کی یادیں تازہ کرو اور ہر صورت اس پر کچھ لکھو۔ تازہ تو بھولی بسری باتیں کی جاتی ہیں، وہ یادیں اور تعلق جو ہمہ وقت آپ کی ذات کے اور فکر کے گرد ہالہ بنائے رکھتی ہوں، ان کو تازہ کرنے کے کیا معنی؟
وہ ماں کی گود سے میرا ساتھی تھا۔ میں ایک سال کی تھی جب وہ ہمارے گھر آیا۔ ہم نے ماں کی گود شیئرکی ہے اور تب سے اس کے لحد میں اتر جانے تک ساری زندگی میں نے اس کے ساتھ بانٹی ہے۔ ہمارے خاندان میں لڑکیاں بہت کم ہیں۔ میری بھی کوئی بہن نہیں۔ سو وہ آیا تو میرا سب سے اچھا دوست بن گیا۔ وہ میرا بھائی بھی تھا، ہم راز بھی۔ میں یہ ثابت نہیں کرنا چاہتی کہ وہ کوئی بڑا پہنچا ہوا اور اللہ کا مقرب خاص تھا مگر ایک بات ضرور ہے کہ وہ دل کا بڑا صاف تھا۔ جو اس کی زبان پر ہوتا وہی اس کے دل میں ہوتا۔ اس کا قول اور اس کا عمل ایک دوسرے کا عکس تھے۔ میرے لکھے کو تو کوئی بھی یہ کہہ کر رد کر سکتا ہے کہ بہنوں کے بھائیوں کے بارے میں جذبات ایسے ہی ہوا کرتے ہیں مگر اتنے بہت سارے لوگوں کا لکھا اور کہا اس کی نیک دلی اور خوش عملی کی شہادت کے لئے موجود ہے اور میرے اللہ کا وعدہ ہے کہ انسان کے حق میں اچھی اور نیک گواہیوں پر میں اپنے فیصلے بدل دوں گا۔ سو اے بارالٰہ! ہمارے دامن بھی تیری بارگاہ عزوجل میں دراز ہیں اور ہم عدنان کے حق میں تجھ سے تیری رحمت اور تیرے فضل کے خواستگار ہیں۔
بچپن میں ہمارے کھلونے اکٹھے ہوا کرتے تھے۔ مجھے نہیں یاد کہ بچپن میں کبھی میں گڑیا وغیرہ سے کھیلی ہوں۔ سارے کھلونے لڑکوں والے تھے۔ مکینوسیٹ، ٹولز، ڈاکٹر سیٹ، کاریں سبھی کچھ لڑکوں کے کھیلنے والا۔ عدنان چھوٹا ہونے کے باوجود میری پسند پر حاوی رہا، مگر اس نے اپنی Choice کبھی مجھ پر مسلط نہیں کی تھی، زبردستی کبھی اپنی نہیں منوائی تھی۔ بڑے پیار سے اپنی پسند کے حق میں دلائل دیا کرتا تھا۔ عدنان نے مجھے کرکٹ کھیلنا سکھایا۔ بچپن میں بال سے بہت ڈرتی تھی لیکن پھر عادت ہوتی گئی۔ میں، عدنان اور امتنان میری شادی سے پہلے تک اکٹھے کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ ہمارے گھر میں کرکٹ میچ دیکھنے کا بڑا اہتمام ہوتا تھا۔ کاپی پنسل ہاتھ میں رکھ کر باقاعدہ سکور بورڈ ترتیب دیا جاتا تھا۔
عدنان تین چار سال کا تھا۔ ہمیں کسی نے ڈاکٹر سیٹ تحفے میں دیا۔ میں شروع ہی سے کہتی تھی کہ بڑی ہو کر ڈاکٹر بنوں گی اس لئے میری دلچسپی اس ڈاکٹر سیٹ میں زیادہ تھی۔ ہم اکثر اس سے کھیلتے رہتے۔ اس سیٹ میں چھوٹی چھوٹی پلاسٹک کی چھریاں بھی تھیں۔ ایک دفعہ عدنان نے ایک چھری میرے کان پر آزمائی تو کان سے خون جاری ہو گیا۔ امی کی ڈانٹ اور ایک آدھ تھپڑ پڑا تو وہ روتا جاتا تھا اور کہتا تھا کہ میں کبھی ڈاکٹر نہیں بنوں گا۔ مجھے بڑا ہو کر ڈاکٹر نہیں بننا۔
مجھے مونٹیسوری سکول میں داخل کروایا گیا تو میں بہت روتی تھی۔ سکول جاتے ہوئے بھی اور سکول میں بھی۔ کئی ہفتے یہ سلسلہ چلتا رہا۔ پھر عدنان کا داخلہ بھی اسی سکول میں ہوا تو مجھے ایک کلاس پیچھے کر کے اس کی جماعت میں بٹھا دیا گیا تا کہ میرا رونا کچھ کم ہو سکے۔ عدنان اس وقت بے حد دبلا پتلا تھا مگر اس کا سر بہت بڑا تھا۔ سکول میں ایک ٹیچر مس سیمی ہوتی تھیں۔ وہ عدنان کو Big Head کہا کرتی تھیں۔ سکول کے گیٹ پر پہنچ کر میں رک جاتی اور رونے لگتی تو عدنان میرا ہاتھ پکڑ کر گیٹ کے اندر کلاس تک لے جاتا۔ کلاس میںبھی اس کا زیادہ وقت مجھے چپ کرانے اور میری دل جوئی کرنے میں گزرتا۔ خود اتنا چھوٹا اور کمزور سا تھا۔ یونیفارم کی نیکر پہنتا تو پتلی پتلی ٹانگیں نکل آتیں مگر مجھے چپ کراتے وقت وہ بزرگ بنا ہوتا۔ لنچ بریک میں مجھے لنچ بھی وہی کرواتا اور اب عدنان کا بیٹا نوفل بالکل عدنان جیسا لگتا ہے۔ شکل، جسامت، باتیں اور بہت پیار کرنے والا دل، سب عدنان جیسا ہے۔
گھر میں ہم دونوں کا کمرہ ایک تھا۔ اکٹھے پڑھتے اور ایک ساتھ کھیلتے۔ میں نو سال کی اور عدنان آٹھ برس کا تھا جب مونتو (امتنان) نے ہمارا کمرہ شیئر کرنا شروع کیا۔ مونتو پیدا ہوا تو امی محکمہ تعلقات عامہ میں جاب کرتی تھیں اور بڑے ہونے کی وجہ سے مونتو کو پالنے میں عدنان کا اور میرا بڑا حصہ ہے۔ وہ ہماری کتابوں، کاپیوں پرلکیریں لگاتا، ہمارے درمیان سوتا، کھانا کھاتے ہوئے اسے بیچ میں بٹھایا جاتا۔ عدنان نے اور میں نے مونتو کو ایک ایک بات سکھائی۔ جب وہ کھڑا ہونے لگا تو اس کا ایک ہاتھ عدنان پکڑتا، دوسرا میں پکڑتی اور پھر ہم اس کو پاﺅں پاﺅں چلنا سکھاتے۔ سارا دن ہم دونوں مونتو کے گرد چکرائے پھرتے۔ پھر ہم اور بڑے ہوئے تو میرا کمرہ الگ ہو گیا اور مونتو اور عدنان ایک کمرے میں رہنے لگے۔ مونتو عدنان کے تمام کپڑے جوتے استعمال کرتا۔ ایک دفعہ عدنان نے کہا کہ اپنی چیزیں ڈھونڈنے کے لئے مونتو کی الماری کھولنا پڑتی ہے۔
عدنان کی یادداشت بے حد اچھی تھی۔ پانچویں جماعت میں وہ کریسنٹ سکول میں داخل ہو گیا۔ کلاس میں وہ جو کچھ پڑھتا، گھر آ کر ہوم ورک کی صورت میں دوسری مرتبہ دیکھتااور پھر تیسری دفعہ وہ امتحان کے دنوں میں اس پر نظر ڈالتا۔ عدنان نے یہ غیر معمولی حافظہ وراثت میں پایا تھا۔ وہ فوٹو میموری رکھتا تھا جب لکھنے بیٹھتا تو پڑھے ہوئے کو سطر سطر نقل کر دیتا۔ اسے کتاب کا صفحہ نمبر تک یاد رہتا تھا۔ اس بنا پر اسے محنت کم کرنا پڑتی اور وہ ہمیشہ اے پلس گریڈ لیتا۔ مگر حساب سے وہ بھاگتا تھا۔ اس مضمون میں اس کے نمبر پچاس پچپن سے اوپر نہیں آتے تھے۔ حساب پڑھنے میں اس کی مدد میں کیا کرتی تھی۔ ساتویں جماعت میں کریسنٹ ماڈل سکول کے ادبی رسالے کا جونیئر ایڈیٹر بن گیا۔ آٹھویں جماعت کا امتحان عدنان نے کراچی میں فیڈرل بورڈ سے دیا کیونکہ اس وقت ابو کی ٹرانسفر نوائے وقت کراچی ہو گئی تھی۔ آٹھویں جماعت کے امتحانوں میں عدنان کو سکالر شپ ملا۔ وہ بڑا خوش تھا۔سکول سے فارم لے کر آیا۔ ان کو پر کیا، ابو کے دستخط کروائے اور جمع کروانے کے لئے فارم سکول بیگ میں رکھ لئے۔ کئی دن گزر گئے۔ ایک دن میں اس کو پڑھا رہی تھی۔ میں نے اس کا بیگ دیکھا تو سکالر شپ کے فارم پڑے تھے۔ فارم جمع کروانے کی آخری تاریخ گزر چکی تھی۔ میں نے پوچھا تم نے فارم جمع نہیں کروائے؟ ذرا سا گڑ بڑا گیا اور کہنے لگا ”دیکھو! تم امی ابو کو نہ بتانا پلیز۔“ میں نے پھر ذرا سختی سے پوچھا ”لیکن تم نے آخر کیوں نہیں جمع کروائے“ عدنان نے کہا ”میں نے جان بوجھ کر نہیں کروائے۔ وہ، بات یہ ہے کہ میری کلاس میں ایک لڑکا پڑھتا ہے، اس کے نمبر ذرا کم ہیں۔ سکالر شپ حاصل کرنے والوں میں اس کا نام نہیں آیا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اگر فہرست میں سے کوئی ایک لڑکا بھی ڈراپ ہو جائے تو مجھے وظیفہ مل جائے گا۔“ وہ کچھ دیر خاموش رہا، پھر بولا ”تمہیں پتہ ہے نوشی! اس کے ابو نہیں ہیں۔ اس وظیفے کی اس کو مجھ سے زیادہ ضرورت ہے۔