تازہ تر ین

مالی سال 2022-23ء کیلئے 9 ہزار 502 ارب روپے کا نیا بجٹ پیش

اسلام آباد: (ویب ڈیسک) وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے مالی سال 2022-23ء کا چار ہزار ارب سے زائد خسارے کا 9 ہزار 502 ارب روپے کا بجٹ پیش کر دیا۔
سپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بجٹ پیش کیا۔اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف سمیت دیگر ارکان نے بھی شرکت کی جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے حسب معمول ایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا گیا اور اپوزیشن کی نشستیں خالی رہیں۔
بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ اتحادی حکومت کا پہلا بجٹ پیش کرنا اعزاز کی بات ہے، حکومت میں تمام اکائیوں کی نمائندگی ہے، چار سالوں سے معاشی ترقی رک گئی اور قومی اتحاد تتر بتر ہو گیا، سابقہ حکومت میں ہر چیز کی قیمت بڑھی، ناتجربہ کار ٹیم نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا، سابق حکومت کے دور میں عام آدمی بری طرح متاثر ہوا، غریب اور متوسط طبقے کی زندگی اجیرن ہو گئی۔ پونے چار سال میں ایک ناتجربہ کار ٹیم نے ملکی معیشت ڈبو دی، گزشتہ حکومت میں ہر سال ایک نیا وزیر خزانہ بجٹ تقریر کرتا رہا۔ یہ لوگ بات کر کے مکر جانے کے ماہر ہیں، یہ عالمی اداروں کے ساتھ بھی بات کر کے مکر گئے۔ انہوں نے عالمی اداروں کے سامنے بھی اپنا موقف تبدیل کیا، معیشت کے سٹرکچر کے بگاڑ کودرست کرنے کے لیے ریفارمز کی ضرورت ہوتی ہے، گزشتہ حکومت اصلاحات سے دامن چراتی ہے، جس وجہ سے آج معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی نہ ہو سکی۔
انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت کے پاس وقت بہت کم ہے، ہم یہ ذمہ داری آئندہ حکومت پر ڈال سکتے تھے لیکن یہ ملک کا نقصان ہے۔ ہم نے معیشت تباہ حال ہونے کے باوجود اقتدار لیا۔ الیکشن کا اعلان کرتے تو ملک دوبارہ پاوں پر کھڑا نہ ہوسکتا۔ وہ ساری تبدیلیاں کریں گے جس سے ملک کو فائدہ ہو گا، یہ جانتے ہوئے حکومت میں آنے کا فیصلہ کیا کہ معیشت خراب ہے، دوآپشن تھے ایک الیکشن کا اعلان کردیتے، ہم نے دوسرا راستہ اپنا کرمشکل فیصلے کیے، مشکل فیصلوں کی کڑی ابھی مکمل نہیں ہوئی، ہم نے پہلے بھی کیا اوراب بھی کرکے دکھائیں گے۔ ترقی ہوتی ہے تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بے قابو ہو جاتا ہے، ہمیں کوئی نئی سوچ اپنانی ہو گی، ہمیں امرا کے بجائے غریب کوسہولیات دینا ہوں گی، ہم مشکل فیصلوں کیلئے تیار ہیں، ہمیں معاشی ترقی کی مضبوط بنیاد رکھنا ہوگی۔
وزیر خزانہ نے کا کہنا تھاکہ معشیت کے ڈھانچہ جاتی بگاڑ کو درست کرنے کے لیے بنیادی اصلاحات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جس کا ایک فوری منفی رد عمل بھی دیکھنے میں آتا ہے مگر معشیت مضبوط بنیادوں پر استوار ہوجاتی ہے، گزشتہ حکومت ایسے اقدامات سے کتراتی رہی، اس لیے وہ تمام اصلاحات موخر ہوتی رہیں جن کی وجہ سے آج معشیت اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوسکی اور خوشحالی ہم نے دور ہوگئی۔ موجودہ حکومت کے پاس بہت کم وقت ہے، ہم بڑی آسانی سے ان تبدیلیوں کو آئندہ حکومت پر ڈال سکتے تھے لیکن اس میں ملک کا نقصان تھا، اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ وہ تمام تبدیلیاں کی جائیں گی جن نے معشیت اور ملک کو فائدہ ہوگا۔
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ہم یہ جانتے ہوئے حکومت میں آئے تھے کہ ملک کی معشیت کی حالت خراب ہے، ہمارے پاس دو آپشن تھے، ایک تو یہ کہ ملک کو اسی حالت میں چھوڑتے اور نئے انتخابات کا اعلان کردیتے مگر اس طرح معشیت کا بیڑا غرق ہوجاتا اور ملک کو دوبارہ پٹڑی پر چڑھانا مزید مشکل ہوجاتا، اس لیے ہم نے دوسرا راستہ اپنایا اور مشکل فیصلے کرنا شروع کیے، یہ ہی ترقی کا راستہ ہے، ہم نے پہلے بھی یہ کیا ہے، ہم کرسکتے ہیں اور ہم کرکے دکھائیں گے۔ ہم نے ہمیشہ قومی مفاد کو اپنے سیاسی مفاد پر ترجیح دی ہے، اس وقت بھی ہماری اولین ترجیح معاشی استحکام ہے، ہماری معشیت کا ایک بنیادی مسئلہ یہ رہا ہے کہ اکثر معاشی ترقی کی شرح 3 اور 4 فیصد کے درمیان رہتی ہے جو ہماری آبادی کی شرح سے مطابقت نہیں رکھتی، اس کے برعکس جب معاشی ترقی کی شرح 5 یا 6 فیصد سے اوپر جاتی ہے تو کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ قابو سے باہر ہوجاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم معیشت کو چلانے کے لیے امیر طبقے کو مراعات دیتے ہیں جس سے درآمدات بڑھ جاتی ہیں جب کہ برآمدات وہیں کھڑی رہتی ہیں۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اس مسئلے سے نمنٹنے کے لیے ہمیں نئی سوچ کو اپنانا ہوگا اور ایک قوم کے طور پر اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا، ہمیں معیشت کو چلانے کے لیے کم آمدنی والے اور متوسط طبقے کو مراعات دینا ہوگی جس سے مقامی پیداوار بڑھے گی اور زراعت کو بھی ترقی ملے گی۔ ہمیں غریب کے معاشی حالات کو سنوارنا ہوگا، غریب طبقے کو سہولتیں دینا ہوں گی تاکہ اس کی آمدن بڑھے، جب غریب کی آمدن بڑھتی ہے تو وہ ایسی اشیا خریدتا ہے جو ملک کے اندر تیار ہوتی ہیں، ایسی اشیائے صرف پر خرچ کی گئی رقم سے درآمدات نہیں بڑھتیں، لیکن ملک کے اندر معاشی ترقی کا عمل شروع ہوجاتا ہے، ایسا کرنے سے ہم مستقل بنیادوں پر جامع ترقی کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں معاشی ترقی کی بنیاد رکھنی ہوگی، ایسی مضبوط بنیاد جس پر مستحکم معاشی ترقی کی شاندار عمارت تعمیر ہوسکے اور جو اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ قائم و دائم رہے، ہمیں برآمدات بڑھانے، زراعت، آئی ٹی سیکٹر اور صنعتی برآمدات بڑھانا ہوں گی۔ ہمیں زرعی شعبے کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہوگا اور اپنی برآمدات کی مسابقت کو بڑھانا ہوگا تاکہ وہ عالمی منڈی دیگر ممالک کی مصنوعات کا مقابلہ کرسکیں، ہمیں کاروبار کرنے کے مواقع کو آسان اور بہتر بنانا ہوگا تاکہ مقامی اور بیرونی سرمایہ کار زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں۔ ہمیں مشینری اور خام مال کی درآمد کے بعد اس کی ویلیو میں اضافہ کرکے برآمد کرنا ہوگا، اس طرح جتنی درآمدات بڑھیں گی اس سے کہیں زیادہ بر آمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔
مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ ہمیں تباہ حال معشیت کو درست راہ پر گامزن کرنے کا مشکل چیلنج درپش ہے، گزشتہ پونے 4 سال کے دوران معاشی عدم استحکام جاری تھا، تاریخی مہنگائی، غیر ملکی زر مبادلہ کی مشکلات، زیادہ لاگت پر بے دریغ قرضوں کا حصول، لوڈ شیڈنگ اور اوپر سے مسائل کا حل نکالنے میں ناکام سابقہ حکومت نے عوام کی زندگیوں کو مشکلات سے دوچار اور شکستہ حال بنادیا۔ گزشتہ پونے 4 سال کی بد انتظامی کی وجہ سے پاکستان مہنگائی کے حساب سے دنیا کے بڑے ملکوں میں نمبر 3 پر ہے، ساڑھے سات کروڑ لوگ غربت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، ان میں دو کروڑ کا اضافہ گزشتہ پونے 4 سال میں ہوا جب کہ اسی دوران ساٹھ لاکھ لوگ بے روزگار ہوئے، اپنی پونے 4 سال کی مدت میں سابقہ حکومت نے 20ہزار ارب روپے قرض لیا جو لیاقت علی خان اور خواجہ ناظم الدین سے لے کر ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، میاں محمد نواز، شاہد خاقان عباسی اور راجا پرویز اشرف سمیت تمام وزرائے اعظم کی حکومتوں کے 71 سال میں لیے گئے قرضوں کے 80 فیصد کے برابر ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے آمدن سے زیادہ خرچ کیا اور پاکستان کی تاریخ کے 4 بلند ترین خسارے کے بجٹ پیش کیے، ان کا اوسط بجٹ خسارہ 8عشاریہ 6 فیصد کے قریب رہا، اس دوران سالانہ تقریبا 5 ہزار ارب روپے کا قرض بڑھایا گیا اور رواں مالی سال میں پانچ ہزار 100ارب روپے کا خسارہ متوقع ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح بجلی کا گردشی قرضہ ایک ہزار 62ارب روپے سے بڑھ کر جو ہم مئی 2018 میں چھوڑ کر گئے تھے، اب ڈھائی ہزار ارب روپے کا ہوگیا ہے اور ملکی تاریخ میں پہلی بار گیس کے شعبے میں گردشی قرضہ دیکھنے میں آیا ہے جو مارچ 22-2021 میں ایک ہزار 400 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ نواز شریف کے دور حکومت میں مہنگائی کم سے کم کی گئی، مہنگائی کی شرح تقریبا 5 فیصد کے قریب تھی جب کہ افراط زر کی کم سے کم شرح 3عشاریہ 9 فیصد ریکارڈ کی گئی، گزشتہ پونے 4 سال کی بد انتظامی کی وجہ سے پاکستان ایک مستقل مہنگائی کی لہر میں ہے کیونکہ گزشتہ وزیراعظم کہتے تھے کہ میں پیاز اور ٹماٹر کے ریٹ دیکھنے نہیں آیا بلکہ ملک کو عظیم بنانے آیا ہوں، مجھے نہیں معلوم کہ غریب آدمی کی مہنگائی کی چکی میں پیس کر کوئی ملک کیسے عظیم بن سکتا ہے۔
مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھاک کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ عمران خان کی حکومت آتے ہی چینی اور آٹے کی قیمتیں کیوں بڑھ گئیں، 2013 میں چینی کی قیمت 55 روپے فی کلو تھی اور 2018 میں جب ہم گئے تو چینی کی قیمت 53 روپے تھی مگر پھر 2018 کے بعد چینی کی قیمت کو پر لگ گئے اور اس کی قیمت 140 روپے سے تجاوز کر گئی۔ پھر وزیراعظم شہباز شریف آئے جو چینی کی قیمت 70 روپے فی کلو پر لے آئے، اسی طرح ہم 2018 میں آٹے کی قیمت 35 روپے فی کلو چھوڑ کر گئے جو نئے پاکستان میں بڑھ کر 80 روپے فی کلو تک پہنچ گئی، پھر شہباز شریف نے یوٹیلٹی اسٹورز اور بہت سی دکانوں پر آٹا 40 روپے فی کلو فراہم کرنا شروع کیا۔
انہوں نے کہا کہ جب 2018 میں ہماری حکومت گئی تو پاکستان گندم اور چینی برآمد کر رہا تھا مگر اب ہم دونوں چیزیں درآمد کر رہے ہیں جس کی وجہ سابقہ حکومت کے غلط فیصلے ہیں۔ ہمارے ایل این جی کے معاہدوں پر جھوٹے الزامات لگائے گئے جس کی وجہ سے کئی رہنماؤں کو جیل کاٹنا پڑی، سابقہ حکومت نے کورونا کے دوران سستے ترین نرخوں پر معاہدے کرنے کے بجائے مہنگے داموں پر اسپاٹ خریداری کی، اس کی وجہ سے ہمیں مہنگی ایل این جی خریدنا پڑھ رہی ہے۔ جب عمران خان کو فروری کے آخر میں لگا کہ ہماری حکومت جارہی ہے تو انہوں نے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں کم کیں جب کہ پاکستان کا خزانہ قرضے پر چل رہا تھا، اس فیصلے سے پاکستان کی معیشت بحران میں پھنس گئی جس کو نکالنے کی کوشش جاری ہے۔
بجٹ کی تقریر کے نکات
کم آمدن والے خاندان کو 2 ہزار روپے ماہانہ مدد ملے گی
حکومتی اقدام سے 8 کروڑ افراد مستفید ہونگے
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ افراد کو 2 ہزار روپے اضافہ ملیں گے
زیادہ آمدن والوں پر اسپیشل ٹیکس لگایا جارہا ہے
ایسے اشیا پر ٹیکس لگایا جارہا ہے جو زیادہ آمدن والے خریدتے ہیں
کابینہ اور سرکاری اہلکاروں کی پیٹرول الاونس کو 50 فیصد کم کیا جارہا ہے
بیرونی دوروں کے علاوہ تمام دوروں پر پابندی ہوگی
پینشنز کی مد میں آئندہ مالی سال 530 ارب روپے کا تخمینہ ہے
مہنگائی کا تخمینہ 11 اعشاریہ 5 فیصد لگایا گیا ہے
دنیا بھر میں ٹیکس کا جی ڈی پی سے تناسب 16 فیصد ہے
پاکستان میں ٹیکس کا جی ڈی پی سے تناسب 8 اعشاریہ 6 فیصد ہے
نئے مالی سال میں یہ شرح 9 اعشاریہ 2 فیصد تجویز کی گئی ہے
مجموعی خسارہ جی ڈی پی کا 8 فیصد رہے گا
نئے مالی سال کا تخمینہ جی ڈی پی کا 4 اعشاریہ 8 فیصد رکھا گیا ہے
آئندہ مالی سال میں درآمدات کا تخمینہ 70 ارب ڈالر رکھا گیا ہے
رواں مالی سال درآمدات 76 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے
آئندہ مالی سال برآمدات کا تخمینہ 35 ارب ڈالر ہے
رواں مالی سال برآمدات کا تخمینہ 31 ارب ڈالر رہے
ترسیلات زر کا تخمینہ 33 ارب 20 کروڑ ڈالر ہے
رواں مالی سال ترسیلات زر 31 ارب ڈالر تک ریکارڈ ہونگی
نئے مالی سال کا بجٹ 9502 ارب روپے رکھا گیا ہے
قرض و سود کی ادائیگی پر 3 ہزار 950 ارب روپے کا تخمینہ
ترقیاتی اخراجات کی مد میں 800 ارب روپے مختص
دفاع کے لئے 1523 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں
سول انتظام کو چلانے کے لئے 550 ارب روپے مختص
پنشن کے لئے 530 ارب روپے مختص کیے گئے
سبسیڈی کے لئے 699 ارب روپے کا تخمینہ
گرانٹ کی صورت میں 1242 ارب روپے رکھے گئے ہیں
نئے مالی سال میں تونائی کے لئے 570 ارب روپے کی رقم مختص
اپریل سے جون کے درمیان 214 ارب روپے کی سبسیڈی ادا کی گئی ہے
آئندہ مالی سال پیٹرولیم کے شعبے کو 71 ارب روپے کی سبسیڈی مہیا کریں گے
جلد گیس کے نئے نرخوں کا اعلان کیا جائے گا
صنعتوں کو خطے کے دیگر ممالک کے ریٹ کے مطابق گیس فراہم کی جائے گی
نئے مالی سال میں ہائی ایجوکیشن کے لئے 65 ارب روپے مختص
اس کے علاوہ ہائی ایجوکیشن کے لئے 44 ارب روپے اضافی رکھے گئے ہیں
نئے مالی سال فصلوں اور مویشیوں کی تعداد بڑھانے کے لئے 21 ارب روپے مختص
فصلوں اور مویشیوں کی پیداوار کے لئے 3 سالا پروگرام مرتب
موسمیاتی تبدیلوں کے اثرات، اسمارٹ زرعات کا فروغ اور ایگرو پرسیسنگ منصوبے میں شامل
یوتھ امپلائمنٹ پالیسی کے تحت 20 لاکھ روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں گے
نوجوانوں کو کاروبار کے لئے 5 لاکھ تک بلا سود قرض فراہم کیا جائے گا
ڈھائی کروڑ روپے تک آسان اقساط پر قرض دیا جائے گا
قرضہ اسکیم میں 25 فیصد کوٹہ خواتین کا ہوگا
گرین یوتھ مومینٹ کے تحت لیپ ٹاپ دیے جائیں گے
ملک میں 250 منی اسپورٹس اسٹیڈیم قائم کیے جائیں گے
گیارہ سے 25 سال کی عمر کے افراد کے لئے” ٹیلنٹ ہنٹ” ہوگا
نوجوانوں حوصلہ افزائی کے لئے” انوویشن لیگ” ہوگی
بجلی کی پیداوار اور ترسیل کی مد میں 73 ارب روپے مختص
مہمند ڈیم کی تعمیر کے لئے 12 ارب روپے رکھے گئے ہیں
آبی وسائل کے لئے 100 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے
بھاشا ڈیم جیسے بڑے منصوبے اس پروجیکٹ میں شامل ہونگے
شارہوں اور بندرگاہوں کے لئے 202 ارب روپے کی رقم مختص
سماجی شعبے کے لئے 40 ارب روپے کا تخمینہ
اعلیٰ تعلیم کے منصوبوں کے لئے 51 ارب روپے مختص
صحت کے اداروں کی صلاحیت بڑھانے کے لئے 24 ارب روپے مختص
ماحولیات کے لئے 10 ارب روپے مختص
آئی ٹی شعبے کے لئے 17 ارب روپے مختص
زرعات اور فوڈ سیکیورٹی کے لئے 11 ارب روپے مختص
صنعت ور زرعی پیداوار کے لئے 5 ارب روپے مختص
فلم اور ڈرامہ کی ایکسپورٹ پر ٹیکس ری بیٹ دیا جارہا ہے
سینما اور پروڈیوسرز کی آمدن کو انکم ٹیکس سے استثنی دیا جارہا ہے
سینما، پروڈکشن ہاوسز ، فلم میوزیمز، پوسٹ پروڈکشن فسلیٹی کو سی ایس آر کا درجہ
غیر ملکی فلم سازوں کو مقامی سطح پر شراکت داری کے منصوبوں پرری بیٹ
ان منصوبوں پر 70 فیصد شوٹنگ پاکستان میں لازم ہوگی
ڈسٹری بیوٹرز اور پروڈیوسرز پر عائد 8 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس ختم
فلم وڈراموں کی وآلات کی امپورٹ پر کسٹم ڈیوٹی 5 سال کےلیےختم
نئی فلم ، ڈراموں کے لیے آلات منگوانے پر سیلز ٹیکس صفر
نئی فلم ، ڈراموں کے لیے آلات منگوانے پر انٹرٹینمنٹ ڈیوٹی ختم
نیشنل فلم انسٹیٹیوٹ ، پوسٹ فلم پروڈکشن فسیلٹی اور نیشنل فلم اسٹوڈیو کا قیام ہوگا
اس مقصد کے لئے ایک ارب روپے کی رقم مختص
ٹیکس پالیسی کا مقصد ڈائریکٹ اور کیپیٹل ویلیو ٹیکس پر زیادہ انحصار ہے
موجودہ ٹیکس نظام نئے کاروبار کی حوصلہ شکنی کرتا ہے
موجودہ نظام ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایاکاری کو فروغ ہے
تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس چھوٹ 12 لاکھ کرنے کی تجویز
بزنس انڈیویجول اے او پیز کے لیے انکم ٹیکس چھوٹ کی حد 6 لاکھ کردی
بہبود اور پینشنرزسرٹیفیکیٹ سمیت بینیفٹ اکاونٹ کے منافع پر 5 فیصد ٹیکس کرنے کی تجویز
چھوٹے ریٹیلرز کے لیے فکسڈ انکم اور سیلز ٹیکس کا نظام تجویز
چھوٹے ریٹیلرز پر ٹیکس 3 ہزار سے 10 ہزار روپے تک کرنے کی تجویز
صنعتوں کے لیے پہلے سال ڈیپریسی ایشن چارجز کی حد 100 فیصد ایڈ جسٹمنٹ کی اجازت دینے کی تجویز
صنعتوں کو خام مال کی درآمد کے وقت حاصل ہونے والے تمام ٹیکسز کو ایڈجسٹیبل قرار دینے کی تجویز
صاحب حیثیت افراد کی دولت کا بڑا حصہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں موجود ہے
نان پراڈکٹو ایسٹس میں سرمایاکاری سے غریب طبقے کے لیے مکانات کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں
ایک سے زائد غیر منقولہ جائیداد ملک میں رکھنے والوں پر ٹیکس لگے گا
جائیداد کی مالیت ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہوگی
جائیداد پر فیئر مارکیٹ ویلیو کے برابر فرضی آمدن یا کرایہ تصور کرتے ہوئے ٹیکس عائد کیا جائے گا
ٹیکس کی شرح فیئرمارکیٹ ویلیو کے 1 فیصد کے برابر ہوگی
ہر کسی کا ایک عدد ذاتی رہائشی گھر اس ٹیکس سے مستثنی ہوگا
غیر منقلہ جائیداد کے ایک سال کے ہولڈنگ پیریڈ کی صورت میں 15 فیصد ٹیکس ٹیکس کی تجویز
یہ ٹیکس ہر سال ڈھائی فیصد کم ہوتے ہوئے 6 سال کے ہولڈنگ پیریڈ میں صفرہوجائے گا
فائلرز کے لیے پراپرٹی کی خریدو فروخت پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح م 2 فیصد کرنے کی تجویز
نان فائلرز کے لیے ایڈوانس ٹیکس کی شرح 5 فیصد کرنے کی تجویز
جن افراد اور کمپنیوں کی سالانہ آمدن 30 کروڑ روپے یا اس سے زائد ہے ان پر 2 فیصد ٹیکس ادا کرنے کی تجویز ہے
لگثری گاڑیوں یا 1600 سی سی سے زیادہ پاور کی گاڑیوں پر ایڈ وانس ٹیکس بڑھانے کی تجویز ہے
لگثری گاڑی الیکٹرک انجن کی صورت میں قیمت کے 2 فیصد کی شرح سے ایڈوانس ٹیکس بھی وصول کیا جائے گا
نان فائلرز اگر 1600 سی سی گاڑی خریدتا ہے تو ٹیکس کی شرح کو 100 فیصد سے بڑھا کر 200 فیصد کیا جائے گا
بینکنگ کمپنیوں پر ٹیکس کی موجودہ شرح 39 سے بڑھا کر 42 فیصد کرنے کی تجویز ہے جس میں سپر ٹیکس بھی شامل ہے
پاکستان کا کوئی بھی شہری جو کسی دوسرے ملک کا ٹیکس ریزیڈینٹ نہیں ہے اسے پاکستان کا ٹیکس ریزی ڈینٹ سمجھا جائے گا
کریڈٹ ، ڈیبٹ اور پری پیڈ کارڈز کے ذریعے پاکستان سے باہر رقم بھیجنے والے فائلرز کے لیے 1 فیصد نان فائلرز سے 2 فیصد ایڈ وانس ود ہولڈنگ ٹیکس وصول کیا جائیگا
سولر پینلز کی درآمد اور مقامی سپلائیز کو سیلز ٹیکس سے مستثنی کرنے تجویز ہے
200 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والوں کو سولر پینل کی خریداری پر بینکوں سے آسان اقساط پر قرض دلائے جائیں گے
ٹریکٹرز ، زرعی آلات ۔ گندم مکئی کینولا سورج مکھی اور چاول سمیت مختلف اجناس کے بیجوں کی سپلائی پر سیلز ٹیکس واپس لینے کی تجویز ہے
خیراتی ہسپتال کو بجلی سمیت مقامی سپلائیز پر مکمل چھوٹ دینے کی تجویز ہے


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain