پشاور: (ویب ڈیسک) خیبر پختونخوا حکومت کے میگا پراجیکٹ بی آر ٹی پشاور کی آڈٹ رپورٹ میں اربوں روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے، منصوبے میں 47 ارب روپے محکمہ قانون کی منظوری کے بغیر خرچ کیے گئے۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق محکمہ قانون سے منظوری کے بغیر 47 ارب روپے سے زیادہ خرچ کیے گئے جبکہ کنسلٹنٹ کو موبلائزیشن ایڈوانس کی مد میں 9 کروڑ 23 لاکھ روپے کی خلاف ضابطہ ادائیگی کی گئی، اسی طرح کنٹریکٹر سے خلاف ضابطہ ادا کردہ 21 کروڑ 13 لاکھ روپے کے کنسلٹنسی چارجز بھی واپس نہیں لیے گئے، بی آر ٹی انتظامیہ نے کنٹریکٹر کو واجبات کی مد میں 31 کروڑ روپے ادا کیے جس کا کوئی ریکارڈ نہیں۔
رپورٹ کے مطابق پی ڈی اے کے ایک ملازم کو خلافِ قانون ری سیٹلمنٹ کنسلٹنٹ کے طور پر رکھا گیا جسے بی آر ٹی اور پی ڈی اے دونوں سے تنخواہ ملتی رہی، تعمیراتی کام مکمل کیے بغیر کنٹریکٹر کو 5 کروڑ روپے خلاف ضابطہ دیے گئے، ٹیکسز کی مد میں موصول 7 کروڑ 30 لاکھ روپے بھی قومی خزانے میں جمع نہیں کرائے گئے۔
آڈٹ رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا کہ بی آر ٹی منصوبے سے متعلق متنازع بورڈ کو 60 لاکھ روپے کی ادائیگی کی گئی، منصوبے میں تاخیر سے 2 کروڑروپے سے زیادہ کا نقصان ہوا، کورونا اور لاک ڈاؤن کے دوران کام رک جانے کے باوجود کنسلٹنٹس کو 30 کروڑ روپے ادا کیے گئے، اسی طرح بین الاقوامی کنسلٹنٹس کو کنسلٹنٹ اوورہیڈ چارجز کی مد میں بلاجواز 10 کروڑ روپے کی ادائیگی کی گئی۔
اس حوالے سے ڈائریکٹر جنرل پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی فیاض علی شاہ سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ آڈٹ رپورٹ ابتدائی مشاہدات پر مبنی ہے، متعلقہ فورم پر تمام آڈٹ پیرا کا تسلی بخش جواب دیا جائے گا، یہ ابتدائی اعتراضات ہیں جنہیں محکمے کی اکاؤنٹس کمیٹی اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں دور کر دیا جائے گا۔