برٹش کولمبیا: (ویب ڈیسک) کینیڈین محققین نے بالآخر تیرتے وقت وہیل کے دماغ کے محفوظ رہنے کی پُراسرار وجہ معلوم کرلی ہے۔
ایک نئی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ وہیل کے دماغ میں موجود خون کی شریانیں تیرنے کے نتیجے میں تیز دھڑکن کے سبب خون کے بہاؤ سے پہنچنے والے نقصان سے محفوظ رکھتی ہیں۔
کینیڈا کی یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا میں سائنس دانوں کی جانب سے کی جانے والی نئی تحقیق میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ تیرتے وقت وہیل کے دماغ کو نقصان کیوں نہیں پہنچتا۔
محققین کا ماننا ہے کہ کمپیوٹر ماڈلنگ کے ذریعے وہیل کے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی میں موجود خون کی شریانوں کے نیٹورک کی موجودگی کے مقصد کے معمے کو حل کرلیا گیا ہے۔
تحقیق کے سینئر مصنف ڈاکٹر رابرٹ شیڈوِک کا کہنا تھا کہ زمین پر یہ جانور سب سے بڑا ہے، ممکنہ طور پر اب تک کا سب سے بڑا جانور، اور یہ اپنی بقاء کےلیے کیسے اور کیا کرتے ہیں یہ سمجھنا بنیادی حیاتیات کے لیے ایک دلچسپ چیز ہے۔
زمینی مملیوں میں جیسے کہ گھوڑے جب سرپٹ دوڑتے ہیں تو دل کی تیز دھڑکن کا سامنا کرتے ہیں جہاں ان کے جسم کا بلڈ پریشر ہر قدم پر اوپر اور نیچے ہوتا ہے۔
ایک نئی تحقیق میں سربراہ مصنفہ ڈاکٹر مارگو لِلی اور ان کی ٹیم نے پہلی بار اس بات سے پردہ اٹھایا کہ یہی کیفیت ان سمندری مملیوں یعنی وہیلز کے ساتھ بھی ہوتی ہے جو اوپر اور نیچے کی چال کے ساتھ حرکت کرتے ہیں۔
محققین نے اس بات سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا کہ وہیل کیوں دماغ کو پہنچنے والے دیر پا نقصان سے بچی رہتی ہے۔
مملیوں میں اوسط بلڈ پریشر شریانوں میں (جو خون دل سے نکل رہا ہوتا ہے) رگوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے ۔ دباؤ میں فرق جسم میں دماغ سمیت خون کے بہاؤ کا تعین کرتا ہے۔
تاہم، حرکت طاقت سے خون کو گردش کراتی ہے جس کے سبب دماغ میں بلڈ پریشر میں اضافہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر لِلی کے مطابق اس قسم کے دیر پا نقصان انسانوں میں ڈیمینشیا کا سب بن سکتا ہے۔
لیکن گھوڑے سانس اندر باہر کر کے تیز دھڑکن سے نمٹتے ہیں جبکہ وہیل غوطہ لگاتے اور تیرتے وقت سانس روک کر اس صورتحال سے نمٹتی ہیں۔