کلچر بن گیا، فیصلہ حق میں آئے تو انصاف، خلاف آئے تو انصاف تار تار ہوا، سپریم کورٹ

اسلام آباد: (ویب ڈیسک) سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ کلچر بن گیا ہے فیصلہ حق میں آئے تو انصاف ہوا لیکن اگر خلاف آئے تو انصاف تار تار ہو گیا۔
سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی میں رہتے ہوئے دوسری جماعت کو ووٹ دینا فلور کراسنگ ہوتا ہے، تاحایات نااہلی کے لیے اٹارنی جنرل نے سیاسی و اخلاقی دلائل دیئے تھے اور منحرف اراکین کی تاحایات نااہلی پر کوئی آئینی دلیل نہیں دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی آئین میں شمولیت کی نیت بھی دیکھنی ہو گی، آرٹیکل 62 اور 63 میں 1973 سے آج تک بہت پیوند لگے ہیں جبکہ ہر حکومت اور آمر آرٹیکل 58 ،62, 63 اور 96 میں ترمیم کرتے رہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بظاہر آرٹیکل 63 اے کا مقصد پارٹی سے انحراف روکنا تھا اور دیکھنا ہے کہ منحرف ہونے کی سزا اتنی سخت ہے کہ رکن کے دل میں ڈر پیدا ہو یا نہیں۔ سب سے پہلے طے کرنا ہے منحرف ہونا درست ہے یا غلط اور اگر منحرف ہونا غلط قرار پایا تو دیکھیں گے اس کے اثرات کیا ہوں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پارٹی سے انحراف صرف ضمیر جاگنے پر نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ کئی مغربی ممالک میں پارٹی سے انحراف رکوانے کی کوشش ہے تاہم پارٹی سے انحراف کی سزا کیا ہو گی یہ اصل سوال ہے؟
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اٹھارہویں ترمیم میں آرٹیکل 162ون ایف میں عدالتی ڈکلیئریشن شامل کیا گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا ممبر کی آواز پر پارٹی کے خلاف ووٹ دینا جرم ہے؟ اور یہ کیسا جرم ہے جس کی آئین میں اجازت دی گئی ہے۔ امریکی جج کے مطابق عدالتی فیصلہ نہ ماننے والی حکومت کو لوگ ووٹ نہیں دیں گے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہمارا ملک اس وقت انارکی کی جانب بڑھ رہا ہے اور کوئی سپریم کورٹ کے فیصلے کو ماننے کو تیار نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حالات اتنے خراب نہیں ہیں عمومی بات نہ کریں۔
عدالت نے کہا کہ کلچر بن گیا ہے کہ فیصلہ حق میں آئے تو انصاف ہوا لیکن اگر خلاف آئے تو انصاف تار تار ہو گیا۔ عوام کو یہ بھی علم ہوتا ہے کہ فیصلہ کیا آیا ہے اور جو بات لیڈر کرتا ہے عوام اس کے پیچھے چل پڑتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فرض کریں وزیر اعظم کے خلاف چوتھے سال عدم اعتماد آتی ہے اور منحرف اراکین کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ سے ایک سال فیصلے ہونے میں لگتا ہے اور فیصلے تک اسمبلی مدت پوری کر جائے تو منحرف رکن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی؟
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ الیکشن کمیشن نااہلی ریفرنس پر مقررہ مدت تک فیصلے کا پابند ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ بھی مقررہ مدت تک فیصلے کی پابند ہے اور جہاں بھی اختیار حد سے زیادہ ہو گا وہاں استعمال غلط ہو گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 63 اے کا مقصد نااہلی ہے۔ جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا مطلب منحرف رکن کو پھانسی دینا بھی نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن منحرف اراکین کے خلاف ریفرنس مسترد کر سکتا ہے ؟ منحرف ہونا اتنا بڑا جرم ہے تو وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے پر پابندی کیوں نہیں لگائی گئی ؟ عوام کو یہ بھی علم ہوتا ہے کہ فیصلہ کیا آیا ہے اور جو بات لیڈر کرتا ہے عوام اسکے پیچھے چل پڑتی ہے،
وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سترہویں ترمیم میں وزیر اعظم اور پارٹی سربراہ کو بے پناہ اختیارات دیے گئے اور وزیراعظم کے خلاف تو سپریم کورٹ بھی کارروائی نہیں کرسکتی تھی۔ الیکشن کمیشن نااہلی ریفرنس پر مقررہ مدت تک فیصلے کا پابند ہے
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فرض کریں وزیر اعظم کے خلاف چوتھے سال عدم اعتماد آتی ہے اور منحرف اراکین کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ سے ایک سال فیصلے ہونے میں لگتا ہے جبکہ فیصلے تک اسمبلی مدت پوری کر جائے تو منحرف رکن کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہو گی؟
جسٹس جمال خان نے کہا کہ سپریم کورٹ بھی مقررہ مدت تک فیصلے کی پابند ہے اور جہاں بھی اختیار حد سے زیادہ ہو گا وہاں استعمال غلط ہو گا۔
سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔

زاہد اکرم درانی بلامقابلہ ڈپٹی اسپیکر منتخب

اسلام آباد: (ویب ڈیسک) جمیعت علمائے اسلام کے زاہد اکرم درانی بلامقابلہ قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر منتخب ہو گئے۔
قومی اسمبلی کے نئے ڈپٹی اسپیکر کے چناو کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کا وقت ختم ہو گیا۔ ذرائع کے مطابق زاہد اکرم درانی کے علاوہ کسی اور نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کروائے۔
جے یو آئی کے زاہد اکرم درانی بلامقابلہ ڈپٹی اسپیکر منتخب ہو گئے۔ ان کی کامیابی کا اعلان باقاعدہ طور پر کل کیا جائے گا۔زاہد اکرم درانی کل اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔
واضح رہے کہ نو منتخب حکومت کی طرف سے زاہد اکرم کو متفقہ طور پر ڈپٹی اسپیکر لے لیے نامزد کیا گیا تھا۔

بلاول بھٹو لندن سے واپسی پر وزارت خارجہ کے لیے حلف اٹھائیں گے

اسلام آباد: (ویب ڈیسک) چیئر مین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو جلد وزیر خارجہ کے طور پروفاقی وزیر کا حلف اٹھائیں گے۔
پیپلز پارٹی ذرائع نے وزارت خارجہ کے معاملے پر ڈیڈ لاک کی تردید کر دی۔ ذرائع کے مطابق وزارت خارجہ کے معاملے پر پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن میں کوئی ڈیڈ لاک نہیں ہے۔
ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور محسن داوڑ کو وزارتیں ملنے کے بعد حلف اٹھانا چاہتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے اندرونی ذرائع نے دعوایٰ کیا ہے کہ بلاول بھٹو لندن سے واپسی پر وزارت خارجہ کے لئے حلف اٹھائیں گے۔
بلاول بھٹو حکومت کے قیام اور شہباز شریف کے وزیراعظم بننے پر نواز شریف کو مبارک باد دینے بھی جائیں گے۔
واضح رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی کابینہ نے حلف اٹھالیا ہے اور وزرا کو قلمدان بھی سونپ دیے گئے ہیں تاہم وزارت خارجہ کا قلمدان تاحال کسی کو نہیں دیا گیا۔

امپورٹڈ حکومت صرف تین ووٹوں پر کھڑی ہے، فواد چوہدری

اسلام آباد: (ویب ڈیسک) سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے موجودہ حکومت کی کابینہ تشکیل ہونے کے بعد کہا کہ امپورٹڈ حکومت صرف تین ووٹوں پر کھڑی ہے۔
فواد چوہدری نے ٹوئٹ میں لکھا کہ آج اختر مینگل کی کابینہ میں شمولیت نہ ہونے کے بعد اگر وہ اعتماد کا ووٹ نہیں دیتے تو کرائم منسٹر کی حکومت فارغ ہو جاتی ہے۔
آئین کے مطابق صدر مملکت کسی وقت بھی اس نام نہاد حکومت کو اعتماد کے ووٹ کا کہہ سکتے ہیں۔
فواد چوہدری نے ایک اور ٹوئٹ میں اپنی تصویر بھی شئیر کی، جس میں انہوں نے عمران خان کی تصویر ٹی شرٹ پہن رکھی ہے، اور ساتھ ایبسولوٹلی ناٹ کا ہیش ٹیگ بھی درج ہے۔

چیئرمین ڈٹ گئے، امپائر کا بھی آؤٹ قرار دینے سے گریز

کراچی: (ویب ڈیسک) احسن انداز میں فرائض نبھانے والے چیئرمین پی سی بی ڈٹ گئے۔
امپائر کی جانب سے بھی انھیں آؤٹ قرار دینے سے گریز کیا جا رہا ہے، گوکہ بعض حلقوں کی خواہش ہے کہ رمیز راجہ ازخود عہدہ چھوڑ دیں مگر انھوں نے ایک اعلیٰ شخصیت کے کہنے پر ایسا قدم نہیں اٹھایا، ادھر مسائل میں گھری نئی حکومت کی ترجیحات میں کرکٹ دور دور تک شامل نہیں، سربراہ کی تبدیلی سے نیا پینڈورا باکس کھولنے سے اجتناب برتا جا رہا ہے۔
دوسری جانب ڈپارٹمنٹل کرکٹ کی بحالی کے حوالے سے بھی تاحال پی سی بی کو کوئی ہدایت نہیں ملی،اگر ایسا ہو بھی گیا تو عمل درآمد میں وقت لگے گا اور رواں برس واپسی کا امکان خاصا کم ہے۔ البتہ سابق ٹیسٹ کرکٹر اقبال قاسم اس تاثر سے متفق نہیں، ان کے مطابق حکومت کوئی اعلان تو کرے ٹیموں کی تشکیل تو چند روز میں ہو جائے گی، ابتدائی طور پر فارغ کرکٹرز کو گریڈ ٹو ٹورنامنٹ میں کھلایا جا سکتا ہے۔
ڈپارٹمنٹل کرکٹ کو فوری طور پر بحال کرکے ایک تھنک ٹینک بنایا جائے جو اس حوالے سے تجاویز دے۔تفصیلات کے مطابق حکومت میں تبدیلی کے بعد پی سی بی کے سربراہ کو بھی بدلنے کی اطلاعات زیرگردش تھیں تاہم تاحال خاموشی چھائی ہوئی ہے،وزیر اعظم شہباز شریف کو عہدہ سنبھالتے ہی کئی بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، ایسے میں کرکٹ دور دور تک ان کی ترجیحات کی فہرست میں شامل نہیں، گوکہ وزیراعظم کی بعض قریبی شخصیات چیئرمین کی کرسی پانا چاہتی ہیں مگر بورڈ کے سرپرست اعلیٰ نے تاحال اس معاملے میں دخل اندازی نہیں کی، رمیز راجہ کی برطرفی نیا پینڈورا باکس کھول سکتی ہے کیونکہ وہ بااحسن انداز میں فرائض نبھا رہے ہیں۔
اسی لیے حکومت نے اس معاملے کو فی الحال التوا میں رکھا ہوا ہے، بعض افراد کا خیال تھا کہ رمیز راجہ خود مستعفی ہو جائیں گے مگر انھوں نے ایک اہم شخصیت کے کہنے پر تاحال اس فیصلے سے گریز کیا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی خواہش پر پی سی بی نے ڈومیسٹک کرکٹ کا نظام تبدیل کر دیا تھا، ڈپارٹمنٹس کی بندش سے ہزاروں کرکٹرز وہ دیگر افراد بے روزگار ہوئے، حکومت میں تبدیلی کے بعد اب یہ اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ سابقہ نظام کو بحال کیا جا رہا ہے۔
البتہ تاحال کسی اعلیٰ حکومتی شخصیت کی اس حوالے سے کرکٹ حکام کے ساتھ بات نہیں ہوئی ہے،نمائندہ ’’ایکسپریس‘‘ نے جب پی سی بی کے ایک ٹاپ آفیشل سے استفسار کیا کہ کیا ڈومیسٹک کرکٹ میں ڈپارٹمنٹس کا سسٹم واپس آ رہا ہے تو انھوں نے ناں میں جواب دیا،ان کا کہنا ہے کہ ڈومیسٹک سسٹم میں تبدیلی چٹکی بجاتے نہیں آ سکتی۔
اس کے لیے آئین تبدیل کرنا پڑے گا، اگر حکومت کے کہنے پر ڈپارٹمنٹس دوبارہ ٹیمیں بنانے پر آمادہ بھی ہو گئے تب بھی کھلاڑیوں کی تقرری و دیگر معاملات پر راتوں رات کام نہیں ہو سکتا، کم از کم رواں برس تو ڈپارٹمنٹل ٹیموں کی واپسی کا امکان بہت کم ہے، ذرائع نے مزید بتایا کہ رمیز راجہ بھی ڈپارٹمنٹل کرکٹ کے مخالف نہیں ہیں،اگر وہ عہدے پر برقرار رہے اور حکومت نے نظام میں تبدیلی کا کہا تو وہ بھی مخالفت نہیں کریں گے۔ اس حوالے سے رابطے پر سابق ٹیسٹ کرکٹر اقبال قاسم نے کہا کہ ڈپارٹمنٹل کرکٹ کو فوری طور پر بحال کرنا چاہیے۔
ایک تھنک ٹینک بنایا جائے جو اس حوالے سے تجاویز دے، جو کرکٹرز پی سی بی سے معاہدے نہیں پا سکے آغاز میں انھیں گریڈ ٹو ٹورنامنٹ میں موقع دیا جا سکتا ہے،اس دوران نیا سسٹم بنا کر اگے سال سے اطلاق کر سکتے ہیں،ڈپارٹمٹنس اور ریجنز کا ایک ساتھ کوئی ٹورنامنٹ بھی ممکن ہے۔ ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ ڈپارٹمنٹس کیلیے دوبارہ ٹیموں کی تشکیل کوئی مشکل کام نہ ہو گا، بیشتر کے پاس اسٹرکچر موجود ہے، نیشنل بینک اور یو بی ایل کے اسپورٹس کمپلیکس ہیں، واپڈا وغیرہ بھی آ سکتے ہیں۔
بس ان سب کو ری آرگنائز کرنا ہوگا تاکہ کھلاڑیوں کو کوئی روزگار تو ملے، ابھی تو کامران اکمل اور اسد شفیق جیسے کرکٹرز ادھر ادھر گھوم رہے ہیں،انھوں نے کہا کہ کرکٹ بورڈ نے کافی کرکٹرز سے معاہدے کیے ہوئے ہیں، جو فارغ ہیں انھیں گریڈ ٹو کھلا کر پھر نیا سسٹم بنانا چاہیے۔

انتہائی مصروف لکھاریوں کے لیے انوکھا کیفے

ٹوکیو: (ویب ڈیسک) جاپان وہ انوکھی سرزمین ہے جہاں بلیوں، سانپوں اور مچلھیوں کے لیے ریستوران اور کیفے موجود ہیں۔ اسی تناظر میں اب ایسے مصنفین کے لیے ایک کیفے بنایا گیا ہے جن پر کم وقت میں اپنا کام مکمل کرنے کا دباؤ ہوتا ہے۔ یہاں ان کی حوصلہ افزائی سمیت ہرممکن مدد کی جاتی ہے۔
ٹوکیو کے نواحی علاقے کوئنجی میں واقع اس ریستوران کا نام ’مسودہ لکھنے والا کیفے‘ رکھا گیا ہے۔ یہاں صرف ایسے لوگوںکو آنے کی اجازت ہے جو کسی اہم تحریر پر کام کررہے ہوں اور کم وقت میں انہیں زیادہ کام کرنا ہو۔ یہ کیفے انہیں مقررہ وقت میں تحریر مکمل کرنے کی حوصلہ افزائی (موٹی ویشن) فراہم کرتا ہے اور انہیں ہرطرح کا آرام بھی فراہم کرتا ہے۔
کیفے کے مالک ٹاکویا کوائی کہتے ہیں کہ ’ یہاں صرف ایسے لکھاریوں کو مدعو کیا جاتا ہے جن کے پاس وقت کم ہوتا ہے اور اسی مدت میں کام ختم کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کیفے کے اندر کا ماحول بہت سنجیدہ ہوتا ہےجہاں مصنف انتہائی توجہ سے اپنی ڈیڈلائن پر کام ختم کرنے کےلیے آتے ہیں۔‘
کیفے کو چند روز قبل ہی کھولا گیا ہے جہاں نصف گھںٹے کا کرایہ ایک ڈالر 32 سینٹ لیا جاتا ہے۔ یہاں وائی وائی مفت ہے، کمپیوٹر کےلیے میز رکھی ہیں اور مصنف اپنا کھانا اور مشروبات ساتھ لاسکتے ہیں۔ تاہم چائے، کافی اور پانی مفت میں دستیاب ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مترجمین، پروف خواں، ناول نگار اور شاعروں کی بڑی تعداد یہاں آتی ہے اور سب کے لیے یکساں معیارات ہیں۔ ہر لکھاری کو اندر داخل ہوکر بتانا پڑتا ہے کہ وہ آج کتنے الفاظ لکھے گا اور کتنے وقت میں کام مکمل کرے گا۔ اس کے بعد عملے کے افراد درمیان میں کارکردگی معلوم کرتے رہتے ہیں اور ہر گھنٹے بعد کام کی صورتحال کا پوچھتے ہیں اور حوصلہ افزائی بھی کرتے رہتے ہیں۔
لیکن اگر آپ نے کیفے میں ’ایس‘ کورس منتخب کیا ہے تو عملہ بہت سختی سے آپ سے کام کروائے گا جبکہ ’ایم‘ کورس والے قدرے نرمی سے پیش آتے ہیں۔
لیکن یہ واضح نہیں ہوسکا کہ کام ختم ہونے کے لیے کونسے حربے آزمائے جاتےہیں یعنی کام کے اختتام کو کیسے دیکھا جاتا ہے اور ڈیڈلائن کا تعین کیوں اور کیسے کیا جاتا ہے کیونکہ کیفے کو رات کو بند کرنا ضروری ہوتا ہے۔
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ کیفے درحقیقت ایک نشریاتی اسٹوڈیو میں بنایا گیا ہے اور جب جب وہاں کام نہیں ہوتا اسی وقت لکھاریوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ اس طرح مہینے میں چند روز ہی مصنفین یہاں آسکتے ہیں۔

آواز کی لہروں سے کینسر ختم کرنے میں نمایاں کامیابی

مشی گن: (ویب ڈیسک) جامعہ مشی گن نے آواز کی لہروں سے چوہوں میں کینسر کی رسولیوں کے خاتمے کی نوید سناتے ہوئے کہا ہے کہ نہ صرف یہ تجربہ کامیاب رہا ہے بلکہ اس میں سرطانی پھوڑوں کے دوبارہ نمودار ہونے کی شرح بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔
یہ غیرتکلیف دہ تھراپی ہے جس میں چوہوں کو پہلے جگر کے سرطان کا مریض بنایا گیا۔ پھر ان رسولیوں کو صوتی امواج سےختم کیا گیا ۔ جب رسولیوں کی مناسب تعداد غائب ہوئیں تو جگر فعال ہوگیا اور اس کا اندرونی دفاعی (امنیاتی) نطام جاگ اٹھا اور اس نے باقی بچ جانے والے رسولیوں کو ختم کردیا ، یہاں تک کہ مرض کا دوبارہ حملہ بھی نہیں ہوا۔
جامعہ مشی گین میں بایو میڈیکل انجنیئرنگ کے ماہر زین ژو کہتے ہیں کہ اگرچہ ہم آواز سے رسولیوں کا مکمل خاتمہ کرسکتے ہیں لیکن اگر جگر کے اوپر سرطانی پھوڑے 50 سے 75 فیصد تک کم کردیئے جائیں تو امنیاتی نظام باقی ماندہ رسولیوں اور سرطانی خلیات کو ازخود ختم کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 80 فیصد چوہوں میں کینسر لوٹ کر نہیں آیا جو ایک بڑی کامیابی ہے۔
آواز سے سرطان کا گھیرا تنگ
اس ٹیکنالوجی کو ہسٹوٹرپسی کا نام دیا گیا ہے جس میں آواز کی لہروں سے ملی میٹر درستگی تک سرطانی پھوڑوں کو ختم کیا جاتا ہے۔ اگرچہ انسانوں پر بھی اسے آزمایا گیا ہے لیکن ان کے نتائج میں ابھی وقت لگے گا۔
اگرچہ کینسر کے بعض حصوں کو چھوڑدینا طبی عقلمندی نہیں لیکن کئی پیچیدہ تناظر میں کینسر کے پھوڑے مکمل طور پر براہِ راست ختم نہیں کئے جاسکتے کیونکہ رسولی کی جگہ، سائز اور درجات اسے ناممکن یا مشکل بناسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آواز سے سرطانی رسولیوں کو 50 سے 75 فیصد ختم کرکے اس پر امنیاتی نظام کو دیکھا گیا ہے۔
ماہرین پرامید ہے کہ اس تدبیر پر دیگر ماہرین بھی غور کریں گے کیونکہ یہ جگر کے سرطان کے لیے بہت امید افزا ثابت ہوئی ہے۔ سب سے عام سرطان کی فہرست میں جگر کا کینسر بھی شامل ہے اور اموات کی وجہ بھی ہے۔ اس تھراپی میں جسمانی عکس نگاری کی عام الٹراساؤنڈ کو تبدیل کیا گیا ہے۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ریڈیو تھراپی اور کیموتھراپی کے ڈھیروں منفی اثرات سے بھی بچاسکتا ہے۔
اس ٹیکنالوجی کو ہائی ایمپلی ٹیوڈ مائیکروسیکنڈ لینتھ الٹراساؤنڈ کا نام دیا گیا ہے۔ جب اسے رسولی پر مرکوز کیا جاتا ہےتو وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگتا ہے۔ مائیکروسیکنڈ کی لہریں رسولی پر خردبینی بلبلے بناتی ہے جو پھیل کر پھٹتے رہتے ہیں۔ اس سے سرطانی رسولی دھیرے دھیرے ٹوٹ پھوٹ کی شکار ہوکر ختم ہوجاتی ہے۔ مشی گن کے ماہرین13 برس سے اس ٹیکنالوجی پر کام کررہے ہیں۔

جی سی ایس ای جماعتوں میں موسمیاتی تبدیلی کا مکمل کورس پڑھانے کا منصوبہ

لندن: (ویب ڈیسک) برطانوی تاریخ میں پہلی مرتبہ آب و ہوا میں تبدیلی (کلائمیٹ چینج) پر ایک علیحدہ سیکنڈری کورس تشکیل دیا گیا ہے جسے جی سی ایس ای کے تحت پڑھایا جائے گا۔ اس کا آغاز 2025 سے کیا جائے گا۔
وزیرِتعلیم ندیم زہاوی نے اس کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’فطری تاریخ کے نئے کورس کے تحت نوجوان طالبعلموں کو ہمارے سیارے، اس کے ماحول اور تحفظ پر انتہائی گہرائی سے سائنسی بنیادوں پر تعلیم فراہم کی جائے گی۔‘
ندیم زہاوی نے کہا کہ متعلقہ اساتذہ کو سال 2023 سے باقاعدہ تربیت اور تدریس فراہم کی جائے گی اور توقع ہے کہ 2025 تک اسے مکمل طور پر رائج کردیا جائے گا۔ اس طرح یہ برطانوی سیکنڈری اسکول کا پہلا کورس ہے جو صرف ماحولیات اور کلائمٹ چینج کے لیے مختص ہوگا۔
برطانوی محکمہ تعلیم نے بھی کہا ہے کہ اس بھرپور کورس میں فطرت، اس کی تاریخ طلبا و طالبات میں خردنامیوں سے لے کر سیارے کے بڑے جاندار کا شعور اور ان کی بقا کی اہمیت بڑھائے گی۔ دوسری جانب وہ قیمتی جنگلی حیات، ماحول اور اطراف کے تحفظ اور پائیدار ماحول دوست ترقی کے متعلق جان سکیں گے۔
اگرچہ کورس کی تفصیلات طے کرلی گئی ہیں،تاہم اب امتحانی طریقہ کار اور بورڈ وغیرہ کا تعین کرنا باقی ہے جس پر تیزی سے کام جاری ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ خود یورپی اور برطانوی نوعمر طالبعلموں میں کلائمٹ چینج پر تشویش میں اضافہ ہورہا ہے اور نئی نسل اس سے آگہی کی خواہاں ہے۔
واضح رہے کہ اب بھی برطانوی نصاب میں کلائمٹ چینج اور ماحولیات پر تدریس فراہم کی جارہی ہے جو کی اسٹیج تھری سے شروع ہوتی کیونکہ عین اسی مقام سے سیکنڈری تدریس کا آغاز ہوتا ہے۔

موبائل فون آپریٹرز کا آئندہ بجٹ میں ود ہولڈنگ ٹیکس کو واپس لینے کا مطالبہ

اسلام آباد: (ویب ڈیسک) موبائل فون آپریٹرز نے آئندہ مالی سال 2022-23 کے وفاقی بجٹ میں موبائل فون سروسز پر ود ہولڈنگ ٹیکس کو واپس لینے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
پاکستان میں ٹیلی کام سروسز فراہم کرنے والے موبائل فون آپریٹرز کی جانب سے ٹیلی کام سروسز پر ود ہولڈنگ ٹیکس میں اضافے کو واپس لینے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کیونکہ ٹیکس میں اضافہ سے کمپنیوں پر سالانہ 18ارب روپے کا بھاری بوجھ پڑ رہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ موبائل فون انڈسٹری ودہولڈنگ ٹیکس میں کیے گئے اضافہ کو حکومت کی معاشی اور ڈیجیٹلائزیشن پالیسی کے لیے نقصان دہ سمجھتی ہے کیونکہ اس سے حکومت کے ڈیجیٹل پاکستان وژن کی مہم کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ نو منتخب حکومت سے ود ہولڈنگ ٹیکس کم کرنے کی درخواست کی جائے گی کیونکہ ٹیلی کام سیکٹر پر اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
فون کمپنیوں کے ذرائع کے مطابق نئی حکومتی کابینہ تشکیل ہونے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی اور وزارت خزانہ کے نئے وزراء کے چارج سنبھالنے کے بعد تفصیلی بجٹ تجاویز پیش کی جائیں گی جن کی روشنی میں حکومت کو آنے والے بجٹ کے دوران آئی ٹی انڈسٹری کے حوالے سے فیصلہ سازی میں مدد ملے گی۔
سابق حکومت نے گزشتہ سال کے بجٹ میں ٹیلی کام سیکٹر کے لیے ایک روڈ میپ کے مطابق ود ہولڈنگ ٹیکس کو 12.5 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کر دیا تھا اور یکم جولائی 2022 سے اسے مزید کم کر کے 8 فیصد تک لانا تھا۔ تاہم، بعد ازاں حکومت نے جنوری 2022 میں اپنے ان فیصلوں کو واپس لے لیا۔
پاکستان کی 22 کروڑ آبادی میں سے صرف 29لاکھ (2.9 ملین) لوگ انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرواتے ہیں جو کہ کل آبادی کا ایک فیصد بنتا ہے۔ آبادی کی اکثریت کی آمدن ناقابل ٹیکس ہونے کے باوجود یہ لوگ ود ہولڈنگ ٹیکس ادا کر رہے ہیں اور اس کی واپسی کا کبھی کلیم بھی نہیں کرسکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق نئی حکومت کو چاہیے کہ ٹیلی کام سیکٹر میں سرمایہ کاری کو آسان بنانے کے لیے پالیسیوں میں مستقل مزاجی کو یقینی بنائے، اوورسیز انویسٹرز چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (او آئی سی سی آئی) نے پنجاب ریونیو اتھارٹی کے لیے اپنی ٹیکس سفارشات میں تجویز کیا ہے کہ ٹیلی کمیونیکیشن سروسز پر سیلز ٹیکس کی شرح کو دیگر سروسز کے برابر لانا چاہیے اور بجٹ 2022-23 میں ٹیلی کام سروسز پر جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 19.5 فیصد سے کم کر کے 13 فیصد کی جائے۔
او آئی سی سی آئی کا کہنا ہے کہ مطابقت پذیر پالیسیوں، معیاری قابل ٹیکس خدمات، محصولات کی تقسیم کی بنیاد اور مختلف ریونیو بورڈز کے قوانین کے درمیان تمام بے ضابطگیوں یا تنازعات کو دور کرنے کے لیے پالیسی بورڈ تشکیل دیا جائے۔
دوہرے ٹیکس سے بچنے کے لیے ’’ٹول مینوفیکچرنگ‘‘ کو سروسز کی فہرست سے نکال دینا چاہیے کیونکہ یہ فیڈرل سیلز ٹیکس کے تحت قابل ٹیکس شعبہ ہے۔ ود ہولڈنگ ٹیکس کے قوانین میں ترمیم کی جائے، رجسٹرڈ سروس پرووائیڈرز اور رجسٹرڈ سروس وصول کنندگان کے درمیان ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح ایف بی آر کے مطابق ہونی چاہیے۔
سروسز پر سیلز ٹیکس کی شرح سندھ سیلز ٹیکس کی شرح کے ساتھ منسلک کی جائے جو کہ 13 فیصد ہے اور یہ شرح تمام سروسز کے لیے یکساں ہونی چاہیے, سوائے ان سروسز کے جو فی الحال کم شرحوں سے مشروط ہیں۔ پنجاب سیلز ٹیکس آن سروسز ایکٹ 2012 کے سیکشن 70 میں ضروری ترامیم کی جائیں۔

قرض کی ادئیگی یقینی بنانے کیلئے مالیاتی خسارہ کم کرنے پر توجہ دی جائے،ورلڈ بینک

کراچی: (ویب ڈیسک) قرض کی ادئیگی کو یقینی بنانے کے لئے حکومت کو مالیاتی خسارے کو کم کرنے پر توجہ دینا ہوگی، ورلڈ بینک نے پاکستان پر رپورٹ جاری کر دی۔
ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان کی معیشت کو بڑے خطرات کا سامنا ہے۔ موجودہ حالات میں عالمی منڈی میں تیل اور اجناس کی قیمتیں مزید بڑھ سکتی ہیں جبکہ کورونا کی نئی لہر سے نقل و حمل پر پابندی بھی لگ سکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق سیاسی ہلچل اور اصلاحات کا عمل متاثر ہونے سے معیشت کو خطرہ ہے۔ قرض کی ادئیگی کو یقینی بنانے کے لئے مالیاتی خسارہ کم کرنا ہو گا۔ مالیاتی اور زری پالیسی میں ہم اہنگی اور ایکس چینج ریٹ میں لچک ہونا ضروری بہت ضروی ہے۔
ورلڈ بینک کے مطابق جولائی سے دسمبر 2021 کے دوران معاشی سرگرمیوں کا تسلسل جاری رہا، عالمی منڈی میں اجناس کی زائد قیمتیں اور طلب میں اضافے سے مہنگائی بڑھی جس کے باعث درآمدی بل میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی واقع ہوئی۔