اسلام آباد: (ویب ڈیسک) سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس کی سماعت ہوئی ، اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قدیم معاشرے میں زندہ رہنے کا حق محض روٹی، کپڑا اور مکان سے پورا ہوتا ہوگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آج کے زمانے میں زندہ رہنے کیلئے تعلیم اور صحت سمیت سہولیات لازم ہیں، کرپشن کی وجہ سے زندہ رہنے کا حق متاثر ہوا ہے، آج دو اغوا شدہ بچیاں 6 سال بعد بازیاب ہوئیں کیونکہ کوئی نظام ہی نہیں ہے، پولیس کو بچیوں کی بازیابی کیلئے انٹیلی جنس ایجنسیوں کا سہارا لینا پڑا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا پولیس میں صلاحیت کا فقدان اصل میں شہریوں کے زندہ رہنے کے حق کی خلاف ورزی ہے، واضح کہہ چکے ہیں کہ عدلیہ حکومت کرنا چاہتی ہے نہ ہی کرے گی، کئی سو نیب کیسز عدالتوں سے واپس ہو رہے ہیں، نیب ترامیم نے زیر التوا کیسز کا دروازہ بند کر دیا ہے، نیب ترامیم کو 8 ماہ ہو گئے مگر ان کے باقاعدہ نفاذ یا کیسز کی منتقلی کا طریقہ کار نہیں بنایا جا سکا۔
اس دوران جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ حکومت کے پاس اگر نیب قانون میں الفاظ بدلنے کا وقت ہے تو کیسز کی منتقلی کا طریقہ کار بنانے کا کیوں نہیں؟۔
چیف جسٹس نے کہا اگر احتساب عدالت کے منتقل کیسز کو اینٹی کرپشن دائرہ اختیار سے خارج قرار دے تو کیا ہوگا؟ جواب میں وکیل مخدوم علی خان نے کہا نیب قانون سے پہلے بھی 50 سال ملک میں کرپشن کے کیسز نمٹائے گئے تھے، کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔