گزری جمعرات اورجمعہ کا دن پاکستان کے لیے اس طرح اچھااور پرامیدتھا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ نے سیاسی بے یقینی اورعدم استحکام کے راستے میں ایک بڑا اسپیڈ بریکر بناتے ہوئے ملک میں عام انتخابات کی تاریخ طے کروادی۔میں اسی موضوع پر لکھنے کا ارادہ کرچکا تھا کہ اس اہم لیکن سادہ سے کام کوہر مسئلے کی طرح غیراہم اور مشکل بنانے والوں کے ارادے خاک میں ملانے پرقاضی صاحب کا شکریہ ادا کروں ۔دل تو یہ بھی تھا کہ قاضی صاحب سے درخواست کروں کہ بڑے بڑے اداروں میں تشریف فرمااپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات اور سوچوں کے غلام بننے واے بڑے بڑے عہدیداروں کو بھی کسی کٹہرے میں کھڑاکریں تاکہ ہرالیکشن پر اسی طرح شک کی تہہ چڑھانے کی کوشش کرنے والے بھی عبرت بنیں۔حیران ہوں کہ آئین کی کتاب میں واضح طورپردرج الفاظ ان کو پڑھنے میں مسئلہ کیوں ہوجاتا ہے ۔ان کی نظروں پراپنی انا اور مفادات کی پٹی کیوں بندھ جاتی ہے ۔چیف صاحب نے بھی خیر حکمت سے ہی کام لیا کہ چیف الیکشن کمشنر جو خود کو اتنا بڑا سمجھ بیٹھے تھے کہ اپنے بنیادی فرض کو پوراکرنے سے ہی انکاری تھے ان کی انا کا بُت توڑتے ہوئے انہیں ایوان صدربھیج دیا اور صدر مملکت جنہوں نے عمران خان کی ایڈوائس پراسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار جو ان کے پاس تھا ہی نہیں وہ فوری استعمال کرلیا لیکن الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار جو صرف انہی کا تھا اس کواستعمال نہ کرکے ملک میں ایک نئے بحران کی بنیاد رکھ دی، اس صدر کو بھی ان کے آئینی فرائض کی یاددہانی کروادی۔چیف صاحب نے 8فروری کو الیکشن پتھرپر لکیر قراردے کر اس ملک کو ایک مسئلے سے نجات دلائی ۔ظاہر ہے پاکستان میں کوئی اچھا کام ہو اورملک دشمن قوتوں کو یہ کام اچھا لگے ایسا تو ہونہیں سکتا اس لیے عین اس وقت جب چیف جسٹس ملک میں عام انتخابات کے کیس کا حکم نامہ لکھوارہے تھے پاکستان کے امن دشمن بھی وارکی تیاریوں میں مصروف تھے۔
گزشتہ دودنوں میں دہشت گردی کے چار واقعات ہوگئے ۔مجھے لگا جیسا میں آٹھ دس سال پیچھے چلا گیا ہوں۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے وقت خبر آئی کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل ٹانک میں پولیس کی گاڑی کو بم سے نشانہ بنایاگیا ہے جس میں اہلکاروں سمیت پانچ افراد شہید ہوگئے ہیں۔ابھی یہ خبر ہی گرم تھی کہ اس سے بھی بڑی اور منحوس گھڑی ہمارے تعاقب میں تھی۔بلوچستان میں گوادر کے علاقے اورماڑامیں دہشتگردوں نے پاک فوج کے ایک کانوائے پر حملہ کردیا ۔اس تباہ کن حملے میں چودہ جوان شہادت کا جام پی گئے۔یہ سن کر خون کھولا،آنکھوں اور دل سے خون کے ہی آنسونکلے۔سمجھ نہیں آرہی کہ آخرایسی کونسی غلطی ہے جس کو ہم سدھارہی نہیں پارہے اور اس وقت دہشت گردی کا دوبارہ سر اٹھانا کس وجہ سے ہے ۔ ایسے واقعات بہت کم ہوگئے تھے، مکمل ختم کبھی بھی نہیں تھے لیکن جمعہ کے دن یہ دو بڑے واقعات ہی کم نہیں تھے کہ ہفتہ کی صبح ایک ایسے واقعے کے ساتھ طلوع ہوئی کہ دماغ ماؤف ہوگیا۔پاکستان ایئرفورس کے میانوالی بیس پرحملہ ہواجس کو سکیورٹی فورسز نے ناکام بناتے ہوئے تمام حملہ آور دہشتگردوں کوہلاک کردیا ۔یہ حملے ہمیں یاددلانے کے لیے کافی ہیں کہ ہمارادشمن ابھی مکمل ناکام نہیں ہوا اور ہماری دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے۔
ہماری کوششوں یا حکمت عملی میں کچھ تو کمی رہی ہوگی کہ یہ ناسورمکمل جڑسے نہیں اکھاڑپارہے۔یہ جولائی 2016کی بات ہے جب داعش عراق اور شام کو نابود کرکے باہرپاؤں پھیلا رہی تھی۔ہم تو پہلے ہی طالبان کے عذاب میں تھے لیکن یہ خطہ چونکہ تخریب کاری کو قبول کرنے کے لیے انتہائی زرخیز واقع ہوا ہے اورہم مذہب کے نام پرنفرت کے کام کاٹھیکہ بڑی جلدی پکڑلیتے ہیں تو داعش کوکچھ ہمدردبھارت اوربنگلہ دیش میں بھی مل گئے۔یکم جولائی 2016کوڈھاکا کے ڈپلومیٹک علاقے میں واقع ایک بیکری پرحملہ ہوگیا جس میں عام طورپرغیرملکی سفارتکاروں کے اہلخانہ کھانے پینے آتے تھے۔اس کیفے پرپانچ نوجوانوں نے رات ساڑھے آٹھ بجے حملہ کیا۔داخلے کے وقت جو سامنے آیا اس کو گولی ماردی ۔اس طرح ان پانچ دہشت گردوں نے بیس کے قریب غیرملکی مارڈالے اور باقی بچ رہنے والے لوگوں کو یرغمال بنالیا۔بنگلہ دیش کی پولیس نے کوشش کی لیکن ناکام رہی۔اس کے بعد انسداد دہشت گردی فورسز نے بھی کوشش کی لیکن مزاحمت سے زیادہ یرغمالیوں کے مارے جانے کے خدشے کی وجہ سے آپریشن کامیاب نہ ہوا۔پوری رات اسی آپریشن کی تیاری اور کوشش میں گزر گئی۔بنگلہ دیش ہل کررہ گیا۔اتنے بڑے حملے کی وجہ کسی کو سمجھ نہیں آرہی تھی لیکن داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرلی۔
بنگلہ دیش کی فوج نے صبح کے وقت آپریشن کیا۔یرغمالی رہاہوئے اورتمام پانچ نوجوان دہشت گردہلاک کردیے گئے۔ہم تو یہاں ایسے حملوں کے عادی بن چکے تھے لیکن بنگلہ دیش کی تاریخ کا یہ سب سے بڑااور پہلا ایسا حملہ تھا ۔یہ پانچوں نوجوان بنگلہ دیشی تھے ۔حملے کے خلاف پورے ملک میں ایسی فضا بنی کہ ان حملہ آوروں کے اہلخانہ نے علیٰ لاعلان ان کی لاشیں وصول کرنے سے انکار کردیا۔علامتی طورپران پانچوں کو لاوارث اور اجنبی قراردے کر دفن کیا گیا۔اس کے بعد پورے ملک کے قانون نافذکرنے والے ادارے اس کیس میں لگ گئے۔ان دہشتگردوں سے رابطے اور ان کے سہولتکاروں کوتلاش کرکے آٹھ لوگوں پرفرد جرم عائد کی گئی۔ عدالت نے آٹھ میں سے سات کو پھانسی کی سزاسنائی۔پورے ملک میں کسی نے ان سے ہمدردی دکھانے کی جرات نہیں کی۔کسی نے ان کو اپنے بچے یابھٹکے ہوئے لوگ کہہ کر ان کے کام کا جواز تلاش کرنے کی ہمت نہ کی۔وہ دن گیا اورآج کا آیابنگلہ دیش میں داعش یا کسی اورعالمی دہشت گرد تنظیم کو ملازمت کے لیے کوئی جوان ملا نہ بوڑھا۔
ایک ہم ہیں کہ ریاست نے غیرقانونی طورپرمقیم افغان باشندوں سے درخواست کی کہ وہ اپنے وطن واپس چلے جائیں لیکن اس پر بھی ہمارے کچھ دانشوروں کو تکلیف ہونا شروع ہوگئی ۔یہاں لوگوں کوانسانی حقوق یاد آگئے ۔بھائی چارہ جوش مارنے لگا۔یہ لوگ جو افغانیوں کی واپسی کو انسانی المیوں سے جوڑرہے ہیں جو ان کی شان میں کالم لکھ رہے ہیں کوئی ان سے پوچھے کہ ہم نے افغانستان کے امن کے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔طالبان کی حکومت کی واپسی کی راہیں ہموارکرکے ان کو دیں۔ ان کے آنے اور امریکا کے نکل جانے کو غلامی کی زنجیریں توڑنا تک کہہ دیا لیکن بدلے میں کیا مانگا؟ یہی نا کہ تحریک طالبان پاکستان کوافغانستان میں پناہ دینا بندکریں۔اپنی سرزمین کو ہمارے خلاف استعمال کرنے سے روکیں۔یہ دونوں کام تو ویسے ہی ہماری خودمختاری کے خلاف ہیں ۔
ہم دہشت گردی کے خلاف طویل ترین جنگ لڑچکے ۔ہمارے اسی ہزار سے زائد شہری اس جنگ میں اپنی جانیں دے چکے ہیں۔ہماری مسلح افواج کے افسر اور جوانوں کی بڑی تعداداپنا خون دے چکی ہے۔جنگ کی وجہ بننے والے افغانستان سے امریکا کوواپس گئے دوسال ہوگئے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت بن چکی ہے پھر اس دہشت گردی کا جواز کیا ہے؟ہمارے قانون نافذکرنے والے اداروں اورسویلینز کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں ۔دہشت گردی کے چلتے نہ ہماری معیشت ٹریک پرآسکتی ہے نہ ہماری سیاست اور نہ ہی ہمارا معاشرہ اس ہیجان سے باہر آسکتا ہے اس لیے پاکستان کو بچانے کے لیے ہم سب کو یکسو ہوکراپنے سکیورٹی کے اداروں کے ساتھ تعاون اور شانہ بشانہ کھڑے ہوکر مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔صرف دہشتگردوں کو ہی نہیں بلکہ اپنے معاشرے میں کسی بھی وجہ سے ان دہشت گردوں کے ہمدردوں کا خاتمہ بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ اگر ہندوستان اورافغانستان کے عناصریہ حرکتیں کررہے ہیں تو ان کومکمل بے نقاب کرکے ان کے یہاں موجود سہولتکاروں کو عبرت کی مثالیں بنانے تک ہم اس گرداب سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔