نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ افغان شہریوں کی ووٹر لسٹوں میں شمولیت سے متعلق آصف زرداری کی بات میں وزن ہے، متعلقہ اداروں کو اس پر دیکھنا چاہیئے، ہمارے ڈیٹا بیس میں جعلی کاغذات بنے اور پھر وہ ووٹرلسٹوں کے ساتھ جڑ گئے، اگر کوئی کہتا ہے کہ جعلی کاغذات نہیں بنے تو وہ خود کو دھوکا دے رہا ہے۔
نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ افغان سرزمین سے دہشت گردی کی کارروائیاں ہورہی ہیں، افغان حکومت سے بات کی جاسکتی ہے کہ وہ ان کو کیسے کنٹرول کرسکتے ہیں، افغان حکومت کی جانب سے اقدامات کرنا ہوں گے، افغان حکومت سے زیادہ تعاون چاہیں گے۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ افغان عبوری حکومت کا تعاون پاکستان کی امیدوں سے کم رہا ہے، افغان عبوری حکومت بھی سمجھتی ہے مستحکم افغانستان خطے کے لیے فائندہ مند ہوگا، مستحکم افغانستان خطے کی ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہے۔
نگراں وزیراعظم نے مزید کہا کہ ہمارے مختلف محکمے افغان عبوری حکومت کے ساتھ بات کررہے ہیں، حملے کہاں سے ہورہے ہیں افغان حکومت اور ہمیں پتہ ہے، دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کیے جاسکتے، کوئی اب بھی سمجھتا ہے کہ مذاکرات کیے جاسکتے ہیں تو اس کی بدبختی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان امریکا کا گھر نہیں تھا ان کو واپس جانا تھا، ہم یہ زمین چھوڑ کر کہاں جائیں گے، ہمارے کئی اختلافات ہوتے ہیں لیکن یہاں رہتے ہیں، ہمیں کسی بھی دہشت گرد گروپ سے بات نہیں کرنی چاہیئے، تحفظ دینا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے، ریاست کے خلاف تشدد کا راستہ اپنائیں گے تو وہ غیرقانونی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تشدد کا راستہ اپنانے کی اجازت کسی صورت نہیں دے سکتے، تشدد اور مذاکرات دونوں ریاست کے ٹول ہیں، ریاست جب چاہے جہاں چاہے یہ دونوں ٹول استعمال کرسکتی ہے، مذاکرات اس وقت کیے جاتے ہیں جب سمجھ رہے ہوں گروہ مجبورہوگیا ہے۔
نگراں وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ افغان شہری ہمارے مہمان ہے، ہم چاہتے ہیں غیرقانونی طور پر مقیم کاغذات بنواکر واپس آئیں، ہم نے افغان شہریوں پر مستقل پابندی تو نہیں لگائی، ہمارے ڈیٹا بیس میں جعلی کاغذات بنے ہیں، جب وہ کاغذات بنے ہیں تو ووٹرلسٹوں میں بھی جڑ گئے ہیں۔
انوار الحق کاکڑ نے یہ بھی کہا کہ کوئی کہتا ہے کہ جعلی کاغذات نہیں بنے تو خود کو دھوکا دے رہا ہے، آصف زرداری نے جو نکتہ اٹھایا اس میں وزن ہے، متعلقہ اداروں کو دیکھنا چاہیئے، آج کی تاریخ تک انتخابات کے التوا کی بات نہیں، 8 فروری کو صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک پولنگ ہونی ہے۔
اسرائیل کے معاملے پر جو رائے قائد اعظم کی تھی اس سے
اختلاف کرنا کفر نہیں ہے۔
دو ریاستی حل مسئلہ فلسطین کا واحد حل ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی چیلنجز کے باوجود سیاسی پارٹیاں اپنی سرگرمیاں کر رہی ہیں اور الیکشن کا ماحول نظر آ رہا ہے۔ کسی تاجر نے مجھے نہیں کہا کہ نگراں حکومت کو ہی آگے چلنا چاہیئے۔