جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد میں بدھ کے روز یوتھ کنونشن میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے ملک بھر کی یونیورسٹیوں سے آئے 2500 طالبعلموں کے ساتھ کھل کر گفتگو کی۔ سرکاری طور پر اس حوالے سے تفصیلات جاری نہیں ہوئیں اور ابتدائی اطلاعات میں کچھ باتیں ہی سامنے آئی تھیں تاہم اب اس بات چیت کے نکات سامنے آئے ہیں۔
جو صحافی اس موقع پر موجود تھے ان کے مطابق آرمی چیف نے افغانستان ، بھارت کے حوالے سے بات کی جب کہ پاکستان میں سیاسی صورت حال پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
گورننس کے سوالات پر آرمی چیف نے کہا کہ ایک ایسی ترمیم ہونی چاہئیے جس سے عوام کے پاس حق ہو کہ اگر ان کا نمائندہ کام نہیں کررہا یا غلط کام کر رہا ہے تو سال بعد یا مڈٹرم یا کسی بھی مدت کے دوران میں ہی اُسے دوبارہ ووٹ کے ذریعے ڈی سیٹ کیا جا سکے۔
افغانستان کے معاملے پر آرمی چیف نے پرعزم لہجے میں کہا کہ میرے ایک بھی پاکستانی کی زندگی اگر خطرے میں آتی ہے تو Afghanistan be damned۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں کے پیچھے افغانستان ہے پاکستان نے 50 لاکھ افغانوں کے لیے سب کچھ کیا لیکن جب بات ہمارے بچوں کی بات آئے گی تو ہم ان پر حملے کرنے والوں کا پیچھا کریں گے۔
ایران کے معاملے پر انہوں کہا کہ ایران برادر اسلامی ملک ہے لیکن کسی کو ہمیں پیٹھ میں چھرا گھونپنے کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہم اپنی خودمختاری سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
صحافیوں کا دعویٰ ہے کہ بھارت کے حوالے سے آرمی چیف کا کہنا تھا کہ بھارت میں کبھی نظریہ پاکستان کو قبول نہیں کیا ہم اسے کیسے قبول کر سکتے ہیں۔
جناح کنونشن میں موجود غریدہ فاروقی کے مطابق سیاست کے معاملے پر ایک سوال جس کا جواب نوجوان نے کہا کہ وہ آرمی چیف سے ہی لینا چاہتے ہیں؛ آرمی چیف نے کہا کہ تمام سیاست کا مقصد پاور ہے۔
آرمی چیف نے کہا کہ میں ڈی جی این آئی اور ڈی جی آئی ایس آئی رہا ہوں، میں نے تمام سیاسی جماعتوں سیاستدانوں سے انٹرایکشن کر رکھا ہے ان سب کو جانتا بھی ہوں، عوام اُسے منتخب کریں جو عوام کے کام آئے۔
غریدہ کے بقول ایک طالبعلم کے سوال پر کہ آپ منتخب حکومتوں کو مدت پوری کیوں نہیں کرنے دیتے؟ آرمی چیف نے کہا کہ اگر کوئی ملک کے ٹکڑے کرنے لگا ہو، ملک کو بیچنے لگا ہو کیا پھر بھی اسے پانچ سال مدت پوری کرنے دی جائے؟ انڈیا میں 12 عدم اعتماد کی تحریکیں آئیں کوئی مسئلہ نہیں ہوا، برطانیہ میں تین وزرائے اعظم تبدیل ہوئے کوئی مسئلہ نہیں ہوا، پاکستان میں بھی آئینی پارلیمانی طریقے سے 172 کا نمبر پورا ہوا، عدم اعتماد کامیاب ہو گئی، ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ پارلیمان کا حصہ رہتے نہ کہ سڑکوں پر آ جاتے۔ غیر جمہوری رویے سے جمہوریت مضبوط نہیں ہوتی۔ دوسری طرف کو چاہئیے تھا اپنا 172 کا نمبر پورا کر لیتے کیوں پورا نہیں کر سکے۔
آرمی چیف کی بات چیت کے بارے میں ایک انگریزی معاصر میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق جنرل عاصم منیر نے سوال کیا کہ کیا سیاسی جماعتوں کو پاکستان توڑنے کی اجازت دے دی جائے، کیا لوگ پانچ سال کی مدت مکمل ہونے کا انتظار کرتے رہیں۔
رپورٹ کے مطابق آرمی چیف نے کہا کہ الیکشن آٹھ فروری کو ہوں گے، لوگ احتیاط سے اپنے نمائندے چنیں، پانچ ہزار روپے کے لیے اپنا ووٹ نہ بیچیں۔