سوال ملین ڈالر کا ہے کہ کون جیتے گا؟ اب سوال اتنا مہنگا ہے تو جواب بھی یقینی طورپرسستا اور آسان نہیں ہوسکتا۔پاکستان میں سیاسی جماعتیں جس طرح ترتیب کے ساتھ ملک کے مختلف حصوں میں بٹ چکی ہیں ۔صوبوں سے بھی آگے علاقوں تک سمٹ چکی ہیں ایسے میں دوتہائی تو دورسادہ اکثریت لینا ہی خواب کی صورت اختیار کیے بیٹھا ہے۔پاکستان میں آخری مرتبہ دوتہائی اکثریت مسلم لیگ ن نے 1997کے الیکشن میں حاصل کی تھی اور نوازشریف بھاری مینڈیٹ کے ساتھ اس ملک کے وزیراعظم بنے تھے لیکن انجام اس حکومت کا بھی کسی سادہ سے بھی کم تراکثریت والی حکومت جیسا ہی ہوا تھا۔ستانوے میں نوازشریف وزیراعظم بھاری بھرکم مینڈیٹ کے ساتھ تھے پھر بھی پتہ نہیں کیوں ان کو چودھویں ترمیم کی ضرورت پڑگئی کہ انہوں نے فلورکراسنگ کا قانون آئین میں ڈال دیا حالانکہ ان کی اسمبلی میں اپوزیشن نہ ہونے کے برابر تھی اور ان کو کسی قسم کی تحریک عدم اعتماد کا بھی خطرہ یا خدشہ نہیں تھا۔ یہی وہ ترمیم تھی جس کے بعد اپوزیشن کوموقع مل گیا کہ انہوں نے اس دوتہائی اکثریت کوپاکستان کے خلاف کہنا شروع کیا اور نوازشریف پرامیرالمؤمنین بننے کی خواہش کا الزام لگادیا۔
اس کے بعد مشرف کے مارشل لا میں الیکشن ہوئے ۔2002کے الیکشن کو مکمل مینج الیکشن کہا جاتا ہے جس میں سنا ہے کہ بھائی لوگ باقاعدہ نقشہ سامنے رکھ کر سیٹیں بانٹنے کی جنگی طرز کی منصوبہ بندی کرتے تھے ۔ اس وقت ق لیگ کودوتہائی تو کیا ساری تہائیاں ہی مل جانی چاہئیں تھیں لیکن اس وقت بھی ایسا مینڈیٹ ملا کہ مارشل لاہونے کے باوجود حکومت سازی مشکل ہوگئی۔ق لیگ کے بندے پورے کرنے کے لیے پیپلزپارٹی کوتوڑ کر اس میں سے پیٹریاٹ بنانی پڑی۔پھر بھی میر ظفر اللہ جمالی صرف ایک ووٹ سے وزیراعظم بن پائے تھے ۔اس ایک ووٹ کا کریڈٹ جناب عمران خان بھی لیتے رہے، ڈاکٹر طاہرالقادری بھی اور مولانا اعظم طارق بھی یعنی ایک ووٹ کے وزیراعظم کا کریڈٹ لینے والے بندے تین تھے۔ان تینوں پارٹی سربراہان کی اس الیکشن میں قومی اسمبلی میں ایک ایک نشست تھی اور دستیاب شواہد کے مطابق ان کی یہ والی ایک ایک نشست بھی اسی نقشے پر ہی طے کی گئی تھی ۔ویسے تو مارشل لاکے بعد ریفرنڈم میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری دونوں ہی وزیراعظم کے امیدوار اور آس میں تھے لیکن مشرف صاحب نے ن لیگ میں نقب لگاکر ق لیگ بنانا زیادہ بہتر خیال کیا۔مزے کی ایک بات یہ بھی کہ ق لیگ کے پہلے سربراہ ،موجودہ پی ٹی آئی رہنما حال مفرورحماد اظہر کے والد میاں اظہر تھے جو نوازشریف کے گورنرتھے ۔ میاں اظہر نے بھی نوازشریف سے بے وفائی کرکے ق لیگ کی صدارت قبول کی اور لاہور کے حلقہ این اے 118جو موجودہ حلقہ این اے 117ہے سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا۔اس حلقے کا نتیجہ اتنا حیران کن نکالا گیا کہ ق لیگ کے صدر میاں اظہر جماعت اسلامی کے حافظ سلمان بٹ سے شکست کھابیٹھے یا ان کو حافظ صاحب سے شکست دلوادی گئی۔اب اس میں بھی کوئی حکمت ہی ہوگی کہ پارٹی الیکشن جیت کر حکومت بنانے چلی گئی لیکن پارٹی سربراہ اپنا حلقہ ہی جیتنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔اس زمانے میں ق لیگ کے سامنے ایک تگڑی اپوزیشن تھی لیکن تقسیم شدہ تھی ۔ تجزیہ یہی کہتا ہے کہ یہ تقسیم بھی طے شدہ سکرپٹ کے مطابق رکھی گئی تھی ۔ایسی تقسیم تھی کہ ایک ووٹ سے وزیراعظم بننے جارہا تھا اور اپوزیشن وزیراعظم کا متفقہ امیدوار لانے میں سنجیدہ نہیں تھی۔ن لیگ کے تو چند ہی لوگ تھے اسمبلی میں اس لیے وہ کسی گنتی میں نہیں تھے اس لیے پیپلزپارٹی کی طرف سے شاہ محمود امیدواربنائے گئے اور ایم ایم اے کی طرف سے مولانا فضل الرحمان وزارت عظمیٰ کے امیدوار بن کر سامنے لائے گئے ۔نتیجہ یہ نکلا کہ میر ظفر اللہ جمالی ایک ووٹ سے وزیراعظم اور مولانا فضل الرحمان اپوزیشن لیڈر بن گئے ۔یہ آخری موقع تھا جب کوئی پارٹی دو تہائی لے سکتی تھی لیکن وہ اس کنٹرولڈ الیکشن میں بھی نہیں دلوائی جاسکی تھی یا پھر یہی اسکرپٹ تھا کہ ق لیگ کو سرپر نہ چڑھایا جائے کہ اوقات سے باہر چلی جائے ۔
اس کے بعد 2008کے الیکشن میں پیپلزپارٹی انتخاب جیتی لیکن سادہ اکثریت پوری کرنے کے لیے بھی ایم کیوایم کو ساتھ ملایاگیااور اے این پی نے بھی حکومت سازی میں زرداری صاحب کا ہاتھ بٹایا۔اس دور میں سیاسی جماعتوں کا علاقائی جماعتیں بننے کا سفر تیزی سے شروع ہوگیا۔ پیپلزپارٹی کا پنجاب سے صفایا ہوگیا۔وہ سندھ تک سمٹ گئی ۔ ن لیگ جو پنجاب کے ساتھ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں موجود ہوتی تھی وہ پنجاب میں سمٹنا شروع ہوگئی ۔ 2013میں مسلم لیگ ن کی ہوا چلی اور اس کو الیکشن میں سادہ سی اکثریت بھی مل گئی لیکن اس نے بھی حکومت سازی کے لیے مولانا فضل الرحمان کا ہاتھ تھاما۔اور اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان سے کچھ قوم پرست ان کے ساتھ رہے۔اس الیکشن میں خیبرپختونخوامیں اے این پی بھی سکڑ گئی اور ن لیگ ہزارہ بیلٹ میں بھی محدود ہوکر رہ گئی ۔خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف نے اے این پی ،ایم ایم اے اورن لیگ کی جگہ لے لی۔اس الیکشن میں بھی مرکزی حکومت بہت مضبوط تو نہیں تھی لیکن ایسی کمزوربھی نہیں تھی کہ کسی ایک جماعت کے روٹھ جانے سے گرہی جائے ۔
2018کے الیکشن میں ہوا کی بجائے پی ٹی آئی کا طوفان چلایا گیا۔جس قدر ن لیگ کو نچوڑا گیا۔جنوبی پنجاب سے سارا ‘‘جوگر گروپ ‘‘آنکھ جھپکتے ہی خان صاحب کاہمرکاب ہوگیا۔بلوچستان میں بھی ن لیگ کو توڑ کر وہاں ’’باپ‘‘ پارٹی بناکر ان کو پی ٹی آئی کا اتحادی بنادیا گیا۔ایک طرف خان صاحب کو کھلا میدان دیا گیا تو دوسری طرف اس گریٹ گیم کو رسک فری کرنے کے لیے زرداری صاحب جو اینٹ سے اینٹ بجانے کے بیان کے بعد دبئی فرار ہوگئے تھے ان کو معافی دے کر واپس لایا گیااور ان کو بھی ن لیگ پرباقاعدہ چھوڑ دیا گیا۔دوہزار سترہ کے آخری دوماہ اور اٹھارہ کے شروع سے الیکشن تک زرداری صاحب کے بیانات اور انٹرویوز دیکھ کر آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ اس وقت ن لیگ کے ساتھ کیا کیے جانے کا پلان تھا۔وہ دھرتی کے ناسور،گریٹرپنجاب کے بانی،مودی کا جویار ہے غدار ہے وغیرہ یہ سب بیانات زرداری صاحب اور ان کے صاحبزادے بلاول کے اسی وقت کے ہیں۔اس الیکشن میں دونوں بڑی جماعتیں پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کا ہدف ن لیگ بنادی گئی تھی ۔اس وقت مجھے لگتا تھا کہ جس قدر مینجمنٹ کی جارہی ہے خان صاحب کا حق تو ویسے دوتہائی کا ہے لیکن چلیں دوتہائی نہیں بھی تو سادہ اکثریت تو ان کو لازمی دلوائی جائے گی تاکہ پراجیکٹ کمزوری کا شکار نہ ہونے پائے ۔لیکن جب نتائج آئے تو مجھے دوہزاردو کے الیکشن رزلٹ یاد آنے لگے ۔ یقین ہوگیا کہ جب بھی کوئی پراجیکٹ بن کر آنا چاہے گا اس کو سادہ اکثریت بھی نہیں دی جائے گی اور یہی کچھ عمران خان صاحب کے ساتھ کیا گیا۔عمران خان صاحب جو الیکشن سے پہلے اعلان کرتے پھرتے تھے کہ وہ اتحادی اورکمزورحکومت نہیں بنائیں گے ۔وہ وزیراعظم کی شیروانی پہننے کے لیے اتنے بے چین تھے کہ ان کو حکومت باقاعدہ جوڑ کر بھان متی کے کنبے کی مانند دی گئی ۔آزادامیدواروں کو جہانگیرترین کے جہاز کے ذریعے حکومت میں پہنچایا گیا پھربھی کام نہ بنا تو ایم کیوایم کو ساتھ بٹھایا گیاپھر بھی کام نہ بنا تو اختر مینگل اور باپ پارٹی بھی ان کو ادھار دی گئی تب جاکر عمران خان صاحب کو شیروانی نصیب ہوئی ۔خان صاحب اپنی پارٹی کو چاروں صوبوں میں واحد مقبول اور موجود پارٹی کہتے تھے لیکن حکومت ان کو بھی ایسی دی گئی کہ تین سال بعد سب نے ادھار واپس مانگ لیا اور خان صاحب اتنے غصے میں آئے کہ بم کو لات ماربیٹھے ۔
یہ گزشتہ چار انتخابات کی کہانی ہے ۔اس سے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کو جیسے کونوں کھدروںمیں سمیٹ دیا گیا ہے اب کسی کو سادہ اکثریت بھی نصیب نہیں ہونی ۔میاں نوازشریف جب واپس آئے تھے تو لگتا تھا کہ ان سے سادہ اکثریت کی بات ہوگئی ہے لیکن جیسے جیسے الیکشن قریب آرہے ہیں اتنی ہی اکثریت ن لیگ سے دورجانے کے اشارے مل رہے ہیں ۔ اس کے باوجود ابھی وہ حالات نہیں ہیں کہ پیپلزپارٹی ہی جیت جائے اور بلاول وزیراعظم بن جائے ۔پنجاب میں بلاول کی مہم تک تو بات ٹھیک ہے لیکن پنجاب کا ووٹر ابھی پیپلزپارٹی کوقبول کرنے کو تیار نہیں ہوا۔اور جوپنجاب نہیں جیتے گا وہ وزیراعظم نہیں بن پائے گا ۔مجھے تو ن لیگ ہی آگے دکھائی دے رہی ہے لیکن حکومت بنانے کے لیے اس کواستحکام پاکستان کی بیساکھی ساتھ رکھنی پڑے گی ۔ یہ میرا اب تک کا تجزیہ ہے باقی رہے نام اللہ کا۔۔