بھارتی ریاست پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں اور پولیس کے درمیان لڑائی نے شدت اختیار کرلی ہے۔ ایک نوجوان کسان جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ ہریانہ پولیس نے ایک اعلان میں کہا ہے کہ کسانوں سے تصادم میں اب تک 2 اہلکار ہلاک اور 30 زخمی ہوچکے ہیں۔
اپنے مطالبات منوانے کے لیے دہلی جانے کی کوشش کرنے والے کسانوں کو روکنے کے اقدامات کے طور پر ہریانہ حکومت نے دہلی ہریانہ سرحد بند کردی ہے۔ دو صوبوں کی سرحد اب میدانِ جنگ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ کئی مقامات پر ہریانہ پولیس اور کسانوں کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں اور بہت سے کسان زخمی ہوئے ہیں۔
ہریانہ کی حکومت نے اپنے مطالبات کے لیے احتجاج کرنے والے کسانوں کے اثاثے ضبط کرنا شروع کردیا ہے۔ دوسری طرف انبالہ پولیس نے بھی قومی سلامتی ایکٹ کے تحت کارروائی کرتے ہوئے کسانوں کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنا اور ان کے ٹریکٹرز، بھاری مشینری وغیرہ کو ضبط کرنا شروع کردیا ہے۔
ایک بیان میں ریاستی حکومت نے کہا ہے کہ پہلے ہی خبردار کردیا گیا تھا کہ اگر کسانوں کے احتجاج کے دوران سرکاری املاک کونقصان پہنچے گا تو مارپیٹ اور توڑ پھوڑ میں ملوث کسانوں کے اثاثے ضبط کرلیے جائیں گے۔
بعض حکام نے کہا ہے کہ اگر احتجاج کے دوران سرکاری املاک کو نقصان پہنچائے گا تو اسے قیمت تو ادا کرنا ہی پڑے گی۔
پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کا ’دہلی چلو‘ مارچ 13 فروری کو شروع ہوا تھا۔ کسان قیادت دہلی میں ہے جہاں اس نے مودی سرکار سے مذاکرات کے تین ادوار مکمل کیے ہیں۔
کسان قیادت نے اپنے مطالبات سے متعلق تمام نکات مرکزی حکومت کے حوالے کردیے ہیں۔ حکومت کی طرف سے اب تک کوئی باضابطہ جواب نہیں دیا گیا تھا۔ مذاکرات کے دوران احتجاج روک دیا گیا تھا۔ کسان قیادت نے اب احتجاج دوبارہ شروع کرنے اور دہلی چلو مارچ جاری رکھنے کی کال دی ہے۔
ڈھائی سال قبل بھی کسانوں کے احتجاج کے باعث دہلی میں خاصی ہنگامہ آرائی ہوئی تھی۔ ہریانہ اور پنجاب کے کسانوں کا ایک بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ مختلف اہم فصلوں کی امدادی قیمتِ خرید بڑھائی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ فصلوں کی بیمہ کاری کا دائرہ وسیع کیا جائے تاکہ موسم کے ہاتھوں فصلیں تلف ہونے پر کسان کسی نہ کسی طور کام جاری رکھ سکیں۔