پنجاب میں نئی حکومت بنتے ہی وزیراعلی پنجاب مریم نوازشریف نے محکمہ سپیشلائز ہیلتھ کیئر میں مافیا کے خلاف طبل جنگ بجا دیا ہے۔سرکاری ہسپتالوں میں فری انٹرنشپ، فری پی جی ٹریننگ ،فری نرسنگ ، فری پیرامیڈیکل اور کلینیکل ٹریننگ کرنے والوں کے لیے نئی پالیسی کی بھی تیاریاں شروع کر دی گئیں ہیں کیونکہ اس سے قبل یہ لوگ سرکاری ہسپتالوں میں نچلے لیول سے ملی بھگت کے ذریعے چند روپے رشوت دے کر غیر قانونی طور پر تمام مفادات غیر قانونی طور پر حاصل کر رہے تھے جبکہ پرائیویٹ میڈیکل کالجز، نرسنگ کالجز ،ایل ایچ وی سکول ،پیرامیڈیکل سکولوں اور ٹیکنالوجسٹ کورس کروانے والی یونیورسٹیز ہائیریجوکیشن کمیشن، یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز اور سی پی ایس پی کے مطابق پڑھانے والا عملہ اور دیگر انتظامات نہ ہوتے ہوئے اپنے بچوں کو خود بھاری فیسیں لے کر سرکاری ہسپتالوں میں ٹریننگ کرواتے تھے جس کا فائدہ پرائیویٹ یونیورسٹیاں اورکالجز تو اٹھا رہے ہیں مگر سرکاری ہسپتالوں کو اس کا نقصان ہو رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سرکاری عملہ بشمول ڈاکٹرز ان غیر قانونی پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ، ہائوس جاب، نرسز ،ایل ایچ وی، ٹیکنالوجسٹ اور دیگر پیرا میڈیکل سٹاف کی ٹریننگ سے مریضوں کی دیکھ بھال کا کام لیتے ہیں اورسرکاری ڈاکٹرز سمیت دیگر عملہ خود چھٹیوں پر چلا جاتا ہے ان میں پیرامیڈیکل کے ایسے ٹرینی بھی شامل ہیں جو کہ ٹریننگ کے ساتھ ساتھ مریضوں سے دوران ڈیوٹی باقاعدہ دیہاڑی بھی لگاتے ہیں مختلف مافیاز نے اپنے کالجز اور سکول بنا رکھے ہیں جس میں وہ اپنی روزی کے بل بوتے پر سرکاری ہسپتالوں سے ناجائز ٹریننگ دلواتے ہیں اس سلسلے میں وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف کی ہدایت پر محکمہ سپیشلائز ہیلتھ کیئر نے سروسز ہسپتال میں پرائیویٹ کالجز کی پی جی ٹریننگ اور ہائوس جاب کی باضابطہ انکوائری شروع کر دی ہے جس میں بڑے بڑے انکشافات ہوں گے کیونکہ حساس ادارے کی رپورٹ کے مطابق ان پی جی ٹریننگ اور ہائوس جاب کرنے والوں کو باقاعدہ غیر قانونی طور پر تنخواہ بھی دی جاتی رہی ہے ۔ دیگر ہسپتالوں میں ایسے مافیاز بھی شامل ہیں جن کے روس اور چین میں میڈیکل کالجز سے معاملات طے ہیں اور وہ ایم بی بی ایس کروانے کے بعد پی ایم سی سے رجسٹریشن اور مختلف ہسپتالوں سے ہائوس جاب کروانے کی بھی ذمہ داری لیتے ہیں اسی طرح ہسپتالوں کے مختلف لوگوں نے اپنے نرسنگ سکول اور پیرا میڈیکل کالجز بنا رکھے ہیں جن کی نرسنگ کونسل اور پنجاب میڈیکل فیکلٹی سے رجسٹریشن ہی نہیںہے مگر وہ جعلی داخلے کر کے ان کو ٹریننگ سرکاری ہسپتالوں سے اور امتحان دوسرے سکول کالج سے کرواتے ہیں۔ حساس اداروں کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کی ڈی جی نرسنگ کے بھی ملتان اور بہاولپور میں غیر رجسٹرڈ نرسنگ کالجز چل رہے ہیں ۔سروسز ہسپتال میں 107 پرائیویٹ کالجز کے ڈاکٹر زبغیر مجاز اتھارٹی کی اجازت کے ہسپتال کی مختلف وارڈز میں ہائوس جاب کر رہے ہیںسروسز ہسپتال سے 368 ایسے پی جی ٹرینیر کا انکشاف ہوا ہے جن کے ساتھ سروسز ہسپتال کے مجاز افسروں کا کوئی ایم او یو ہی نہیں ہے ۔ یہ غیر قانونی کام 2016 سے 2023 تک جاری رہا اور غیر قانونی طور پر شہر کے بڑے پرائیویٹ ہسپتالوں کے ڈاکٹر ز کو سروسز ہسپتال میں لاکر ٹریٹنگ مکمل کرائی کے گئی ۔ وزیر اعلی کے حکم پر تین رکنی اعلی سطح کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے تحقیقاتی کمیٹی کا کنوینیر محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کے ایڈیشنل سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو مقرر کیا گیا ہے جبکہ دیگر ممبران میں ڈپٹی سیکرٹری بجٹ اینڈ اکانٹس اور پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور کے ڈائریکٹر فناس شامل ہیں۔ کمیٹی سے کہا گیا ہے کہ وہ صرف صرف سروسز ہسپتال لاہور میں پی جی کی تحقیقات کرے گیاور ان کے داخلے سینٹرل انڈکشن پالیسی برعکس تو نہیں ہوئے۔ محکمہ صحت کے ذرائع نے بتایا ہے کہ ایسے پی جی ٹریننگ کی ٹریننگ بھی حال ہی میں ختم کی گئی ہے جنہوں نے غیر ممالک سے ا کر نہ تو پی جی ٹریننگ جوائن کی اور نہ ہی ہسپتال میں ڈیوٹی کی مگر گزشتہ چھ سے سات ماہ کے دوران امریکہ بیٹھ کر وہ ڈاکٹرز تنخواہیں وصول کر رہے ہیں ۔ سروسز ہسپتال میں ایسے پی جی ٹرینر بھی موجود ہیں جو کہ دو سال سے اپنی ڈیوٹی سے غائب رہے ہیں اور اب اتھارٹی کو بلیک میل کرتے ہوئے گن پوائنٹ پرٹریننگ سرٹیفکیٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔وزیراعلی پنجاب کو اپنے دور میں شفافیت اور جدت اور میرٹ کو یقینی بنانے کے لیے ان حقائق پر مبنی اندھیر نگری پر سخت ایکشن لیتے ہوئے ان کے خلاف کاروائی کر کے ایک منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے اور گورنمنٹ کے وسائل کو ذاتی مفادات کو لوٹنے والوں کا سخت احتساب کرنا چاہیے اور اگر پرائیویٹ اداروں کو سرکاری ہسپتالوں کے ساتھ مل کر کام کرنے یا مدد کی ضرورت ہے تو وہ ایک شفاف پالیسی کے تحت ہونی چاہیے تاکہ غریب بچوں کے والدین پر فیسیوں کا بوجھ کم ہو اور حکومت ان کی اچھی ٹریننگ میں مددگار ثابت ہو۔