بھارت سمندری کانوں میں موجود قدرتی معدنیات حاصل کرنے کی دوڑ میں روس کو پیچھے چھوڑنے کے قریب ہے۔
بھارت کی جانب سے عالمی سیبد اتھارٹی کو درخواست دی گئی ہے، جس میں سمندری تہہ میں موجود کان سے قدرتی معدنیات نکالنے کے لیے لائسنس مانگا گیا ہے۔
اقوام متحدہ سے منسلک اتھارٹی اب تک 31 لائنسن دے چکی ہے، جس میں سے اب تک 30 فعال ہیں۔ واضح سے سمندری معدنیات نکالنے کی دوڑ میں صرف بھارت ہی نہیں بلکہ روس اور چین بھی ہیں۔
تاہم اگر بھارت کو اس درخواست پر لائسنس مل جاتا ہے، تو بھارت کے لائسنس روس کے برار ہو جائیں گے، جبکہ چین سے محض ایک لائسنس کم ہوگا۔
بحرہ ہند کی تہہ میں کئی ایسے قدرتی معدنیات ہیں، جو کہ سولر اور ونڈ پاور، الیکٹرک گاڑیوں اور بیٹری ٹیکنالوجی میں کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔
ان معدنیات میں کوبالٹ، کاپر، نیکل، مینگانیز شامل ہیں۔ جبکہ یہ معدنیات بحرہ ہند کی تہہ میں ہزاروں میٹر نیچے ہیں۔
بھارت کے لیے یہ لائسنس ملنے کا حصول اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس سے بھارت پولی میٹالک سلفائڈز، کاپر، زنک، سلور جو کہ سینٹرل بحرہ ہند میں موجود ہیں، ان تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
تاہم اس سب میں بڑی رکاوٹ کے طور پر کمیشن نے درخواست پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ اس مقام پر جہاں کا لائسنس بھارت کو درکار ہے، ایک نامعلوم ملک نے دعویٰ کر رکھا ہے۔ جبکہ اس پر بھارت سے جواب بھی طلب کر لیا ہے۔
دوسری جانب امریکی جیوپالیٹیکل اور سپلائی چین انٹیلی جنس پرووائیڈر نیتھان پیکارسک کا کہنا تھا کہ بحرہ ہند اپنے اندر کئی قدرتی وسائل لیے ہوئے ہے، جو کہ بھارتی حکومت اپنی جانب متوجہ کر رہا ہے۔
واضح رہے بھارت، چین، جرمنی اور جنوبی کوریا پہلے ہی پولی میٹالک سلفائڈز کی بحرہ ہند میں تلاش کے لیے لائسنس حاصل کر چکے ہیں۔
2022 میں بھارت کے نیشنل انسٹیٹوٹ آف اوشین ٹیکنالوجی کی جانب سے سینٹرل بحر ہند میں 5270 میٹر کی گہرائی میں کان کن ک مشین بھیجنے کا ٹرائل کیا تھا، جس سے پولی میٹالک ناڈیولز جو کہ آلو سے مماثلت رکھتے پتھر ہوتے ہیں، تاہم یہ پتھر مینگانیز، کوبالٹ، نیکل اور کاپر سے بھرپور ہوتے ہیں، بھارت کی جانب سے نکالے گئے تھے۔
شکر گڑہ میں چوری کی وارداتیں زور پکڑ گئیں ،پولیس کابو پانے میں ناکام