نئی دلی: بھارتی سپریم کورٹ نے گنجان آباد ریاست اترپردیش میں مسلمانوں کے مدرسوں پر الہ آباد ہائی کورٹ کی جانب سے عائد کی گئی پابندی پر عمل درآمد روک دیا۔
غیرملکی خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق کیس سے جڑے وکلا نے بتایا کہ بھارت کی عدالت عظمیٰ نے مدرسوں پر عائد پابندی پر عمل درآمد روک دیا، جس کے نتیجے میں ہزاروں بچوں ور اساتذہ کو امید کی کرن نظر آئی ہے۔
سپریم کورٹ میں الہ آباد ہائی کورٹ کے 22 مارچ کے مدارس سے متعلق 2004 کے قانون کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں پر سماعت ہوئی، جہاں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی ہے۔
عدالت نے کہا کہ درخواستوں میں اٹھائے گئے مسائل ہماری نظر میں میرٹ کے قریب ہیں۔
وکلا نے بتایا کہ اپیلوں پر سماعت اب جولائی میں ہوگی اور اس وقت تک تمام فیصلوں پر اسٹے ہوگا۔
بھارت کی آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں 24 کروڑ آبادی کا ایک چوتھائی حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے اور ریاست میں مدرسہ بورڈ کے سربراہ افتخار احمد جاوید نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا اور اس سے بڑی جیت قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم 16 لاکھ طلبہ کے مستقبل کے حوالے سے انتہائی فکرمند تھے اور اب اس حکم سے ہم سب کو ایک بڑا ریلیف ملا ہے۔
سپریم کورٹ نے ایک ایسے وقت میں مسلمانوں کے حق میں احکامات دیے ہیں جب چند روز کے بعد ہی قومی سطح پر انتخابات ہونے جارہے ہیں جہاں وزیراعظم نریندر مودی اور اس کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) مسلسل تیسری مرتبہ حکومت بنانے کی کوششیں کر رہی ہے۔
یاد رہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ ماہ اترپردیش میں مدرسوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے طلبہ کو روایتی اسکولوں میں داخل کرنے کی ہدایت کردی تھی، جس کے بعد مسلمانوں کی جانب سے مایوسی کا اظہار کیا گیا تھا۔