حکومت نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے عبوری حکم پرتحفظات کا اظہار کردیا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کے دینے کے عبوری حکم اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے پر وزیر قانون نے کہا کہ یہ آئین کی تشریح کا معاملہ ہے، مناسب ہوتا لارجر بنچ کوئی حکم نامہ جاری کرتا۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمان کی قانون سازی کے اختیار کے معاملے میں امتناع کے حکم سے احتراز برتا جانا چاہیے تھا، حتمی فیصلےمیں پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رہے گا۔
وزیر قانون نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرز ایکٹ کے تحت 5 رکنی لارجر بینچ کا معاملے کی سماعت کرنا موزوں ہوتا اور بہت مناسب ہوتا کہ اگر لارجر بینچ ہی عبوری حکم نامہ جاری کرتا۔
اعظم نزیر تارڑ کا مزید کہنا تھا کہ منتخب رکن کے قانون سازی کے اختیار پر زد پڑتی ہو تو زیادہ احتیاط برتی جاتی ہے، آرٹیکل 67 واضح ہے کہ رکن کی طرف سے کی گئی قانون سازی قانونی نااہلیت کے باوجود برقرار رہتی ہے۔
انہوں نے ایک اور حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 67 کے مطابق رکن کی قانون سازی کی اہلیت پر سوال نہیں اٹھایا جاتا، امید ہے حتمی فیصلےمیں پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رہے گا۔