برسلز: محققین نے خبردار کیا ہے کہ دکانوں سے خریدی جانے والی چاکلیٹ سے بنی میٹھی غذائیں ایسے خطرناک کیمیکل رکھتی ہیں جو ہمارے ڈی این اے کو نقصان پہنچانے کے ساتھ کینسر کا سبب بن سکتی ہیں۔
تحقیق میں سائنس دانوں کو معلوم ہوا کہ ویفل اور کیک جیسی غذائیں بھاری مقدار میں کارسِینوجین رکھتی ہیں جو ان اشیاء کے بنتے وقت ان میں شامل ہوئی ہوتی ہیں۔
یہ مرکبات تب وجود میں آتے ہیں جب کوکوا بینز کو غذا میں چاکلیٹ کا ذائقہ لانے کے لیے بھونا جاتا ہے۔
بیلجیئم میں قائم لووین اِنسٹیٹیوٹ آف بائیو مالیکیور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے محققین کے مطابق ایلفا،بِیٹا-اَن سیچوریٹڈ کاربونائلز نامی مالیکیولز کوکوا بینز کے بھننے اور کوکوا بٹر شامل کیے جانے کے بعد وجود میں آتے ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ یہ عمل عموماً وافر مقدار میں بنائے جانے والی غذاؤں میں ہوتا ہے کیوں کہ کمپنیاں ان غذاؤں کو بنانے کے لیے بلند درجہ حرارت کا استعمال کرتی ہیں جس کی وجہ سے ان اشیاء میں مزید ذائقے اور خوشبوئیں شامل ہوجاتی ہیں۔
ان غذاؤں کی کھپت سے کاربونائلز لوگوں کے معدوں میں خامروں اور پروٹینز سے ملنے کے بعد ڈی این اے کو نقصان پہنچا سکتے ہیں جس سے خلیوں کی تقسیم کی شرح تیز ہو سکتی ہے اور یہ عمل عام خلیوں کو کینسر زدہ خلیوں میں بدل سکتا ہے۔
تحقیق میں سائنس دانوں نے ویفل، کیک اور بسکٹ سمیت چاکلیٹ کے ساتھ اور اس کے بغیر 22 میٹھی غذاؤں کا معائنہ کیا۔
مطالعے میں معلوم ہوا کہ بسکٹ اور کریپیز جیسی پیکٹ میں بند غذاؤں میں 10 کاربونائلز میں سے نو کم مقدار میں موجود تھے۔ اس کے برعکس ویفلز اور کیک میں یہ زہریلا مواد تجویز کردہ مقدار (0.15 ملی گرام فی دن) زیادہ مقدار (4.3 ملی گرام فی کلو گرام) میں پایا گیا۔