یہ اس کو ہرا دے، یہ اس سے ہار جائے، اس کے میچ میں بارش ہو جائے، اس کے ساتھ ایسا ہو جائے، یوں ہو جائے، ہر بار ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے، ہم عالمی ایونٹس میں سفر جاری رکھنے کیلیے دوسروں کے محتاج کیوں بن جاتے ہیں، اپنے زور بازو پر فاتحانہ چال سے آگے کیوں نہیں بڑھتے، یہ سوال یقینی طور پر ہر کرکٹ شائق کے ذہن میں ضرور آتا ہوگا۔
اس بار ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں تو سفر بیحد آسان تھا، صرف ایک بڑی ٹیم بھارت گروپ میں ساتھ تھی اس سے ہار بھی جاتے تو دیگر ’’بچوں‘‘ کو باآسانی زیر کر کے گرین شرٹس آگے پہنچ جاتے لیکن ہم خود تیزی سے اب چھوٹی ٹیم بنتے جا رہے ہیں، زمبابوے، افغانستان اور آئرلینڈ ہمیں اکثر ہراتے رہتے ہیں، اس بار امریکا کو ہیرو بنا دیا، عامر جس طرح کینیڈا سے میچ میں مین آف دی میچ لے کر خوشیاں منا رہے تھے کیا وہ بھول گئے کہ امریکا کیخلاف انھوں نے کتنی وائیڈز کیں، صرف ایک باؤنڈری لگی لیکن18 رنز دیے؟
پورے ٹورنامنٹ میں ایکوریسی سے بولنگ کرنے والے عامر کو اس ایک اوور میں کیا ہو گیا تھا؟ اسی طرح بھارت کیخلاف میچ میں عماد وسیم نے بیحد مایوس کیا اور مطلوبہ رن ریٹ کہاں سے کہاں پہنچا کر اس وقت آؤٹ ہوئے جب ٹیم کی ہار یقینی ہو چکی تھی، عثمان خان کو اتنا ہیرو بنا کر پیش کیا گیا وہ زیرو نکلے۔
ان تینوں کو پیراشوٹ سے سیدھے قومی کیمپ میں اتارا گیا اور بدترین ناکامی کا شکار ہوئے، شاداب خان، افتخار احمد، فخرزمان،اعظم خان اور صائم ایوب کوئی بھی اچھا پرفارم نہ کر سکا، بابر نے بھی مایوس کیا،صرف رضوان نے ہی تھوڑی ہمت دکھائی لیکن ان کا اسٹرائیک ریٹ زیادہ اچھا نہ تھا، بولنگ میں شاہین آفریدی سے بہت زیادہ امیدیں تھیں وہ درست لائن پر بولنگ ہی نہ کر پائے، حارث رؤف نے امریکا سے میچ میں آخری لوز گیند کر کے میچ برابر کرا دیا، اسپنرز کوئی وکٹ ہی نہ لے سکے، ایسے میں ٹیم کیسے جیت پاتی؟ کھلاڑی کپتانی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، ایک دوسرے کی شکل دیکھنا گوارا نہیں کرتے اور اس ٹیم سے ہم ورلڈکپ جیتنے کی توقع لگائے ہوئے تھے۔
محسن نقوی بھی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے، انھوں نے ہی کپتان اور کوچ کو تبدیل کیا تھا، وہاب ریاض کو سینئر منیجر بنایا، اسکواڈ کے اعلان میں تاخیر کیوں ہوئی تھی اس راز سے بھی پردہ اٹھنا چاہیے، عامراور عماد پھر لیگز میں چلے جائیں گے ان کا کچھ نہیں بگڑے گا نقصان پاکستان کرکٹ کا ہوا، سیمی فائنل میں ہارتے تو چلیں کوئی بات تھی، یہاں تو امریکا،کینیڈا اور آئرلینڈ کے گروپ میں ہونے کے باوجود پہلے راؤنڈ سے باہر ہو گئے، اب کون اس کی ذمہ داری لے گا؟ کیا بورڈ کا کوئی اعلیٰ عہدیدار مستعفی ہوگا؟ کیا وہاب ریاض و دیگر کی سلیکشن کمیٹی سے چھٹی ہو گی؟ کیا بابر اعظم کپتان چھوڑ دیں گے؟ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے، ویسے کہیں یہ نہ ہو کہ ہمیشہ کی طرح عوام کا غصہ ٹھنڈا ہونے کا انتظار کیا جائے۔
چند روز خاموش رہ کر پھر پہلے جیسے کام شروع ہو جائیں، محسن نقوی وزارت داخلہ جیسی اہم پوزیشن بھی سنبھالے ہوئے ہیں، کرکٹ کی وجہ سے ان کی توجہ بھی منتشر ہو رہی ہو گی، انھوں نے ٹیم کی سرجری کا تو کہا تھا دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے، ویسے آپ آدھی ٹیم بدل تو دیں گے مگر لائیں گے کسے، کون سے بریڈ مین باہر بیٹھے ہیں، اسپنرز، بیٹرز، آل راؤنڈرز سب کی قلت ہے، جو تھوڑے بہتر ہیں انھیں بھی سلیکٹرز لفٹ نہیں کراتے، جب سے عمران خان نے ڈومیسٹک سسٹم تبدیل کرایا ٹیلنٹ آنا کم ہو گیا۔
اب پرانا سسٹم واپس آ گیا لیکن مسائل برقرار ہیں کیونکہ ڈپارٹمنٹس سیریس نہیں ہیں، مالکان اپنے بیٹوں کو کپتان بنا کر ڈومیسٹک کرکٹ کا مذاق بنا رہے ہیں، چیئرمین قذافی اسٹیڈیم کو سونے کا بنا دیں لیکن ٹیم ہارتی رہے گی تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، لوگوں کے نزدیک کسی چیئرمین کی کارکردگی کا پیمانہ اسٹیڈیمز بنانا نہیں بلکہ ٹیم کی کارکردگی ہے۔
محسن نقوی کو یہ بات سمجھتے ہوئے اس شعبے پر توجہ دینی چاہیے، سلیکٹرز اسکور کارڈز دیکھ کر ٹیمیں نہ بنائیں نئے ٹیلنٹ کو بھی تلاش کریں، صرف پی ایس ایل کی بنیاد پر کھلاڑیوں کو ٹیم میں نہ لائیں، اتنی لمبی آفیشلز کی فوج امریکا بھیجی کیا اس سے اچھا نہ تھا کہ 1،2 نوجوان کھلاڑیوں کو بطور ٹریول ریزرو تجربہ دلانے کیلیے بھیج دیا جاتا، اس ورلڈکپ میں بہت کچھ ایسا ہوا جس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، میں کھل کر تو نہیں کچھ کہوں گا لیکن محسن نقوی جہاندیدہ شخصیت کے مالک ہیں یقینی طور پر انھوں نے بھی کچھ مشاہدہ ضرور کیا ہوگا، اس کو دیکھنا چاہیے ان کے پاس تو اختیارات بھی ہیں، آپ یقین مانیے لوگ اب کرکٹ سے بھی دور ہوتے جا رہے ہیں۔
وہ تو اس کھیل میں پیسہ بہت ہے،آئی سی سی سے ہر سال کروڑوں ،اربوں روپے مل جاتے ہیں، ورنہ کوئی اس میں دلچسپی نہ لے،اسٹار کھلاڑی بھی اب ملک کیلیے کھیلنے میں دلچسپی نہیں رکھتے، سابقہ مینجمنٹ کو کس طرح بلیک میل کر کے سینٹرل کنٹریکٹ مرضی کا لیا گیا تھا جس میں آئی سی سی کی آمدنی سے حصہ بھی شامل کرایا، آپ موجودہ کرکٹرز کو اختیار دیں آدھے سے زیادہ کنٹریکٹ چھوڑ کر لیگز کھیل کرپیسہ بناتے رہیں گے، یہی پاکستان کرکٹ کے مسائل کی جڑ ہے، اب ملک سے محبت نہیں پیسہ اولین ترجیح ہے، اسی لیے نتائج بھی ایسے ہی سامنے آتے ہیں۔
عوام کا بھی قصور ہے کھلاڑیوں کو حد سے زیادہ سر پر چڑھایا ہوا ہے اس میں بابر اعظم کے فینز سرفہرست ہیں جنھوں نے انھیں کھیل سے بڑی شخصیت بنا دیا، افتخار احمد جیسے اوسط درجے کے کھلاڑی کو بھی سوشل میڈیا نے کیا بنا کر پیش کیا، شائقین کو بھی اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے، ہر ورلڈکپ میں ہم بہت زیادہ امیدیں لگائے بیٹھے ہوتے ہیں اور کھلاڑی کچھ نہیں کر پاتے، اس بار بھی یہی ہوا، خیر اب وطن واپس آئیں اور اپنوں میں عید منائیں شاید آپ لوگ ایسا ہی چاہتے تھے۔