کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے صنعت کار ذوالفقار احمد اغوا کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ اربوں روپے کا بجٹ ہے، رینجرز اور پولیس کیا کررہی ہے۔
صنعتکار ذوالفقار احمد کی بازیابی کی درخواست پر دوران سماعت سندھ ہائیکورٹ کی جسٹس مسز کوثر سلطانہ حسین نے ریمارکس دیے کہ ان حالات سے بہتر تھا کہ فورسز نہ ہوتیں۔ اربوں روپے خرچ کرنے کا کیا فائدہ، ہمارے بچے ملک چھوڑ چھوڑ کر جارہے ہیں۔ ایک موبائل کے لیے ان کی جان خطرے میں ہوتی ہے۔
جسٹس مسز کوثر سلطانہ حسین کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ کے روبرو صنعتکار ذوالفقار احمد کی بازیابی کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ اس موقع پر پولیس حکام متعلقہ ایس ایچ او اور تفتیشی افسر عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ جسٹس مسز کوثر سلطانہ حسین نے ریمارکس دیے کہ ہاں بہت شور مچا ہوا ہے رینجرز ہے، وکیل کہاں ہیں۔ کیا یہ اغوا برائے تاوان کا کیس تھا۔
اسسٹنٹ پراسیکیوٹر جنرل نے مؤقف دیا کہ مسنگ پرسن کا کیس ہے واپس آگئے ہیں۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ کراچی سے اٹھایا گیا اور لاہور سے ملے ہیں۔
جسٹس مسز کوثر سلطانہ حسین نے ریمارکس دیے کہ اسی طرح سے کاروباری لوگ یہاں سے جارہے ہیں۔ عدالت عالیہ نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ اربوں روپے کا بجٹ ہے رینجرز اور پولیس کیا کررہی ہے۔ سرکاری وکیل نے بتایا کہ رینجرز فریق نہیں ہے۔
عدالت نے تفتیشی افسر استفسار کیا کہ آپ نے اب تک کیا تفتیش کی ہے، جس پر انہوں نے بتایا کہ درخواستگزار کی جانب کوئی پیش نہیں ہوا ہے، کسی نے کوئی بیان بھی نہیں دیا ہے۔
درخواستگزار کے وکیل نے موقف دیا کہ ذوالفقار احمد عدالت میں خود پیش ہوکر بیان ریکارڈ کرائیں گے۔ فی الحال وہ اس کنڈیشن میں نہیں ہیں کہ بیان دے سکیں۔ پولیس مقدمہ درج کرنے کے لیے مختلف بہانہ بناتی رہی ہے، بروقت مقدمہ درج نہیں کیا گیا تھا۔
جسٹس مسز کوثر سلطانہ حسین نے ریمارکس دیے کہ ہمارے بچے ملک چھوڑ چھوڑ کر جارہے ہیں، ایک موبائل کے لیے ان کی جان خطرے میں ہوتی ہے۔ والدین پریشان رہتے ہیں کہ کوئی ایک موبائل کے لیے ان کے بچے کی جان نہ لے لے۔ لوگوں نے پرائیویٹ سکیورٹی گارڈز رکھ رکھ کر اپنے بینک خالی کرلیے ہیں۔
جسٹس مسز کوثر سلطانہ حسین نے پولیس حکام سے مکالمے میں کہا کہ وہ لوگ زیادہ مضبوط ہیں یا آپ لوگ۔ ان حالات سے بہتر تھا فورسز نہ ہوتیں، اربوں روپے خرچ کرنے کا کیا فائدہ۔ عدالت نے ایس ایچ او سے استفسار کیا کہ کیا یہ واقعہ پیش آیا ہے۔ ایس ایچ او کلری نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں صرف ایک درخواست دی اور کچھ نہیں کہا تھا۔
ایس ایچ او کے مطابق وکلا تھانے آئے درخواست دی اور کہا ہے کہ ہم ایف آئی آر نہیں کرائیں گے، عدالت جائیں گے۔ سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کرنے سے پہلے تھانے نہیں آئے۔
درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف دیا کہ ہم مقدمہ درج کرانے گئے تھے، پولیس نے مقدمہ درج کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ایس ایس او کلری نے کہا کہ ہم نے شکایت کنندہ مینجر کا اتھارٹی لیٹر مانگا تھا۔ جو بندہ ساتھ تھا وہ مقدمہ درج کروانے نہیں آیا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ایف آئی آر کے لیے اتھارٹی لیٹر ضروری ہے۔ دن دیہاڑے یہ سب ہوا ہے اور آپ کو کچھ پتا نہیں ہے۔ آپ نے کب سے پک اینڈ چوز شروع کردی، کون مقدمہ کروائے گا کون نہیں۔
درخواست گزار کے وکیل نے موقف دیا کہ ذوالفقار احمد عدالت میں پیش ہوکر بیان دیں گے، جس پر جسٹس مسز کوثر سلطانہ حسین نے کہا کہ وہ اب انوسٹی گیشن جوائن کریں۔ آپ کیوں چاہ رہے ہیں وہ عدالت میں پیش ہوں، جس پر درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف دیا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ دوبارہ نہ اٹھا لیے جائیں۔
جسٹس مسز کوثر سلطانہ حسین نے ایس ایچ او کو تنبیہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اگر اب آپ کی حدود میں ان کے ساتھ یا ان کی کمپنی کے کسی بندے کے ساتھ کچھ ہوا تو ذمے داری ایس ایچ او پر عائد ہوگی۔ اگر اب ذوالفقار احمد یا ان کے دفتر کا بندہ اغوا ہوا تو ایس ایچ او کیخلاف مقدمہ درج ہوگا۔
جسٹس مسز کوثر سلطانہ حسین نے استفسار کیا کہ تو کیا ہم درخواست کو نمٹادیں، جس پر درخواستگزار کے وکیل نے مؤقف دیا کہ ایک تاریخ دے دیں ذوالفقار احمد پیش ہوں گے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ درخواست کا مقصد پورا ہوچکا ہے، ذوالفقار احمد اب انویسٹی گیشن جوائن کریں۔ عدالت نے ذوالفقار احمد کی بازیابی سے متعلق درخواست نمٹا دی۔