ایک آزاد پیشہ ورانہ تھرڈ پارٹی تجزیے سے کچھی کینال منصوبے کی جزوی بحالی کے منصوبے کی لاگت میں 6.5ارب روپے بڑھا چڑھا کر دکھائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ واپڈا نے اپنی سمری میں اصل سے 158فیصد زیادہ لاگت پیش کی۔
اس تھرڈ پارٹی توثیق سے ٹیکس دہندگان کے پیسے سے فائدہ اٹھانے کے لیے بڑا گٹھ جوڑ پکڑا گیا۔ سیلاب سے خستہ حال پہلے سے متنازع کچھی کینال منصوبے کی تعمیر نو کی لاگت کی تھرڈ پارٹی توثیق کا حکم وزیر مصنوبہ بندی احسن اقبال نے لگ بھگ 2ماہ قبل دیا تھا۔ انھوں نے یہ حکم منظوری کے لیے آنے والی دستاویز میں گڑ بڑ کے شبہ میں دیا تھا۔
اعلی سطح کے ذرائع نے بتایا کہ نیب نے بھی منصوبے کی جگہ پر موجود اصل گاد کی کھدائی کے ذریعے نہر کی مکمل ڈی سلٹنگ کے لیے تھرڈ پارٹی کی جانب سے اندازہ لگائی گئی رقم کی توثیق کی ہے۔ وزارت آبی وسائل کی سمری کی بنیاد پر سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی (سی ڈی ڈبلیو پی) نے گزشتہ ماہ 14.7 ارب روپے کے کچھی کینال پروجیکٹ کو مشروط طور پر منظور کردیا تھا۔
یہ 2022 کے سیلاب سے بحالی کا منصوبہ تھا اور اس کی منظوری تھرڈ پارٹی توثیق سے مشروط تھی۔ وزارت نے واپڈا کی رائے پر سمری آگے بڑھائی تھی۔ دستاویز کے مطابق 14.7 ارب روپے میں سے 10.6 ارب روپے تعمیر کی لاگت تھی۔ تاہم تھرڈ پارٹی توثیق نے انکشاف کیا ہے کہ تعمیر نو کی لاگت 4.1ارب روپے سے زیادہ نہیں ہے اور تخمینے میں 6.5 ارب روپے کی رقم زیادہ ظاہر کی گئی ہے۔
یہ اصل لاگت کا 158فیصد بنتی ہے۔ یاد رہے نیلم جہلم پروجیکٹ کی طرح کچھی کینال پروجیکٹ بھی 2002 میں اپنے آغاز سے ہی متنازع رہا ہے۔ نااہلی، ناقص منصوبہ بندی اور پروجیکٹ کے اہداف کی تبدیلی جیسے کئی مسائل سے گزرتے پروجیکٹ کا پہلا مرحلہ 2018میں مکمل ہوا تھا۔
اس پروجیکٹ کو بلوچستان کی پسماندہ آبادی کے لیے علاقے کو سماجی و اقتصادی ترقی دینے اور زراعت کو فروغ دینے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ بعد میں تباہ کن سیلاب آنے پر یہ منصوبہ جولائی 2022 سے بند ہوگئی۔
ذرائع کے مطابق لاگت کے اتنے بڑے فرق کو دیکھ کر وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے معاملہ وزیر اعظم شہباز شریف کو پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزارت تھرڈ پارٹی توثیق کے مطابق اب 4.1 ارب روپے کی لاگت پر مبنی ایک اور نئی دستاویز پیش کرنے پر بھی غور کر رہی ہے۔
حیران کن امر یہ ہے کہ تھرڈ پارٹی جائزے نے کام کے لیے واپڈا کے بیان کردہ قیمتوں کے کام کو تبدیل نہیں کیا ہے اور پھر بھی لاگت میں 6.5 ارب روپے کا فرق ظاہر ہو رہا ہے۔
مثال کے طور پر زمین کو بھرنے کے مواد اور پشتوں کو کم کرنے کے لیے واپڈا نے 2.1 ارب روپے کی قیمت بتائی جو تھرڈ پارٹی کے مطابق صرف 91.3 کروڑ روپے ہونا چاہیے۔ اس طرح ایک ہی کام میں 1.1 ارب روپے کا فرق نکل آیا ہے۔
کچھی کینال بحالی کا یہ دوسرا منصوبہ ہے جس میں واپڈا کی غلطی پکڑی گئی ہے۔ وزیر منصوبہ بندی نے اس سے قبل نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ ٹنل کے خاتمے پر چیٹ جی پی پی سے تیار کرکے پیش کی گئی ابتدائی رپورٹ کو بھی پکڑ لیا تھا۔
واضح رہے وفاقی حکومت 15نومبر سے پہلے بلوچستان کے لیے کم از کم 500 کیوسک پانی کے بہاؤ کو یقینی بنا کر کینال کو جزوی طور پر بحال کرنا چاہتی تھی۔ اس کینال کی کل گنجائش 6000 کیوسک پانی ہے۔
کچھی کینال پروجیکٹ میں غلطیوں کی تحقیقات کرنے والے نیب نے بھی سفارش کی ہے کہ کینال کو اس وقت تک مکمل طور پر بحال نہیں کرنا چاہیے جب تک پنجاب حکومت کی طرف سے پہاڑی ندی نالوں کے انتظام جیسے ذیلی کام مکمل نہیں ہو جاتے۔