تجزیہ کار شہباز رانا کا کہنا ہے کہ ٹیکس حاصل کرنے کے لیے حکومت کا فوکس ان جگہوں پر نہیں جاتا جہاں پر جانا چاہیے۔
مسائل کی نشاندہی تو موجود ہے ۔ ایک چیز جو 2011-12سے چل رہی ہے کہ وہ لوگ جو پاکستان کے ٹیکس نظام کا باضابطہ حصہ نہیں ہیں، وہ رجسٹرڈ نہیں ہیں یا وہ باقاعدگی سے اپنے گوشوارے نہیں بھرتے، ان کے خلاف کارروائی کرنی ہے۔ 2013-14میں نان فائلر والا نیا کونسیپٹ آ گیا۔
ٹیکس لا ترمیمی بل 2024-25دو ماہ کی تاخیر سے قومی اسمبلی میں پیش ہوا ہے۔ بل کے خالق چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال ہیں۔ اس کے ذریعے حکومت نان فائلرز کے گرد شکنجہ مزید تنگ کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ ان کے خیال میں بل میں تجویز کردہ اقدامات سے لوگ ٹیکس نیٹ میں آنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ایکسپریس نیوز کے پروگرام دی ریویو میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ فائلر اور نان فائلر کی اصطلاح تو اپنی جگہ اب اہل اور نا اہل ٹیکس دہندہ کی اصطلاح سامنے آئی ہے۔ جو اہل ہو گا وہ کچھ مخصوص لین دین ہی کر سکے گا۔ نااہل شخص 800 سی سی سے زیادہ گاڑی نہیں خرید سکتا۔
اس کی جائیداد رجسڑ نہیں ہوگی۔ وہ سٹاک مارکیٹ میںخاص حد سے زیادہ شیئرز نہیں خرید سکیں گے ۔ اس کی ویلیو کیا ہو گی اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ اگر یہ بل قومی اسمبلی سے پاس ہو جاتا ہے تو انہیں، موٹرسائیکل، رکشہ، بس، ٹرک اور ٹریکٹر خریدنے کی اجازت ہوگی۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس اس لیے آ رہا ہے کہ امپورٹس کنٹرولڈ ہیں۔
تجزیہ کار کامران یوسف نے کہا کہ حکومت نے ٹیکس لا ترمیمی بل 25-2024 قومی اسمبلی مین متعارف کرایا ہے جس کا مقصد ٹیکس کولیکشن کو بہتر کرنا ہے اور اس کے لیے کچھ ایسے اقدامات تجویز کیے ہیں کہ اگر یہ بل قانون بن جاتا ہے تو پھر سالانہ گوشوارے نہ بھرنے والے لوگوں کیلیے کافی مشکلات ہو سکتی ہیں۔ وہ جائیداد، گاڑی بھی نہیں خرید سکیں گے۔ بل میں کچھ ایسی تجاویز بھی ہیں کہ اگر آپ فائلر بھی ہیں تو بھی آپ کے لیے کچھ خریداری کرنے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس ہفتے امریکا نے پاکستان کے طویل فاصلاتی میزائل پروگرام پر مزید پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
جن چار کمپنیوں پر پابندی لگائی گئی ہے ان میں سے تین تو نجی ہیں جبکہ ایک کمپنی نیشنل ڈیولپمنٹ کمپلیکس سرکاری ہے جو پاکستان کے میزائل پروگرام کو دیکھتی ہے۔ اس کمپلیکس پر پابندی لگانا ریاست پاکستان پر پابندی لگانا ہے۔ امریکا کے نائب مشیر قومی سلامتی جون فائزنے الزام عائد کیاٰ ہے کہ پاکستان کا میزائل پروگرام جنوبی ایشیا سے باہر اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
امریکہ اس کو اپنے لیے بھی خطرہ سمجھتا ہے۔ میری جو مختلف لوگوں سے بات ہوئی،امریکا کو مسئلہ اور تشویش پاکستان کے خلائی پروگرام سے ہے۔ کیونکہ پاکستان اسپیس لانچ وہیکل پر کام کر رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو پروگرام سائن کیا تھا اس میں کئی شرائط تھیں ، ان میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ پاکستان کوئی نیا خصوصی اکنامک زون یا ایکسپورٹ پراسیسنگ زون قائم نہیں کرے گا اور نہ ہی پہلے سے موجود اسپیشل اکنامک زونز یا ایکسپورٹ پراسیسنگ زونز کو مدت پوری ہونے پرمراعات دی جائیں گی۔ کہا یہ جاتا تھا کہ اس کا مقصد چین کو ٹارگٹ کرنا ہے۔