باجوہ نے رجیم چینجنگ کیخلاف احتجاج ختم کرنے پر دو تہائی اکثریت کی پیشکش کی، عمران خان

 راولپنڈی: بانی پی ٹی آئی کی بہن حلیمہ خان نے کہا ہے کہ عمران خان نے پیغام دیا ہے کہ باجوہ نے انہیں رجیم چینجنگ کے خلاف احتجاج ختم کرنے پر دو تہائی اکثریت کی آفر دی۔

بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات کے بعد اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو میں حلیمہ خان نے بتایا کہ عمران خان نے مجھے پیغام دے کر بھیجا ہے کہ ’’ مجھے اگست 2022ء میں جنرل باجوہ نے بلایا اور آفر دی کہ رجیم چینج کے خلاف احتجاج بند کردو تو دو تہائی اکثریت دیں گے‘‘۔

علیمہ خان کے مطابق ’’عمران خان نے کہا ہے کہ ہمارے ماں باپ ایک غلام ملک میں پیدا ہوئے تھے ہم آزاد ہیں اور میں خدا کے سوا کسی کے سامنے نہیں جھکوں گا، اس سے بہتر ہے کہ ہمیں موت آجائے لیکن ایک آزاد ملک میں غلامی منظور نہیں‘‘۔

علیمہ خان نے کہا کہ روز ایک کیس ہوتا ہے تین سے چار صحافیوں کو اجازت ملتی ہے جیل کے اندر اوپن ٹرائل نہیں ہے اور مقدمات میں کوئی دم نہیں ہے، صرف عمران خان کو جیل میں رکھنے کے لیے ایک طرف ضمانت ہوتی ہے پھر دوسرے مقدمے میں پھنسا دیا جاتا ہے۔

پی ٹی آئی کو بلے کا نشان واپس مل گیا، پشاور ہائیکورٹ نے محفوظ فیصلہ سنا دیا

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو بلے کا نشان واپس مل گیا ہے، پشاور ہائیکورٹ نے بلے کے نشان کی بحالی کیلئے پی ٹی آئی کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سنا دیا۔

پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کی بلا بحالی کی درخواست منظور کرلی اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا 22 دسمبر کا فیصلہ غیر آئینی ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پی ٹی آئی بلے کے نشان کی حقدار ہے، اور الیکشن کمیشن کو ہدایت کی کہ وہ پی ٹی آئی کو بلے کا نشان دے اور پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا سرٹیفیکیٹ ویب سائٹ پر جاری کرے۔

پشاور ہائیکورٹ میں بلے اور انٹرا پارٹی الیکشن کیس کی آج سماعت ہوئی، جسٹس اعجاز انور اور جسٹس ارشد علی نے کیس کی سماعت کی ، گزشتہ روز الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی کے وکلا نے چھ گھنٹے تک دلائل دیے تھے۔

کیس میں الیکشن کمیشن سمیت 15 فریقین ہیں، جن میں اکبر ایس بابر، راجہ طاہر نواز، نورین فاروق و دیگر شامل ہیں۔

گزشتہ روز صرف الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل مکمل ہوئے تھے، آج عدالت نے 14 میں سے 6 فریقین اور ان کے وکلاء کو سنا۔

جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا

سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اپنا استعفیٰ صدر مملکت کو بھجوایا دیا ہے۔

استعفے میں جسٹس مظاہر نے کہا ہے کہ میں نے لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں فرائض انجام دیے ہیں۔

جسٹس مظاہر نے اپنے استعفے میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ میرے لیے اپنے عہدے پر کام جاری رکھنا ممکن نہیں۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس اعجاز الاحسن نے گزشتہ روز جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کی جانے والی کارروائی پر سوالات اٹھائے تھے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے جوڈیشل کونسل لکو لکھے گئے اپنے خط میں کہا تھا کہ کونسل کی جانب سے کارروائی روایات کے خلاف غیر ضروری جلد بازی میں کی جا رہی ہے، اور مطالبہ کیا تھا کہ جسٹس مظاہر نقوی کو دیا گیا شوکاز نوٹس واپس لیا جائے۔

قبال ازیں، آج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کو شوکاز نوٹس کا تفصیلی جواب جمع کرا دیا تھا، جس میں انہوں نے خود پر عائد الزامات کی تردید کی تھی۔

جسٹس مظاہر نقوی کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل جج کے خلاف معلومات لے سکتی ہے کسی کی شکایت پر کارروائی نہیں کر سکتی، سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری احکامات رولز کی توہین کے مترادف ہیں۔

جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ رولز کے مطابق کونسل کو معلومات فراہم کرنے والے کا کارروائی میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔

جسٹس مظاہر نقوی نے اٹارنی جنرل کی بطور پراسیکیوٹر تعیناتی پر بھی اعتراض کردیا۔

جسٹس مظاہر نقوی نے جواب میں کہا کہ کونسل میں ایک شکایت کنندہ پاکستان بار کونسل بھی ہے، اٹارنی جنرل شکایت کنندہ پاکستان بار کونسل کے چیئرمین ہیں۔

جواب میں کہا گیا کہ بار کونسلز کی شکایات سیاسی اور پی ڈی ایم حکومت کی ایماء پر دائر کی گئی ہیں، پاکستان بار کی 21 فروری کو اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات ہوئی، شہباز شریف سے ملاقات کے روز پاکستان بار کونسل نے شکایت دائر کرنے کی قرارداد منظور کی۔

جواب میں مزید کہا گیا کہ شوکاز کا جواب جمع کرانے سے پہلے ہی گواہان کو طلب کرنے کا حکم خلاف قانون ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے جواب میں کہا کہ یہ الزام غلط ہے کہ مجھ سے کوئی بھی شخص باآسانی رجوع کر سکتا ہے، غلام محمود ڈوگر کیس خود اپنے سامنے مقرر کر ہی نہیں سکتا تھا یہ انتظامی معاملہ ہے، غلام محمود ڈوگر کیس میں کسی قسم کا کوئی ریلیف نہیں دیا تھا۔

انہوں نے جواب میں مزید بتایا کہ لاہور کینٹ میں خریدا گیا گھر ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کردہ ہے، ایس ٹی جونز پارک میں واقع گھر کی قیمت کا تخمینہ ڈی سی ریٹ کے مطابق لگایا گیا تھا۔ میں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا نہ ہی مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوا، گوجرانوالہ میں خریدا گیا پلاٹ جج بننے سے پہلے کا ہے اور اثاثوں میں ظاہر ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے لکھا کہ زاہد رفیق نامی شخص کو کوئی ریلیف دیا نہ ہی ان کے بزنس سے کوئی تعلق ہے، میرے بیٹوں کو اگر زاہد رفیق نے پلاٹ دیا ہے تو اس سے میرا کوئی تعلق نہیں، دونوں بیٹے وکیل ہیں اور 2017 سے ٹیکس گوشوارے جمع کراتے ہیں، جسٹس فائز عیسی کیس میں طے شدہ اصول ہے کہ بچوں کے معاملے پر جوڈیشل کونسل کارروائی نہیں کرسکتی، پارک روڈ اسلام آباد کے پلاٹ کی ادائیگی اپنے سیلری اکاؤنٹ سے کی تھی، الائیڈ پلازہ گجرانوالہ سے کسی صورت کوئی تعلق نہیں ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل سے شکایات خارج اور کارروائی ختم کرنے کی استدعا کردی۔

5 دہائیوں بعد چاند پر اترنے کے لیے بھیجا گیا امریکی مشن ناکام

5 دہائیوں سے زائد عرصے بعد چاند پر اترنے کے لیے بھیجا گیا امریکی مشن ناکام ہونے والا ہے۔

یہ مشن امریکا کے سرکاری خلائی ادارے ناسا کی سرپرستی میں ایک نجی کمپنی نے 8 جنوری کو روانہ کیا تھا۔

آسٹرو بائیوٹک ٹیکنالوجی نامی کمپنی کے Peregrine لینڈر کو یونائیٹڈ لانچ الائنس کے والکن راکٹ کے ذریعے چاند کی جانب روانہ کیا گیا تھا۔

مگر لانچ کے فوری بعد ہی مشن کو اس وقت بہت بڑا دھچکا لگا جب اسپیس کرافٹ کا ایندھن لیک ہونے لگا۔

اب آسٹرو بائیوٹک کا کہنا ہے کہ اسپیس کرافٹ کے بند ہونے سے قبل اس کی کوشش ہوگی کہ لینڈر کو جس حد تک ممکن ہو سکے چاند کے قریب ترین پہنچایا جائے۔

کمپنی کے مطابق ممکنہ طور پر اسپیس کرافٹ کے propulsion سسٹم میں خرابی ہوئی تھی جس کے باعث ایندھن لیک ہونے لگا۔

کمپنی کی جانب سے 23 فروری کو لینڈر چاند پر اتارنے کی کوشش کرنی تھی مگر اسپیس کرافٹ میں خرابی کے باعث اب زیادہ سے زیادہ ڈیٹا جمع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اس مشن کے ذریعے امریکی حکومت اور نجی صارفین کے 20 پے لوڈز کو چاند پر لے جایا جا رہا تھا۔

یہ مشن 8 جنوری کو والکن راکٹ کے ذریعے روانہ کیا گیا تھا / اے ایف پی فوٹو
یہ مشن 8 جنوری کو والکن راکٹ کے ذریعے روانہ کیا گیا تھا / اے ایف پی فوٹو

فلوریڈا سے راکٹ کے ذریعے اسپیس کرافٹ کو کامیابی سے خلا میں پہنچایا گیا۔

مگر راکٹ سے الگ ہونے کے بعد جب propulsion سسٹم کو متحرک کیا گیا تو ایندھن لیک ہونے لگا۔

آسٹرو بائیوٹک کی جانب سے اسپیس کرافٹ کے سولر پینلز کا رخ سورج کی جانب کیا گیا تھا تاکہ لینڈر کی بیٹری چارج ہو سکے۔

مگر ایندھن لیک ہونے کے باعث اب یہ مشن صرف 11 جنوری تک سفر کر سکتا ہے۔

اس مشن کے چاند پر پہنچنے کا امکان نہیں اور اس طرح 1972 کے بعد پہلے امریکی مشن کو چاند پر اتارنے کی کوشش ناکام ہونے والی ہے۔

مگر آسٹرو بائیوٹک کی جانب سے 2024 کے دوران مزید 5 مشنز چاند پر بھیجے جائیں گے۔

کمپنی کے مطابق دوسرے مشن کے لیے اب تک حکومتی اور کمرشل معاہدوں سے 45 کروڑ ڈالرز جمع کیے جا چکے ہیں۔

عمران خان لاہور کے بعد میانوالی سے بھی الیکشن لڑنے کیلئے نااہل قرار

الیکشن ٹربیونل نے لاہور کے بعد میانوالی سے بھی بانی پی ٹی آئی کو الیکشن لڑنے کے لیے نااہل قرار دیدیا۔

بانی پی ٹی آئی عمران خان کے این اے 89 میانوالی سے ریٹرننگ افسر نے کاغذات نامزدگی مسترد کیے گئے تھے جس کے خلاف انہوں نے ٹربیونل میں اپیل دائر کی تھی۔

راولپنڈی ہائیکورٹ بینچ کے الیکشن ٹربیونل کے جج جسٹس چوہدری افضل نے عمران خان کی اپیل پر سماعت کی تھی جس میں پی ٹی آئی رہنما علی ظفر نے دلائل دیے تھے جب کہ ٹربیونل نے 7 جنوری کو اپیل پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

الیکشن کمیشن آفس سے 4 ملازمین کی لاشیں برآمد

کندھ کوٹ میں الیکشن کمیشن آفس سے چار ملازمین کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔

ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر (ڈی ایچ او) کا کہنا ہے کہ ملازمین کمرے میں سوئے ہوئے تھے جو گیس لیکج کے باعث جاں بحق ہوئے۔

اطلاع ملنے پر پولیس جائے وقوعہ پر پہنچ اور تفتیش شروع کردی۔

ڈی ایچ او کے مطابق جاں بحق ملازمین کی شناخت مشتاق مگسی، غلام فرید، واجد خالطی اور عبدالرؤف کے نام سے ہوئی ہے۔

ریسکیو ذرائع کا کہنا ہے کہ جاں بحق ملازمین کی لاشیں اسپتال منتقل کردی گئی ہیں۔

سپریم کورٹ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی سزائے موت بحال کردی

 اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف سے متعلق کیس کا فیصلہ  سناتے ہوئے  ان کی سزائے موت بحال کردی۔

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی سزائے موت کے خلاف دائر درخواست پر سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 4 رکنی لارجر بینچ نے کی، جس میں جسٹس منصور علی شاہ ،جسٹس امین الدین خان  اور جسٹس اطہر من اللہ  شامل ہیں۔

سماعت کے آغاز پر وکیل حامد خان روسٹرم پر آئے اور اپنے دلائل میں کہا کہ پرویز مشرف نے سزا کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے جو کرمنل اپیل ہے جب کہ ہماری درخواست لاہور ہائیکورٹ کے سزا کالعدم کرنے کے فیصلے کیخلاف ہے جو آئینی معاملہ ہے۔ دونوں اپیلوں کو الگ الگ کر کے سنا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ موجودہ کیس میں لاہور ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار اور اپیل دو الگ معاملات ہیں۔ پہلے پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر کو سن لیتے ہیں۔

دوران سماعت وفاقی حکومت نے پرویز مشرف کی سزا کے خلاف اپیل کی مخالفت کر دی، جس پر چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن سے استفسار کیا کہ آپ پرویز مشرف کی اپیل کی مخالفت کر رہے ہیں یا حمایت؟، انہوں نے جواب دیا پرویز مشرف کی اپیل کی مخالفت کر رہے ہیں۔

وکیل سلمان صفدر نے اپنے دلائل میں کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف کے اہلخانہ سے کوئی ہدایات نہیں۔ اہلخانہ کو کیس کے بارے میں علم ہے۔ نومبر سے ابھی تک 10 سے زائد مرتبہ رابطہ کیا ہے۔ کیس کے بارے میں حق میں یا خلاف کوئی ہدایات نہیں دی گئیں۔ میں پرویز مشرف کے اہلخانہ کی نمائندگی نہیں کر رہا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے براہ راست بھی ان کو نوٹسز جاری کیے تھے، جس پر وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ان کو اخباری اشتہار کے ذریعے نوٹس بھی کیا تھا۔ میں دو صورتوں میں عدالتی معاونت کر سکتا ہوں، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ صرف قانونی صورتحال پر ہی عدالت کی معاونت کر سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم 5 منٹ کے لیے اُٹھ رہے ہیں۔ ہم شاید آج ہی کیس کا فیصلہ سنا دیں۔

بعد ازاں سماعت دوبارہ شروع ہوئی توچیف جسٹس نے کہا  پرویز مشرف کے ورثا کی عدم موجودگی میں تو ان کے وکیل کو نہیں سن سکتے۔ مفروضوں کی بنیاد پر فیصلے نہیں ہونے چاہییں۔ ورثا کے حق کے لیے کوئی دروازہ بند نہیں کرنا چاہتے۔ عدالت 561اے کا سہارا کیسے لے سکتی ہے؟ ۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اس عدالت کے کیے اقدام کو سراہتا ہوں۔ مشرف کے ورثا پاکستان میں مقیم نہیں ہیں۔

چیف جسٹس نے پوچھا آپ کے لاہور ہائی کورٹ کے بارے میں تحفظات کیا ہیں، جس پر وکیل نے کہا کہ میں لاہور ہائیکورٹ میں مشرف کا ٹرائل کرنے والے جج کے سامنے سپریم کورٹ میں بھی پیش نہیں ہوتا۔ اس بارے میں آپ کے چیمبر میں کچھ گزارشات ضرور کروں گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ  ہم کسی کو چیمبر میں نہیں بلاتے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آرٹیکل 12 کے تحت پرویز مشرف کے ساتھ ملوث تمام افراد کے خلاف عدالتی دروازے تو کھلے ہیں، جس پر  وکیل نے کہا کہ ایمرجنسی کے نفاذ میں پرویز مشرف تنہا ملوث نہیں تھے۔اس وقت کے وزیراعظم، وزیر قانون، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے ججز بھی ملوث تھے۔ پرویز مشرف کو سنے بغیر خصوصی عدالت نے سزا دی۔ ایک شخص کو پورے ملک کے ساتھ ہوئے اقدام پر الگ کر کے سزا دی گئی۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف (مرحوم) کی خصوصی عدالت کی سزائے موت بحال کردی۔ عدالت نے کہا کہ کوشش کے باوجود پرویز مشرف کے قانونی ورثا سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ عدالت نے پرویز مشرف کی سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے اپیل خارج کردی۔

عدالت نے پرویز مشرف غداری کیس سننے والی خصوصی عدالت کو ختم کرنے کا فیصلہ بھی کالعدم قرار  دے دیا۔ سپریم کورٹ فیصلے کے مطابق عدالتی کارروائی کے بارے میں پرویز مشرف کے ورثا کو مطلع کرنے کے لیے ان کے ملکی و غیر ملکی رہائشی پتوں پر نوٹس دیے گئے۔ اردو اور انگریزی اخبارات میں بھی اشتہار دیا گیا۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ  عدالت کے سامنے دو سوالات تھے۔ کیا مرحوم کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اپیل سنی جا سکتی ہے، پہلا سوال۔ اگر سزائے موت برقرار رہتی ہے تو کیا مشرف کے قانونی ورثا مرحوم  کو ملنے والی مراعات کے حقدار ہیں، دوسرا سوال۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ متعدد بار کوشش کے باوجود بھی مشرف کے ورثا سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہے سوائے اس کے کہ سزائے موت برقرار رکھیں۔

ایرا خان کی تقریبِ سنگیت : عامر خان ، کرن راؤ اور آزاد کی گائیکی وائرل

بالی ووڈ کے مقبول اداکارعامر خان کی صاحبزادی ایرا خان کی شادی کی تقریبات زوروشور سے جاری ہیں، سنگیت کی تقریب سے تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہیں۔

ممبئی میں ایرا خان اور نوپور شیکھرے شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد ادے پور کیلئے روانہ ہوئے تھے جہاں اس جوڑے کی شادی کی دیگر تقریبات متوقع ہیں۔

گزشتہ روز بھارتی میڈیا پراس جوڑے کی سنگیت کی تقریب سے تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہیں۔

اس جوڑے کی سنگیت کی تقریب ادے پور کے تاج اروالی ریزورٹ میں ہوئی جس میں قریبی دوستوں اور اہلِ خانہ نے شرکت کی ۔

وائرل تصاویر میں ایرا خان کے عروسی لہنگے پر بنی کڑھائی، سر پرسرخ ہڈڈ کیپ اور لائٹ میک اپ نے ان کو ایک خوبصورت برائیڈل لُک دی۔

نوپور شیکھرے نے سیاہ شلوار قیمض پر ایک چمکتا کوٹ زیب تن کیا تھا۔

وائرل تصاویر میں عامر خان کواہلیہ اور بیٹے کے ہمراہ اسٹیج پر گاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

ایرا اور نوپور کی ادے پور میں شادی کی ان تقریبات کے بعد 13 جنوری کو ممبئی میں ایک اورشاندار استقبالیہ تقریب ہوگی جس میں بالی ووڈ اسٹارز کی شرکت متوقع ہے۔

معروف پاکستانی ہدایت کار پرمیش اڈیوال دائرہ اسلام میں داخل

ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے معروف پاکستانی ہدایت کار پرمیش اڈیوال دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔

قبولِ اسلام کے بعد ادائیگی عمرہ کی سعادت حاصل کرنے والے پرمیش اڈیوال نے آفیشل انسٹاگرام پر ایک ویڈیو اَپ لوڈ کی۔

پرمیش اڈیوال نے فی الحال یہ واضح نہیں کیا کہ انہوں نے اپنا نام تبدیل کیا ہے یا نہیں تاہم مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق انہوں نے اپنا اسلامی نام ’محمد‘ رکھا ہے۔

انہوں نے اپنی انسٹا ویڈیو پوسٹ میں عاطف اسلم کی مقبول قوالی ’تاجدارِ حرم‘ کے چند سطور شامل کیے ہیں۔

پاکستانی ہدیات کار پرمیش اڈیوال کے پروجیکٹس میں فلک شبیر کے گانے ’یار ملا دے‘ اور بلی ایکس کے وائرل ہٹ گانے ’جیتنی پنجابی‘ شامل ہیں۔

اُنہوں نے کئی پاکستانی ڈراموں سمیت سُپر اسٹار مہوش حیات کی فلم ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ کے گانوں کی بھی ہدایتکاری کی ہے۔

اداروں کو عدالتوں پر یقین نہیں، وقت آئے گا ریاستی اداروں کے خلاف کارروائی ہوگی، جسٹس محسن اختر کیانی

اسلام آباد ہائیکورٹ میں بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیوں کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محسن اخترکیانی نے ریمارکس دیے کہ یہ کام اس لیے کیا جاتا ہے کیونکہ یہ ان کو سنبھال نہیں سکتے، کیا کبھی آئی ایس آئی نے ان پر مقدمہ درج کرایا ہے؟

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کی سماعت شروع کی تو اٹارنی جنرل اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے اور بتایا کہ لاپتہ طلباء کی تعداد 16 رہ گئی ہے باقی بازیاب ہو گئے ہیں۔

کجبکہ ایمان مزاری نے کہا کہ کراس چینک سے معلوم ہوا ہے لاپتہ طلبہ کی تعداد 12 ہے۔

ایمان مزاری نے کہا کہ عدالت نے وزیر داخلہ کو متاثرین سے ملاقات کا حکم دیا تھا۔

ایمان مزاری نے سرفراز بگٹی کے لاپتہ افراد کے لواحقین سے ناروا سلوک کی شکایت کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ سرفراز بگٹی نے خواتین کو کہا اگر آپ کے پیارے کو مارا گیا تو آپ کو بتا دیں گے۔

جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ریاست کو خود چیک اینڈ بیلنس کرنا ہوگا، یہ کام اس لیے کیا جاتا ہے کیونکہ یہ ان کو سنبھال نہیں سکتے، کیا کبھی آئی ایس آئی نے ان پر مقدمہ درج کرایا ہے؟ آپ ٹرائل کریں لوگوں کو عدالتوں میں پیش کریں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ بلوچستان کے لوگ وزارتیں بھی لیتے ہیں مگر اپنوں کو تحفظ نہیں دے سکتے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ آپ بلوچستان میں عدالتوں میں فعال کریں۔

جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ چور اور ڈاکو دنیا کے ہر کونے میں موجود ہیں، دیگر ممالک ان سارے معاملات کو نمٹا لیتے ہیں، مغربی ممالک میں تو بڑے قاتل کی بھی ضمانت ہوتی ہے، مگر یہاں ہم ایسا نہیں کرتے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آپ یہ سوچیں جن کا پیارا لاپتہ ہوتا ہے اس کے بچوں پر کیا گزرتی ہوگی۔

اٹارنی جنرل کی جانب سے اسلام آباد کورٹ کا فیصلہ پڑھا گیا۔

اٹرانی جنرل نے بتایا کہ اب تک 68 افراد کو بازیاب کرایا گیا ہے، بازیاب افراد کی لسٹ میڈم ایمان مزاری کے ساتھ شئیر کی گئی ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آخری سماعت پر انہوں نے 28 افراد کی بازیابی کرنے کا کہا تھا۔

جس پر ایمان مزاری نے کہا کہ اب تک 56 افراد کو بازیاب کرلیا گیا ہے جبکہ 12 تاحال لاپتہ ہیں، عدالت نے وزارت داخلہ کو متاثرہ لوگوں کے لواحقین سے ملاقات کا کہا تھا، وزارت داخلہ کی متاثرہ افراد کے خاندانوں کے ساتھ ملاقات افسوس ناک رہی۔

ایمان مزاری نے کہا کہ اٹارنی جنرل آفس یا کسی اور آفس سے اب تک کوئی خاص پروگریس نہیں ہے۔

جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہمارے مطابق 15 تاحال لاپتہ ہیں جبکہ ان کے مطابق 12 لاپتہ ہیں۔

ایمان مزاری نے کہا کہ درخواست گزار فیروز بلوچ کے حوالے سے کہا گیا کہ ان کو ریلیز کردیا گیا، آج صبح فیروز بلوچ کے فیملی سے بات ہوئی وہ تاحال لاپتا ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ بتائیں کہ ان لوگوں کو ریلیز کردیا یا گھر پہنچایا؟

عدالت نے وفاقی حکومت کے انڈر ٹیکنگ نہ دینے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ وفاقی حکومت ہی جبری گمشدگیوں میں ملوث ہیں؟ کیا ہم بھی وزیراعظم آفس، وزارت داخلہ یا وزارت دفاع سے بیان حلفی لیں؟ وزیراعظم آفس، وزارت داخلہ و دیگر بڑے دفاتر بیان حلفی دیں کہ آئندہ کوئی لاپتہ نہیں ہوگا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ریاست کے اداروں کو قانون کی پاسداری پر یقین کرنا چاہیے، ریاستی ادارے عدالتوں پر یقین نہیں کرتے اسی لیے لوگوں کو اٹھایا جارہا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ہمارے سامنے پولیس کا ادارہ ریاست کا فرنٹ فیس ہے، جو لوگ اغوا ہوئے ہیں وہ 365 کے اندر اغوا ہوئے ہیں، آج آپ کچھ نہ کریں مگر وقت آئے گا کہ ریاستی اداروں کے خلاف کارروائی ہوگی، ڈاکوؤں، چوروں، قاتلوں اور دہشت گردوں تک کے ٹرائل عدالتوں میں چل رہے ہیں، اگر بلوچستان میں ریاست مخالف عناصر کوئی ہے بھی تو ان کا ٹرائل ہونا چاہیے، ملک بھر میں انسدادِ دہشت گردی کے عدالتیں موجود ہیں۔

عدالت نے کہا کہ بلوچستان کے کچھ وڈیرے سردار وزارتیں تو لیتے ہیں مگر اپنے لوگوں کا کام نہیں کرسکتے۔

عدالت نے کہا کہ ایمان مزاری دہشت گردوں کو کلین چٹ کا کہہ رہی ہیں یا کہیں گی، ریاست کا سپاہی مرتا ہے تو آپ ان کے لیے شہداء پیکج کا اعلان کرتے ہیں، جو لوگ ریاست کے لیے قربانی دیتے ہیں وہ پولیس ہو، فوج ہو یا کوئی بھی شہری ہو، حق سب کا ہے۔

عدالت نے کہا کہ اگر تھانے پر چھاپہ مارے اور کوئی بندہ بازیاب ہو تو پولیس والے کی تو نوکری چلی جاتی ہے ۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ میرے سامنے کوئی مسنگ بلوچ کھڑا ہوکر نہیں آیا جس سے میں سوال کر سکوں، جو لوگ بازیاب ہوئے پتہ نہیں وہ ٹھیک ہیں بھی یا نہیں، ان کی ہیلتھ کنڈیشن کیا ہوگی، ان بچے بچیوں کا کوئی قصور نہیں، یہ پاکستانی ہیں، ہم نے ان کو دیکھنا ہیں کیونکہ ہمارے سامنے کوئی لاپتہ شخص کھڑا نہیں، نو سال میں میرے سامنے ایک بازیاب شخص آیا تھا جس نے کہا کہ سی ٹی ڈی نے مجھے اٹھایا تھا، ان معاملات میں وزیراعظم، وزارت داخلہ، وزارت دفاع ہی جوابدہ ہے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ میں آپ نے بیان حلفی جمع کرایا ہے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ نہیں بیانی حلفی ابھی جمع نہیں ہوا مگر جلد جمع کریں گے۔

عدالت نے کہا کہ وزارتوں کے لوگ موجود ہیں یہ چیزیں پاکستان کی بہت بڑی بدنامی بنی ہیں، ہم معاشی مسائل کا شکار ہیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی کررہے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ جن 12 لاپتہ افراد کی لسٹ اٹارنی جنرل کو دیں وہ آپ نے دیکھنا ہے۔

عدالت نے سمی دین بلوچ سے استفسار کیا کہ آپ نے کچھ کہنا ہے؟

جس پر سمی دین بلوچ نے کہا کہ عدالتی حکم پر وزیراعظم نے فواد حسن فواد کی سربراہی میں کمیٹی بنائی تھی، کمیشن نے بتایا کہ جو لوگ دس سال سے زائد عرصہ سے لاپتہ ہیں ان کا کچھ نہیں بتاسکتے۔

جس پر عدالت نے کہا کہ ایک بات پر یقین کریں کہ جو لوگ دس سال سے لاپتا ہوں یا پندرہ سال سے ان کی معلومات حکومت فراہم کرے گی، اگرکوئی زندہ ہے یا مرے ہیں حکومت آپ کو معلومات فراہم کریں گی۔

سمی دین بلوچ نے کہا کہ ہمارے والدین مرتے وقت بھی اپنے لاپتہ بچوں کو یاد کرتے ہیں، ہم اس چیز سے نکلنا چاہتے ہیں، ابھی ایک شخص نو سال بعد بازیاب ہوا مگر ان کے گھر والوں سے کہا گیا کہ کسی سے بات نہیں کرنی، ہمیں وفاقی وزرا نے بھی کہا تھا کہ اگر آپ کے لاپتہ افراد سے متعلق بتائیں گے تو آپ شور نہیں کریں گے۔

عدالت نے کہا کہ پہلے لاپتہ افراد کو بازیاب ہونے دیں پھر جس ادارے نے آپ سے بیان حلفی لی ہے اسی کا دیکھا جائے گا۔

عدالت نے تھانہ کوہسار کے ایس ایچ او کو دونوں مظاہرین کے شرکاء کو سیکورٹی انتظامات فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت 13 فروری تک کے لئے ملتوی کردی۔