بھارت نے پیر کے روز ان فضائی حملوں کی بھی مذمت کردی جن کا پاکستان نے افغانستان پر کرنے کا عوامی طور پر کبھی اعتراف نہیں کیا۔ بھارت نے افغان طالبان کی عبوری انتظامیہ کی حمایت کرنا شروع کردی جنھیں کبھی نئی دہلی پاکستان کی پراکسی کے طور پر دیکھتا تھا۔
افغانستان کے صوبہ پکتیکا میں پاکستان کے مبینہ حملوں کے تقریباً دو ہفتے بعد ہندوستانی وزارت خارجہ نے ایک غیر معمولی بیان جاری کیا جس میں ان حملوں کی مذمت کی گئی۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے نئی دہلی میں ایک بیان میں کہا کہ ہم نے خواتین اور بچوں سمیت افغان شہریوں پر فضائی حملوں کے بارے میں میڈیا رپورٹس کا جائزہ لیا ہے۔ ان حملوں میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور ہم ان حملوں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
رندھیر جیسوال نے کہا ’’ اپنی اندرونی ناکامیوں کا ذمہ دار اپنے پڑوسیوں کو ٹھہرانا پاکستان کا پرانا عمل ہے۔ ہم نے اس سلسلے میں ایک افغان ترجمان کے ردعمل کو بھی دیکھا ہے۔ ‘‘ اس بھارتی تبصرے میں نئی دہلی کو دونوں پڑوسیوں کے درمیان موجودہ دراڑ سے فائدہ اٹھانے کا مشورہ دیا گیا ۔
بھارتی اقدام کے بارے میں پاکستان کی جانب سے ابھی تک کوئی سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا ہے لیکن سرکاری ذرائع نے نشاندہی کی ہے کہ نئی دہلی کا بیان حقائق کے اعتبار سے مکمل غلط ہے۔
ذرائع کے مطابق سرحدی علاقوں میں پاکستان کے حملوں میں کوئی افغان جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا لیکن بھارتی بیان میں کہا گیا کہ حملے میں افغان شہری بشمول خواتین اور بچے مارے گئے حالانکہ خود افغان حکومت نے یہاں تک تسلیم کیا ہے کہ مرنے والوں کا تعلق پاکستان سے تھا۔
اسلام آباد کے ذرائع نے زور دے کر کہا ہے پاکستان کی جانب سے مخصوص اور انٹیلی جنس پر مبنی کارروائیوں کا ہدف کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کے ٹھکانے تھے۔
واضح رہے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات بدستور خراب ہوتے جا رہے ہیں تو اس دوران بھارت اور افغان طالبان کسی نہ کسی طرح کے ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔افغان طالبان کے ساتھ ایک پریشان کن تاریخ کے باوجود بھارت نے عبوری طالبان حکومت سے رابطہ کیا ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے سینئر عہدیداروں نے دو بار کابل کا دورہ کیا اور طالبان قیادت سے ملاقات کی۔ ایسا ہی ایک دورہ صرف چند ماہ قبل ہوا جب پاکستان اور افغان امور سے متعلق ایک بھارتی سینئر سفارت کار نے کابل کا دورہ کیا اور افغان وزیر دفاع ملا یعقوب سے پہلی ملاقات کی۔
اس ملاقات کو بھارتی نقطہ نظر میں ڈرامائی تبدیلی کے طور پر دیکھا گیا تھا کیونکہ اس سے قبل نئی دہلی طویل عرصے سے طالبان کو پاکستان کی پراکسی کے طور پر دیکھتا آ رہا تھا۔ حالیہ بھارتی اقدام کا وقت بہت اہم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ پاکستان کے ساتھ افغانستان کے تعلقات سب سے کم ہیں۔