بالی وڈ کی دنیا میں شاہ رخ خان کو ہمیشہ ایک ایسا اداکار سمجھا جاتا رہا ہے جو محبت، رواداری اور سیکولر اقدار کی علامت رہے ہیں۔
سال 2004ء میں ریلیز ہونے والی فلم ‘میں ہوں نا’ میں انہوں نے ایک ایسے فوجی کا کردار ادا کیا تھا جو پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات کا خواہاں تھا لیکن 20 سال بعد ‘پٹھان’ جیسی فلمیں بناکر وہ ایک ایسے بیانیے کی ترویج کا حصہ بنتے نظر آرہے ہیں جو پاکستان دشمنی پر مبنی ہے۔
یہ تبدیلی محض ایک اداکار کے رجحانات کی نہیں، بلکہ بھارت کی سیاسی و سماجی فضا کے بدلنے کا ثبوت ہے۔
بالی وڈ: تفریح سے پروپیگنڈا تک
ایک وقت تھا جب بھارتی فلمیں مشترکہ ثقافت اور محبت کے جذبات کو فروغ دیتی تھیں، لیکن نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد، بالی وڈ پر ہندو قوم پرست نظریے کا غلبہ بڑھ گیا۔
سال 2014ء کے بعد بھارتی فلم انڈسٹری میں حب الوطنی کے نام پر مخصوص نظریات کو فروغ دیا جانے لگا، اور ان فلموں میں اکثر پاکستان کو ایک دشمن کے طور پر پیش کیا گیا۔
اس دوران اکشے کمار بھارتی فلم انڈسٹری میں ایک ایسے اداکار کے طور پر ابھرے جو اپنی فلموں میں کھلے عام ہندو قوم پرستی اور پاکستان مخالف بیانیے کو فروغ دیتے ہیں۔
خصوصاً سال 2014ء کے بعد سے ان کی ریلیز ہونے والی فلموں میں بےبی، کیسری، سمراٹ پرتھوی راج، رام سیتو اور دی گریت انڈین ریسکیو جیسی فلمیں شامل ہیں، جن میں تاریخی حقائق کو مسخ کر کے مسلمانوں کو حملہ آور، ظالم اور بھارت کے دشمن کے طور پر پیش کیا گیا اور ہمیشہ پاکستانیوں کو دہشتگرد کے روپ میں دکھایا گیا۔
خاص طور پر 2019 میں اکشے کمار کی ریلیز ہونے والی فلم ‘کیسری’ میں سکھوں کی افغان مسلمانوں کے خلاف جنگ کو حب الوطنی کا روپ دیا گیا، جبکہ ‘سمراٹ پرتھوی راج’ میں مسلم حکمرانوں کو غیر مہذب اور وحشی دکھایا گیا۔
اکشے کمار کا بی جے پی سے قریبی تعلق اور نریندر مودی کی کھلی حمایت بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ایک مخصوص سیاسی ایجنڈے کو پروموٹ کرنے کے لیے فلموں کا استعمال کر رہے ہیں۔
شاہ رخ خان پر سیاسی دباؤ
بھارت میں بڑھتی انتہاپسندی کی اس لہر سے بالی وڈ کے بادشاہ سمجھے والے اداکار شاہ رخ خان بھی محفوظ نہ رہے۔
شاہ رخ خان خود ایک بھارتی مسلمان ہونے کے ناطے ہندو انتہا پسندوں کی نظروں میں ہمیشہ ایک مشکوک شخصیت رہے ہیں۔
سال 2015ء میں جب انہوں نے بھارت میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کے خلاف آواز اٹھائی تو بی جے پی رہنماؤں نے انہیں پاکستان جانے کا مشورہ دیا تھا۔ اسی طرح 2021 میں جب ان کے بیٹے آریان خان منشیات کیس میں پھنسے تو اسے مودی سرکار کی ایک انتقامی کارروائی سمجھا گیا، اس واقعے نے شاہ رخ خان کو کئی طرح سے اثرانداز کیا۔
ان واقعات کے بعد شاہ رخ خان کے پاس دو ہی راستے تھے، یا تو وہ بھارتی سیاست کے دباؤ کے خلاف کھڑے رہتے اور اپنے کیریئر کو خطرے میں ڈالتے، یا پھر وہ اسی بیانیے کا حصہ بن جاتے جو حکمران جماعت کو پسند ہے۔
‘پٹھان’ اور ‘جوان’ جیسی فلمیں دراصل اس سیاسی حقیقت کا نتیجہ ہیں جہاں شاہ رخ کو مجبوراً حب الوطنی کے اس بیانیے کا حصہ بننا پڑا جو مودی حکومت اور ہندو قوم پرست عناصر کو خوش کرے۔
بالی وڈ کے فلمی رجحان میں تبدیلی کیوں؟
اکشے کمار نے حب الوطنی کے پرچار کو فلموں کی کامیابی کا فارمولا سمجھ کر دھڑادھڑ ایسی دسیوں فلمیں بنا ڈالیں، حتیٰ کہ ایک وقت آیا کہ انکے مداح بھی انکی فلموں میں اس یکسانیت سے اُکتا گئے۔
تاہم انکی حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ‘اسکائے فورس’ بھی ان ہی تصورات کا چربہ تھی جس میں پاکستان مخالفت جذبات بھڑکانے کیلئے تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر رکھا دیا گیا۔
اس کے باوجود اکشے کمار کی یہ فلم ‘اسکائے فورس’ باکس آفس پر کامیاب رہی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنے والے برسوں میں اکشے کمار مزید ایسی فلموں کا حصہ بنتے نظر آسکتے ہیں۔
دوسری جانب ‘پٹھان’ جیسی فلموں کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ شاہ رخ خان نے اپنے فلمی کریئر کو مزید فلاپ فلموں کے داغ سے بچانے کیلئے اکشے کمار کے اسی گھسے پٹے فارمولے کو اُچک لیا ہے۔
لیکن اس سب میں صرف اداکار قصوروار نہیں ہیں، مندرجہ ذیل وہ نمایاں وجوہات بیان کی گئی ہیں جو بالی وڈ کے فلمی رجحان میں تبدیلی کا سبب بنے؛
1۔ سینسر بورڈ اور حکومتی دباؤ: بھارتی سینسر بورڈ پر حکومتی اثر و رسوخ بڑھ چکا ہے، اور اب ایسی فلموں کو ترجیح دی جاتی ہے جو بی جے پی کے نظریے سے مطابقت رکھتی ہوں۔
2۔ ہندو ووٹرز کو خوش کرنا: چونکہ بھارت میں اکثریت ہندوؤں کی ہے اور بی جے پی کے زیرتسلط بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت ایک سیاسی ہتھیار بن چکی ہے، اس لیے فلموں میں پاکستان اور مسلمانوں کو ولن بنا کر اکثریتی طبقے کی خوشنودی حاصل کی جاتی ہے۔
3۔ کاروباری مفادات: بالی وڈ اب مکمل طور پر ایک کمرشل انڈسٹری بن چکا ہے، جہاں زیادہ منافع کے لیے وہی بیانیہ اپنایا جاتا ہے جو عوامی جذبات کو مشتعل کر سکے۔
شاہ رخ خان بھارت سے وفاداری ثابت کرنے پر مجبور؟
شاہ رخ خان وہی اداکار ہیں جو ‘چک دے انڈیا’ میں بھارتی مسلمانوں کی حب الوطنی کا پرچار کرتے تھے، لیکن آج کے بھارت میں اور بالی وڈ میں اپنی بقا کے لیے وہ ایسے کردار نبھانے پر مجبور ہیں جو ان کے ماضی کے نظریات سے متصادم ہیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے اپنی سوچ بدلی ہے، بلکہ یہ بھارت میں سیکولرازم کی ناکامی اور ہندو قوم پرستی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی علامت ہے۔
لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بھارتی فلم انڈسٹری اب محض تفریح کا ذریعہ نہیں رہی، بلکہ ایک سیاسی ہتھیار بن چکی ہے جو مخصوص نظریات کو فروغ دینے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔