خلا میں تقریباً ایک سال گزارنا انسان کے جسم کو اس طرح تبدیل کر دیتا ہے جس کیلئے کوئی تربیت مکمل طور پر تیار نہیں کر سکتی۔
جسم کشش ثقل کو بھول جاتا ہے، پٹھے سکڑ جاتے ہیں، ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں اور بینائی بھی متاثر ہوتی ہے، زمین پر واپسی صرف فضا سے گزرنے کا سفر نہیں ہوتی بلکہ اسے اپنے جسم کو دوبارہ حاصل کرنے کی جنگ کہا جاسکتا ہے۔
امریکی خلاباز بیری ولمور اور سنیتا ولیمز جون 2024 میں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پہنچے تھے جہاں انہیں محض 8 دن گزارنے تھے لیکن خلائی جہاز میں غیر متوقع خرابی کی وجہ سے وہ 288 دن تک خلا میں پھنسے رہے، وہ ایسی جگہ پر تھے جہاں زمین کی کشش ثقل نہیں پہنچ سکتی تھی ۔
جب گزشتہ دنوں وہ آخرکار فلوریڈا کے ساحل پر بحر اوقیانوس میں اترے، تو انہوں نے صرف زمین پر قدم نہیں رکھا بلکہ اپنے وجود کے بوجھ سے دوبارہ متعارف ہوئے۔
طویل مدتی خلائی مہمات اب خواب نہیں رہیں، بلکہ حقیقت کا روپ اختیار کر چکی ہیں، یہ خلائی میدان میں بڑی کامیابی ہے لیکن اس کی قیمت بہت زیادہ ہے۔
کشش ثقل سے تشکیل پانے والا انسانی جسم، بے وزنی کے خلاف بغاوت کرتا ہے، روزانہ 2 گھنٹے کی ورزش، جس میں رسیوں کے خلاف کھینچنا اور ٹریڈمل پر دوڑنا شامل ہے، اس کے باوجود جسم ہار مان لیتا ہے، پٹھے سکڑ جاتے ہیں، ہڈیوں میں کیلشیم نہیں بچتا اور مہینوں میں 10سال کے برابر عمر بڑھنے کی شرح سے کمزوری آجاتی ہیں۔
خلابازوں کے پٹھوں اور ہڈیوں کا حجم خلامیں کم ہو سکتا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ جو پٹھے جسم کو سیدھا رکھنے میں مدد کرتے ہیں، وہی سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں کیونکہ خلا میں انہیں زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
کینیڈین میڈیکل ایسوسی ایشن جرنل کے مطابق، 2 ہفتوں میں پٹھوں کا حجم تقریباً 20 فیصد تک کم ہو سکتا ہے، اور 3 سے 9 ماہ کی خلائی مہمات میں یہ شرح 30فیصد تک ہو سکتی ہے۔
ایم آئی ٹی اسپیس ایکسپلوریشن انیشی ایٹیو کی بانی ڈاکٹر ایریل ایکبلو کا کہنا ہے کہ بالمور اور سنیتا ولیمز کے جسم کو زمین کی کشش ثقل سے ہم آہنگ ہونے کیلئے دوبارہ تربیت دینا ہوگی۔
انہوں نے بتایا کہ جب آپ طویل مدت تک بے وزنی کی حالت میں رہتے ہیں، تو آپ اپنے پٹھوں کا کچھ حجم کھو دیتے ہیں، آپ کا دل کمزور ہو جاتا ہے کیونکہ اسے کشش ثقل کے خلاف خون پمپ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، مزیدبرآں آپ کی بینائی بھی متاثر ہو سکتی ہے کیونکہ بے وزنی کی حالت میں آنکھ کی شکل تھوڑی بدل جاتی ہے۔
خلاء میں تیرنا بے حد آسان ہے۔ وہاں کوئی دباؤ نہیں، کوئی وزن نہیں ہوتا لیکن یہ سہولت و آسانی، ایک فریب ہے، جسم کو سہارا دینے کی ضرورت نہ ہونے کے باعث، جسم آہستہ آہستہ یہ عمل بھول بھول جاتا ہے۔
زمین پر کھڑے رہنے کیلئے بھی پٹھوں کی ضرورت ہوتی ہے، خلا میں وہی پٹھے غیر فعال ہو جاتے ہیں،تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ہڈیاں اس سے بھی بدتر حالت میں ہوتی ہیں، بے وزنی کی حالت میں ہر مہینے ہڈیوں کی کثافت کا ایک فیصد حصہ ختم ہو جاتا ہے۔
ایک سال میں، یہ دس سال سے زیادہ کے نقصان کے برابر ہوتا ہے،کیلشیم خون میں شامل ہو جاتا ہے، جس سے گردے کی پتھری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، سر میں سیال اوپر کی طرف بڑھتا ہے، دماغ میں سوجن آجاتی ہے اور آنکھوں پر دباؤ پڑتا ہے۔ کچھ خلاباز دھندلی بینائی کے ساتھ واپس آتے ہیں اور وہ پہلے کی طرح توجہ مرکوز نہیں کر پاتے۔
ہر خلاباز جو واپس زمین پر آتا ہے، وہ ایک نئی سرگزشت پیش کرتا ہے، ہر قدم جو وہ اٹھاتے ہیں، چاہے وہ لڑکھڑاتے ہوئے ہی کیوں نہ ہوں، انسانی برداشت کی حدود کے متعلق ایک نیا سبق دیتا ہے۔
جب خلاباز زمین پر واپس اترتے ہیں تو خلائی مشن ختم نہیں ہو جاتا۔ ناسا کے ڈاکٹرز ولمور اور ولیمز زندگی بھر کینسر کی علامات کیلئے جانچ کرتے رہیں گے، ان کا اصل امتحان اور اپنے آپ کو دوبارہ حاصل کرنے کی جنگ ابھی شروع ہوئی ہے۔