چینی آرٹیفیشل انٹیلیجنس اسٹارٹ اپ ‘مینس’ نے منگل کے روز اپنا پہلا اے آئی اسسٹنٹ باقاعدہ رجسٹرڈ کروایا، جس کی کوریج چینی سرکاری میڈیا پر پہلی مرتبہ نشر کی گئی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کی رپورٹ کے مطابق اس اقدام سے بیجنگ کی ان ملکی اے آئی کمپنیوں کی حمایت کی حکمت عملی ظاہر ہوتی ہے جو عالمی سطح پر شناخت حاصل کر چکی ہیں۔
چینی اسٹارٹ اپ ‘ڈیپ سیک’ نے اپنے امریکی ہم پلہ اے آئی ماڈلز کو کم لاگت میں متعارف کرا کے سیلیکون ویلی کو حیران کر دیا تھا اور اب چینی سرمایہ کار ایک نئے اسٹارٹ اپ کی تلاش میں ہیں جو عالمی ٹیکنالوجی کے منظرنامے کو بدل ڈالے گا۔
سرمایہ کاروں کی نظریں اب ‘مینس’ پر مرکوز ہیں، جس نے حال ہی میں اپنا اے آئی ایجنٹ متعارف کرایا ہے، جسے دنیا کا پہلا ‘جنرل اے آئی ایجنٹ’ کہا جا رہا ہے جو خودمختار فیصلے کرنے اور خودکار طور پر متعدد کام انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس ایجنٹ کو چیٹ بوٹ یا ڈیپ سیک جیسے ماڈلز کے مقابلے میں کم ہدایات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے اجرا کے ساتھ ہی ‘مینس’ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر تیزی سے مقبولیت حاصل کرلی تھی۔
بیجنگ اب اشارہ دے رہا ہے کہ وہ ‘ڈیپ سیک’ کی طرز پر ‘مینس’ کے اے آئی ایجنٹ کی بھی ملکی سطح پر حمایت کرے گا۔
چینی سرکاری نشریاتی ادارے ‘چائنا سینٹرل ٹیلی ویژن’ (سی سی ٹی وی) نے منگل کے روز ‘مینس’ کی خصوصی کوریج کرتے ہوئے اے آئی ایجنٹ اور ‘ڈیپ سیک’ کے چیٹ بوٹ کے درمیان فرق کو اجاگر کیا۔
بیجنگ کی مقامی حکومت نے اعلان کیا کہ ‘مینس’ کی ابتدائی پروڈکٹ ‘مونیکا’ نامی اے آئی اسسٹنٹ نے چین میں جنریٹیو اے آئی ایپلی کیشنز کے لیے لازمی رجسٹریشن مکمل کرلی ہے، جس سے ایک اہم قانونی رکاوٹ دور ہوگئی ہے۔
چین میں جاری ہونے والی تمام جنریٹیو اے آئی ایپس کو سخت ریگولیٹری اصولوں کی پاسداری کرنی ہوتی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ان سے ایسا مواد تخلیق نہ ہو جو بیجنگ کے لیے حساس یا نقصان دہ ہو۔
گزشتہ ہفتے ‘مینس’ نے بڑی ٹیکنالوجی کمپنی علی بابا کی ‘کیو ووین’ اے آئی ماڈلز کی تخلیق کار ٹیم کے ساتھ اسٹریٹیجک شراکت داری کا اعلان کیا، جس سے ملکی سطح پر ‘مینس’ کے اے آئی ایجنٹ کو مزید استحکام ملنے کی توقع ہے۔
‘مینس’ کے مطابق اس کا اے آئی ایجنٹ صرف انوائٹ کوڈز کے ذریعے دستیاب ہے، اور اس کے منتظر صارفین کی تعداد 20 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔