عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور پاکستان کی وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی ملک بھر میں ملیریا کے اثرات کو مزید خراب کر رہی ہے، جہاں سالانہ 20 لاکھ سے زائد کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ انتباہ ملیریا کے عالمی دن کے موقع پر جاری کیا گیا ہے، ڈبلیو ایچ او اور پاکستان دونوں نے تمام اسٹیک ہولڈرز پر زور دیا ہے کہ وہ ملک اور خطے کے لیے بڑھتے ہوئے خطرے پر قابو پانے کے لیے فوری طور پر کوششیں تیز کریں۔
وفاقی وزیر صحت سید مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ملیریا ایک بڑا عالمی خطرہ ہے اور ہم براہ راست دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ماحولیاتی تبدیلی ہمارے ملک میں خطرے اور کیسز، دونوں میں اضافہ کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چیلنجز کے باوجود پاکستان اس بیماری کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے، یہ صرف صحت کی ضرورت نہیں، بلکہ یہ ہر قوم کے لیے صحت مند، زیادہ منصفانہ، محفوظ اور زیادہ خوشحال مستقبل میں سرمایہ کاری ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے بین الاقوامی موضوع ’ری انویسٹمنٹ، ری امیجن، رینائٹ‘ کے تحت تمام اسٹیک ہولڈرز پر زور دیا گیا کہ وہ ملیریا کے خاتمے کے لیے بڑے پیمانے پر کوششوں میں شامل ہوں اور پاکستان کی کوششوں کی حمایت کریں تاکہ وسائل کی کمی کی وجہ سے ردعمل متاثر نہ ہو۔
2022 کے تباہ کن سیلاب نے 2024-2022 کی مدت میں 66 لاکھ اضافی کیسز کو جنم دیا، جن میں 2023 میں 27 لاکھ کیسز بھی شامل تھے، جب کہ 2021 میں 3 لاکھ 99 ہزار کیسز سامنے آئے تھے، اس کے نتیجے میں ڈبلیو ایچ او کے مشرقی بحیرہ روم کے خطے میں ملیریا کا بوجھ 2023 میں ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ 2 لاکھ تک پہنچ گیا، جو 2015 کے مقابلے میں 137 فیصد زیادہ ہے۔
چیلنجوں کے باوجود، روک تھام اور علاج میں گزشتہ دہائی میں اہم پیشرفت ہوئی، عالمی ادارہ صحت کے اشتراک اور گلوبل فنڈ فار فائٹ ایڈز، تپ دق اور ملیریا کے تعاون سے پاکستان نے 2024 میں ایک کروڑ 14 لاکھ سے زائد مشتبہ مریضوں کی اسکریننگ کی، اور ملیریا کے 20 لاکھ تصدیق شدہ مریضوں کا علاج کیا۔
مزید برآں، زیادہ متاثرہ 22 اضلاع میں 78 لاکھ کیڑے مار ادویات سے علاج شدہ جال تقسیم کیے گئے، جس سے 2023 میں 27 لاکھ سے کم ہو کر پچھلے سال 20 لاکھ ہو گئے۔
پاکستان میں ڈبلیو ایچ او کے نمائندے ڈاکٹر ڈیپینگ لو نے کہا کہ ڈبلیو ایچ او کو ملیریا کی روک تھام اور علاج کے ذریعے زندگیاں بچانے کے لیے پاکستان کے ساتھ شراکت داری پر فخر ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ثابت کیا ہے کہ ملیریا سے نمٹنے کے لیے سرمایہ کاری سے زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں، لیکن ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح موسمیاتی تبدیلی اں ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہیں، جو نہ صرف پاکستان بلکہ خطے اور دنیا کے لیے بھی خطرہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ ملیریا کو کیسے ختم کیا جائے، اور ہم یہ کر سکتے ہیں، اگر تمام اسٹیک ہولڈرز سرمایہ کاری کریں، اور ردعمل کو مضبوط بنانے اور آب و ہوا کی تبدیلی سے پیدا ہونے والے نئے خطرات کے مطابق ڈھلنے کے لیے مل کر کام کریں۔
80 متاثرہ اضلاع میں 5 ہزار 575 طبی مراکز کے اعداد و شمار کے مطابق، آب و ہوا کی تبدیلی اور اس سے متعلق اثرات جیسے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور بار بار سیلاب کی وجہ سے ملیریا کے کیسز میں اضافہ ہوا، اور وبا پھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
دیگر عوامل میں بڑھتی ہوئی غربت، معیاری تشخیص اور علاج تک محدود رسائی، بلوچستان، قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں بگڑتی ہوئی سیکیورٹی اور سندھ میں صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کے مسائل شامل ہیں۔
شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ ملیریا پر قابو پانے کی کوششیں مؤثر ہیں، لیکن موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے، زندگیوں کو بچانے اور پاکستان کے صحت مند مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے پائیدار اور مربوط اقدامات ضروری ہیں۔